نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
نائب صدر نے انصاف کو قابل رسا اور سستا بنانے کی اپیل کی
عدالتوں میں غیر معمولی تاخیر سے نمٹنے کے طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہے: نائب صدر
قانونی تعلیم فراہم کرنے والی یونیورسٹیوں کو چاہیے کہ وہ طلباء کو تبدیلی کے ایجنٹ بننے کی تربیت دیں: نائب صدر
غریبی، صنفی امتیاز، ناخواندگی، ذات پات اور بدعنوانی کے خاتمہ کے لیے ایک بڑی قومی تحریک کی ضرورت ہے: نائب صدر
نائب صدر نے ہمارے معاشرہ کو بانٹنے کی کوشش کرنے والی قوتوں کے خلاف خبردار کیا
Posted On:
02 NOV 2021 2:16PM by PIB Delhi
نائب صدر جناب ایم وینکیا نائیڈو نے آج سبھی کے لیے انصاف کو قابل رسا اور سستا بنانے اور عدالتوں میں ہونے والی تاخیر کو دور کرنے کی اپیل کی۔
دامودرم سنجیویّا لاء یونیورسٹی کے ذریعے منعقدہ ’’جدوجہد آزادی کاجذبہ: آگے کی راہ‘‘ تھیم پر ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ تقریبات کا افتتاح کرتے ہوئے، نائب صدر جناب نائیڈو نے کہا، ’’ہمیں بڑے پیمانے پر زیر التوا معاملوں اور عدالتوں میں ہونے والی غیر معمولی تاخیر سے نمٹنے کے راستے تلاش کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ انصاف کی فراہمی کے لیے وقت کی کافی اہمیت ہوتی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت اور ریاستوں کی توجہ عدالتی اسامیوں کو پُر کرنے اور مطلوبہ بنیادی ڈھانچہ بنانے پر مرکوز ہونی چاہیے۔ قانونی عمل کی قیمت انصاف کے نظام تک عام آدمی کی رسائی میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے۔
نائب صدر نے اس بات پر زور دیا کہ لاء یونیورسٹیوں کی فیکلٹیوں کو طلباء کو تبدیلی کے ایجنٹ بننے اور ملک میں نظام انصاف کے نظم و نسق میں تبدیلی لانے کی تربیت دینے میں کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔
انہوں نے قانونی برادری سے اپیل کی کہ وہ دبے کچلے اور مظلوم لوگوں کے لیے لڑیں اور انہیں قانونی امداد فراہم کریں۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ لوگوں کو ان کے حقوق بغیر کسی قسم کی کمی یا تبدیلی کے حاصل ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر حقوق فراہم نہیں کیے گئے تو قانونی برادری کو حرکت میں آنا چاہیے۔
جناب نائیڈو نے لوگوں کو تیزی سے انصاف دلانے کو یقینی بنانے کے لیے انفارمیشن ٹکنالوجی کے زیادہ سے زیادہ استعمال پر زور دیا اور تنازعات کے ازالے کے متبادل طریقہ کار سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کے لیے کہا۔
اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ آئین کی تمہید ہمارے مجاہدین آزادی کے وسیع وژن کی عکاسی کرتی ہے، انہوں نے کہا، ’’ہم نے بھارت کو سنجیدگی سے ایک خودمختار، سوشلسٹ، سیکولر، عوامی جمہوریہ بنانے اور اس کے تمام شہریوں کو: انصاف، آزادی، مساوات اور بھائی چارہ فراہم کرنے کا عزم کیا ہے‘‘۔
آزادی کے بعد سے مختلف شعبوں میں ملک کی طرف سے کی گئی پیش رفت کا ذکر کرتے ہوئے نائب صدر نے کہا کہ ہم اپنے ماضی کے کارناموں پر منحصر نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ غریبی، صنفی امتیاز، ناخواندگی، ذات پات اور بدعنوانی وغیرہ کے خاتمے کے لیے جدوجہد آزادی کی طرز پر ایک بڑی قومی تحریک شروع کی جائے۔
بھارت دشمن قوتوں کے ذریعے مذہب، علاقے، زبان یا دیگر مسائل کے نام پر تفریق پیدا کرنے کی کوششوں کے خلاف خبردار کرتے ہوئے، انہوں نے نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ لوگوں کی زندگیوں کو بدلنے کے لیے اس قومی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور ایک مضبوط، خوشحال، صحت مند اور خوش بھارت کی تعمیر میں اپنی پوری طاقت لگائیں۔
