اقلیتی امور کی وزارتت
اقلیتوں میں خواندگی کی شرح
Posted On:
07 APR 2022 4:46PM by PIB Delhi
مطلع شدہ اقلیتوں کو تعلیمی طور پر بااختیار بنانے کے لیے وزارت کی جانب سے نافذ کی جانے والی مختلف اسکیموں/پروگراموں اور حکومت کی دیگر موثر کوششوں کی وجہ سے، اقلیتی طلباء کی کلاس 1 سے 6 تک کے لیے ڈراپ آؤٹ کی شرح 2015-16 میں 8.59 فیصد سے کم ہوکر2020-21 میں 0.8 فیصد ہوگئی ہے۔ اسی طرح، کلاس 6 سے 9 کے لیے، ڈراپ آؤٹ کی شرح 2015-16 میں 10.53 فیصد سے کم ہو کر 2020-21 میں 2.69 فیصد رہ گئی ہے۔ اس کے علاوہ، کلاس 9 سے 11 تک ڈراپ آؤٹ کی شرح 2015-16 میں 20.71 فیصد سے کم ہو کر 2020-21 میں 15.98 فیصد ہو گئی ہے۔
یو ڈی آئی ایس ای+ کے مطابق، اسکولوں میں اقلیتی طلباء کا داخلہ 2015-16 میں 411 لاکھ کی تعداد سے بڑھ کر 2020-21 میں 455 لاکھ ہو گیا ہے۔ نیز، اعلیٰ تعلیم کے لیے، اے آئی ایس ایچ ای کی رپورٹ کے مطابق، اقلیتی طلباء کا داخلہ 2015-16 میں 22.97 لاکھ کی تعدادسے بڑھ کر 2019-20 میں 29.88 لاکھ تک ہو گیا ہے۔
سن2011 کی مردم شماری کے مطابق، مسلمانوں میں خواندگی کی شرح 68.54فیصد، عیسائیوں میں(84.53فیصد)، سکھوں میں (75.39 فیصد)، بددھوں میں(81.29 فیصد) اور جینیوںمیں (94.88 فیصد) کے مقابلے میں، ملک میں خواندگی کی قومی شرح 72.98 فیصدتھی۔
شرح خواندگی کو بہتر بنانے کے لیے، ساکشر بھارت نام کی مرکزی سرپرستی والی ایک اسکیم کو، وزارت تعلیم، اسکولی تعلیم اور خواندگی کے محکمے نے، 26 ریاستوں اور ایک مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے 404 اضلاع کے دیہی علاقوں میں لاگو کیا، جہاں بالغ خواتین میں 50فیصد اور اس سے کم کی شرح خواندگی تھی۔اکتوبر 2009 کے بعد سے،2001 کیی مردم شماری کے مطابق، بائیں بازو کی انتہا پسندی سے متاثرہ اضلاع سمیت، خواندگی کی شرح سے قطع نظر، خواتین اور دیگر پسماندہ طبقات پر خصوصی توجہ کے ساتھ، اس اسکیم کو 31 مارچ2019 تک بڑھا دیا گیا تھا۔ ساکشر بھارت کی اسکیم کے تحت، بنیادی ہدف 70 ملین غیر خواندہ افراد کو فنکشنل خواندگی فراہم کرنا تھا جس میں 12 ملین اقلیتوں سےتعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ (این آئی او ایس) کی طرف سے اگست 2010 سے مارچ 2018 تک منعقدہ دو سالانہ امتحانات میں تقریباً 100.08 ملین آموزگار (بشمول 9.81 ملین اقلیتیں) شامل ہوئے، جن میں سے 76.39 ملین آموزگار (بشمول 7.50 ملین اقلیتیں) تجزیہ میں کامیاب ہوئے۔
مزید برآں، تعلیم بالغان کی ایک نئی مرکزی اسپانسر شدہ اسکیم "پڑھنا لکھنا ابھیان" مالی سال 2020-21 اور 2021-22 کے دوران 33 ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے دیہی اور شہری علاقوں میں نافذ کی گئی ہے، جس کا ہدف 48.16 لاکھ بالغ غیر خواندہ افرادکو خواندہ بنانا ہے، جس میں اقلیتی افراد بھی شامل ہیں۔
حکومت ہند نے حال ہی میں ایک نئی مرکزی اسپانسر شدہ اسکیم کو منظوری دی ہے، یعنی "نیو انڈیا لٹریسی پروگرام (این آئی ایل پی)" جس کا مقصد ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو 15 سال اور اس سے زیادہ عمر کے غیر خواندگیافراد کو فروغ دینے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ اس میں 2022-23 سے 2026-27 تک نفاذ کی مدت کے دوران، ملک بھر میں اقلیتوں سمیت 5 کروڑ غیر خواندہ افراد کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس اسکیم کو 1037.90 کروڑ روپے روپے کے مالی اخراجات کی مختص رقم کے ساتھ منظور کیا گیا ہےجس میں 700.00 کروڑ روپے کا مرکزی حصہ جبکہ 337.90 کروڑ روپے کا ریاستی حصہ بھی شامل ہے۔
