وزیراعظم کا دفتر

من کی بات کے 88ویں ایپی سوڈ میں وزیر اعظم کے خطاب کا بنیادی متن (24.04.2022)

Posted On: 24 APR 2022 11:38AM by PIB Delhi

میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار!

نئے موضوعات کے ساتھ، نئی حوصلہ افزا مثالوں کے ساتھ، نئے نئے پیغامات کو سمیٹے ہوئے، ایک بار پھر میں آپ سے ’من کی بات‘ کرنے آیا ہوں۔ جانتے ہیں اس بار مجھے سب سے زیادہ خطوط اور پیغامات کس موضوع کے بارے میں ملے ہیں؟ یہ موضوع ایسا ہے جو ماضی، حال اور مستقبل تینوں سے جڑا ہے۔ میں بات کر رہا ہوں ملک کو ملے نئے پی ایم میوزیم کی۔ اس 14 اپریل کو  بابا صاحب امبیڈکر کی جنم جینتی پر پی ایم میوزیم کا افتتاح ہوا ہے۔ اسے، ملک کے شہریوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ ایک سامع ہیں جناب سارتھک جی، سارتھک جی گروگرام میں رہتے ہیں اور پہلا موقع ملتے ہی وہ وزیر اعظم کا میوزیم دیکھ آئے ہیں۔ سارتھک جی نے Namo App  پر جو پیغام مجھے لکھا ہے، وہ بہت دلچسپ ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ وہ برسوں سے نیوز چینل دیکھتے ہیں، اخبار پڑھتے ہیں، سوشل میڈیا سے بھی جڑے ہوئے ہیں، اس لیے انہیں لگتا تھا کہ ان کی جنرل نالیج کافی اچھی ہوگی، لیکن، جب وہ پی ایم میوزیم گئے تو انہیں بہت حیرانی ہوئی،  انہیں محسوس ہوا کہ وہ اپنے ملک اور ملک کی قیادت کرنے والوں کے بارے میں کافی کچھ جانتے ہی نہیں ہیں۔ انہوں نے پی ایم میوزیم کی کچھ ایسی چیزوں کے بارے میں لکھا ہے، جو ان کے تجسس کو مزید بڑھانے والا تھا، جیسے، انہیں لال بہادر شاستری جی کا وہ چرخہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، جو انہیں سسرال سے تحفے میں ملا تھا۔ انہوں نے شاستری جی کی پاس بک بھی دیکھی اور یہ بھی دیکھا کہ ان کے پاس کتنی کم بچت تھی۔ سارتھک جی نے لکھا ہے کہ انہیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ مورارجی بھائی دیسائی جدوجہد آزادی میں شامل ہونے سے پہلے گجرات میں ڈپٹی کلکٹر تھے۔  ایڈمنسٹریٹو سروس میں ان کا ایک لمبا کریئر رہا تھا۔ سارتھک جی چودھری چرن سنگھ جی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ زمینداری کے خاتمہ کے سلسلے میں چودھری چرن سنگھ جی کا بہت بڑا رول تھا۔ اتنا ہی نہیں، وہ آگے لکھتے ہیں، جب لینڈ ریفارم کے بارے میں وہاں میں نے دیکھا کہ جناب پی وی نرسمہا راؤ جی لینڈ ریفارم کے کام میں بہت گہری دلچسپی لیتے تھے۔ سارتھک جی کو بھی اس میوزیم میں آ کر ہی پتہ چلا کہ چندر شیکھر جی نے ۴ ہزار کلومیٹر سے زیادہ پیدل چل کر ہندوستان کا تاریخی سفر کیا تھا۔ انہوں نے جب میوزیم میں اُن چیزوں کو دیکھا جو اٹل جی استعمال کرتے تھے، ان کی تقریریں سنیں، تو وہ فخر سے بھر اٹھے۔ سارتھک جی نے یہ بھی بتایا کہ اس میوزیم میں مہاتما گاندھی، سردار پٹیل، ڈاکٹر امبیڈکر، جے پرکاش نارائن اور ہمارے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے بارے میں بھی بہت ہی دلچسپ جانکاریاں ہیں۔

ساتھیو، ملک کے وزرائے اعظم کے تعاون کو یاد کرنے کے لیے آزادی کے امرت مہوتسو سے اچھا وقت اور کیا ہو سکتا ہے۔ ملک کے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ آزادی کا امرت مہوتسو ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ تاریخ کو لے کر لوگوں کی دلچسپی کافی بڑھ رہی ہے اور ایسے میں پی ایم میوزیم نوجوانوں کے لیے بھی توجہ کا مرکز بن رہا ہے، جو ملک کی انمول وراثت سے انہیں جوڑ رہا ہے۔

