صدر جمہوریہ کا سکریٹریٹ

صدر جمہوریہ ہند جناب رام ناتھ کووند کا مدراس قانون ساز کونسل کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر خطاب

Posted On: 02 AUG 2021 7:18PM by PIB Delhi

نئی دہلی، 02؍اگست2021: میں اس تاریخی موقع پر آج آپ کے درمیان یہاں آ کر بہت خوش ہوں۔ آج ، میں نے تھوڑی دیر پہلے 'کلائینار' تھیرو ایم کروناندھی کے مجسمے کی نقاب کشائی کی ہے۔ یہ یقینی طور پر یادگار دن ہے! ہم مدراس قانون ساز کونسل کی صد سالہ تقریب منا رہے ہیں ، اس کی ہمیں پہلے سے ہی اطلاع دی گئی تھی۔ اگست ہمارے قومی کیلنڈر میں ایک بہت ہی مقدس مہینہ ہے ، کیونکہ اسی ماہ ہمارے یوم آزادی کی سالگرہ بھی آتیہے۔ ان برسوں کے دوران ، قوم نے کئی محاذوں پر قابل ذکر پیش رفت کی ہے ، اور یہ ملک کے عوام اور رہنماؤں کے مشترکہ اقدامات سے ممکن ہوا ہے۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں ، مدراس قانون ساز کونسل کی تاریخ سنہ 1861 سے شروع ہوتی ہے۔ اس کے بعد ایک مشاورتی ادارہ  کی تشکیل کی گئی ، جو سنہ 1921 میں قانون سازی کا ادارہ بن گیا۔ نوآبادیاتی حکمرانی کے تحت ، یقینا ً، اس طرح کے ادارے کے کام کرنے سے پہلے بہت سی حدود اور چیلنجز تھے۔ اس کے علاوہ ذات ، برادری اور دیگر پیرامیٹرز کی بنیاد پر الگ الگ حلقے تھے۔ پھر بھی ، اگرچہ جزوی طور پر ہی صحیح، یہ ایک ذمہ دار حکومت کی طرف پہلا قدم تھا۔ جمہوریت اپنی جدید شکل میں اس سرزمین پر لوٹ رہی ہے جہاں صدیوں پہلے اس پر عمل کیا گیا تھا۔

یہ مدراس پریذیڈنسی کے لوگوں کی طرف سے ایک نئی شروعات کا پیش خیمہ تھا ، جس میں تمل ناڈو کے ساتھ ساتھ کیرالہ ، کرناٹک ، آندھرا پردیش ، تلنگانہ ، اوڈیشہ اور لکشدیپ کے کچھ حصے شامل تھے۔ ان علاقوں کے لوگوں کے خواب اور خواہشات جو کہ تحریک آزادی کی شکل اختیار کر چکی تھیں ، نئی قانون ساز کونسل میں اظہار خیال پایا۔ ابتدائی مرحلے میں عوامی مینڈیٹ جیتنے والی جسٹس پارٹی میں لوگوں کے پاس اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ایک پلیٹ فارم تھا۔

قانون ساز کونسل نے کئی دور اندیشی پر مبنی قوانین بنائے اور اپنی ابتدائی دہائیوں میں بہت سی تبدیلیاں کیں۔ جمہوریت کا یہی جذبہ ریاستی مقننہ کی رہنمائی کرتا رہتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ مقننہ بہت سے ترقی پسند قوانین کا منبع بن گیا جنہیں بعد میں ملک بھر میں معاشرے کے محروم طبقات کو بااختیار بنانے اور ان کی جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے نافذ کیا گیا۔ مدراس مقننہ نے مکمل طور پر نمائندہ جمہوری طرز حکمرانی کا بیج بویا جو آزادی کے بعد ایک نئی شکل اختیار کر گیا۔

اس مقننہ کو غریبوں کی بہتری اور سماجی برائیوں کے خاتمے کے لیے حکمرانی پر توجہ دے کر جمہوریت کی جڑوں کو سیراب کرنے کا سہرا دیا جا سکتا ہے۔ خطے میں سیاست اور مثبت حکمرانی اور عقلی سوچ کے گرد پروان چڑھی ، جس کا مقصد پسماندہ افراد کی فلاح و بہبود ہے۔ دیوداسی نظام کا خاتمہ ، بیوہ کی دوبارہ شادی ، سکولوں میں دوپہر کا کھانا اور بے زمینوں میں زرعی اراضی کی تقسیم  جیسے چند ایسےانقلابی خیالات تھے، جنہوں نے معاشرے کو بدل دیا۔ فلاحی ریاست کا تصور اس مقننہ میں گہری جڑیں پکڑ چکا ہے ، اس سے قطع نظر کہ اس پر کون حکمرانی کرتا ہے۔ یہاں میں عظیم تمل شاعر سبرامنیم بھارتی کی چند سطروں کا حوالہ دینا چاہتا ہوں ، جو تمل ناڈو کے لوگوں کی ترقی پسند سوچ کا خلاصہ ہے اور میں یہ حوالہ عین ان کے نظریے کے مطابق پیش کر رہا ہوں:

مندرم کارپوم، ونے تندرم کارپوم

وانیہ الپپوم، کڈل مینیہ الپپوم

چندریا منڈلتتو، ایئل کنڈو تیلی ووم

سندی، تیروپیروککم ساتتیرم کارپوم

اسے ایسے سمجھا جا سکتا ہے:

ہم قدیم صحیفوں اور سائنس دونوں سے سیکھیں گے

ہم آسمان اور سمندروں دونوں کو کھنگالیں گے

ہم چاند کے رازوں کو بھی کھولیں گے

اور ہم اپنے سڑکوں کی بھی صفائی کرکے اسے صاف ستھرا رکھیں گے

یقیناً ہمیں یہ جان کر بے حدخوشی ہوتی ہے کہ مقننہ میں ملک کی عظیم ترین شخصیات کو اعزاز سے سرفراز کرنے کی روایت  رہی ہے۔ اسمبلی میں ہمارے کچھ عظیم رہنماؤں کی تصاویر پہلے سے  ہی آویزاں ہیں: تیروولوور ، مہاتما گاندھی ، سی راج گوپالاچاری ، سی این انادورائی ، کے کامراج ، ای وی راماسامی ، بی۔ آر۔ امبیڈکر ، یو موتھوراملنگم تھیور ، محمد اسماعیل صاحب ، ایم جی رامچندرن ، جے جے للیتا ، ایس ایس  رام سوامی پدیاچی ، وی او چدمبرم پلئی ، پی سبا راین اور ماتھور پی راما سوامی ریڈی۔ اب  ان نامور شخصیات کی اس فہرست میں تھیرو کروناندھی کی بھی تصویر ہوگی ، جن کی پوری زندگی ریاست کے لوگوں کے لیے وقف تھی۔

جب میں یہاں آیا ، میں چکرورتی راج گوپالاچاری کے بارے میں سوچ رہا تھا ، جنہوں نے  گاندھی جی کے خیالات کو تقویت دی اور ان  کے نجات دہندہ  بنے رہے نیز حریت پسندوں کے لیے ایک غیر معمولی شخصیت بنے رہے ۔ وہ راشٹرپتی بھون کے پہلے ہندوستانی باشندے تھے ، اور ان کی موجودگی نے اس معزز گھر کو بھی زینت بخشی۔ وہ مدراس ریاست کے پہلے پردھان یا وزیر اعلیٰ بھی تھے۔ ان کے جانشین بھی مثالی سیاستدان تھے۔ تاہم ، راجا جی کے تمام جانشینوں میں ، تھیرو کروناندھی وہ  شخصیت ہیں جنہوں نے سب سے طویل عرصے تک حکومت کی ، اور اس طرح تمل ناڈو پر نمایاں نقوش  چھوڑے۔

'کلائینار'نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز اپنی نوعمری میں ہی کیا تھا ، جب ہندوستان آزادی کے لیے جدوجہد کر رہا تھا ، اور وہ حال ہی میں ہمیں چھوڑ گئے۔ جب انہوں نے ایک نوجوان لڑکے کی حیثیت سے پسماندہ طبقوں کے لیے کام کرنا شروع کیا تو ہندوستان غلامی میں جکڑا ہوا تھا ، کئی سالوں سے غیر ملکی حکمرانی سے بری طرح متاثر تھا ، غربت اور ناخواندگی سے دوچار تھا۔ جب انہوں  نے آخری سانس لی توانہیں یقیناًاطمینان رہا ہوگا کہ اس ملک اوریہاں کے لوگوں نے تمام محاذوں پر حیرت انگیز ترقی اور خوشحالی کی طرف پیش قدمی کرلی ہے۔ وہ مطمئن ضرور رہے ہوں گے ، کیونکہ انہوں نے اپنی طویل اور تخلیقی زندگی کا ہر فعال لمحہ ریاست اور قوم کے لوگوں کی خدمت میں صرف کیا تھا۔

میں تمل ادب اور سنیما میں ان کی شراکت کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں؟ میں جانتا ہوں کہ بہت کم سیاستدان ہیں جو زبان کے بارے میں اتنے جذباتی ہیں۔ ان کے لیے ان کی مادری زبان عبادت تھی۔ یقیناً ، تمل  زبان،بنی نوع انسان کی سب سے بڑی اور قدیم زبانوں میں سے ایک ہے۔ پوری دنیا اپنے بھرپور ورثے پر فخر کرتی ہے۔ لیکن یہ کروناندھی تھے جنہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اسے کلاسیکی زبان کے طور پر سرکاری طور پر تسلیم کیا جائے۔ کلائیناراپنی نوعیت کے ایک منفردرہنماتھے۔ وہ ہماری قومی تحریک کے قائدین کے ساتھ آخری  دم تک رابطےمیں تھے اور انہوں نے یہ رابطہ کبھی ختم نہیں ہونے دیا۔وہ ہم سب کے لیے عظیم رہنما تھے۔