اقلیتی امور کی وزارت چھ مطلع شدہ اقلیتی برادریوں یعنی عیسائیوں، جینوں، سکھوں، مسلمانوں، بدوھ اور پارسیوں سے تعلق رکھنے والے طلباء/مستفید کنندگان کو تعلیمی طور پربااختیار بنانے کے لیے مختلف اسکیموں/پروگراموں کو بھی نافذ کرتی ہے۔ اس وزارت کی طرف سے لاگو کی جانے والی مختلف اسکیمیں/ پروگرام درج ذیل ہیں:
(i) پری میٹرک اسکالرشپ اسکیم- گورنمنٹ/ تسلیم شدہ پرائیویٹ میں کلاس I تا X تک تعلیم حاصل کرنے والے اقلیتی طلباء کو اسکالرشپ فراہم کی جاتی ہے۔
اسکول اہل ہونے کے لیے، طلباء کےوالدین/سرپرست کی آمدنی 1.00 لاکھ روپے سالانہ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے،
اورطالب علم نے اس سے پہلی کلاس میں کم از کم 50فیصد نمبر حاصل کئےہونا چاہیے۔ 30فیصد اسکالرشپ لڑکیوں کے لیے مختص ہیں۔
(ii) پوسٹ میٹرک اسکالرشپ اسکیم- گورنمنٹ میں گیارہویں جماعت سے پی ایچ ڈی کی سطح تک پڑھنے والے ان اقلیتی طلباء کویہ اسکالرشپ فراہم کی جاتی ہے جو تسلیم شدہ پرائیویٹ اسکول/کالجز/انسٹی ٹیوٹ میں زیرتعلیم ہیں۔ اہل ہونے کے لیے، ۔لڑکیوں کے لیے کم از کم 30فیصدوظائف مختص ہیں۔
(iii) میرٹ-کم-مین پر مبنی اسکالرشپ اسکیم - یہ اسکالرشپ،انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کی سطح میں پیشہ ورانہ اور تکنیکی کورسز کے حصول کے لیے زیر تعلیم طلباء کو دی جاتی ہے جومناسب اتھارٹی کے ذریعہ تسلیم شدہ اداروں میںزیر تعلیم ہوں۔ اسکیم میں 85پیشہ ورانہ اور تکنیکی کورسز کے ادارے درج کیے گئے ہیں، جن کے لیے کورس کی مکمل فیس ادا کی جاتی ہے۔ اہل ہونے کے لیے، طلباء کےوالدین/سرپرست کی سالانہ آمدنی 2.50لاکھ روپے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے اور اس نے پچھلی کلاس میں کم از کم 50فیصد نمبر حاصل کیے ہوں۔کم از کم 30فیصداسکالرشپ لڑکیوں کے لیے مختص ہیں۔
(iv) بیگم حضرت محل نیشنل اسکالرشپ-اقلیتی امور کے وزارت کےتحت مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن (ایم اے ای ایف) بھی بیگم حضرت محل نیشنل اسکالرشپ اسکیم کو نافذ کرتی ہے۔یہ اسکیم صرف ان ہونہار اقلیتی لڑکیوں کے لیے ہےجو کلاس IX تا XII میں زیر تعلیم ہیں اورجن کی خاندانی سالانہ آمدنی2.00 لاکھ روپے سے کم ہے۔ 2014-15 سے اب تک 11.51 لاکھ اقلیتی لڑکیوں کو اسکالرشپ دی گئی ہے جس کے لیے722.05 کروڑ روپےکی منظوری دی گئی ہے۔
وزارت نے، سن 2014-15 سے 5.20 کروڑ سے زیادہ اسکالرشپ کو منظوری دی ہے جن میں سے 52فیصد سے زیادہ لڑکیاں ہیں جن پر 15862.21 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔
(v) مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ (ایم اے این ایف) اسکیم- یہفیلوشپ ان تحقیقی طلباء کو دی جاتی ہیں جو باقاعدگی سے اور کل وقتی ایم فیل اور پی ایچ دی کورسس کر رہےہیں۔اسکیم تمام یونیورسٹیوں/ اداروں کا احاطہ کرتی ہے۔
دفعہ 2(ایف) اور یو جی سی قانون کی دفعہ 3 کے تحت یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کے ذریعہ تسلیم شدہ ہیں اور
