نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

نائب صدر نے مفت سہولتوں کی فراہمی پر وسیع تر بحث کی ضرورت پر زور دیا


پی اے سی  قلیل وسائل کے متوازن اور مؤثر استعمال کا جائزہ لے

جناب وینکیا نائیڈو کے مطابق پی اے سی کی طرف سے  جانچ کا خوف مالی نقصانات کو روکتا ہے

جناب نائیڈو نے ہر سال پارلیمنٹ کی کم از کم 100نشستوں کے اہتمام کا مشورہ دیا

رہنمایان  نظم و ضبط، وقت کے شعور اور اخلاقیات کے پابند بنیں

Posted On: 04 DEC 2021 3:34PM by PIB Delhi

اِس تمہید کے ساتھ  کہ وسائل کی بنیاد اور اُن کا بہترین استعمال ترقی پذیر معیشتوں کو ترقی یافتہ ملکوں کی معیشت سے الگ کرتا ہے، نائب صدر جمہوریہ ہند اور راجیہ سبھا کے چیئرمین جناب ایم وینکیا نائیڈو نے آج مفت سہولتوں کی فراہمی پر وسیع تر بحث کی ضرورت پر زور دیاتاکہ ملک میں قلیل وسائل کے انتہائی مؤثر استعمال کو یقینی بنایا جا سکے۔

انہوں نے حکومتوں کی فلاحی ذمہ داریوں کے تحت مفت سہولتوں کی فراہمی پر خرچ کو ترقیاتی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے پر زور دیا اور پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) پر زور دیا کہ وہ اس پہلو کا جائزہ لے تاکہ وسیع تر عوامی بحث کو ممکن بنایا جا سکے۔

جناب نائیڈو نے آج نئی دہلی میں پی اے سی کے 100 سال پورے ہونے کے موقع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کردہ  رقوم کے دانشمندانہ، دیانت دارانہ اور اقتصادی طور پر کفایتی استعمال کی ضرورت پر زور دیا تاکہ یہ یقینی بن سکے کہ  ہر روپیہ  معلنہ سماجی و اقتصادی نتائج کو حاصل کرنے کے لئے  ہی خرچ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی اے سی جو کہ تمام پارلیمانی کمیٹیوں میں سب سے قدیم اور بنیادی ادارہ ہے، وسائل کے اس طرح کے مؤثر استعمال کو یقینی بنانے کی پابند ہے۔

مفت سہولتوں پر بڑھتے ہوئے اخراجات کے تناظر میں جناب نائیڈو نے کہا کہ ’’ مختلف حکومتوں کی طرف سے واضح وجوہات کی بناء پر مفت سہولتیں فراہم کرنے کے موجودہ منظرنامے سے ہم سب واقف ہیں۔ ضرورت مند لوگوں کی فلاح و بہبود اور سماجی تحفظ کو یقینی بنانا حکومتوں کی اگرچہ ایک اہم ذمہ داری ہے لیکن وقت آ گیا ہے کہ فلاح و بہبود اور ترقی کے مقاصد کو ہم آہنگ کرنے پر وسیع تر بحث کی جائے۔ اخراجات کو احتیاط سے متوازن بنایا جانا چاہیے تاکہ قلیل مدتی اور طویل مدتی دونوں طرح کے ترقی کے مقاصد  کو یکساں توجہ حاصل ہو۔ چونکہ پی اے سی کو سماجی و اقتصادی نتائج کے لحاظ سے وسائل کے استعمال کی موثریت کا جائزہ لینا ہوتا ہے اس لئے کمیٹی کیلئے درست ہوگا کہ وہ وسیع تر غور و فکر کے لئے ان دو مقاصد کو متوازن کرنے کے معاملے کا جائزہ لے۔

جناب نائیڈو نے نوٹ کیا کہ اگرچہ پی اے سی اُن اخراجات کی جانچ کرتی ہے جو کئے جا چکے ہیں اس کی رپورٹ، مشاہدات اور سفارشات کو ارکان پارلیمنٹ کے سوالات اور ان پر مبنی مباحث اور میڈیا رپورٹنگ کے ذریعے مزید وسعت دی جاتی ہے۔ جناب نائیڈو نے کہا کہ علاوہ ازیں پی اے سی کی جانب سے حکومت کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں پر نظر رکھنے سے تمام متعلقہ افراد میں 'جانچ کا خوف' پیدا ہوتا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں نظامی بہتری اور 'مالی نقصانات' (بڑے پیمانے پر بے قاعدگیوں اور فضول خرچی) کی روک تھام ہوتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ  پی اے سی کے اپنے کردار اور اہمیت کے پیش نظر اُس میں ہر رکن اسمبلی شامل ہونے کا خواب دیکھتا ہے۔