خواتین و حضرات،

یہ ان بزرگوں کے لیے ہے جن سے میرے خیالات بھی بہت زیادہ  متاثر ہوئے ، کیونکہ ملک آزادی کی 75 ویں سالگرہ منا رہا ہے۔ ہماری قومی تحریک 1857 یا اس سے بھی پہلے 1947 تک پھیلی ہوئی تھی۔ ان دہائیوں کے دوران ، قدامت پسند اور انقلابی تھے۔ امن پسند اور آئین پرست بھی تھے۔ ان کے طریقے مختلف تھے اور ان کے خیالات بھی  مختلف تھے۔ لیکن وہ سب مادر وطن کے احترام میں یکساں تھے۔ ہر ایک نے اپنے اپنے طریقے سے مادر ہند کی خدمت کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ایک دریا میں شامل ہونے والی مختلف معاون ندیوں کی طرح ، ان سب نے مل کر قوم کی آزادی کے لیے متحد ہوکراپنا کلیدی کردار ادا کیا۔

انہوں نے بابائے قوم مہاتما گاندھی میں ایک  سنگم پایا۔ مہاتما گاندھی نے نہ صرف یہ کہ ہماری ثقافت اور روایت میں سب جو سب سے بہتر تھا، نہ صرف یہ کہ اسے زمینی سطح پر نافذ کیابلکہ انہوں نے بہت سے مغربی مفکرین کے نظریات کی  بھی اصلاح کی۔ ان کے ساتھ محب وطن افراد کی ایک فوج تھی - وکلاء ، علماء ، سماجی مصلحین ، مذہبی اور روحانی پیشوا اور دیگر۔ ان میں سے ہر ایک بے مثال تھا۔ ڈاکٹر بی۔ آر۔ امبیڈکر کے بارے میں سوچیں: بہت عظیم اور دور اندیش! لیکن تاریخ کی کتابوں میں درج ہر ایک  نام میں ، ان گنت دوسرے ایسے تھے جن کے نام کبھی درج  نہیں کیے گئے۔ انہوں نے ا ٓرام و سکون ، یہاں تک کہ کاروبار ، اور بعض اوقات اپنی جان بھی قربان کردی ، تاکہ ہم ایک آزاد قوم کے طور پر سانسیں لے  سکیں۔

میرا خیال ہے کہ ان چند دہائیوں نے زمین پر دیکھی جانے والی کچھ عظیم نسلوں کو جنم دیا۔ اس کے لیے یہ ملک ہمیشہ ان شخصیات کا  مقروض رہے گا۔ اس کے لیے ، ہم صرف انہیں خراج تحسین بھر پیش  نہیں کر سکتے ہیں بلکہ ہم ان کی زندگی اور ان کے نظریات سے  مسلسل سیکھ حاصل کرتے رہیں اور متاثر ہوتے رہیں۔ انہوں نے ہمیں آزادی کا تحفہ دیا ، لیکن انہوں نے ہمیں ذمہ داری بھی سونپی ہے۔ ان کا خواب  شرمندہ تعبیر ہو رہا ہے ، لیکن یہ ایک جاری  و ساری رہنے والا عمل ہے۔ جس طرح ان تمام مقتدر شخصیات نے اپنے اپنے کردار ادا کیے ، اسی طرح ہم سب کو قوم کو نئی بلندیوں پر لے جانے میں اپنا فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔

میں خاص طور پر نوجوانوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ حال کو سمجھیں اور مستقبل میں ترقی کے لیے ماضی سے جڑے رہیں۔ مہاتما گاندھی ، سبرامنیم بھارتی اور دیگر کی زندگیوں میں آپ کو اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کے جوابات ملیں گے۔ مجھے یہ جان کے بے حد خوشی ہوئی کہ نوجوان نسل ہماری حالیہ تاریخ میں تیزی سے دلچسپی لے رہی ہے۔ جس کی وجہ سے مجھے یقین ہے کہ معلوم اور نامعلوم حریت پسندوں کے ساتھ شروع کیا گیا کام جاری رہے گا۔ اور مجھے پورا اعتماد ہے کہ  ہندوستان اپنےشاندار ماضی اور قدیم و جدید تعلیمات  نیز اپنی منفرد حکمت کے ساتھ اس صدی میں دنیا کی رہنمائی کرے گا۔

خواتین و حضرات، اس مبارک موقع پر میں تمل ناڈو کے لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آپ تمام ہی لوگوں کو میری طرف سے نیک خواہشات۔

بہت بہت شکریہ

جے ہند!

******************

ش ح  -  س ک  

U. NO. 7396


(Release ID: 1741781) Visitor Counter : 299


Read this release in: English , Hindi , Punjabi , Tamil