اور جنہیں یو جی سی کے ذریعے لاگو کیا جاتا ہے۔ اہل ہونے کے لیے،طلباء کی والدین/سرپرست کی سالانہ آمدنی 6.00 لاکھ روپے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔اسکیم کے تحت لڑکیوں کے لیے 30فیصدفیلو شپس مختص ہیں۔ 2014-15 سے ابتک، تجدید کے علاوہ، 5882 تازہ فیلو شپس فراہم کی گئی ہیں ہے جن پر 645.78 کروڑ روپے کے اخراجات شامل ہیں۔
(vi) پڑھو پردیش - تعلیمی قرضوں پر سود کی سبسڈی کی اسکیم ہے۔ اسکیم کے تحت، اوورسیز اسٹڈیز کے لئےلئے گئے قرضے کےسود پر اس قرضے کی مدت کے لیے قابل ادائیگی سود پر طلباکو سبسڈی دی جاتی ہے جنہوں نے بیرون ملک تعلیم کے منظور شدہ کورسز کو آگے بڑھانے کے لیے بیرون ملک تعلیم کے لیے ماسٹرز، ایم فل یا پی ایچ ڈی کی سطح پر تعلیم کی غرض سےقرض لیا ہو۔ ۔ اسکیم کو کینرا بینک کے ذریعے لاگو کیا جاتا ہے۔ اہل ہونے کے لیے، طلبہ کے والدین/سرپرست کی آمدنی 6.00 لاکھ روپے سالانہ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ 35فیصدوظائف لڑکیوں کے لیے مختص ہیں۔ 2014-15 سے اب تک 15743 مستفیدین کو سود کی سبسڈی کی ادائیگی کے لیے 130.42 روپے کی رقم جاری کی گئ ہے۔
(vii) نئی منزل – یہ اسکول چھوڑنے والوں کی رسمی اسکولی تعلیم اور ہنر مندی کے لیے ایک اسکیم ہے۔ اس اسکیم کے تحت 98697 مستفیدین کوفائدہ پہنچا ہے جس کے لیے 2016-17 سے اب تک 448.51 کروڑ روپے کی رقم جاری کی گئ ہے۔
(viii) اقلیتوں کی فروغ کی قومی مالیا تی کارپوریشن (این ایم ڈی ایف سی) کی تعلیمی قرض کی اسکیم - وزارت کا سرکاری شعبے کا ایک ادارہ،این ایم ڈی ایف سی ، اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو’ٹیکنیکل اور پروفیشنل کورسز‘ کے لیے قرض فراہم کرنے کے لئےاس اسکیم کو نافذ کرتی ہے۔اہل افراد کے لیے ملازمت پر مبنی تعلیم کی سہولت فراہم کرنے کے مقصد کے ساتھ قرض کی اسکیم دستیاب ہے جس کے لیے گھریلو کورسز کے لیے 20.00 لاکھ اور بیرون ملک کورسز کے لیے 30.00 لاکھ روپے تک کے قرض فراہم کیے جاتے ہیں۔ 2014-15 سے 2020-21 کے دوران، 19245 اقلیتی طلباء کو 252.45 کروڑ روپے کےتعلیمی قرض کی منظوری دی گئی ہے۔
(ix) پردھان منتری جن وکاس کاریاکرم (پی ایم جے وی کے) – پی ایم جے وی کے، مرکزی طور پر اسپانسر شدہ اسکیم (سی ایس ایس) ہے، جس کا مقصد بنیادی طور پر بنیادی ڈھانچے کی مدد کے ذریعے شناخت شدہ اقلیتی مرکوز علاقوں (ایم سیایز) میں سماجی و اقتصادی حالت اور بنیادی سہولیات کو بہتر بنانا ہے۔
پی ایم جے وی کے، کے تحت، 2014-15 سے 2021-22 تک منظور کیے گئے تعلیمی پروجیکٹوں میں 1550 اسکول کی عمارتیں، 171 رہائشی اسکول، 6 جواہر نوودیا ودیالیہ (جے این ویز) ، 38 ڈگری کالج، 01 میڈیکل کالج، 01 یونانی میڈیکل کالج، 02 نرسنگ کالج، 01 پیرا میڈیکل کالج اور 01 فارمیسی کالج، 01 ایگریکلچر کالج، 691 ہاسٹلز، 23094 اضافی کلاس رومز، 239 سائنس لیبز/لائبریریاں اور لیبارٹریزشامل ہیں۔ مذکورہ بالا کے علاوہ، کھیل کے میدان، اسمارٹ کلاس رومز/ٹیچنگ ایڈز، فرنیچر، بیت الخلاء، پینے کے پانی کی سہولیات وغیرہ کو بھی منظوری دی گئی ہے۔
یہ معلومات مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور جناب مختار عباس نقوی نے آج لوک سبھا میں ایک تحریری جواب میں فراہم کیں۔
*****
U.No.3993
(ش ح - اع - ر ا)
(Release ID: 1814610)
Visitor Counter : 419