قانون اور انصاف کی وزارت
ناکافی سریع الفیصل عدالتیں اور عدالتوں میں خالی عہدے
Posted On:
10 FEB 2022 4:10PM by PIB Delhi
ججوں کی منظور شدہ تعداد کے حوالے سے ججوں اور آبادی کا تناسب 31.12.2021 تک (دس لاکھ کی آبادی کیلئے ایک جج) 21.03 ہے۔ کسی خاص سال میں ہر دس لاکھ کی آبادی کے لئے ججوں اور آبادی کے تناسب کا حساب لگانے کی خاطر متعلقہ محکمہ 2011 کی مردم شماری اور مخصوص سال میں سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور ضلعی اور ماتحت عدالتوں میں ججوں کی منظور شدہ تعداد کے بارے میں دستیاب معلومات کے مطابق آبادی کو ملحوظ خاطر رکھنے کا معیار استعمال کرتا ہے۔
امتیاز احمد بمقابلہ ریاست اتر پردیش معاملے میں سپریم کورٹ نے اگست 2014 میں نیشنل کورٹ مینجمنٹ سسٹم کمیٹی (این سی ایم ایس کمیٹی) سے کہا تھا کہ وہ لاء کمیشن کی طرف سے اپنی 245 ویں رپورٹ (2014) میں دی گئی سفارشات کا جائزہ لے اور اس سلسلے میں اپنی سفارشات پیش کرے۔ لاء کمیشن نے ججوں اور آبادی کے تناسب کو ملک میں ججوں کی تعداد کی مناسبت کے تعین کا سائنسی معیار نہیں گردانا۔ البتہ لاء کمیشن نے یہ محسوس کیا کہ ملک کی مختلف ہائی کورٹس میں ڈیٹا اکٹھا کرنے کے ایک مکمل اور سائنسی اپروچ کی عدم موجودگی میں التوا میں پڑے مقدمات کو ختم کرنے کے لئے درکار اضافی ججوں کی تعداد کا حساب لگانے کے علاوہ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ نئے معاملات التوا میں نہ پڑیں "ڈسپوزل کی شرح" کا طریقہ زیادہ عملی اور مفید ہے۔
نیشنل کورٹ مینجمنٹ سسٹم کمیٹی نے مارچ 2016 میں سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں منجملہ اور باتوں کے یہ مشاہدہ بھی کیا گیا ہے کہ طویل مدت میں ماتحت عدالتوں کے ججوں کی افرادی قوت کا اندازہ سائنسی طریقہ سے کرنا ہوگا تاکہ ہر عدالت کے کیس کے بوجھ کو نمٹانے کے لئے درکار کل "عدالتی اوقات" کا تعین کیا جا سکے۔ عبوری طور پر کمیٹی نے "ویٹڈ" ڈسپوزل اپروچ تجویز کیا ہے یعنی مقامی حالات میں کیسز کی نوعیت اور پیچیدگی کے لحاظ سے مقدمات نمٹانا۔
معزز سپریم کورٹ کے 07.07.2021 کے حکمنامے میں درج ہدایت کے مطابق نیشنل کورٹ مینجمنٹ سسٹم کمیٹی کی حتمی رپورٹ کی متعلقہ کاپی ضروری کارروائی کے لئے سپریم کورٹ کی طرف سے رجسٹری کے ذریعے تمام ہائی کورٹس کو بھیجی جانی تھی اور اس ہدایت کی تعمیل بھی کی گئی۔ ججوں کی افرادی قوت اور عدالتی انفراسٹرکچر میں اضافہ ایگزیکٹو اور عدلیہ کے درمیان ایک مسلسل اور باہمی تعاون پر مبنی عمل ہے۔ اس کے لئے مختلف آئینی حکام سے مشاورت اور منظوری کی ضرورت پیش آتی ہے۔
