وزارت اطلاعات ونشریات

برکس فلم فیسٹیول، افّی فلم فیسٹیول کےفریم ورک کے ساتھ پہلی بارمنعقد ہوا


افّی کے فریم ورک میں، برکس فلم فیسٹیول زیادہ مرئیت حاصل کر رہا ہے: تھانڈی ڈیوڈز، جیوری ممبر

سنیما اور فلمی پیشہ ور افراد کو ایک چھت تلے لانے کے لیے فلمی مقابلے اہم ہیں: نینا کوچیلیوا، جیوری ممبر

Posted On: 27 NOV 2021 9:05PM by PIB Delhi

نئی دہلی،27نومبر 2021:   آج گوا میں راہول رویل، مشہور ہندوستانی فلم ڈائریکٹر، ایڈیٹر اور برکس فلم فیسٹیول کے جیوری چیئرپرسن نے 52ویں بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں ایک پریس کانفرنس میں کہا ’’ہم سب مختلف ثقافتوں، مختلف پس منظر اور مختلف سوچ کے عمل سے ہیں۔ متفقہ طور پر اس مقابلے کے لیے ایک بہترین فلم کا انتخاب کرنے کے لیے ایک ہی جگہ پر اکٹھا ہونا اپنے آپ میں ایک کارنامہ ہے‘‘۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/10-1VDMI.jpg

پہلی بار، 20-28 نومبر، 2021 کے دوران گوا میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی فلم فیسٹیول آف انڈیا کے ساتھ ساتھ برکس فلم فیسٹیول کا بھی انعقاد کیا گیا۔ یہ برکس فلم فیسٹیول کا چھٹا ایڈیشن ہے جس میں پانچ ممالک کی  فلموں کےایک خصوصی پیکیج میں، برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کی فلموں کی نمائش کی گئی ہے۔

 افّی نے اس سال پانچ بڑی ابھرتی ہوئی معیشتوں اور دنیا کے معروف فلم پروڈکشن ممالک کو یکجا  کیا ہے۔ اس مسابقتی فیسٹول کی جیوری میں 5 ممبران شامل ہیں، جس میں ہر برکس ملک کا ایک رکن ہے۔ ان میں راہول رویل (جیوری چیئرپرسن) (انڈیا)، ماریا بلانچے ایلسینا ڈی مینڈونسا (برازیل)، تھانڈی ڈیوڈس (جنوبی افریقہ)، نینا کوچیلیوا (روس) اور ہوو کیمنگ (چین) شامل ہیں۔

جیوری ممبران نے تقریباً بیس فلمیں دیکھی اور ایوارڈز کی پانچ کیٹیگریز میں بہترین فلموں کا فیصلہ کیا جو ایک سرٹیفکیٹ اور میمنٹو پر مشتمل ہوگا۔ کیٹیگریز میں بہترین فلم، بہترین ہدایت کار، بہترین اداکار (مرد)، بہترین اداکار (خواتین) اور جیوری کا ذکر کیا گیا ہے۔

راہول رویل، تھانڈی ڈیوڈس اور نینا کوچیلیوا نے افّی 52 میں منعقدہ پریس کانفرنس میں شرکت کی۔

   افّی 52کے آخری دن یعنی 28 نومبر 2021 کو اختتامی تقریب کے موقع پر، برکس فلم فیسٹیول کی ایوارڈ تقریب بھی ہوگی۔ برازیل کے نامور پروڈیوسر اور جیوری کے رکن تھانڈی ڈیوڈس نے اس پر اتفاق کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہم سب کے لیے ایک غیر معمولی ثقافتی سفر رہا ہے، مختلف ثقافتوں سے روشناس ہونا، ان سب کے تنوع کو دیکھنا، ہم نے ان فلموں اور ان آوازوں سے سیکھا جن سے ہم نے یہ سب سنا ہے‘‘۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/10-2NXI0.jpg

ڈیوڈس نے کہا کہ اس قسم کے فیسٹیول کو فروغ دینے اورانکا اپنا ایک وجود قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ’’جو فلمیں ہم بناتے اور سنتے ہیں اور اپنی آوازوں کو دوسروں کے بجائے اپنی آنکھ سے ہی دیکھتے ہیں، ان کو بلند کرنا ضروری ہے۔ اس سے پہلے، میں نے روسی نقطہ نظر سے دوسری جنگ عظیم کی فلم کبھی نہیں دیکھی، اس لیے یہ بہت دلچسپ اور تازگی تجربہ تھا‘‘۔