ملک کو غیر ملکی حکمرانی سے آزاد کرانے کے لیے لاتعداد مجاہدین آزادی کی جانب سے دی گئی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے نائب صدر نے کہا کہ اسکول کی نصابی کتابوں میں تمام مجاہدین آزادی اور سماجی اصلاح کاروں کی قربانیوں اور کردار کو اجاگر کیا جانا چاہیے اور نوجوانوں کو ملک کی بیش قیمتی تاریخ سے تفصیلی طور پر آگاہ کرنا چاہیے۔
یونیورسٹی کے ذریعہ جناب دامودرم سنجیویا کی صد سالہ سالگرہ کی تقریبات کے موقع پر نائب صدر نے انہیں شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ جناب دامودرم سنجیویا کو ان کی ایمانداری، دیانتداری اور قوم کی بے لوث خدمت کرنے کے عزم کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اعزاز کی بات ہے کہ اس یونیورسٹی کا نام ہندوستان کے اتنے عظیم فرزند کے نام پر رکھا گیا ہے۔
اس موقع پر یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر (ڈاکٹر) ایس سوریہ پرکاش، رجسٹرار پروفیسر (ڈاکٹر) کے مدھو سودن راؤ، فیکلٹی اور طلباء موجود تھے۔
تقریر کا مکمل متن درج ذیل ہے–
’’آج ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ کی تقریبات کے افتتاح میں شرکت کرکے مجھے بے حد خوشی ہو رہی ہے۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ یونیورسٹی جناب دامودرم سنجیویا کی صد سالہ تقریب منا رہی ہے، جو ایک وکیل، مجاہد آزادی اور ہندوستان کے پہلے دلت وزیر اعلیٰ تھے۔
اتفاق سے وہ اس وقت سب سے کم عمر کے وزیر اعلیٰ تھے۔ انہوں نے جناب جواہر لال نہرو کی کابینہ میں وزیر محنت کے طور پر بھی خدمات انجام دی تھیں۔ جناب سنجیویا کو ان کی ایمانداری، دیانتداری اور قوم کی بے لوث خدمت کرنے کے عزم کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ واقعی ایک اعزاز کی بات ہے کہ اس یونیورسٹی کا نام ہندوستان کے ایسے عظیم فرزند کے نام پر رکھا گیا ہے۔
یونیورسٹی کے لیے یہ دوگنا خوش آئند ہے کہ آپ ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ اور جناب دامودرم سنجیویا کی صد سالہ تقریبات ایک ساتھ منا رہے ہیں۔
’آزادی کا امرت مہوتسو‘ ہماری آزادی کے 75 سال مکمل ہونے پر نہ صرف جشن منانے کا وقت ہے، بلکہ ہماری جدوجہد آزادی کے تمام نامور اور گمنام ہیرو کی جدوجہد اور قربانیوں کو یاد کرنے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع بھی ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، ہمارے پاس ایک شاندار زندہ دستاویز ہے، یعنی ’ہندوستان کا آئین‘ جو ہمارے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے جو عدالتوں کے ذریعے قابل نفاذ ہیں۔
لوگوں کے لیے بنیادی فرائض سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ ہندوستانی آئین کے حصہ IV-A کے تحت، آرٹیکل 51 اے میں بنیادی فرائض کے بارے میں بات کی گئی ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے ہر شہری کا فرض ہوگا کہ وہ (الف) آئین کی پابندی کرے اور اس کے نظریات اور اداروں، قومی پرچم اور قومی ترانے کا احترام کرے؛ (ب) ان عظیم نظریات کی پاسداری اور پیروی کرے جنہوں نے ہماری قومی جدوجہد آزادی کو تحریک دی۔ لہٰذا، یہ محض اخلاقی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ایک آئینی فریضہ ہے کہ ہم ان نظریات کی پاسداری کریں اور ان کی پیروی کریں جنہوں نے ہماری جدوجہد آزادی کو تحریک دی۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہمارے سرکردہ مجاہدین آزادی قانونی پیشہ سے تعلق رکھتے تھے، جن میں مہاتما گاندھی، سردار ولبھ بھائی پٹیل، جواہر لال نہرو، ڈاکٹر بی آر امبیڈکر، سر تیج بہادر سپرو، بابو راجندر پرساد، آندھرا کیسری ٹنگوٹوری پرکاشم اور بہت سے دوسرے لوگ شامل ہیں۔