فضول خرچی اور قلیل وسائل کے غلط استعمال کے دائرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جناب نائیڈو نے سابق وزیر اعظم جناب راجیو گاندھی کے تقریباً 35 سال پہلے کے اس قول کو یاد کیا  کہ خرچ کئے جانے والے ہر روپیہ میں سے صرف 16 پیسے عوام کے پاس پہنچے، کہا کہ اس حوالے سے از سر نو جائزہ لیا جائے۔

نائب صدر جمہوریہ نے بدعنوانی کی روک تھام اور نظم و نسق کو بہتر بنانے کے علاوہ وسائل کے مؤثر استعمال کے لئے مودی حکومت کی طرف سے شروع کردہ مختلف اقدامات کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ "اس موقع پر یہ بات یاد رکھنا بے موقع نہیں ہوگا کہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت والی حکومت نے گزشتہ سات برسوں میں محدود وسائل کے مؤثر استعمال کو یقینی بنانے کے لئے وسیع پیمانے پر اقدامات کئے ہیں۔ ایک مثال  فوائد کی براہ راست منتقلی (ڈی بی ٹی) ہے جس کے نتیجے میں کافی بچت ہوئی ہے۔ بدعنوانی کا کافی حد تک خاتمہ کیا گیا ہے اور مختلف سطحوں پر حکمرانی کو بہتر بنانے کے لئے پرجوش کوششیں شروع کی گئی ہیں۔

جناب نائیڈو نے اس بات پر زور دیا کہ لوگوں تک فائدے اس طرح پہنچائے جائیں کہ کہیں کوئی قطار،  کوئی انتظار کی فہرست، کوئی ملاقات، کوئی سلام دعا، کوئی مصافحہ اور کوئی اِس ہاتھ سے اُس ہاتھ کا معاملہ نہ ہو۔ اس طرح سے  ڈی بی ٹی اس مقصد کو پورا کر رہا ہے۔

گزرتے برسوں کے ساتھ   پی اے سی کے اشتراک  کی تعریف کرتے ہوئے جناب نائیڈو نے کہا کہ اس کی مؤثر کارکردگی ایگزیکٹیو کی مالیاتی جوابدہی کو یقینی بناتی ہے جو ایک مؤثر کام ہے۔ اس سے پارلیمنٹ کے 'نگرانی' کے کام اور عوامی مالیات کے انتظام میں لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ عوامی اخراجات میں احتساب اور شفافیت سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بہتر ہوتا ہے۔

نائب صدر جمہوریہ نے پی اے سی پر زور دیا کہ وہ مرکزی حکومت کے بجٹ اخراجات کے تناظر میں جو 17,766 گنا اضافے کے ساتھ پہلے بجٹ کے محض 197 کروڑ روپے سے بڑھ کر اب 35 لاکھ کروڑ روپے ہو گئے ہیں، مالی نظم و ضبط کو زیادہ مؤثر طریقے سے یقینی بنانے کے لئے جس کی نگرانی  زیادہ پیچیدہ اور چیلنجنگ ہے، گزشتہ 100 برسوں کے تجربے کی بنیاد پر اپنے آپ کو از سر نو تشکیل دے۔

جناب نائیڈو نے ہر سال پارلیمنٹ کی کم از کم 100 نشستیں طلب کرنے  کا مشورہ دیا۔اور کہا کہ ریاستی اسمبلیوں کی بھی اتنی ہی نشستیں کی جائیں تاکہ مختلف مسائل پر تفصیلی بات چیت ہو سکے۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ اپوزیشن اور حکومت میں رہتے ہوئے الگ الگ  باتیں کرنے کے بجائے اس رُخ پر ایک مستقل موقف اختیار کریں۔

جناب نائیڈو نے پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کے کام کاج کو بہتر بنانے پر بھی زور دیا کیونکہ وہ سیاسی تقسیم سے اوپر اٹھ کر دو طرفہ بات چیت کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ جناب نائیڈو نے زور دیے کر کہا کہ عوامی زندگی میں سرگرم سبھی لوگوں کو ’’نظم و ضبط، وقت کے شعور اور اخلاقیات کی پابندی کرنی چاہیے‘‘۔

****

U.No:13741

ش ح۔رف۔س ا


(Release ID: 1778052) Visitor Counter : 166


Read this release in: English , Hindi , Punjabi , Tamil