وزارت اطلاعات ونشریات
52 ویں آئی ایف ایف آئی میں سنہرے طاؤس کی دعویدار فلم "نو گراؤنڈ بی نیتھ دی فیٹ" یہ پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کس طرح انسانی زندگی کو متاثر اور نفسیاتی طور پر تباہ کر سکتی ہے
"پائرے تولے ماٹی نائی" ایک اور سپر اسٹار وبائی بیماری – موسمیاتی تبدیلی کی وبا – کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتی ہے: فلم ساز ابو شاہد ایمون
"ہمیں امید ہے کہ لوگ واقعتاً موسمیاتی تبدیلی کو سب سے بڑی تباہی اور انسانی تہذیب کو درپیش سب سے بڑے خطرے کے طور پر تسلیم کریں گے"
نئی دہلی۔ 27 نومبر سیلابی پانی کے طوفان سے تباہ، اس کا خاندان اپنے مردہ باپ کو دفنانے کے لیے زمین کے ایک ٹکڑے تک کے لیےجد و جہد کرنے پر مجبور روح کو کچلنے والی اذیت سے پارہ پارہ ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے اندرونی صدمے کی طغیانی سے بے خبر ہونے کے باوجود اسے اپنے سیلاب سے متاثرہ گاؤں تک پہنچنے کے لیے اخلاقی تنزلی، قتل و غارت گری، دھوکہ دہی اور سماجی تنازع کا ایک تھکادینے والا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ اپنی آستینیں اوپر کرو اور پھر اپنے آپ کو ناقابل فہم اور واحد مصیبت یعنی سیلاب کے پانی میں چلنے کے لیے تیار کرو، جسے ایمبولینس کے غریب ڈرائیور سیفول کو بھی برداشت کرنا پڑا۔ نہ صرف اپنے آپ کو اس مصیبت میں غرق کرنے کے لیے، بلکہ ان نقصان دہ طریقوں کا ایک نیا ، گہرا اور انتہائی ذاتی ادراک فروغ دینے کے لیے بھی جن میں انسانی آب و ہوا کی تبدیلی ذاتی زندگی اور معاش کو متاثر کرتی ہے۔
ہندوستان کے انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کے جاری 52 ویں ایڈیشن میں فلم شائقین کوایسے ہی تجربے سے گزرنا پڑا اور اس کا سہرا اس بنگلہ دیشی فلم " نو گراؤنڈ بی نیتھ دی فیٹ"(پائرے تولے ماٹی نائی) کو جاتا ہے جس کا اس فیسٹیول میں انڈین پریمیئر ہوا ہے۔ یہ فلم ان پندرہ فلموں میں سے ایک ہے جو سنہرے طاؤس (گولڈن پی کوک) اور اس فیسٹیول کے دیگر ایوارڈوں جیسے بہترین ہدایت کار، بہترین اداکار (مرد)، بہترین اداکار (خاتون) اور خصوصی جیوری ایوارڈ کے لیے مقابلہ کر رہی ہیں۔
آج 27 نومبر 2021 کو فیسٹیول کے اختتامی دن ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، فلم کے پروڈیوسر ابو شاہد ایمون نے فلم کے نمائندوں کو فلم کے بنیادی پیغام کے بارے میں بتایا۔ "فلم پائرے تولے ماٹی نائی یعنی پاؤں کے نیچے زمین نہیں اس بات پر ایک مضبوط نقطہ نظر پیش کرتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کس طرح ہر انسان کی زندگی کو متاثر کر سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ فلم کے ذریعہ، ہم نے یہ دکھانے کی ایک سنجیدہ کوشش کی ہے کہ "سرحدوں کو چھوڑ کر کس طرح موسمیاتی تبدیلی سماجی عدم مساوات کے لیے راہ ہموار کرتی ہے اور نفسیاتی طور پر انسانوں کومنتشر کر دیتی ہے۔"
یہ فلم ہدایت کار محمد ربی مردھا کی پہلی فیچر فلم ہے، جو بنگالی میں پائرے تولے ماٹی نائی کے نام سےموسوم ہے۔ ایمون نے انکشاف کیا کہ کس بات نے انہیں یہ فلم بنانے کی ترغیب دی ، جس میں موسمیاتی تبدیلی، غربت اور معاشرتی خرابیوں جیسے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ "موسمیاتی تبدیلی حقیقی ہے اور یہ اب ہو رہی ہے۔ ہماری کوشش ایک اور سپر اسٹار وبائی بیماری کے بارے میں بات شروع کرکے ایسا تاثر پیدا کرنا ہے ، جس کے بارے میں لوگ ابھی بات کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ہمیں امید ہے کہ لوگ واقعتاً موسمیاتی تبدیلی کو سب سے بڑی تباہی اور انسانی تہذیب کو درپیش سب سے بڑے خطرے کے طور پر تسلیم کریں گے۔
