ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

ماحولیات کے مرکزی وزیر جناب بھوپیندر یادو اورجل شکتی کے مرکزی وزیر جناب گجیندر سنگھ شیخاوت نے مشترکہ طور پر جنگل بانی کے اقدامات کے ذریعہ  13 بڑے دریاؤں کی بحالی کے  حوالے سے تفصیلی پروجیکٹ رپورٹیں جاری کیں


یہ پروجیکٹس  پانی کی بڑھتی ہوئی قلت میں کمی لائیں گے ا ورموسمیاتی تبدیلی اورپائیدار ترقی سے متعلق  قومی اہداف کو حاصل کرنے میں مدد کریں گے:جناب بھوپیندر یادو

ہمیں اپنے آپ کو فطرت اور اس کے بیش بہا وسائل کے نگہبان تصور کرنا چاہئے نہ کہ ان مالکان کا نگہبان جو ان قدرتی وسائل کا بیجا استحصال کرتے ہیں :جناب گجیندرسنگھ شیخاوت

‘‘ جامع منصوبہ بندی متحدہ نظم وضبط اور مشترکہ کوششوں کے ذریعہ  ہم آنے والی نسلوں کو  بہتر وسائل کی بنیاد فراہم کرنے کی سمت میں آگے بڑھ سکتے ہیں ’’

Posted On: 14 MAR 2022 8:03PM by PIB Delhi

ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کے مرکزی وزیر جناب بھوپیندر  یادو اورجل شکتی کے مرکزی وزیر جناب گجیندرسنگھ شیخاوت  نے  وزیر مملکت برائے ایم او ای ایف  اور سی سی جناب اشونی کمار چوبے کے ساتھ مشترکہ طور پر،  جنگل بانی اقدامات کے ذریعہ 13 بڑے دریاؤں کی بحالی کے حوالے سے تفصیلی پروجیکٹ رپورٹیں (ڈی پی آرس) جاری کیں۔ یہ 13 دریا جن کے لئے تفصیلی رپورٹیں جاری کی گئیں ، جھیلم، چناب، راوی، بیاس، ستلج، یمنا، برہم پتر، لونی، نرمدا، گوداوری، مہاندی، کرشنا اور کاویری ہیں ۔ ان ڈی پی آرس کو مالی امداد ، قومی جنگل بانی اور ماحولیاتی ترقیاتی بورڈ  ( ایم او ای ایف اینڈ سی سی) کے ذریعہ دی گئی تھی اور ان کو  جنگلاتی تحقیق اور تعلیم کی ہندوستانی کونسل (آئی سی  ایف آر ای)، دہرادون نے تیار کیا تھا ۔ اس موقع پر محترمہ لینا نندن سکریٹری ایم او ای ایف اینڈ سی سی، جناب سی پی گوئل، ڈائریکٹر جنرل  جنگلات اور اسپیشل سکریٹری  ایم او ای  ایف اینڈ سی سی،جناب ارون سنگھ راوت ڈائریکٹر جنرل آئی سی ایف آر ای  بھی موجود تھے ۔

 

1.jpg

 

خاص طور پر دریاؤں کے ماحولیاتی نظام کے سکڑنے اور خراب ہونے کی بنا پر تازہ  آبی وسائل کے ختم ہونے کے سبب سے بڑھتا جانے والا پانی کا بحران ماحولیات، تحفظ، موسمیاتی تبدیلی اور پائیدار ترقی سے متعلق قومی اہداف کی حصولیابی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ 13 بڑے دریا مجموعی طور پر  1890110 مربع کلو میٹر  کے طاسی رقبے کا احاطہ کرتے ہیں  جو ملک کے ارضیاتی رقبے کا 57.45 فیصد ہوتا ہے ۔وضاحت کردہ دریائی علاقوں کے  اندر  ان 13 دریاؤں کی ، ان کی 202 معاون ندیوں سمیت لمبائی 42830 کلو میٹر ہے۔

