زراعت اور کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کی وزارت
زراعت کو منافع بخش بنانے کا پروگرام
Posted On:
11 FEB 2022 5:34PM by PIB Delhi
زراعت اور کسانوں کی بہبود کے مرکزی وزیر جناب نریندر سنگھ تومر نے آج راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں بتایا کہ حکومت نے کئی ترقیاتی پروگرام، اسکیمیں، اصلاحات اور پالیسیاں اپنائی ہیں جو کسانوں کی زیادہ آمدنی پر توجہ مرکوز کرتی ہیں۔ ان تمام پالیسیوں اور پروگراموں کو زیادہ بجٹ مختص کرنے، غیر بجٹی مالی وسائل جیسے کارپس فنڈز مثلاً مائیکرو اریگیشن فنڈ وغیرہ کی حمایت حاصل ہے۔ آتم نربھر پیکیج (زرعی) کے تحت ضروری مالی مدد کے ساتھ 10,000 ایف پی اوز کی تشکیل اور فروغ۔ آتم نربھر بھارت کے تحت بنیادی ڈھانچے کی تخلیق پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے جس کے لیے 100,000 کروڑ روپے کی مالی مدد کے ساتھ "زرعی بنیادی ڈھانچہ فنڈ(اے آئی ایف) بنایا گیا ہے۔ دیگر خصوصی اقدامات میں پی ایم- کسان کے تحت ضمنی آمدنی کی منتقلی ، پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا (پی ایم ایف بی وائی) ؛ پردھان منتری کرشی سنچائی یوجنا( پی ایم کے ایس وائی) ؛ تمام خریف اور ربیع کی فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت(ایم ایس پیز) میں اضافہ پیداواری لاگت پر منافع کے کم از کم 50 فیصد کو یقینی بنانا، شہد کی مکھیوں کی پالنا؛ راشٹریہ گوکل مشن؛ بلیو انقلاب؛ سود کی امدادی اسکیم؛ کسان کریڈٹ کارڈ (کے سی سی) جو اب ڈیری اور ماہی گیری کے کسانوں کو بھی زرعی فصلوں کے علاوہ پیداواری قرض کی پیشکش شامل ہے۔ماحولیاتی پائیداری کے لیے، 2015- 2014 میں قومی مشن برائے پائیدار زراعت (این ایم ایس اے) شروع کیا گیا ہے جس کا مقصد حکمت عملیوں کو تیار کرنا اور لاگو کرنا ہے۔ بدلتی ہوئی آب و ہوا کے لیے ہندوستانی زراعت کو مزید لچکدار بنانے کے لیے۔ زراعت میں ڈرون ٹیکنالوجیز کو اپنانا ہندوستانی زراعت میں انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کسانوں اور اس شعبے کے دیگر اسٹیک ہولڈرز کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی کو سستا بنانے کے لیے،آئی سی اے آر/ ایس اے یو /ریاستی حکومتوں/ریاستی حکومتی اداروں کو زراعت میں مشینری استعمال کے ذیلی مشن (ایس ایم اے ایم)کے تحت کھیتوں میں اپنی کارکردگی کےمظاہرے کے لیے 100فیصد مالی امداد کے ساتھ ساتھ ڈرون کی مالی امداد بھی دی جاتی ہے ۔ کامیابیوں کی فہرست ضمیمہ پر ہے۔
حصولیابیاں
بجٹ مختص کرنے میں بے مثال اضافہ
- سال 2014-13 میں، محکمہ زراعت کے لیے بجٹ مختص صرف 21933.50 کروڑ روپے تھا۔ یہ 2021-22 میں 5.5 گنا سے زیادہ بڑھ کر 1,23017.57 کروڑ روپے ہو گیا ہے۔ ۔
- غذائی اجناس اور باغبانی کی ریکارڈ پیداوار ۔
غذائی اناج کی پیداوار 2014-13 میں 265.05 ملین ٹن سے بڑھ کر 2020-21 میں ریکارڈ 305.43 ملین ٹن تک پہنچ گئی (تیسرا پیشگی تخمینہ) جو کہ اب تک کی سب سے زیادہ غذائی پیداوار ہے۔ باغبانی کی پیداوار 2014-15 میں 280.99 ملین ٹن سے بڑھ کر 2020-21 میں 320.48 ملین ٹن ہو گئی ہے (دوسرا پیشگی تخمینہ) جو کہ ہندوستانی باغبانی کے لیے اب تک کی سب سے زیادہ پیداوار ہے۔