یاد رہے کہ آج ہمیں جو بنیادی حقوق اور آزادی حاصل ہے وہ بہت سے معلوم اور نامعلوم مہاجدین آزادی کی بے شمار قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ وہ نوآبادیاتی حکمرانی کے تحت آزادی سے لطف اندوز نہیں ہو سکے لیکن ہم سب کے روشن اور عظیم مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں۔
پیارے بھائیوں اور بہنوں،
براہ کرم یاد رکھیں کہ ہماری آزادی کی جدوجہد کا حتمی مقصد ہندوستان کے لوگوں کو جابرانہ استعماری حکمرانی سے انصاف فراہم کرنا تھا۔ ہمارے آئین کی تمہید ہمارے مجاہدین آزادی کے عظیم وژن کی عکاسی کرتی ہے۔ تمہید میں، ہم نے ہندوستان کو سنجیدگی سے ایک خودمختار، سوشلسٹ، سیکولر، عوامی جمہوریہ بنانے اور اس کے تمام شہریوں کو: انصاف، آزادی، مساوات اور بھائی چارہ فراہم کرنے کا عزم کیا ہے۔
اس طرح کی یونیورسٹیوں کی فیکلٹی کا کلیدی رول رہے گا کہ وہ طلبہ کو تبدیلی کے ایجنٹ بننے اور ملک میں نظام عدل کی انتظامیہ میں تبدیلی لانے کی تربیت دیں۔ ہمیں نہ صرف نظام انصاف میں تاخیر کو دور کرنے کے طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ انصاف سب کے لیے قابل رسا اور سستا ہو۔
قانونی عمل کی قیمت عام آدمی کی انصاف کے نظام تک رسائی میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے۔ ہمیں عدالتوں میں بہت زیادہ التوا اور غیر معمولی تاخیر سے نمٹنے کے طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بروقت انصاف کی فراہمی بہت ضروری ہے۔
تنازعات کے ازالے کے متبادل طریقہ کار کا مکمل فائدہ اٹھاتے ہوئے، مقدمات کے بار بار التواء سے بچنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو تیز تر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بھی بہترین استعمال کیا جانا چاہیے۔
پیارے بھائیوں اور بہنوں،
انڈیا یعنی بھارت دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ ریکارڈ شدہ تاریخ میں دوسری قدیم تہذیبیں جیسے مصر، یونان، میسوپوٹیمیا اور سمیریا مختلف وجوہات کی بنا پر زندہ نہیں رہیں۔ تاہم، ہماری ثقافت کی فراوانی، فلسفیانہ فکر کی وسعت اور گہرائی اور ہمارے لازوال رسم و رواج اور روایات کی وجہ سے ہمیں قدیم زمانے سے لے کر آج تک ہندوستانی تہذیب میں تسلسل کا ایک دھاگہ ملتا ہے۔
ہندوستان یونانیوں سے لے کر انگریزوں تک کے حملوں کا شکار رہا ہے۔ حملہ آوروں کی متعدد لہروں نے ہندوستان کے خلاف ناقابل بیان مظالم کا ارتکاب کیا۔
ہم جانتے ہیں کہ انگریز یہاں بطور تاجر آئے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی قائم ہوئی اور 24 اگست 1600 کو ’ہیکٹر‘ نامی تجارتی جہاز نے سورت کی مغربی بندرگاہ میں اپنا لنگر ڈال دیا۔
شہنشاہ جہانگیر کے شاہی فرمان کے ساتھ برطانوی تاجروں نے اپنا کاروبار معمولی انداز میں شروع کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کو بمبئی کے شمال میں ڈپو کھولنے کا اختیار دیا۔ اگلے 200 سالوں میں، انہوں نے ہندوستان کو نو آباد کیا اور اپنی حکمرانی قائم کی۔ جیسا کہ وہ کہتے ہیں، باقی تاریخ کا حصہ ہے۔
پیارے بھائیوں اور بہنوں،
انگریزوں نے جو لوٹ کھسوٹ کی، اسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ 1757 میں پلاسی کی جنگ سے لے کر 1947 تک انگریزوں نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی اپنائی اور ہندوستان کی دولت لوٹ کر لے گئے۔