ویسے ساتھیو، جب میوزیم کے بارے میں آپ سے اتنی باتیں ہو رہی ہیں، تو میرا من کیا کہ میں بھی آپ سے کچھ سوال کروں۔ دیکھتے ہیں آپ کی جنرل نالیج کیا کہتی ہے – آپ کو کتنی جانکاری ہے۔ میرے نوجوان ساتھیو آپ تیار  ہیں، کاغذ قلم ہاتھ میں لے لیا؟ ابھی میں آپ سے جو پوچھنے جا رہا ہوں، آپ ان کے جواب NaMo App یا سوشل میڈیا پر #MuseumQuiz کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں اور ضرور کریں۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ ان تمام سوالوں کا جواب ضرور دیں۔ اس سے ملک بھر کے لوگوں میں میوزیم کو لے کر دلچسپی مزید بڑھے گی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ملک کے کس شہر میں ایک مشہور ریل میوزیم ہے، جہاں پچھلے 45 برسوں سے لوگوں کو ہندوستانی ریل کی وراثت دیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔ میں آپ کو ایک اور clue دیتا ہوں۔ آپ یہاں Fairy Queen (فیئری کوئین)، Saloon of Prince of Wales (سلون آف پرنسز آف ویلس) سے لے کر Fireless Steam Locomotive (فائر لیس اسٹیم لوکوموٹیو) بھی دیکھ سکتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ممبئی میں وہ کون سا میوزیم ہے، جہاں ہمیں بہت ہی دلچسپ طریقے سے کرنسی کا ارتقا دیکھنے کو ملتا ہے؟ یہاں چھٹویں صدی قبل عیسی مسیح کے سکے موجود ہیں، تو دوسری طرف ای-منی بھی موجود ہے۔ تیسرا سوال ’وراثت خالصہ‘ اس میوزیم سے جڑا ہے۔ کیا  آپ جانتے ہیں، یہ میوزیم، پنجاب کے کس شہر میں موجود ہے؟ پتنگ بازی میں تو آپ سب کو بہت مزہ آتا ہی ہوگا، اگلا سوال اسی سے جڑا ہے۔ ملک کاواحد ’کائٹ میوزیم‘ کہاں ہے؟ آئیے میں آپ کو ایک clue دیتا ہوں یہاں جو سب سے بڑی پتنگ رکھی ہے، اس کا سائز 22 گنا 16 فٹ ہے۔ کچھ دھیان آیا – نہیں تو یہیں – ایک اور چیز بتاتا ہوں – یہ جس شہر میں ہے، اس کا باپو سے مخصوصی ناطہ رہا ہے۔ بچپن میں ڈاک ٹکٹ جمع کرنے کا شوق کسے نہیں ہوتا! لیکن، کیا آپ کو معلوم ہے کہ بھارت میں ڈاک ٹکٹ سے جڑا نیشنل میوزیم کہاں ہے؟ میں آپ سے ایک اور سوال کرتا ہوں۔ گلشن محل نام کی عمارت میں کون سا میوزیم ہے؟ آپ کے لیے clue یہ ہے کہ اس میوزیم میں آپ فلم کے ڈائرکٹر بھی بن سکتے ہیں، کیمرہ، ایڈیٹنگ کی باریکیوں کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اچھا! کیا آپ ایسے کسی میوزیم کے بارے میں جانتے ہیں جو بھارت کی ٹیکسٹائل سے جڑی وراثت کو  سیلیبریٹ کرتاہ ے۔ اس میوزیم میں منی ایچر  پینٹنگز، جین مینواسکرپٹس، اسکلپچر – بہت کچھ ہے۔ یہ اپنے یونیک ڈسپلے کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔

ساتھیو، ٹیکنالوجی کے اس دور میں آپ کے لیے ان کے جواب تلاش کرنا بہت آسان ہے۔ یہ سوال میں نے اس لیے پوچھے تاکہ ہماری نئی نسل میں تجسس بڑھے، وہ ان کے بارے میں مزید پڑھیں، انہیں دیکھنے جائیں۔ اب تو، میوزیم کی اہمیت کی وجہ سے، کئی لوگ، خود آگے آکر، میوزیم کے لیے کافی عطیہ بھی کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے پرانے کلکشن کو، تاریخی چیزوں کو بھی، میوزیم کو عطیہ کر رہے ہیں۔ آپ جب ایسا کرتے ہیں تو ایک طرح سے آپ ایک وراثتی سرمایہ کو پورے سماج کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی لوگ اب اس کے لیے آگے آ رہے ہیں۔ میں، ایسی تمام ذاتی کوششوں کی بھی تعریف کرتا ہوں۔ آج، بدلے ہوئے وقت میں اور کووڈ پروٹوکول کی وجہ سے میوزیم میں نئے طور طریقے اپنانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ میوزیم میں ڈیجیٹائزیشن پر بھی فوکس بڑھا ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ 18 مئی کو پوری دنیا میں انٹرنیشنل میوزیم ڈے منایا جائے گا۔ اسے دیکھتے ہوئے اپنے نوجوان ساتھیوں کے لیے میرے پاس ایک آئڈیا ہے۔ کیوں نہ آنے والی چھٹیوں میں، آپ، اپنے دوستوں کے گروہ کے ساتھ، کسی مقامی میوزیم کو دیکھنے جائیں۔ آپ اپنا تجربہ #MuseumMemories کے ساتھ ضرور شیئر کریں۔ آپ کے ایسا کرنے سے دوسروں کے من میں بھی میوزیم کو لے کر تجسس پیدا ہوگا۔

