سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت

محققین نے 8 ارب سال پہلے تاروں کی تخلیق سے متعلق سرگرمیوں میں کمی کے اسباب کا پتہ لگایا

Posted On: 03 JUN 2021 5:27PM by PIB Delhi

اربوں سال پہلے نوعمر کائنات کی تخلیق سے متعلق سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے ماہرین فلکیات طویل عرصے سے اس حقیقت کی تلاش و جستجو کرتے رہے ہیں کہ  تقریبا 10-8 ارب سال پہلے  کہکشاؤں میں تاروں کی تخلیق اپنی اعلی سطح پر تھی اور اس کے بعد اس میں لگاتار کمی آئی۔ اس کے  پیچھے کے اسباب کا پتہ لگانے پر انہوں نے پایا کہ تاروں کی تخلیق سے متعلق سرگرمیوں میں کمی کا سبب شاید کہکشاؤں میں ایندھن کا ختم ہونا رہا ہوگا۔

ہائیڈروجن کی تشکیل کے لیے ضروری ایندھن کہکشاؤں میں موجود ایٹمی ہائیڈروجن کا ایک عنصر ہے۔ تقریبا 9 ارب سال پہلے اور 8 ارب سال پہلے کہکشاؤں میں ایٹمی ہائیڈروجن عنصر کی پیمائش کرنے والے 2 مطالعات نے انہیں اس نتیجے پر پہنچنے میں مدد کی ہے۔

پونہ کے نیشنل سینٹر فار ریڈیو ایسٹرو فزکس (این سی آر اے- ٹی آئی ایف آر) اور بنگلورو میں سائنس و ٹیکنالوجی محکمہ کے تحت ایک خودمختار ادارہ رمن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آر آر آئی) کے ماہرین فلکیات کی ایک ٹیم نے 9 ارب سال پہلے کہکشاؤں میں ایٹمی ہائیڈروجن گیس کے عنصر کی پیمائش کرنے کے لیے وسیع میٹر ویو ریڈیو دوربین (جی ایم آر ٹی) کا استعمال کیا۔ یہ کائنات کا سب سے ابتدائی دور ہے، جس کے لیے کہکشاؤں میں ایٹمی ہائیڈروجن کے عناصر کی پیمائش کی جاتی ہے۔ نیا نتیجہ اس گروپ کے پچھلے نتائج کی اہم طریقے سے تصدیق کرتا ہے، جہاں انہوں نے 8 ارب سال پہلے کہکشاؤں میں ایٹمی ہائیڈروجن کے عناصر کی پیمائش کی تھی اور کائنات میں کہکشاؤں سے متعلق ہماری فہم کو کافی پہلے تک پہنچا دیا تھا۔ نئی تحقیق ‘دی ایسٹرو فیزیکل جرنل لیٹرس’ کے 2 جون 2021 کے شمارے میں شائع ہوئی ہے۔

این سی آر اے-ٹی آئی ایف آر میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ادتیہ چودھری اور نئے اور 2020 دونوں مطالعات کے سرپرست مقالہ نگار نے کہا کہ  ‘‘ہمارے نئے نتائج کہیں زیادہ پہلے کی  کہکشاؤں کے لیے ہیں، لیکن وہ ابھی بھی تاروں کی تخلیق سے متعلق زیادہ سے زیادہ سرگرمیوں کے دور کے خاتمہ کی جانب مائل ہیں۔ ہم نے پایا کہ 9 ارب سال پہلے کہکشائیں ایٹمی گیس سے پوری طرح بھری ہوئی تھیں اور تاروں میں موجود ایٹمی گیس کی مقدار کے مقابلے ان میں تقریبا تین گنا زیادہ مقدار  تھی۔  وہ آج کی ‘ملکی وے’ جیسی کہکشاؤں سے کافی الگ تھا، جہاں گیس  کی مقدار تاروں میں موجود ایٹمی گیس کے مقابلے تقریبا 10 گنا کم ہے’’۔

ایٹمی ہائیڈروجن گیس کی مقدار کی پیمائش جی ایم آر ٹی کے استعمال کے ذریعے کی گئی ،جہاں ایٹمی ہائیڈروجن میں  اسپیکٹرل لائن  تلاش کی گئی، جس کا صرف ریڈیو دوربین کے ذریعے ہی پتہ لگایا جاسکتا ہے۔