سریع الفیصل عدالتیں سمیت ماتحت عدالتوں کا قیام اور ان کے کام کاج کے معاملات متعلقہ ہائی کورٹوں کے مشورے سے ریاستی حکومتوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ انصاف تیزی سے فراہم کرنے کے لئے 14ویں مالیاتی کمیشن نے 2020-2015 کے دوران 1800 سریع الفیصل عدالتیں قائم کرنے کی سفارش کی تھی اور ریاستی حکومتوں پر زور دیا تھا کہ وہ ٹیکس کی منتقلی (32 فیصد سے 42 فیصد) کے ذریعے دستیاب بہتر مالیاتی وسائل کا استعمال کریں۔یہ قدم خواتین، بچوں، بزرگ شہریوں، معاشرے کے دیگر کمزور طبقوں وغیرہ سے متعلق گھناؤنے جرائم کے مخصوص نوعیت کے مقدمات، دیوانی مقدمات اور 5 سال سے زیادہ وقفے سے زیر التواء جائیداد سے متعلق مقدمات سے نمٹنے کے لئے اٹھایاگیا تھا۔ دسمبر 2021 تک ہائی کورٹوں کے ذریعہ فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 22 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں میں کل 898 فاسٹ ٹریک عدالتیں کام کر رہی ہیں۔
محکمہ انصاف 1023 خصوصی سریع الفیصل عدالتوں کے قیام کی ایک اسکیم کو عمل میں لارہا ہے جس میں 389 خصوصی پی او سی ایس اوعدالتیں بھی شامل ہیں۔ اس کا مقصد عصمت دری اور پی او سی ایس او ایکٹ سے متعلق مقدمات کی جلد سماعت اور نمٹارا کیا جانا ہے۔ یہ مرکزسے اعانت یافتہ اسکیم ہے جواکتوبر 2019 میں ایک سال کی مدت کے لئے شروع کی گئی تھی۔ اب اس کی میعاد مزید دو سال کے لئے یعنی 31.03.2023 تک بڑھا دی گئی ہے۔ اس پر کل لاگت 1572.86 کروڑ روپے کی آرہی ہے۔ جس میں مرکز کا حصہ 971.70 کروڑ روپے ہے۔ دسمبر 2021 کے لئے ہائی کورٹوں کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق کل 700 خصوصی سریع الفیصل عدالتیں بشمول 383 خصوصی پی او سی ایس او عدالتیں ملک بھر کی 27 ریاستوں اور مرکزی خطوں میں کام کر رہی ہیں۔
عدالتوں میں مقدمات کو نمٹانا عدلیہ کے دائرہ اختیار میں ہے۔ متعلقہ عدالتوں کی جانب سے مختلف نوعیت کے مقدمات کو نمٹانے کے لئے وقت کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے۔ عدالتوں میں مقدمات کو نمٹانے میں حکومت کوئی کردار ادا نہیں کرتی۔ عدالتوں میں مقدمات کو بروقت نمٹانے کا انحصار کئی عوامل پر ہوتا ہے جن میں منجملہ اور باتوں کے ججوں اور عدالتی افسران کی مناسب تعداد کی دستیابی، معاون عدالتی عملہ اور فیزیکل انفرااسٹرکچر، ملوث حقائق کی پیچیدگی، ثبوت کی نوعیت، متعلقین یعنی بار، تحقیقاتی ایجنسیوں کا تعاون، گواہوں اور قانونی چارہ جوئی کرنے والوں اور قواعد و ضوابط کا مناسب اطلاق شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی عوامل ہیں جن کی وجہ سے مقدمات نمٹانے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ ان میں منجملہ اور باتوں کے ججوں کے خالی عہدے، بار بار التواء اور سماعت کے لئے مقدمات کی نگرانی، ٹریک اور انہیں یکجا کرنے کے لئے مناسب انتظامات کا فقدان شامل ہیں۔
یہ اطلاع آج راجیہ سبھا میں قانون اور انصاف کے مرکزی وزیر جناب کرن رجیجو نے فراہم کی۔
***
ش ح۔ ع س۔ ک ا
(Release ID: 1797378)
Visitor Counter : 218