اس اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے ماحولیات کے مرکزی وزیر جناب بھوپیندر یادو نے کہا  کہ یہ تفصیلی منصوبہ جاتی رپورٹیں وزیراعظم  جناب نریندر مودی کے اس جامع وژن سے مطابقت رکھتی ہیں  جو آنے والے 25 برسوں کو ‘امرت کال’ بنانے سے متعلق ہے۔یہ تفصیلی رپورٹیں آنے والے 10 اور 20 برسوں کے لئے ماحول دوست رقبے کی توسیع کاہدف قائم کریں گی جس کے نتیجے میں، آنے والی نسلیں موجودہ نسل کے  ‘ ون بھاگیداری’  اور ‘ جن بھاگیداری’ پروگراموں کے ذریعہ  ایک سرسبز وشاداب ہندوستان  میں زندگی گزاریں گے ۔ جناب یادو  نے مزید کہاکہ  ان منصوبوں سے  بڑھتے ہوئے پانی کے بحران کو کم کرنے میں مدد ملے گی  اور  ماحولیاتی تبدیلی اور پائیدار ترقی سے وابستہ قومی اہداف کو حاصل کرنے کی راہ بھی ہموار ہوگی۔

 

2.jpg

 

اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ،جل شکتی کے مرکزی وزیر جناب گجیندر سنگھ شیخاوت نے کہاکہ  پانی زندگی کے لئے اکسیر ہے اور  روایتی طور پر اس حقیقت سے سب واقف ہے کہ دریاؤں کو دیوی دیوتاؤں کو درجہ دیا جاتا تھا،  اور لوگ ان کی د یکھ بھال  بڑی توجہ سے کرتے تھے کیوں کہ ان کے دل ، دماغ اور روح میں ان کے لئے بڑی عقیدت تھی۔ جناب شیخاوت نے کہا کہ جس دن ہم نے یہ سوچنا چھوڑ دیا کہ ہم نے ان دریاؤں کو دیا کیا ہے ، جس دن ہم نے ماحولیاتی پائیداری ا ور ترقی کے لئے توازن کے بارے میں نہیں سوچا ، جس دن ہم نے  اپنے آپ کو فطرت کا محافظ سمجھنا چھوڑ دیا  اوراس پر اپنی مالکانہ   حیثیت مسلط کردی،  ہم نے اسی دن سے اس کا استحصال بلکہ بےجا استحصال شروع کردیا ۔

 

3.jpg

 

یہ بتاتے ہوئے  کہ کس طرح وزیر اعظم  جناب نریندر مودی کی قیادت میں دریاؤں کی بحالی ، خاص طور پر گنگا ندی کی بحالی کی سمت میں  ایک جامع طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے ، مرکزی وزیرنے کہا کہ  اس کے نتائج کو دنیا بھر نے دیکھا ہے اور ان کی ستائش بھی کی ہے۔ جل شکتی کے مرکزی وزیر نے  اس بات پر زور دیا کہ ہم اپنے آپ کو فطرت، اس کے تمام تر حسن اور وسائل کا نگہبان تصور کریں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ پانچ دہائیوں میں  ماحولیاتی پائیداری کے تئیں ا پنی ذمہ داریوں کو ہم نے فراموش کردیا  اور اب ضرورت اس کی ہے کہ  ہم آنے والی نسلوں کے لئے ایک بہتر وسائل کی بنیاد فراہم کریں ۔ جناب شیخاوت نے کہا کہ  ان تفصیلی رپورٹوں کے ساتھ  اورایک جامع منصوبہ بندی کے ذریعہ، سب کے لئے ایک متحدہ نظم وضبط اور مشترکہ کوششوں کے ساتھ ہم ان نسلوں کے لئے ایک بہتر وسائل کی بنیاد فراہم کرنے کی سمت میں آگے بڑھ سکتے ہیں ۔