میرے پیارے ہم وطنو، آپ اپنی زندگی میں بہت سے عہد لیتے ہوں گے، انہیں پورا کرنے کے لیے محنت بھی کرتے ہوں گے۔ ساتھیو، لیکن حال ہی میں، مجھے ایسے عہد کے بارے میں پتہ چلا، جو واقعی بہت الگ تھا، بہت انوکھا تھا۔ اس لیے میں نے سوچا کہ اسے ’من کی بات‘ کے سامعین کو ضرور شیئر کروں۔

ساتھیو، کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ کوئی اپنے گھر سے یہ عہد لے کر نکلے کہ وہ آج دن بھر، پورا شہر گھومے گا اور ایک بھی پیسے کا لین دین کیش میں نہیں کرے گا، نقد میں نہیں کرے گا – ہے نا یہ دلچسپ عہد۔ دہلی کی دو بیٹیاں، ساگریکا اور پریکشا نے ایسے ہی کیش لیس ڈے آؤٹ کا تجربہ کیا۔ ساگریکا اور پریکشا دہلی میں جہاں بھی گئیں، انہیں ڈیجیٹل پیمنٹ کی سہولت دستیاب ہو گئی۔ یوپی آئی کیو آر کوڈ کی وجہ سے انہیں کیس نکالنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ یہاں تک کہ اسٹریٹ فوڈ اور ریہڑی پٹری کی دکانوں پر بھی زیادہ تر جگہ انہیں آن لائن ٹرانزیکشن کی سہولت ملی۔

ساتھیو، کوئی سوچ سکتا ہے کہ دہلی ہے، میٹرو سٹی ہے، وہاں یہ سب ہونا آسان ہے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے کہ یو پی آئی کا یہ پھیلاؤ صرف دہلی جیسے بڑے شہروں تک ہی محدود ہے۔ ایک میسیج مجھے غازی آباد سے آنندتا ترپاٹھی کا بھی ملا ہے۔ آنندتا پچھلے ہفتے اپنے شوہر کے ساتھ نارتھ ایسٹ گھومنے گئی تھیں۔ انہوں نے آسام سے لے کر میگھالیہ اور اروناچل پردیش کے توانگ تک کے اپنے سفر کا تجربہ مجھے بتایا۔ آپ کو بھی یہ جان کر بے حد حیرانی ہوگی کہ کئی دن کے اس سفر میں دور دراز علاقوں میں بھی انہیں کیش نکالنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ جن جگہوں پر کچھ سال پہلے تک انٹرنیٹ کی اچھی سہولت بھی نہیں تھی، وہاں بھی اب یو پی آئی سے پیمنٹ کی سہولت موجود ہے۔ ساگریکا، پریکشا اور آنندتا کے تجربات کو دیکھتے ہوئے میں آپ سے بھی اپیل کروں گاکہ کیش لیس ڈے آؤٹ کا ایکسپیریمنٹ کرکے دیکھیں، ضرور کریں۔

