خواتین اور بچوں کی ترقیات کی وزارت
خواتین کے خلاف جرائم
Posted On:
11 FEB 2022 5:57PM by PIB Delhi
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) جرائم بشمول خواتین کے خلاف جرائم کے اعداد و شمار مرتب کر کے اپنی اشاعت "کرائم اِن انڈیا" میں شائع کرتا ہے۔ جو این سی آر بی کی ویب سائٹ اس پر دستیاب ہے:https://ncrb.gov.in
اس پر2020 تک کی مذکورہ رپورٹ دستیاب ہے۔ این سی آر بی کی طرف سے شائع کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2020 کے دوران خواتین کے خلاف کل 371503 جرائم کے واقعات ہوئے۔ اِن میں سے خانگی تشدد سے خواتین کے تحفظ کے ایکٹ مجریہ 2005 (پی ڈبلیو ڈی وی اے) کے تحت اُس سال کے دوران 496 مقدمات درج کئے گئے۔
پچھلے تین برسوں کے دوران پی ڈبلیو ڈی وی اے کے تحت رجسٹرڈ معاملات کی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتطام علاقوں کے لحاظ سے تعداد ضمیمے میں موجود ہے۔
خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت نے یکم اپریل 2015 سے پورے ملک میں ون اسٹاپ سینٹر (او ایس سی) اسکیم کو نافذ کر رکھا ہے۔ اسے طبی امداد، پولیس کی سہولت، قانونی مشاورت، نفسیاتی سماجی مشاورت اور تشدد سے متاثرہ خواتین کو ایک ہی چھت کے نیچے عارضی پناہ جیسی مربوط خدمات فراہم کرنے کے لئے خصوصی طور پر تیار کیا گیا ہے۔ حکومت ہند نے 733 او ایس سیز کو منظوری دی ہے۔ اِن میں سے 704 او ایس سیز ملک میں سر گرم عمل ہیں۔ اَن سے 4.5 لاکھ سے زیادہ خواتین کو مدد ملی ہے۔ علاوہ ازیں اِس وزارت نے خواتین کییونیورسلائزیشن ہیلپ لائن (ڈبلیو ایچ ایل) اسکیم کو بھی نافذ کیا ہے جو مدد اور معلومات کی خواہاں خواتین کو شارٹ کوڈ 181 کے ذریعے چوبیسوں گھنٹے مفت ٹیلی مواصلاتی خدمات فراہم کرتی ہے۔ سرِ دست 34 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ڈبلیو ایچ ایل سر گرم عمل ہے۔
اس وزارت نے سوادھار گرہ اسکیم کو بھی نافذ کیا ہے جو بد بختانہ حالات کا شکار ہونے والی خواتین کو مدد فراہم کرتی ہے۔ ایسی خواتین میں خانگی تشدد کا شکار، خاندانی تناؤ یا اختلاف سے دوچار، بغیر کسی روزی کے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور، استحصال سے کوئی خاص تحفظ سے محروم اور/ یا ازدواجی تنازعات کی وجہ سے قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پر مجبور خواتین شامل ہیں جنہیں باز آبادکاری کے لئے ادارہ جاتی مدد کی ضرورت ہے تاکہ وہ عزت کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں۔ اس اسکیم میں ایسی خواتین کو پناہ، خوراک، لباس، صحت کی دیکھ ریکھ، مشاورت، اُن میں بیداری پیدا کرنے، طرز عمل کی تربیت، قانونی امداد اور رہنمائی وغیرہ فراہم کرنے کی گنجائشیں رکھی گئی ہیں۔
لیگل سروسز اتھارٹیز (ایل ایس اے) ایکٹ مجریہ 1987 کے تحت معاشرے کے اُن کمزور طبقوں کو مفت اورمجاز قانونی خدمات فراہم کیا جاتا ہے جو ایکٹ کے سیکشن 12 کے تحت شامل ہیں۔ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ایسا اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کیا جاتا ہے کہ معاشییا دیگر معذوری کی وجہ سے کسی بھی شہری کو انصاف کے حصول کے مواقع سے محرومی کا سامنا نہ رہے۔ اس کا مقصد لوک عدالتوں کا اہتمام کرنا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ قانونی نظام کا عمل مساوی مواقع کی بنیاد پر انصاف کو فروغ دے رہا ہے۔ اس مقصد کے لئے تعلقہ کی کورٹ کی سطح سے لے کر سپریم کورٹ تک قانونی خدمات کے ادارے جیسے ضلعی / ریاستی / قومی لیگل سروسز اتھارٹیز قائم کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، حکومت نے ایل ایس اے ایکٹ مجریہ 1987 کی دفعہ 12 کے تحت مفت قانونی امداد حاصل کرنے کے اہل افراد کو وکلاء سے جوڑنے کے لئے نیا بندھو (پرو بونو لیگل سروسز) پروگرام نافذ کیا ہے۔ 36 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے 669 اضلاع میں حکومت کے ذریعے چلایا جانے والا ٹیلی لا پروگرام عوام بشمول ایل ایس اے ایکٹ مجریہ 1987 کی دفعہ 12 کے تحت مفت قانونی امداد کے حقدار لوگوں کو قانونی مشورہ فراہم کرتا ہے۔ یہ مشورے پنچایتوں میں 75,000 کامن سروس سنٹر (سی ایس سی) کے ذریعے پینل وکلاء کے ذریعہ قانونی چارہ جوئی سے پہلے کے مرحلے پر فراہم کئے جاتے ہیں۔ ٹیلی لا کے ذریعہ 31 دسمبر 2021 تک 12.81 لاکھ سے زیادہ استفادہ کنندگان کو مشورے فراہم کئے گئے ہیں۔
خانگی تشدد سے خواتین کے تحفظ کے قانون مجریہ 2005 کی دفعہ 8 کے مطابق ریاستی حکومتیں ہر ضلع میں اتنی تعداد میں پروٹیکشن آفیسرز کی تقرری کرنے کی مجاز ہیں جتنی وہ ضروری سمجھیں۔
نربھیا فنڈ کے تحت 200 کروڑ روپے کییک وقتی امداد ریاستوں اورمرکز کے زیر انتظام علاقوں کو مرکزی وکٹم کمپنسیشن فنڈ کے تحت ٹاپ اپ گرانٹ کے طور پر فراہم کی گئی۔ یہ رقم ان کی متعلقہ وکٹم کمپنسیشن اسکیموں کی مدد کیلئے تھی۔ وکٹم کمپنسیشن اسکیم کے تحت معاوضہ فراہم کرنے والی خواتین کی تعداد کا حساب متعلقہ ریاستی حکومتوں اورمرکزی خطوں کی انتظامیہ کے ذریعہ رکھا جاتا ہے۔
یہ معلومات خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزیر محترمہ اسمرتی زوبین ایرانی نے آج لوک سبھا میں ایک تحریری جواب میں فراہم کیں۔
ضمیمہ
خانگی تشدد سے خواتین کے تحفظ کے قانون کے تحت 2020-2018 کے دوران درج کئے گئے مقدمات کی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتطام خطوں کے لحاظ سے تعداد
نمبر شمار
|
ریاستیں/مرکزکے زیر انتظام علاقے
|
2018
|
2019
|
2020
|
1
|
آندھراپردیش
|
0
|
0
|
0
|
2
|
اروناچل پردیش
|
2
|
0
|
0
|
3
|
آسام
|
13
|
0
|
0
|
4
|
بہار
|
0
|
0
|
23
|
5
|
چھتیس گڑھ
|
1
|
0
|
0
|
6
|
گوا
|
0
|
0
|
0
|
7
|
گجرات
|
0
|
0
|
0
|
8
|
ہریانہ
|
2
|
2
|
0
|
9
|
ہماچل پردیش
|
8
|
3
|
2
|
10
|
جھارکھنڈ
|
79
|
73
|
66
|
11
|
کرناٹک
|
0
|
1
|
0
|
12
|
کیرالہ
|
175
|
194
|
165
|
13
|
مدھیہ پردیش
|
275
|
248
|
180
|
14
|
مہاراشٹر
|
9
|
11
|
3
|
15
|
منی پور
|
0
|
0
|
1
|
16
|
میگھالیہ
|
0
|
0
|
0
|
17
|
میزورم
|
1
|
0
|
0
|
18
|
ناگالینڈ
|
0
|
0
|
0
|
19
|
اڑیشہ
|
1
|
1
|
0
|
20
|
پنجاب
|
1
|
3
|
0
|
21
|
راجستھان
|
3
|
2
|
0
|
22
|
سکم
|
0
|
0
|
0
|
23
|
تمل ناڈو
|
0
|
0
|
0
|
24
|
تلنگانہ
|
0
|
1
|
0
|
25
|
تری پورہ
|
0
|
0
|
0
|
26
|
اترپردیش
|
1
|
5
|
0
|
27
|
اتراکھنڈ
|
0
|
0
|
0
|
28
|
مغربی بنگال
|
6
|
6
|
1
|
|
کل ریاستیں
|
577
|
550
|
441
|
29
|
اے اینڈ این جزیرہ
|
0
|
0
|
0
|
30
|
چھتیس گڑھ
|
0
|
0
|
0
|
31
|
ڈی اینڈ این حویلی اینڈ دمن اینڈ ڈیو
|
0
|
0
|
0
|
32
|
دہلی
|
2
|
3
|
2
|
33
|
جموں وکشمیر
|
0
|
0
|
3
|
34
|
لداخ
|
-
|
-
|
0
|
35
|
لکشدیپ
|
0
|
0
|
0
|
36
|
پڈوچیری
|
0
|
0
|
0
|
|
کل ریاستیں
|
2
|
3
|
5
|
|
کل (آل انڈیا)
|
579
|
553
|
446
|
*****
U.No:1543
ش ح۔رف۔س ا
(Release ID: 1797914)
Visitor Counter : 235