وزارت اطلاعات ونشریات
کوئی شخص اپنے ایسے والد کو مایوس نہیں کرسکتا جو بذات خود ایک بڑا لیجنڈ رہا ہو: اِفی 52 ڈائریکٹر راجیو پرکاش
وید- دی ویژنری میرے والد کی شخصیت پر مبنی ایک فلم ہے، جنہوں نے ماقبل آزادی و مابعد آزادی بھارت کے انتہائی اہم واقعات کی دستاویز بندی کی: اِفی 52 انڈین پینورما غیر فیچر افتتاحی فلم کے ڈائریکٹر
کیا آپ یقین کریں گے ، اگر ہم کہیں کہ آپ وید پرکاش سے ملاقات کرسکتے ہیں، جنہوں نے اِفی میں جنوری 1948 میں مہا تما گاندھی کے آخری رسوم کا نیوز کوریج تیار کیا تھا؟ بد قسمتی سے اب وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن ہم دستاویزی فلم ’وید- دی ویژنری‘ کی بدولت اُن کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ ان کے بیٹے راجیو پرکاش کی ہدایت کاری میں بنی یہ فلم 1939 سے 1975 کے دوران نیوز ریل کی فلم بندی کی دنیا کو فتح کرنے کے اُن کے سفر کی ایک جھلک پیش کرتی ہے۔
اس دستاویزی فلم کو افی 52 انڈین پینورما - غیر فیچر فلم زمرے کی افتتاحی فلموں میں رکھا گیا ہے۔ ان کے بیٹے راجیو پرکاش ، جو کہ خود بھی فلم ڈائریکٹر ہیں اور ان کی پوتی نیز فلم کی اسکرین پلے رائٹر لُبھانی پرکاش نے آج گوا میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔
ڈائریکٹر نے اس بات کی وضاحت کی کہ اس فلم کا تصور کیسے اُن کے ذہن میں آیا۔ اس کا سہرا کسی شخص کی اُس تحریر کی دریافت کے سر ہے، جنہوں نے ان کے والد سے ملاقات کی تھی۔ ’’ایک دن جب میں انٹرنیٹ سرفنگ کر رہا تھا، میں نے اپنے والد کا نام ٹائپ کیا تاکہ کچھ تفصیلات دیکھ سکوں کہ اچانک میں نے پایا کہ کسی شخص نے میرے والد کے بارے میں ’فرسٹ پرسن‘ کے فارمیٹ میں لکھا تھا ’آئی ہیپنڈ ٹو میٹ ویٹ---‘ یعنی میری وید سے ملاقات ہوئی تھی۔ میرے والد کا انتقام 1975 میں اُس وقت ہو گیا تھا جب میں اسکول میں ہی تھا۔ میں بھی انہیں کے پیشے سے وابستہ ہو گیا لیکن کبھی بھی اس دستاویزی فلم کو بنانے کا خیال نہیں آیا۔ وہ تحریر اس بات پر ختم ہوئی تھی کہ ’میں 1975 میں ایک بار پھر وید سے ملا، ان کے ساتھ لنچ کیا۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد سننے میں آیا کہ وہ گزر چکے ہیں‘۔ یہ جملے میرے لئے چشم کشا ثابت ہوئے۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ وہ ’میں‘ کون تھا اور اس طرح سے ’وید – دی ویژنری‘ منظر عام پر آئی۔
جناب پرکاش نے افی کے مندوبین کو ، ان کے والد کے ذریعے کی گئی نیوز رپورٹنگ کی گہرائی اور وسعت کے بارے میں بتایا۔ ’’یہ میرے والد کی شخصیت پر ایک فلم ہے۔ ان کے کیریئر کا آغاز 1939 میں ہوا تھا اور اس کا سلسلہ 1975 تک جاری رہا۔ جب وہ برٹش پیرا ماؤنٹ نیوز ، انگلینڈ کے لئے کام کر رہے تھے اور بھارت کی نمائندگی کر رہے تھے، تو انہوں نے ماقبل آزادی اور مابعد آزادی ملک میں پیش آئے سبھی انتہائی اہم واقعات کی کوریج کی۔ ان کے غیر معمولی کاموں میں جنوری 1948 میں مہا تما گاندھی کے آخری رسوم کا نیوز کوریج بھی شامل ہے، جسے 1948 میں برٹش اکیڈمی ایوارڈس کے لئے نامزد کیا گیا تھا۔ ان کے ذریعے کئے گئے کوریج میں بھارت کے آزاد ہونے کے بعد اقتدار کی منتقلی ، بھارت کی تقسیم کے بعد پیش آئے سانحے بھی شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ فلم نہیں بنتی تو ’وید پرکاش کا نام دفن ہو گیا ہوتا لیکن اس فلم کے بننے سے ان کا نام تاریخ میں رقم ہو گیا ہے‘۔
پرکاش نے فوٹیجز اور نیوز کوریج کی معتبریت کے حصول کے لئے اپنی جدو جہد کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’ اس وقت ہر کسی کے ذریعے لئے گئے فلم شاٹس تھے، لیکن آپ کیسے پہنچانیں گے کہ یہ شاٹ وید پرکاش کے ذریعے لیا گیا ہے؟ ‘ انہوں نے وضاحت کی کہ کیسے وہ برٹش یونیورسٹی کی سائٹ پر ان کے ذریعے شاٹ لئے گئے فلموں اور نیوز کوریج کی نشان دہی کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ویب سائٹ پر ان کا نام ٹائپ کیا اور ان کے ذریعہ فلمائے گئے 146 فلم شاٹ ملے۔