ساتھیو، پچھلے کچھ سالوں میں BHIM UPI تیزی سے ہماری اکنامی اور عادتوں کا حصہ بن گیا ہے۔ اب تو چھوٹے چھوٹے شہروں میں اور زیادہ تر گاؤوں میں بھی لوگ یوپی آئی سے ہی لین دین کر رہے ہیں۔ ڈیجیٹل اکنامی سے ملک میں ایک کلچر بھی پیدا ہو رہا ہے۔ گلی نکڑ کی چھوٹی چھوٹی دکانوں میں ڈیجیٹل پیمنٹ ہونے سے انہیں زیادہ سے زیادہ صارفین کو سروس دینا آسان ہو گیا ہے۔ انہیں اب کھلے پیسوں کی بھی دقت نہیں ہوتی۔ آپ بھی یو پی آئی کی سہولت کو روزمرہ کی زندگی میں محسوس کرتے ہوں گے۔ کہیں بھی گئے، کیش لے جانے کا، بینک جانے کا، اے ٹی ایم کھوجنے کا، جھنجھٹ ہی ختم۔ موبائل سے ہی سارے پیمنٹ ہو جاتے ہیں، لیکن، کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کے ان چھوٹے چھوٹے آن لائن پیمنٹ سے ملک میں کتنی بڑی ڈیجیٹل اکنامی تیار ہوئی ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں تقریباً 20 ہزار کروڑ روپے کے ٹرانزیکشن ہر دن ہو رہے ہیں۔ پچھلے مارچ کے مہینے میں تو یو پی آئی ٹرانزیکشن تقریباً 10 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گیا۔ اس سے ملک میں سہولت بھی بڑھ رہی ہے اور ایمانداری کا ماحول بھی بن رہا ہے۔ اب تو ملک میں Fin-tech سے جڑے نئے اسٹارٹ اپس بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔ میں چاہوں گا کہ اگر آپ کے پاس بھی ڈیجیٹل پیمنٹ اور اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کی اس طاقت سے جڑے تجربات ہیں، تو انہیں شیئر کیجئے۔ آپ کے تجربات دوسرے کئی اور ہم وطنوں کے لیے حوصلہ افزا ہو سکتے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، ٹیکنالوجی کی طاقت کیسے عام لوگوں کی زندگی بدل رہی ہے، یہ ہمیں ہمارے آس پاس لگاتار نظر آ رہا ہے۔ ٹیکنالوجی نے ایک اور بڑا کام کیا ہے۔ یہ کام ہے دِویانگ ساتھیوں کی غیر معمولی صلاحیتوں کا فائدہ ملک اور دنیا کو دلانا۔ ہمارے دویانگ بھائی بہن کیا کر سکتے ہیں، یہ ہم نے ٹوکیو پیرالمپکس میں دیکھا ہے۔ کھیلوں کی طرح ہی، آرٹس، اکیڈمکس اور دوسرے کئی شعبوں میں دویانگ ساتھی کمال کر رہے ہیں، لیکن، جب ان ساتھیوں کو ٹیکنالوجی کی طاقت مل جاتی ہے، تو یہ اور بھی بڑے مقام حاصل کرکے دکھاتے ہیں۔ اسی لیے، ملک آج کل لگاتار وسائل اور انفراسٹرکچر کو دویانگوں کے لیے آسان بنانے کے لیے لگاتار کوشش کر رہا ہے۔ ملک میں ایسے کئی اسٹارٹ اپس اور ادارے بھی ہیں جو اس سمت میں مثالی کام کر رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک ادارہ ہے – وائس آف اسپیشلی ایبلڈ پیپل، یہ ادارہ اسسٹو ٹیکنالوجی کے شعبے میں نئے مواقع کو پروموٹ کر رہاہے۔ جو دویانگ فنکار ہیں، ان کے کام کو، دنیا تک پہنچانے کے لیے بھی ایک انوویٹو شروعات کی گئی ہے۔ وائس آف اسپیشلی ایبلڈ پیپل نے ان فنکاروں کی پینٹنگز کی ڈیجیٹل آرٹ گیلری تیار کی ہے۔ دویانگ ساتھی کس طرح غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں اور ان کے پاس کتنی غیر معمولی صلاحیتیں ہوتی ہیں – یہ آرٹ گیلری اس کی ایک مثال ہے۔ دویانگ ساتھیوں کی زندگی میں کیسے چیلنجز آتے ہیں، ان سے نکل کر، وہ کہاں تک پہنچ سکتے ہیں! ایسے کئی موضوعات کو ان پینٹنگز میں آپ محسوس کر سکتے ہیں۔ آپ بھی اگر کسی دویانگ ساتھی کو جانتے ہیں، ان کے ٹیلنٹ کو جانتے ہیں، تو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے اسے دنیا کے سامنے لا سکتے ہیں۔ جو دویانگ ساتھی ہیں، وہ بھی اس قسم کی کوششوں سے ضرور جڑیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، ملک کے زیادہ تر حصوں میں گرمی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی یہ گرمی، پانی بچانے کی ہماری ذمہ داری کو بھی اتنا ہی بڑھا دیتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ ابھی جہاں ہوں، وہاں پانی مناسب مقدار میں دستیاب ہو۔ لیکن، آپ کو ان کروڑوں لوگوں کو بھی ہمیشہ یاد رکھنا ہے، جو پانی کی کمی والے علاقوں میں رہتے ہیں، جن کے لیے پانی کی ایک ایک بوند امرت کی طرح ہوتی ہے۔

ساتھیو، اس وقت آزادی کے 75ویں سال میں، آزادی کے امرت مہوتسو میں، ملک جن عزائم کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے، ان میں پانی کا تحفظ بھی ایک ہے۔ امرت مہوتسو کے دوران ملک کے ہر ضلع میں 75 امرت سروور بنائے جائیں گے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کتنی بڑی مہم ہے۔ وہ دن دور نہیں جب آپ کے اپنے شہر میں 75 امرت سروور ہوں گے۔ میں، آپ سبھی سے، اور خاص کر، نوجوانوں سے چاہوں گا کہ وہ اس مہم کے بارے میں جانیں اور اس کی ذمہ داری بھی اٹھائیں۔ اگر آپ کے علاقے میں جدوجہد آزادی سے جڑی کوئی تاریخ ہے، کسی فوجی کی یادگار ہے، تو اسے بھی امرت سروور سے جوڑ سکتے ہیں۔ ویسے مجھے یہ جان کر اچھا لگا کہ امرت سروور کا عہد لینے کے بعد کئی جگہوں پر اس پر تیزی سے کام شروع ہو چکا ہے۔ مجھے یوپی کے رامپور کی گرام پنچایت پٹوائی کے بارے میں جانکاری ملی ہے۔ وہاں پر گرام سبھا کی زمین پر ایک تالاب تھا، لیکن وہ، گندگی اور کوڑے کے ڈھیر سے بھرا ہوا تھا۔ پچھلے کچھ ہفتوں میں بہت محنت کرکے، مقامی لوگوں کی مدد سے، مقامی اسکولی بچوں کی مدد سے، اس گندے تالاب کو درست کیا گیا ہے۔ اب، اس سروور کے کنارے رٹینگ وال، چار دیواری، فوڈ کورٹ، فوارے اور لائٹنگ بھی نہ جانے کیا کیا انتظامات کیے گئے ہیں۔ میں رامپور کی پٹوائی گرام پنچایت کو، گاؤں کو، لوگوں کو، وہاں کے بچوں کو اس کوشش کے لیے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔

ساتھیو، پانی کی دستیابی اور پانی کی قلت، یہ کسی بھی ملک کی ترقی اور رفتار کو متعین کرتے ہیں۔ آپ نے بھی غور کیا ہوگا کہ ’من کی بات‘ میں، میں، صفائی جیسے موضوعات کے ساتھ ہی بار بار پانی کے تحفظ کی بات ضرور کرتا ہوں۔ ہمارے تو گرنتھوں میں واضح طور پر کہا گیا ہے –

پانیم پرمم لوکے، جیوانام جیونم سمرتم

یعنی، دنیا میں، پانی ہی، ہر ایک جاندار کی زندگی کی بنیاد ہے اور پانی ہی سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے، اسی لیے تو ہمارے آباء و اجداد نے پانی کے تحفظ کے لیے اتنا زور دیا۔ ویدوں سے لے کر پرانوں تک، ہر جگہ پانی بچانے کو، تالاب، سروور وغیرہ بنوانے کو،  انسانوں کا سماجی اور روحانی فریضہ بتایا گیا ہے۔ والمیکی رامائن میں آبی وسائل کو جوڑنے پر، پانی کے تحفظ پر، خاص زور دیا گیا ہے۔ اسی طرح، تاریخ کے اسٹوڈنٹ جانتے ہوں گے، سندھو سرسوتی اور ہڑپا تہذیبوں کے دوران بھی ہندوستان میں پانی کو لے کر کتنی ترقی یافتہ انجینئرنگ ہوتی تھی۔ زمانۂ قدیم میں کئی شہر میں آبی ذرائع کا آپس میں انٹر کنیکٹیڈ سسٹم ہوتا تھا اور یہ وہ وقت تھا، جب آبادی اتنی نہیں تھی، قدرتی وسائل کی قلت بھی نہیں تھی، ایک طرح سے فراوانی تھی، پھر بھی، آبی تحفظ کو لے کر، تب، بیداری بہت زیادہ تھی۔ لیکن، آج حالات اس کے برعکس ہیں۔ میری آپ تمام لوگوں سے اپیل ہے، آپ اپنے علاقے کے ایسے پرانے تالابوں، کنووں اور سرووروں کے بارے میں جانیں۔ امرت سروور مہم کی وجہ سے پانی کے تحفظ کے ساتھ ساتھ آپ کے علاقے کی پہچان بھی بنے گی۔ اس سے شہروں میں، محلوں میں، مقامی سیاحت کی جگہوں بھی تیار ہوں گی، لوگوں کو گھومنے پھرنے کی بھی ایک جگہ ملے گی۔

ساتھیو، پانی سے جڑی ہر کوشش ہمارے کل سے جڑی ہے۔ اس میں پورے سماج کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس کے لیے صدیوں سے الگ الگ سماج، الگ الگ کوشش لگاتار کرتے آئے ہیں۔ جیسے کہ، ’’کچھ کے رن‘‘ کا ایک قبیلہ ’مالدھاری‘ پانی کے تحفظ کے لیے ’’ورداس‘ نام کا طریقہ استعمال کرتا ہے۔ اس کے تحت چھوٹے کنویں بنائے جاتے ہیں اور اس کی حفاظت کے لیے آس پاس پیڑ پودے لگائے جاتے ہیں۔ اسی طرح مدھیہ پردیش کے بھیل قبیلہ نے اپنی ایک تاریخی روایت ’ہلما‘ کو پانی کے تحفظ کے لیے استعمال کیا۔ اس روایت کے تحت اس قبیلہ کے لوگ پانی سے جڑے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے ایک جگہ پر جمع ہوتے ہیں۔ ہلما روایت سے ملے مشوروں کی وجہ سے اس شعبے میں پانی کا بحران کم ہوا ہے اور زیر زمین پانی کی سطح بھی بڑھ رہی ہے۔

ساتھیو، ایسی ہی ذمہ داری کا جذبہ اگر سب کے من میں آ جائے تو، آبی بحران سے جڑے بڑے سے بڑے چیلنج کا حل ہو سکتا ہے۔ آئیے، آزادی کے امرت مہوتسو میں ہم آبی تحفظ اور حیاتی تحفظ کا عہد کریں۔ ہم بوند بوند پانی بچائیں گے اور ہر ایک زندگی بچائیں گے۔