اس مطالعہ کے شریک کار مقالہ نگار نسم کانیکر نے کہا کہ ‘‘ہمارے مطالعہ کا تجزیہ تقریبا 5 سال پہلے، 2018 میں جی ایم آر ٹی کو اپ گریڈ کرنے سے پہلے شروع کیا گیا تھا۔ ہم نے اس کے اپ گریڈ سے پہلے جی ایم آر ٹی کے بنیادی رسیور اور الیکٹرانکس سلسلے کا استعمال کیا تھا’’۔

این سی آر اے-ٹی آئی ایف آر کے ایک دیگر پی ایچ ڈی کے طالب علم برنالی داس نے کہا کہ ‘‘حالانکہ ہم نے زیادہ وقت تک تجزیہ کرکے اپنی حساسیت کو بڑھایا ہے۔ تقریبا 400 گھنٹے کے مشاہدہ سے بڑی مقدار میں ڈیٹا پیدا ہوا’’۔

چودھری نے کہا کہ ‘‘ان ابتدائی کہکشاؤں میں تاروں کی تخلیق اتنی تیز رفتار تھی کہ وہ محض 2 ارب سالوں میں اپنی ایٹمی گیس کا استعمال کرلیں گے۔ اگر کہکشاؤں کو زیادہ گیس نہیں مل پاتی تو تاروں کی تخلیق سے متعلق ان کی سرگرمیاں کم ہوجائیں گی اور آخر کار رک جائیں گی’’۔ انہوں نےکہا کہ ‘‘اس طرح ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کائنات میں تاروں میں تخلیق سے متعلق سرگرمیوں میں کمی کا سبب صر ف یہ ہے کہ کہکشائیں کچھ ادوار کے بعد اپنے گیس کے ذخیرہ کو پھر سے بھرنے میں کامیاب نہیں تھیں، شاید اس لیے کیونکہ ان کے ماحول میں گیس مناسب مقدار میں دستیاب نہیں تھی’’۔

کانیکر نے بتایا کہ  ‘‘بالکل الگ قسم کے رسیور اور الیکٹرانکس کے استعمال سے تیار موجودہ نتائج کے ساتھ اب ہمارے پاس ان ابتدائی  کہکشاؤں میں ایٹمی ہائیڈروجن گیس کی مقدار کی پیمائش کرنے کے لیے 2 آزاد پیمانے ہیں’’۔

اس مطالعہ میں شیوسیٹھی کے ساتھ  شریک کار مقالہ نگار کے طور پر کام کرنے والے آر آر آئی کے کے ایس دوارکا ناتھ نے  زور دے کر کہا کہ  ‘‘دور دراز کی کہکشاؤں سے  21 سینٹی میٹر کے سگنل کا پتہ لگانا جی ایم آر ٹی کا بنیادی مقصد تھا اور یہ اسکوائر کلو میٹر ارے جیسی کہیں زیادہ طاقتور دوربین بنانے کے لیے سائنس کا ایک اہم محرک تھا۔ یہ نتائج کہکشاؤں کی تشکیل کے بارے میں ہماری فہم کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں’’۔

اس تحقیق کے لیے حکومت ہند کے ایٹمی توانائی کا محکمہ اور سائنس و ٹیکنالوجی محکمہ کے ذریعے رقم فراہم کی گئی تھی۔

اشاعت کا لنک:

(https://iopscience.iop.org/article/10.3847/2041-8213/abfcc7).

 

رابطہ:

آدتیہ چودھری (chowdhury@ncra.tifr.res.in ; 97651 15719),

نسم کانیکر(nkanekar@ncra.tifr.res.in ; 9975077018),

برنالی داس (barnali@ncra.tifr.res.in),

کے ایس دوارکا ناتھ (dwaraka@rri.res.in),

شیو سیٹھی (sethi@rri.res.in ; 94825 70297),

یشونت گپتا (ygupta@ncra.tifr.res.in ; 020 – 2571 9242)

سی ایچ ایشور چندر(ishwar@ncra.tifr.res.in; 020 – 2571 9228),

جے کے سولنکی(solanki@ncra.tifr.res.in; 020 – 2571 9223).

انل راوت  (anil@gmrt.ncra.tifr.res.in ; 86055 25945)

 


https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001JK11.jpg

کیپشن: دو پینل اسپیکٹرم(بائیں پینل ) اور شبیہ (دائیں پینل) کی شکل میں پہچانے گئے جی ایم آر ٹی21 سینٹی میٹر سگنل کو دکھاتے ہیں۔

 

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image002ECZ8.jpg

کیپشن: رات میں جی ایم آر ٹی انٹینا(تصویر: راکیش راؤ)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

U-5569

ش ح۔  ق ت ۔  ت ع۔



(Release ID: 1727844) Visitor Counter : 138


Read this release in: Tamil , English , Hindi , Punjabi