’’مجھے نہیں معلوم کہ یہاں موجود کسی شخص نے ڈوپ شیٹ دیکھی ہے یا اس کے بارے میں سنا ہے- آپ ایک نیوز کوریج شوٹ کرتے ہیں- آپ نے اپنے ذریعہ لئے گئے شاٹس کے بارے میں صراحت کرتے ہیں اور اس کا سکوینس بتاتے ہیں۔ جب میں نے وہ سبھی 146 ٖفوٹیج اور ڈوپ شیٹس دیکھیں، جن کا کریڈٹ ’وید پرکاش ‘ کو دیا گیا ہے، تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ میرے والد کے ہیں، میرے لئے اس بات کو یقینی بنانا اہم تھا کہ مشمولات مستند ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ کیا کوئی شخص اپنے ایسے والد کو مایوس کر سکتا یا اس کا سر جھکا نے کا کام کرسکتا ہے، جو اتنا بڑا لیجنڈ رہا ہو‘‘۔
پرکاش نے اس بارے میں بھی بتایا کہ کیسے ان کے والد کی برادری سے تعلق رکھنے والی بڑی شخصیات اس فلم کو بنانے کے دوران ان کی مدد کے لئے آگے آئیں۔ چاہے مائک پانڈے ہوں، رگھو رائے ہوں، نریش بیدی صاب ہوں، مارک ٹلی ہوں، وہ سب اس تعلق سے پرجوش تھے اور انہوں نے اس فلم کے لئے ، جو کچھ وہ کرسکتے تھے، کرنے کی پیش کش کی۔ وہ سب اس پروجیکٹ کے تئیں خوش تھے، کیونکہ بہت کم لوگ ہیں، جو اپنے والدین کے اوپر فلم بنانے کی پہل کرتے ہیں۔
انہوں نے اپنے والد کے مصاحبین ، رفقائے کار اور دوستوں کا پتہ لگانے میں پیش آئی دشواریوں کے بارے میں بتایا کیونکہ اُن میں سے زیادہ تر ضعیف العمر اور وہ اُن کی بود باش کہاں ہے، اس کا پتہ لگانا آسان نہیں ہے۔ ایک بار میں نے اپنےو الد کی ٹیلی فون ڈائری کھولی اور این بی سی نیوز کے سابق نائب صدر کا ایک نام ملا۔ ان کی بیوی کا نام ، ان کا یوم پیدائش، ان کے دو بیٹوں اور ان کے یوم پیدائش کا ذکر - یہ ضرور ایسے شخص ہوں گے جن سے میرے والد اچھی طرح واقف ہوں گے۔ میں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ وہ اس شخص کا کسی طرح بھی پتہ لگائے اور ہم ان کا پتہ لگانے میں کامیاب بھی ہوگئے۔‘‘
وید پرکاش کی پوتی اور اسکرین پلے رائٹر لُبھانی پرکاش نے اپنے دادا ، جن سے اُن کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی، کی شخصیت پر فلم بنانے کے دوران ہوئے اپنے تجربات کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے بتایا کہ وید پرکاش کو سمجھنے کے سفر کا آغاز ان کے والد کی آنکھوں کے توسط سے ہوا۔ میں نے اپنے دادا کو نہیں دیکھا تھا۔ میرے لئے یہ ایک تحقیق کرنے اور سمجھنے کا سفر تھا۔ میں نے اپنے والد سے ، اپنے ملک کے لئے اہم واقعات کی کوریج کرکے بھارت کے لئے کئےگئے اُن کے عظیم کام کو سمجھا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ایک نوجوان کے طور پر مجھے انتہائی فخر کا احساس ہو رہا ہے۔ جب ہم تاریخ کی طرف پلٹ کر دیکھتے ہیں تو یہ میرے دادا کے نام کے ہم معنی ہے‘‘۔
پرکاش نے کہا کہ ایک بھارتی کے طور پر ، انہیں ایک ایسے بھارتی پر فلم بنانے پر فخر ہے، جنہوں نے دنیا کے لئے نیوز ریل کی تاریخ کو کیمرے میں قید کیا۔ اس پروجیکٹ کی تیاری میں لگنے والے بڑے وقت اور کوششوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کسی شخص کے بارے میں پتہ لگانا کتنا مشکل ہو تا ہے جب آپ کے پاس تفصیل کے طور پر صرف اس کانام ہو۔ ہمیں ’جوزف‘ نام ملا، جو میرے دادا کے رفیق کار ہوا کرتے تھے اور انہوں نے اس شخص کا پتہ لگانے کے لئے سبھی یونیورسٹیوں کو ای- میل اور خطوط بھیجنے شروع کئے۔
لُبھانی نے بھی فخریہ لہجے میں کہا کہ ’’میرے دادا بھارت کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ آج ہم پوری دنیا کو اسے دکھانے کے اہل ہیں۔‘‘
راجیو پرکاش نے بتایا کہ افی وہ پہلی جگہ ہے، جہاں ہم نے اس فلم کو پیش کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ افی پہلا ایسا فلم فیسٹول ہے، جہاں دستاویزی فلمیں دکھائی جارہی ہیں۔
پیشے کے اعتبار سے سنیماٹوگرافر راجیو پرکاش نے بتایا کہ پہلی بار کیمرے کا سامنا کرنا ان کے لئے کتنا مشکل تھا۔ ’’میں اس تعلق کو سمجھ سکتا ہوں کہ لوگوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے، جب وہ کیمرے کے سامنے آتے ہیں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ش ح- م م- ق ر)
U-14026
(Release ID: 1773926)
Visitor Counter : 199