یہ فلم مسئلے کی سنگینی کو کیسے سامنے لاتی ہے؟ اس کے بارے میں ایمون بتاتے ہیں: "فلم میرے مرکزی کردار کے سفر کی پیروی کرتی ہے، جس میں معاشرے کو موسمیاتی تبدیلیوں اور ہجرت کے اثرات اور اس کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نقل مکانی کا ایک آئینہ دکھایا گیا ہے۔"
اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہ ان کی فلم حقائق پر مبنی ایک افسانہ ہے لیکن یہ حقیقی لوگوں کی مخصوص کہانیوں پر نہیں بنی ہے، ایمون نے کہا: "ہمارا مقصد حقیقت کو انتہائی فطری اور حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کرنا تھا۔"
اس فلم کے پروڈیوسر، جو خود بنگلہ دیش کی فلم انڈسٹری کے نامور ہدایت کار اور مصنف بھی ہیں، انہوں نے ناظرین کو بتایا کہ کس طرح جبری نقل مکانی اور نقل مکانی عالمی حدت یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک دور اندیشانہ لیکن یقینی اور ناقابل قبول نتیجہ ہے۔ "اچانک پیدا ہونے والے اپنے مخصوص حالات سے مجبور ہو کر، لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر ان جگہوں پر منتقل ہونے کی کوشش کرتے ہیں جہاں وہ کسی اور غیر آرام دہ علاقے میں داخل ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں متاثرین کی زندگی میں ایک نئی قسم کا بحران پیدا ہوتا ہے۔ ہم نے یہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس نقل مکانی نے ہمارے تین مرکزی کرداروں کو کیسے متاثر کیا ہے۔
سیفول کی دو بیویوں میں سے ایک مینا کا کردار ادا کرنے والے اداکارہ پریم آرچی اس پریس کانفرنس میں ایمون کے ساتھ شامل ہوئیں اور فلم میں اداکاری کے اپنے تجربے کو شیئر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ "اس فلم کی شوٹنگ کے دوران، ہمیں کرداروں کے ذریعہ تجربہ کرنے والے مصائب کا پہلی بار سامنا ہوا۔ جس علاقے میں ہم شوٹنگ کر رہے تھے وہاں ریڈ الرٹ جاری کر دیا گیا تھا، اور کچھ مناظرکو شوٹ کرنے کے لیے ہمیں وہاں 10 گھنٹے سے زیادہ بھیگا ہوا اور پانی میں رہنا پڑا۔
اپنے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے، آرچی نے کہا: "مینا ایک باہمت خاتون ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار بھی ہے۔ وہ اپنے خاندان کے لیے تمام مشکلات کا مقابلہ کر رہی ہیں اور جب میں نے اسکرپٹ پڑھا تو میں نے اس کے تئیں احترام محسوس کیا۔"
ہندوستان کے بین الاقوامی فلم فیسٹیول (آئی ایف ایف آئی) میں باقاعدہ طور پر شرکت کرنے والے ابو شاہد ایمون نے فیسٹیول میں دوبارہ آنے پر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا "میں 2014 سے فیسٹیول میں شرکت کر رہا ہوں۔ گزشتہ آئی ایف ایف آئی میں، بنگلہ دیش خصوصی توجہ کا مرکز تھا اور ہماری پروڈکشن کمپنی کی بنائی گئی پانچ فلمیں یہاں دکھائی گئی تھیں۔"
"ہم اپنے آباؤ اجداد سے اس زمین کو وراثت میں حاصل نہیں کرتے بلکہ ہم اسے اپنے بچوں سے ادھار لیتے ہیں۔" یہ فلم ہمیں بتاتی ہے کہ اب کاروائی کرنے کا وقت ہے اور انسانوں کے ذریعہ پیدا ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں اور اس کے تباہ کن اور آفاقی اثرات پر نئے سرے سے توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ش ح ۔ رض ۔ ج ا (
U-13380
(Release ID: 1775861)
Visitor Counter : 217