20ویں صدی کے اوائل میں، جنوبی افریقہ سے گاندھی جی کی آمد کے ساتھ آزادی کی رفتار تیز ہوئی۔
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ تحریک آزادی نے دو دھارے دیکھے تھے۔ سب سے زیادہ مقبول کی قیادت مہاتما گاندھی کر رہے تھے اور انہیں اعتدال پسندوں کی حمایت حاصل تھی، جو عدم تشدد پر یقین رکھتے تھے۔ اسی دوران بہت سے نوجوانوں نے ہتھیار اٹھا کر انقلابی پارٹیوں میں شمولیت اختیار کی۔ 13 اپریل 1919 کو جلیانوالہ باغ کا بدنام زمانہ قتل عام ملک کی جدوجہد آزادی میں ایک اہم موڑ تھا۔
بالآخر گاندھی جی کی عدم تشدد، انقلابیوں کی مسلح بغاوت اور ہزاروں مجاہدین آزادی کی شہادت نے ہندوستان کی آزادی کی راہ ہموار کی اور انگریزوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ یقیناً کسی نے پہلے یہ نہیں سوچا تھا کہ ملک کو تقسیم کی دردناک ہولناکیوں سے گزرنا پڑے گا۔
اس علاقے میں گھر کے قریب، عظیم انقلابی الوری سیتا رام راجو سے لے کر گوتھو لچھنا تک بہت سے بزرگ تھے، جنہوں نے انگریزوں کے خلاف بہادری سے لڑا اور عوام کو غیر ملکی حکمرانی کے خلاف بغاوت کرنے کی ترغیب دی۔
آج ملک کے کونے کونے میں ہمارے ہزاروں مجاہدین آزادی کی یادگاریں موجود ہیں۔ میں اپنے ہم وطنوں بالخصوص نوجوانوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ ان کا دورہ کریں، انہیں خراج تحسین پیش کریں اور ہمارے مجاہدین آزادی کی طرف سے دکھائے گئے ناقابل تسخیر حوصلے اور بہادری سے تحریک حاصل کریں۔ 27 سال کی عمر میں اپنی جان دینے والے الوری سیتا رام راجو کی یادگار آپ کی یونیورسٹی کے بالکل قریب نرسی پٹنم میں واقع ہے۔ میں طلباء سے گزارش کروں گا کہ وہ اس کا دورہ کریں اور ہندوستان کے اس عظیم فرزند کی زندگی اور قربانی سے تحریک لیں۔
آج جب ہم ہندوستان کی آزادی کے 75 سال مکمل ہونے اور زراعت سے لے کر خلا تک مختلف شعبوں میں ملک کی طرف سے کی گئی پیش رفت کا جشن منا رہے ہیں، ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے ماضی کے کارناموں پر منحصر نہیں رہ سکتے۔ جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے، ہمیں سونے سے پہلے میلوں کا سفر کرنا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ غریبی، صنفی امتیاز، ناخواندگی، ذات پات اور بدعنوانی وغیرہ کے خاتمے کے لیے جدوجہد آزادی کی طرز پر ایک بڑی قومی تحریک شروع کی جائے۔
ہمیں اپنے مجاہدین آزادی سے تحریک حاصل کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ملک کی یکجہتی، سالمیت اور خودمختاری کے تحفظ سے کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔
ہماری معیشت بحالی کی راہ پر گامزن ہے کیونکہ ہم آہستہ آہستہ کووڈ-19 وبائی مرض کے تباہ کن اثرات سے باہر نکل رہے ہیں جس نے پوری دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے۔
اس عظیم قوم کا مستقبل نوجوان نسل پر منحصر ہے۔ ملک کے عوام، بالخصوص نوجوانوں کو ہندوستان مخالف طاقتوں کے ذریعے مذہب، علاقہ، زبان یا دیگر مسائل کے نام پر تفرقہ پیدا کرنے کی کوششوں سے اس ملک کو بچانا چاہیے۔ میں نوجوانوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ لوگوں کی زندگیوں کو بدلنے کے لیے اس قومی مہم میں سب سے آگے رہیں اور ایک مضبوط، خوشحال، صحت مند اور خوش ہندوستان کی تعمیر میں اپنی پوری طاقت لگائیں۔
میں اس یونیورسٹی کی طرف سے آزادی کا مہوتسو منانے اور طلباء میں حب الوطنی کے جذبے کو بیدار کرنے کے اقدام کی تعریف کرتا ہوں۔
جئے ہند!‘‘
*****
ش ح – ق ت – ت ع
U:12473
(Release ID: 1769024)
Visitor Counter : 186