- پیداواری لاگت سے ڈیڑھ گنا پر ایم ایس پی کا تعین –
حکومت نے تمام لازمی خریف، ربیع اور دیگر تجارتی فصلوں کے لیے ایم ایس پی میں 19-2018 سے کل ہند اوسط پیداواری لاگت کے مقابلے کم از کم 50 فیصد کی واپسی کے ساتھ اضافہ کیا ہے۔
دھان کے لیے ایم ایس پی بڑھ کر2022-21 میں 1940 روپے فی کوئنٹل ہو گئی ہے۔ 2013-14 میں یہ 1310 روپے فی کوئنٹل تھی ۔اس اعتبار سے دھان کی ایم ایس پی میں 48 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
گندم کے لیے ایم ایس پی 2014-13 میں 1400روپے فی کوئنٹل سے بڑھا کر 2022-21 میں سے2015 روپے فی کوئنٹل کردی گئیں۔
- پی ایم کسان پروگرام کے ذریعے کسانوں کو انکم سپورٹ
2019 میں پی ایم- کسان کا آغاز - ایک انکم سپورٹ اسکیم جو کہ 6000 روپے سالانہ 3 مساوی قسطوں میں فراہم کرتی ہے۔ مجموعی طور پر اب تک 11.7 کروڑ سے زیادہ کسان خاندانوں کو 1.8 لاکھ کروڑ روپے جاری کیے جا چکے ہیں۔
- پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا(پی ایم ایف بی وائی)
پی ایم ایف بی وائی کا آغاز 2016 میں کسانوں کے لیے اعلیٰ پریمیم کی شرح اور حد بندیوں کی وجہ سے بیمہ کی رقم میں کمی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ نفاذ کے پچھلے 5 سالوں میں - 29.29 کروڑ کسان درخواست دہندگان نے اندراج کیا اور 8.99 کروڑ سے زیادہ (عارضی) کسان درخواست دہندگان نے 103903 کروڑ روپے سے زیادہ کے دعوے وصول کیے ہیں۔ اس عرصے کے دوران تقریباً 21448 کروڑ روپے کسانوں نے پریمیم کے اپنے حصے کے طور پر ادا کیے جس کے مقابلے میں 103903 کروڑ روپے سے زیادہ کے دعوے (عارضی) انہیں ادا کردیئے گئے ہیں۔ اس طرح کسانوں کی طرف سے ادا کیے گئے پریمیم کے ہر 100 روپے کے بدلے، انہیں 484 روپے دعوے کے طور پر ملے ہیں۔
- زرعی شعبے کے لیے ادارہ جاتی قرض
2014-13 میں 7.3 لاکھ کروڑ روپے تھی ۔ اس کا ہدف بڑھتے بڑھتے 2022-21 میں 16.5 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچنے کا ہے ۔
کے سی سی کے ذریعے 4فیصد سالانہ سود پر رعایتی ادارہ جاتی قرض کا فائدہ بھی اب مویشی پروری اور ماہی پروری کرنے والے کسانوں کو ان کی قلیل مدتی کام کاجی سرمائے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بڑھا دیا گیا ہے۔
کسان کریڈٹ کارڈز (کے سی سی) کے ذریعے پی ایم۔ کسان استفادہ کنندگان کا احاطہ کرنے پر توجہ دینے کے ساتھ رعایتی ادارہ جاتی قرض فراہم کرنے کے لیے فروری 2020 سے ایک خصوصی مہم چلائی گئی ہے۔ اب تک، 2,88,832 کروڑ روپے کی منظور شدہ رقم کے ساتھ 270.29 لاکھ نئے کے سی سی جاری کیے گئے ہیں۔
- کسانوں کو مٹی کی زرخیزی بتانے والے کارڈ فراہم کرنا
مٹی کی زرخیزی بتانے والے کارڈ سکیم سال 2014-15 میں متعارف کرائی گئی تھی تاکہ غذائیت بخش کے استعمال کو بہتر بنایا جا سکے۔ ملک گیر پروگرام کے تحت تقریباً 11 کروڑ کسانوں کو سوائل ہیلتھ کارڈ مفت جاری کیے گئے ہیں۔