مختلف  اراضی کے تحت دریاؤں اور ان کی معاون ندیوں کے لئے دریائی علاقوں میں  جنگل بانی سے متعلق  اقدامات کی تجاویز ہیں  جن میں  قدرتی اراضی، زرعی اراضی اور شہری اراضی شامل ہیں ۔ جنگلاتی شجرکاری کے مختلف ماڈلس میں لکڑی دینے والے درخت، ادویاتی پودے، گھاس، جھاڑیاں، ایندھن، چارہ اور پھل دار درخت شامل ہیں  جن کا مقصد پانی، زیر زمین پا نی جاری کرنا ا ورر زمین کے کٹاؤ کو روکنا  ہے ۔  تمام 13 ڈی پی آرس میں  مجموعی پور پر 667 نگہداشت اور پود کاری  کے ماڈلسل کی تجویز ہے، جس کا مقصد مختلف اراضیوں پر مجوزہ جنگل بانی کے اقدامات اور معاون سرگرمیاں ہیں ۔مجموعی طور پر قدرتی اراضی کےلئے 283 نگہداشت کے ماڈلس ، زرعی اراضی کے لئے 97 نگہداشت کے ماڈلس  اور شہری  قطعہ زمین  کےلئے  116 مختلف نگہداشت کے ماڈلس کی تجویز دی گئی ہے ۔ مقام سے مخصوص نگہداشتیں ، مٹی اور نمی کے تحفظ اور گھاس ، جڑی بوٹیوں کی پود کاری ، جنگل بانی اور باغبانی والے پیڑوں کے لئے تجویز کی گئی ہیں ، جس کا مقصدایسے دریائی علاقوں کی نگہداشت ہے  جنہیں مختلف شراکت داروں کے ساتھ مشورت کے بعد جی آئی ایس ٹکنیک سے مدد فراہم کی گئی ہے ۔ اس پوری کارروائی کے دوران متعلقہ ریاستی جنگلاتی محکمہ سے افسران کو بھی  متعلقہ محکمے کے ساتھ پروگرام میں شامل کیا گیا تھا ۔

ہر ڈی پی آر میں وضاحت کردہ دریائی علاقوں کے تفصیلی تجزیے ،  دریائی ماحول کا بھرپور جائزہ، موجودہ صورتحال کے لئے ذمہ دار عوامل اور ریمورٹ سینسنگ اور جی آئی ا یس ٹکنک کااستعمال کرتے  ہوئے علاقوں کو ترجیحی حیثیت دینا شامل ہے۔ اسی کے ساتھ  ہر وضاحت کردہ دریائی علاقے میں ، قدرتی، زرعی اور شہری  اراضی کےلئے مختلف دیکھ بھال کے ماڈلس کی ترقی ، ڈیزائننگ اور ایک زبردست مشاورتی عمل کے ذریعہ  مجوزہ  جنگل بانی کے  اقدامات اور دیگر  تحفظ والے اقدامات  بھی شامل ہیں ۔ ہر ڈی پی آر میں   Vol.I, II اور ایک بھر پور جائزہ کی شکل میں ڈی پی آر کاخلاصہ شامل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تمام 13 ڈی پی آرس کا خلاصہ  ایک مختصر دستاویز کی شکل میں  بھی شامل ہوتا ہے ۔

ان ڈی پی آرس میں تحفظ،  شجرکاری،  اکٹھے پانی کا نظم وضبط، ماحولیاتی بحالی ، نمی کا تحفظ، گزر بسر میں ترقی، آمدنی کی فراہمی،  ماحولیاتی سیاحت پر توجہ دی جاتی ہے ۔ اس کے لئے  دریا کے نزدیکی آبادیوں ، ایکو پارک کی تعمیر  اور لوگوں کے درمیان بیداری پیدا کی جاتی ہے ۔ تحقیق اور نگرانی کو بھی اس میں شامل کیا جاتا ہے ۔