میرے پیارے ہم وطنو، آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ دن پہلے میں نے اپنے نوجوان دوستوں سے، اسٹوڈنٹ سے ’پریکشاپر چرچہ‘ کی تھی۔ اس چرچہ کے دوران کچھ اسٹوڈنٹ نے کہا کہ انہیں امتحان میں ریاضی سے ڈر لگتا ہے۔ اسی طرح کی بات کئی طلباء نے مجھے اپنے پیغام میں بھی بھیجی تھی۔ اس وقت ہی میں نے یہ طے کیا تھا کہ ریاضی- میتھ میٹکس پر میں اس بار کے ’من کی بات‘ میں ضرور چرچہ کروں گا۔ ساتھیو، ریاضی تو ایسا سبجیکٹ ہے جسے لے کر ہم ہندوستانیوں کو سب سے زیادہ آسانی محسوس کرنی چاہیے۔ آخر، ریاضی کو لے کر پوری دنیا کے لیے سب سے زیادہ تحقیق اور تعاون ہندوستان کے لوگوں نے ہی تو دیا ہے۔ صفر، یعنی، زیرو کی کھوج اور اس کی اہمیت کے بارے میں آپ نے خوب سنا بھی ہوگا۔ اکثر آپ یہ بھی سنتے ہوں گے کہ اگر زیرو کی کھوج نہ ہوتی، تو شاید ہم، دنیا کی اتنی سائنسی پیش رفت بھی نہ دیکھ پاتے۔ کیلکولس سے لے کر کمپیوٹر تک – یہ تمام سائنسی ایجادات زیرو پر ہی تو مبنی ہیں۔ بھارت کے ریاضی دانوں اور دانشوروں نے یہاں تک لکھا ہے کہ –

یت کنچت وستو تت  سروم، گنی تین بنا نہی!

یعنی، اس پوری کائنات میں جو کچھ بھی ہے، وہ سب کچھ ریاضی پر ہی مبنی ہے۔ آپ سائنس کی پڑھائی کو یاد کیجئے، تو اس کا مطلب آپ کو سمجھ آ جائے گا۔ سائنس کا ہر اصول ایک حسابی فارمولہ میں ہی تو ظاہر کیا جاتا ہے۔ نیوٹن کے لاء ہوں، آئنسٹائن کا مشہور ایکوئیشن، کائنات سے جڑی پوری سائنس ایک ریاضی ہی تو ہے۔ اب تو سائنس داں Theory of Everything کی بھی چرچہ کرتے ہیں، یعنی ایک ایسا سنگل فارمولہ جس سے کائنات کی ہر چیز کو ظاہر کیا جا سکے۔ ریاضی کے سہارے سائنسی فہم کی اتنی توسیع کا تصور ہمارے رشیوں نے ہمیشہ سے کیا ہے۔ ہم نے اگر صفر کی ایجاد کی، تو ساتھ ہی لا محدود، یعنی انفائنائٹ کو بھی ایکسپریس کیا ہے۔ عام بول چال میں جب ہم اعداد اور نمبر کی بات کرتے ہیں، تو ملین، بلین اور ٹریلین تک بولتے اور سوچتے ہیں، لیکن، ویدوں میں اور ہندوستانی ریاضی میں یہ حساب بہت آگے تک جاتا ہے۔ ہمارے یہاں ایک بہت پرانا شلوک مشہور ہے –

ایکم دشم شتم چیو، سہسرم ایونتم تھا

لکشم چ نیوتم چیو، کوٹیہ اربودم ایو  چ

ورندم کھروو نکھروہ چ، شنکھہ پدمہ چ ساگرہ

انتیم مدھیم پراردھہ چ، دش وردھیا یتھا کرمم

اس شلوک میں اعداد کی ترتیب بتائی گئی ہے۔ جیسے کہ –

ایک، دس، سو، ہزار اور ایوت

لاکھ، نیوت اور کوٹی یعنی کروڑ

اسی طرح یہ تعداد جاتی ہے – شنکھ، پدم اور ساگر تک۔ ایک ساگر کا مطلب ہوتا ہے کہ 10 کی پاور 57۔ یہی نہیں اس کے آگے بھی، اوگھ اور مہوگھ جیسی اعداد ہوتی ہیں۔ ایک مہوگھ ہوتا ہے – 10 کی پاور 62 کے برابر، یعنی، ایک کے آگے 62 صفر۔ ہم اتنی بڑی تعداد کا تصور بھی دماغ میں کرتے ہیں تو مشکل ہوتی ہے، لیکن ہندوستانی ریاضی میں ان کا استعمال ہزاروں سالوں سے ہوتا آ رہا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے مجھے سے انٹیل کمپنی کے سی ای او ملے تھے۔ انہوں نے مجھے ایک پینٹنگ دی تھی، اس میں بھی وامن اوتار کے ذریعے گنتی یا ناپ کے ایک ایسے ہی ہندوستانی طریقے کی تصویر کشی کی گئی تھی۔ انٹیل کا نام آیا تو کمپیوٹر آپ کے دماغ میں اپنے آپ آ گیا ہوگا۔ کمپیوٹر کی زبان میں آپ نے بائنری سسٹم کے بارے میں بھی سنا ہوگا، لیکن، کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے ملک میں آچاریہ پنگلا جیسے رشی ہوئے تھے، جنہوں نے بائنری کا تصور کیا تھا۔ اسی طرح، آریہ بھٹ سے لے کر رامانوج جیسے ماہر ریاضی دانوں تک ریاضی کے کتنے ہی اصولوں پر ہمارے یہاں کام ہوا ہے۔