- ملک میں کھاد کی کاشتکاری کو فروغ دینا
پرامپرگت کرشی وکاس یوجنا (پی کے وی وائی) کی شروعات 2015-16 میں ملک میں نامیاتی کھیتی کو فروغ دینے کے لیے کی گئی تھی۔ پی کے وی وائی اسکیم-19043 کے تحت دو سالہ کامیابیاں کلسٹرز کی تشکیل کی گئی ہے اور 3.81 لاکھ ہیکٹیئر کے رقبے کا احاطہ کیا گیا ہے جس سے 9.52 لاکھ کسانوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ نمامی گنگے پروگرام کے تحت 123620 ہیکٹیئر رقبہ اور قدرتی کھیتی کے تحت 4.09 لاکھ ہیکٹیئر رقبہ کا احاطہ کیا گیا ہے۔
شمال مشرقی خطے میں مشن آرگینک ویلیو چین ڈیولپمنٹ (ایم او وی سی ڈی این ای آر) شروع کیا گیا ہے۔ 170 فارمر پروڈیوسر کمپنیاں بنائی گئی ہیں جن میں 1.55 لاکھ کسان شامل ہیں اور 1,55,495 ہیکٹیئر رقبے کا اس پروگرام کے تحت احاطہ کیا گیاہے۔
مزید برآں، سستی قیمت پر نامیاتی تصدیق کی سہولت فراہم کرنے اور طریقہ اپنانے میں آسان، 2015 کے دوران ایک نیا شراکتی گارنٹی سسٹم (پی جی ایس) سرٹیفیکیشن شروع کیا گیا۔ یہ پی جی ایس سسٹم دنیا میں منفرد ہے اور دنیا کا سب سے بڑا شراکت دار آرگینک سرٹیفیکیشن پروگرام ہے۔ پی جی ایس سرٹیفیکیشن کے تحت تقریباً 11 لاکھ چھوٹے اور معمولی کسانوں کی تصدیق کی گئی ہے۔ چھوٹے اور پسماندہ کاشتکاروں کی اپنی نامیاتی مصنوعات براہ راست صارفین کو فروخت کرنے میں مدد کرنے کے لیے ایک جیوک کھیتی پورٹل شروع کیا گیا ہے۔ ابھی تک، تقریباً 5.56 لاکھ کسان پورٹل پر رجسٹرڈ ہیں۔ اس کے علاوہ، بڑے ایریا سرٹیفیکیشن پروگرام کے تحت پہلے سے طے شدہ نامیاتی علاقوں جیسے جزائر، دور دراز، پہاڑی علاقوں کی فوری سرٹیفیکیشن شروع کی گئی ہے۔ یہ چھوٹے کاشتکاروں کو 3 سال کی عام سرٹیفیکیشن مدت کا انتظار کیے بغیر فوری طور پر تصدیق شدہ مصنوعات کی مارکیٹنگ کرنے کے قابل بنائے گا۔ انڈمان کے جزائر کار نکوبار میں تقریباً 14445 ہیکٹیئر کو اب اس پروگرام کے تحت سند دی جاچکی ہے جو اس علاقے کے پسماندہ کسانوں کو تصدیق شدہ مصنوعات کی مارکیٹنگ میں مدد فراہم کرتا ہے۔ ایل اے سی کے تحت لداخ سے 5000 ہیکٹیئر رقبہ کی تجویز موصول ہوئی ہے اور 11.475 لاکھ روپے کا فنڈ جاری کیا گیا ہے۔ لکشدیپ کے 2700 ہیکٹیئر رقبے کی پوری قابل کاشت اراضی کو بڑے رقبہ کے سرٹیفیکیشن کے تحت نامیاتی کی سند دی گئی ہے۔ سرٹیفیکیشن کے لیے انفرادی کسانوں کی مدد بھی متعارف کرائی گئی ہے تاکہ کسانوں کو نامیاتی کاشتکاری کرنے کی ترغیب دی جا سکے۔
- یوریا پر نیم کی پرت چڑھانا
نیم کی پرت والے یوریا کو 2015-16 سے متعارف کرایا گیا ہے تاکہ نائٹروجن کے آہستہ آہستہ اخراج کے ذریعے مٹی میں غذائیت بخش اجزاء کی طویل دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس یوریا کے ذریعہ غیر زرعی سرگرمیوں کے لیے یوریا کے اخراج کو کم کرنے میں بھی مدد ملی ہے۔
- زرعی بنیادی ڈھانچہ فنڈ(اے آئی ایف)