ان 13 ڈی پی آرس کے لئے 19342.62 کروڑ روئے کابجٹ مختص کیا گیا ہے ۔ ان ڈی پی آرس پر ریاست کے جنگلاتی محکموں اور خصوصی محکمے کی طرف سے عمل درآمد کی توقع ہے ۔ اس کے لئے ریاستوں میں متعلقہ محکموں کو  ایک ساتھ ضم کیا جائے گا  جس کا مقصد ڈی پی آرس میں  تجویز کی گئی سرگرمیاں  اور   بھارتی حکومت سے مالی مدد حاصل کرنا ہے ۔  صف اول میں کام کرنے والے عملے کے ذریعہ اس کے نفاذ میں آسانی کے لئے  ریاستی جنگلاتی محکمے کی طرف سے ہندی / مقامی زبانوں میں عمل درآمد سے متعلق ایک  ہدایت نامہ تیار کیا جائے گا ۔ اس کے لئے ا ٓئی سی ایف آر ای کی طرف سے تکنیکی امداد دی جائے گی ۔ دیکھ بھال کے کام کے لئے 5 برس کی مدت تجویز کی گئی ہے جس میں شجرکاری کی دیکھ بھال کےلئے اضافی وقت کا بھی التزام رکھا گیا ہے ۔ پروجیکٹ کی شروعات میں تاخیر ہونے کی صورت میں  ڈی پی آرس کے لئے مجوزہ بجٹ کو تھوک قیمت اشاریے کا استعمال کرتے ہوئے طے کیا جائے گا، جبکہ پروجیکٹ کی لاگت  2019-20 کے دوران  جاری  قیمتوں کے مطابق طے کی گئی تھی ۔ عمل درآمد کے دوران  ‘پہاڑی سلسلے سے وادی تک’  طریقہ کار پر عمل کیا جائے گا  اور شجرکاری کی کارروائیوں سے پہلے مٹی اورنمی کے تحفظ کا کام کیا جائے گا  اوراگر نفاذ کے وقت ضرورت ہوتی ہے تو مقامات وغیرہ کی تبدیلی کے معاملے میں نرمی برتی جاسکتی ہے ۔ ڈی پی آرس میں قومی اور ریاستی سطح پر اسٹیئرنگ اور ایگزیکٹو کمیٹیوں کی بھی تجویز رکھی گئی ہے ۔

ڈی پی آرس میں تجویز کردہ سرگرمیوں سے  ہریالی والے رقبے  کے اضافے کے زبردست فائدے حاصل کرنے میں ، اورزمین کے کٹاؤ کو روکنے ،کاربنڈائی آکسائڈ کو الگ کرنے میں بھی مدد ملے گی ۔ اس کے علاوہ غیرچوبی درختوں والے جنگلات کی مصنوعات کی شکل میں فائدے بھی حاصل ہوں گے ۔ جنگل بانی کے اقدامات سے  جنگلاتی رقبے میں  13 دریائی علاقوں میں 7417.36 کلومیٹر  کااضافہ ہونے کی توقع ہے۔

 

4.jpg

 

ان کوششوں سے ہندوستان کے بین الاقوامی عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں خاص طور پر مد د ملے گی  جن میں  پیرس ا یگریمنٹ کے تحت 2030 تک  سی او 2 کے  اخراج میں کمی کے نشانے کو حاصل کرنا بھی شامل ہے۔

ان کوششوں سے  نومبر 2021 میں سی او پی 26 کے دوران پنچ امرت عہد کی طرف پیش رفت میں مدد ملے گی جہاں ہندوستان نے 2030 تک کاربن اخراج میں ایک بلین ٹن تک کمی کرنے کا نشانہ مقرر کیا تھا ۔

13 بڑے بھارتی دریاؤں کی ڈی پی آرس میں  بیان کئے گئے مجوزہ جنگل بانی سے متعلق اقدامات  کے موثر نفاذ سے  زمینی  اورآبی حیوانات اور نباتات کی حالت میں بہتری لانے میں مدد ملے گی اس کے علاوہ ‘ اویرل دھارا، نرمل دھارا’ کے علاوہ سوچھ کنارا کی پیروی کرتے ہوئے بھی  دریاؤں کی بحالی سامنے آئے گی۔

 

*************

 

ش ح- س ب– ف ر

U. No.3112


(Release ID: 1809074) Visitor Counter : 273


Read this release in: English , Marathi , Hindi