ساتھیو، ہم ہندوستانیوں کے لیے ریاضی کبھی مشکل موضوع نہیں رہا، اس کی ایک بڑی وجہ ہماری ویدک ریاضی بھی ہے۔ دور جدید میں ویدک ریاضی کا کریڈٹ جاتا ہے – جناب بھارتی کرشن تیرتھ جی مہاراج کو۔ انہوں نے کیلکولیشن کے پرانے طریقوں کو ریوائیو کیا اور اسے ویدک ریاضی نام دیا۔ ویدک ریاضی کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اس کے ذریعے آپ مشکل سے مشکل  حساب پلک جھپکتے ہی من میں ہی کر سکتے ہیں۔ آج کل تو سوشل میڈیا پر ویدک ریاضی سیکھنے اور سکھانے والے ایسے کئی نوجوانوں کے ویڈیو بھی آپ نے دیکھے ہوں گے۔

ساتھیو، آج ’من کی بات‘ میں ویدک ریاضی سکھانے والے ایک ایسے ہی ساتھی ہمارے ساتھ بھی جڑ رہے ہیں۔ یہ ساتھی ہیں کولکاتا کے گورو ٹیکری وال جی۔ اور وہ گزشتہ دو ڈھائی دہائیوں سے ویدک میتھ میٹکس اس موومنٹ کو پوری جاں فشانی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ آئیے، ان سے ہی کچھ باتیں کرتے ہیں۔

مودی جی – گورو جی نمستے!

مودی جی – میں نے سنا ہے کہ آپ ویدک میتھ کے لیے کافی دلچسپی رکھتے ہیں، بہت کچھ کرتے ہیں۔ تو پہلے تو میں آپ کے بارے میں کچھ جاننا چاہوں گا اور بعد میں اس موضوع میں آپ کی دلچسپی کیسے ہے ذرا مجھے بتائیے؟

گورو – سر جب میں بیس سال پہلے بزنس اسکول کے لیے اپلائی کر رہا تھا، تو اس کا مقابلہ جاتی امتحان ہوتا تھا، جس کا نام ہے کیٹ ۔ اس میں بہت سارے ریاضی کے سوال آتے تھے، جس کو کم وقت میں کرنا پڑتا تھا۔ تو میری ماں نے مجھے ایک بُک لاکر دیا جس کا نام تھا ویدک گنت۔ سوامی شری بھارتی کرشن تیرتھ جی مہاراج نے وہ بُک لکھی تھی۔ اور اس میں انہوں نے 16 سوتر دیے تھے۔ جس میں ریاضی بہت ہی آسان اور بہت ہی تیز ہو جاتا تھی۔ جب میں نے وہ پڑھا تو مجھے بہت حوصلہ ملا اور پھر میری دلچسپی پیدا ہوگی میتھ میٹکس میں۔ مجھے سمجھ میں آیا کہ یہ سبجیکٹ جو بھارت کی دین ہے، جو ہمارا خزانہ ہے اس کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا جا سکتا ہے۔ تب سے میں نے اس کو ایک مشن بنایا کہ ویدک میتھ کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا جائے۔ کیوں کہ ریاضی کا ڈر ہر کسی کو ستاتا ہے۔ اور ویدک ریاضی سے آسان اور کیا ہو سکتا ہے۔

مودی جی –  گورو جی کتنے سالوں سے آپ اس میں کام کر رہے ہیں؟

گورو – مجھے آج ہو گئے تقریباً 20 سال سر۔ میں اس میں ہی لگا ہوا ہوں۔

مودی جی – اور اویئرنیس کے لیے کیا کرتے ہیں، کیا کیا تجربے کرتے ہیں، کیسے جاتے ہیں لوگوں کے پاس؟

گورو – ہم لوگ اسکول میں جاتے ہیں، ہم لوگ آن لائن تعلیم دیتے ہیں۔ ہمارے ادارہ کا نام ہے ’ویدک میتھس فورم انڈیا‘۔ اس ادارہ کے تحت ہم لوگ انٹرنیٹ کے توسط سے 24 گھنٹے ویدک میتھ پڑھاتے ہیں سر۔