اے آئی ایف کے آغاز کے ایک سال کے اندر، اس اسکیم نے 7300 سے زیادہ پروجیکٹوں کے لیے ملک میں 7700 کروڑ روپے کے زرعی بنیادی ڈھانچے کو متحرک کیا۔ اسکیم کے تعاون سے زراعت کے مختلف انفراسٹرکچر بنائے گئے اور کچھ انفراسٹرکچر تکمیل کے آخری مرحلے میں ہیں۔ اس بنیادی ڈھانچے میں 3898 گودام، 155 جانچ پڑتال کےیونٹس، 136 بنیادی پروسیسنگ یونٹس، 135 چھانٹنے اور درجہ بندی کرنے والے یونٹس، 20 سمارٹ اینڈ پریسیزن زراعتی پروجیکٹس اور تقریباً 3000 دیگر قسم کے پوسٹ فصل کٹائی کے بندوبست پروجیکٹس اور کمیونٹی فارمنگ اثاثے شامل ہیں۔
- ایف پی اوز کا فروغ
10,000 ایف پی اوز کی تشکیل اور فروغ کے لیے اسکیم کا آغاز کیا گیا جس کی کل بجٹی فراہمی فروری 2020 میں 6865 کروڑ روپے کی ہے۔
اب تک، 4965 سے زیادہ ایف پی او پروڈکشن کلسٹر متعلقہ نفاذ کرنے والی ایجنسیوں(آئی ایز) کے لئے مختص کیے گئے ہیں۔
کلسٹر پر مبنی تجارتی تنظیموں(سی بی بی اوز) کو مختلف آئی ایز کے ذریعے آگے بڑھایا گیا ہے اور ان کے لئے پہلے ہی بلاکس مختص کیے جاچکے ہیں۔
قومی سطح پر، ایک نیشنل پراجیکٹ مینجمنٹ ایجنسی (این پی ایم اے) مربوط پورٹل اور انفارمیشن مینجمنٹ اور مانیٹرنگ کے ذریعے مجموعی پروجیکٹ کے تعلق سے مجموعی رہنمائی، ڈیٹا کی دیکھ بھال فراہم کرنے کے لیے مصروف عمل ہے۔
- آتم نربھر بھارت ابھیان کے ایک حصے کے طور پر 2020 میں ایک قومی مہال پروری اور شہد سازی مشن ( این بی ایچ ایم) شروع کیا گیا ہے۔ اس شعبے کے لیے 2021-2020 سے 2023-2022 کی مدت کے لیے 500 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
- پردھان منتری کرشی سنچائی یوجنا(پی ایم کے ایس وائی- پی ڈی ایم سی) کے ایک حصے کے طور پر کم سے کم پانی زیادہ سے زیادہ فصل ۔
پردھان منتری کرشی سنچائی یوجنا (پی ایم کے ایس وائی- پی ڈی ایم سی) کے کم از کم پانی زیادہ سے زیادہ فصل پروگرام کا مقصد چھوٹے پیمانے کی آبپاشی سے متعلق ٹیکنالوجیز، یعنی ڈرپ اور چھڑکاؤ آبپاشی کے نظام کے ذریعے کھیت کی سطح پر پانی کے استعمال کی کارکردگی کو بڑھانا ہے۔ اسکیم کے تحت 20.39 لاکھ ہیکٹیئر رقبہ کا احاطہ کیا گیا ہے اور 2019-20 اور 2021– 2020 کے دوران تقریباً 16لاکھ کسانوں کو چھوٹے پیمانے کی آبپاشی کے تحت فائدہ پہنچایا گیا ہے۔ 2020-19 اور 2021-2020 کے دوران پی ایم کے ایس وائی- پی ڈی ایم سی کے تحت مرکزی امداد کے طور پر ریاستوں کو 5262.20 کروڑ روپے فراہم کیے گئے ہیں۔ سال 2021-22 کے لیے،4000.00 کروڑ روپے (بی ای) کی رقم اسکیم کے نفاذ کے لیے مختص کی گئی ہیں اور779.18 کروڑ روپے کی رقم ریاستوں کو اب تک جاری کی جاچکی ہے۔
- چھوٹے پیمانے کی آبپاشی کا فنڈ
نابارڈ کو 5000 کروڑ روپے کا مائیکرو اریگیشن فنڈ فراہم کرایا گیا ہے۔ 2022-21 کے بجٹ میں فنڈ کے دائرے کو بڑھا کر 1000کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ 12.83 لاکھ ہیکٹیئر پر محیط 3970.17 کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کو منظوری دی گئی ہے۔
- زراعت میں مشینوں کا استعمال