جیوری کی ایک اور رکن ، سینئر محقق اور روس کی فیکلٹی نینا کوچیلیوا  نے کہا کہ یہ ہر ملک کی فلموں کا بہت اچھا انتخاب ہے۔ ہر فلم اپنی اپنی ثقافت، زبان اور معنی کی نمائندگی کرتی تھی۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/10-3NRRZ.jpg

انہوں نے بتایا کہ برکس فلم فیسٹیول کے آخری ایڈیشن میں روسیوں نے ایک خصوصی تقریب منعقد کی تھی جس کا عنوان تھا ’’ ہالی ووڈ کوبرکس سنیما کا متبادل‘‘۔  کوچیلیوا نے کہا، ’’ہم اپنے وژن کو دنیا کے سامنے لاتے ہیں اور ہم اسے تیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ فلمی مقابلے نہ صرف ہمارے سینما کو فوکس میں لانے کے لیے اہم ہیں، بلکہ یہ پیشہ ور افراد کو بھی ایک چھت کے نیچے اکٹھا کر کے دنیا کے سامنے لائے گا‘‘۔

خواتین فلم سازوں کو ان ممالک میں مرکزی حیثیت حاصل کرنے کے بارے میں، رول نے کہا،’’اگرچہ ہم مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں، لیکن بنیادی مسائل ایک جیسے ہیں۔ تاہم، جن ثقافتوں سے وہ نکل رہے تھے وہ مختلف ہیں۔ اس کا زیادہ تر حصہ خواتین کو بااختیار بنانے پر تھا۔ میری خواہش ہے کہ مستقبل میں بھی خواتین کی قیادت والی فلموں کو تلاش کرنے کے لیے اس طرح کے مزید اقدامات کیے جائیں‘‘۔

ڈیوڈس نے مزید کہا، ’’جب ہم خواتین فلم سازوں کو دیکھتے ہیں، تو ہمیں لگتا ہے کہ وہ خواتین پر مبنی مسئلے کے بارے میں بات کرنے جارہی ہیں۔ لیکن، ایسی فلمیں تھیں جن کا خواتین سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ ان خواتین کی آوازیں سنی جاتی ہیں۔ اگرچہ ان تمام فلموں میں مرکزی موضوع نہیں ہے، لیکن خواتین کی نگاہیں موجود ہیں۔ یہ خواتین کے مسائل کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اس بارے میں ہے کہ ایک عورت دنیا کو اپنے نقطہ نظر سے کیسے دیکھتی ہے‘‘۔

 او ٹی ٹی پلیٹ فارم،  فلمیں دیکھنے کا ایک نیا طریقہ فراہم کررہے ہیں لیکن بڑی اسکرینوں پر فلمیں دیکھنے کا مزہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ اس کی تصدیق کرتے ہوئے، راویل نے، جنہوں نے لو اسٹوری اور بیتاب جیسی فلمیں بنائی ہیں، کہا، ’’مجھے نہیں لگتا کہ او ٹی ٹی بڑی اسکرینوں کی جگہ لیں گے۔ او ٹی ٹی دوسرے ممالک کی فلمیں دیکھنے اور پرانی فلمیں دیکھنے کے لیے بہت اچھے ہیں لیکن یہ فلمساز ہے جو فیصلہ کرے گا کہ وہ، فلم، بڑی اسکرین کے لیے بنا رہا ہے یا محدود جگہ کے لیے‘‘۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/10-44VOS.jpg

 افّی میں ہونا بہت دلچسپ تھا کیونکہ برکس اور افّی پہلی بار ایک ساتھ آ رہے ہیں۔ یہ برکس کو، افّی فلم فیسٹول کے فریم ورک میں، زیادہ نمائش دے رہاہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ سامعین ان فلموں کا تجربہ بھی کریں گے اور دوسرے ممالک کی ثقافت کا بھی تجربہ کریں گے۔

*****

U.No.13387

(ش ح - اع - ر ا)   



(Release ID: 1775900) Visitor Counter : 203


Read this release in: English , Marathi , Hindi