مودی جی – گورو جی آپ تو جانتے ہیں، میں لگاتار بچوں کے ساتھ بات چیت کرنا پسند بھی کرتا ہوں اور میں موقع تلاش کرتا رہتا ہوں۔ اور exam warrior سے تو میں بالکل ایک طرح سے میں نے اس کو  Institutionalized کر دیا ہے اور میرا بھی تجربہ ہے کہ زیادہ تر جب بچوں سے بات کرتا ہوں، تو ریاضی کا نام سنتے ہی وہ بھاگ جاتے ہیں اور تو میری کوشش یہی ہے کہ یہ بلا وجہ جو ایک ڈر پیدا ہوا ہے اس کو نکالا جائے، یہ ڈر نکالا جائے اور چھوٹی چھوٹی ٹیکنیک جو روایت سے ہے، جو کہ بھارت، ریاضی کے بارے میں کوئی نئی نہیں ہے۔ شاید دنیا میں قدیم روایات میں بھارت کے پاس ریاضی کی روایت رہی ہے، تو exam warrior کو ڈر نکالنا ہے تو آپ کیا کہیں گے ان کو؟

گورو – سر یہ تو سب سے زیادہ مفید ہے بچوں کے لیے، کیوں کہ، ایگزام کا جو ڈر ہوتا ہے، جو ہوّا ہوگیا ہے ہر گھر میں۔ ایگزام کے لیے بچے ٹیوشن لیتے ہیں، والدین پریشان رہتے ہیں۔ ٹیچر بھی پریشان ہوتے ہیں۔ تو ویدک میتھ پندرہ سو پرسینٹ تیز ہے اور اس سے بچوں میں بہت کانفیڈنس آتا ہے اور دماغ بھی تیزی سے چلتا ہے۔ جیسے، ہم لوگ ویدک میتھ کے ساتھ یوگا بھی انٹروڈیوس کیے ہیں، جس سے کہ بچے اگر چاہیں تو آنکھ بند کرکے بھی کیلکولیشن کر سکتے ہیں ویدک میتھ کے ذریعے۔

مودی جی – ویسے دھیان کی جو روایت ہے، اس میں بھی اس طرح سے ریاضی کرنا وہ بھی دھیان کا ایک پرائمری کورس بھی ہوتا ہے۔

گورو – رائٹ سر!

مودی جی – چلئے گورو جی، بہت اچھا لگا مجھے اور آپ نے مشن موڈ میں اس کام کو اٹھایا ہے اور خاص کر آپ کی ماتا جی ایک اچھے گرو کے طور پر آپ کو اس راستے پر لے گئیں۔ اور آج آپ لاکھوں بچوں کو اس راستے پر لے جا رہے ہیں۔ میری طرف سے آپ کو بہت بہت مبارکباد۔

گورو – شکریہ سر! میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں سر کہ ویدک میتھ کو آپ نے اہمیت دی اور مجھے منتخب کیا سر! تو we are very thankful۔

مودی جی – بہت بہت شکریہ۔ نمسکار۔

گورو – نمستے سر۔

ساتھیو، گورو جی نے بڑے اچھے طریقے سے بتایا کہ ویدک میتھ کیسے ریاضی کو مشکل سے مزیدار بنا سکتاہ ے۔ یہی نہیں، ویدک میتھ سے آپ بڑے بڑے سائنسی پرابلم بھی سالو کر سکتے ہیں۔ میں چاہوں گا، سبھی والدین اپنے بچوں کو ویدک میتھ ضرور سکھائیں۔ اس سے، ان کا کانفیڈنس تو بڑھے گا ہی، ان کے برین کی اینالیٹکیکل پاور بھی بڑھے گی اور ہاں، ریاضی کو لے کر کچھ بچوں میں جو بھی تھوڑا بہت ڈر ہوتا ہے، وہ ڈر بھی پوری طرح ختم ہو جائے گا۔

میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ میں آج میوزیم سے لے کر میتھ تک کئی علم افروز موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ یہ تمام موضوعات آپ لوگوں کے مشوروں سے ہی ’من کی بات‘ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ مجھے آپ اسی طرح، آگے بھی اپنے مشورے NaMoApp اور  MyGov کے ذریعے بھیجتے رہیے۔ آنے والے دنوں میں ملک میں عید کا تہوار بھی آنے والا ہے۔ 3 مئی کو اکشے ترتیہ اور بھگوان پرشو رام کی جینتی بھی منائی جائے گی۔ کچھ دن بعد ہی ویشاکھ بدھ پورنیما کا تہوار بھی آئے گا۔ یہ سبھی تہوار تحمل، پاکیزگی، خیرات اور رواداری کے تہوار ہیں۔ آپ سبھی کو ان تہواروں کی پیشگی مبارکباد۔ ان تہواروں کو خوب خوشی اور رواداری کے ساتھ منائیے۔ ان سب کے درمیان، آپ کو کورونا سے بھی محتاط رہنا ہے۔ ماسک لگانا، وقفہ وقفہ پر ہاتھ دھوتے رہنا، بچاؤ کے لیے جو بھی ضروری طریقے ہیں، آپ ان پر عمل کرتے رہیں۔ اگلی بار ’من کی بات‘ میں ہم پھر ملیں گے اور آپ کے بھیجے ہوئے کچھ اور نئے موضوعات پر بات کریں گے – تب تک کے لیے وداع لیتے ہیں۔ بہت بہت شکریہ۔

*****

ش ح – ق ت – ت ع

U: 4613



(Release ID: 1819578) Visitor Counter : 260