مشینوں کا استعمال زراعت کو جدید بنانے اور کاشتکاری کے کاموں کی سختی کو کم کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ 2015-14 سے 2022-21 تک کی مدت کے دوران (31.12.2021 تک) 5130.61 کروڑ روپے کی رقم۔ زرعی میکانائزیشن کے لیے مختص کی گئی ہے۔ کسانوں کو سبسڈی پر 13,78,755 مشینیں اور آلات فراہم کیے گئے ہیں۔ 16,007 کسٹم ہائرنگ سینٹرز، 378 ہائی ٹیک ہب اور16064 زرعی مشینیں فراہم کرانے والے بینک قائم کئے گئے ہیں۔
- نیشنل ایگریکلچر مارکیٹ(ای۔ این اے ایم) اسکیم
18 ریاستوں اور 03 مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں، 1000 مارکیٹیں پہلے ہی ای۔ این اے ایم پلیٹ فارم کے ساتھ مربوط ہو چکی ہیں۔
05.01.2022 تک، کل حجم 5.27 کروڑ ملین ٹن اور 11.68 کروڑ کی تعداد (بانس، بیٹل لیو، ناریل، لیموں اور میٹھی مکئی) جس کی مجموعی تجارتی مالیت تقریباً 1.68 لاکھ کروڑ روپے ہے، ای۔ این اے ایم پلیٹ فارم پر ریکارڈ کی گئی ہے۔ اب تک، 1.72 کروڑ سے زیادہ کسانوں کو ای-نام پلیٹ فارم پر رجسٹر کیا گیا ہے۔
- زرعی اسٹارٹ اپ کا فروغ
زراعت اور اس سے منسلک شعبوں میں 799 اسٹارٹ اپس کو قسطوں میں اور86.64 کروڑ روپے کی فنڈنگ کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ان اسٹارٹ اپس کو فنڈ دینے کے لیے متعلقہ کےپیز اور آر اے بی آئیز کو 37.90 کروڑ روپےجاری کیے گئے ہیں۔ ان اسٹارٹ اپس کو مختلف ایگری بزنس انکیوبیشن سینٹرز یعنی نالج پارٹنرز(کے پیز) اور آر کے وی وائی۔ آر اے ایف ٹی اے اے آر ایگری بزنس انکیوبیٹرز(آر اے بی آئیز) میں دو ماہ تک تربیت دی گئی۔
xviii زراعت میں ڈرون کے استعمال کو فروغ دینا
زراعت میں ڈرون ٹیکنالوجیز کو اپنانے سے ہندوستانی زراعت میں انقلاب لانے اور ملک کے غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کی صلاحیت ہے۔ اسی مناسبت سے، زراعت میں ڈرون ٹیکنالوجیز کے منفرد فوائد کو دیکھتے ہوئے، محکمہ زراعت اور کسانوں کی بہبود نے 21.12.2021 کو عوام کے لئے کیڑے مار دوا اور غذائی اجزاء کے استعمال میں ڈرون کے استعمال کی غرض سے معیاری آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) جاری کیے ہیں، جو ڈرون کے موثر اور محفوظ آپریشن کے لیے جامع ہدایات فراہم کرتے ہیں۔
اس ٹیکنالوجی کو کسانوں اور اس شعبے کے دیگر اسٹیک ہولڈرز کے لیے قابل رسائی بنانے کی غرض سے ، زرعی میکانائزیشن کے ذیلی مشن (ایس ایم اے ایم) کے تحت آئی سی اے آر/ ایس اے یو/ریاستی حکومتوں/ریاستی حکومتی اداروں کو کھیتوں پر اپنی کارکردگی کے مظاہرے کے لیے 100فیصد مالی امداد کے ساتھ ساتھ ڈرون کی امداد بھی دی جاتی ہے۔ ڈرون کے استعمال کے ذریعے زرعی خدمات فراہم کرنے کے لیے، کسانوں کی کوآپریٹو سوسائٹی ایف پی او اور دیہی کاروباری افراد کے تحت موجودہ اور نئے کسٹم ہائرنگ سینٹرز(سی ایچ سیز) کی طرف سے ڈرون کی خریداری کے لیے ڈرون اور اس کے منسلکات کی بنیادی قیمت کا 40فیصد یا 4 لاکھ روپے، جو بھی کم ہو، مالی امداد فراہم کی جاتی ہے ، سی ایچ سیز قائم کرنے والے زرعی شعبے کے گریجویٹس 50فیصد یا 5 لاکھ روپے تک کی مالی امداد حاصل کرنے کے بھی اہل ہیں۔
*************
ش ح ۔ س ب ۔رض
U. No.1919
(Release ID: 1800491)
Visitor Counter : 233