سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت

کہکشاؤں میں مولیکیولر  اور ایٹمی ہائیڈروجن   کی  سہ جہتی تقسیم سے  ستاروں کے وجود میں آنے اور کہکشاں کے فروغ پانے کا سراغ مل سکتا ہے

Posted On: 24 MAY 2021 4:40PM by PIB Delhi

نئی دہلی،  24   مئی 2021،   ایک سائنس داں نے اندازہ  لگایا ہےکہ  کسی قریبی  کہکشاں مولیکیولر  اور ایٹمی ہائیڈروجن   کی  سہ جہتی تقسیم سے  ستاروں کے وجود میں آنے  کے عمل اور کہکشاں کے فروغ پانے کا سراغ پانے میں مدد مل سکتی ہے۔

جس کہکشاں ملِلکی وے  پر  ہم رہتے ہیں،  وہ  ستاروں ، مالیکیولر اور ایٹمی ہائیڈروجن  اور ہیلیم  والی ڈسک  پر مشتمل ہے۔ مالیکیولر ہائیڈروجن گیس  اپنے آپ  نمایاں پاکٹ میں تبدیل ہوجاتی ہےجس سے ستارے وجود میں آتے ہیں اس کا درجہ حرارت بہت کم 10 کیلوِن کے آس پاس   یا  منفی  263 ڈگری سیلسیس  اور موٹائی تقریباً 60 سے 240 نوری سال ہوتی ہے۔ ایٹمی ہائیڈروجن ، ڈسک کے اوپر اور نیچے دونوں جانب پھیلی ہوتی ہے۔

گزشتہ دو دہائیوں میں  جو مشاہدہ کیا گیا ہے اس نے ماہرین فلکیات کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے اندازہ لگایا ہے کہ  مالیکیولر ہائیڈروجن  ڈسک سے دونوں سمتوں میں  تقریباً تین ہزار  نوری برسوں تک پھیلتی ہے۔ یہ گیس  پر مبنی عنصر  ڈسک پر پھیلنے والی والی ہائیڈروجن سے زیادہ گرم ہوتا ہے اور  نسبتاً کم گھنا ہوتا ہے۔اسی وجہ سے  یہ اس سے قبل کے مشاہدوں میں نہیں آیا تھا۔ ماہرین فلکیات اس کو  مالیکیولر ڈسک  کا منتشر عنصر کہتے ہیں۔

اس ڈسک کے  اس منتشر عنصر میں  مجموعی طور پر اتنی مجموعی مالیکیولر ہائیڈروجن ہے ، یہ واضح نہیں ہے۔ ایک نئے مطالعہ میں  حکومت ہند کے  سائنس اور ٹکنالوجی کے محکمے (ڈی ایس ٹی)  کے ایک خود کار ادارے  رمن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آر آر آئی، بنگلورو) کے ایک محقق نے  تنگ او منتشر گیس پر مبنی عناصر کےتناسب کا پتہ لگانے کے لئے  کمپیوٹر پر  حساب لگایا اور  ایک قریبی کہکشاں کے  عوامی سطح پر دستیاب  فلکیاتی اعداد و شمار  کواستعمال کیا۔  حکومت ہند کے  سائنس اور ٹکنالوجی کے محکمے  کے ذریعہ  اس مطالعہ کے لئے فند فراہم کرایا گیا۔ یہ مطالعہ  جریدے  ’منتھلی نوٹیسز آف تھع رایل ایسٹرنومیکل سوسائٹی ‘ میں شائع ہوا تھا۔

محقق نریندر ناتھ پاترا نے کہا ’’مالیکیولر ہائیڈروجن گیس  کشش ثقل کے دباؤ سے علیحدہ علیحدہ  ستاروں میں تبدیل ہوجاتی ہے۔اس طرح   ستاروں کے وجود میں آنے کے عمل اور  کہکشاں کے فروغ  کا سراغ ملتا ہے‘‘۔ اگر گیس کا کافی بڑا حصہ  پتلی ڈسک سے باہر چند سو   نوری برسوں تک پھیل جاتا ہے تو  اس سے اس بات کی وضاحت ہوتی کہ ماہرین فلکیات  کہکشاں کی ڈسک سےسیدھی کھڑی لکیر کی سمت میں چند ہزار نوری برسوں میں ستاروں کامشاہدہ کیوں   کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ  گیس کے دو عنصر کیوں ہوتے ہیں۔ اسی سے   سپر نووا  یا  پھٹنےوالے ستاروں کا بھی پتہ چلتا ہے۔

مطالعہ کے لئے نریندر ناتھ پاترا نے  ملکی وے سے  تقریباً 20 ملین نوری برس  کی دوری پر واقع ایک واحد کہکشاں پر توجہ مرکوز کی۔ کائنات کے سائز کے مقابلے میں  جو کہ  10 بلین نوری برسوں سے بھی زیادہ ہے،  یہ دوری نسبتاً کم ہے۔  کہکشاں کی قربت  ٹیلی اسکوپ سے مشاہدے کو آسان بنا دیتی ہے اور   کاربن مونو آکسائڈ کی اسپیکٹرل لائنیں  عوامی تحقیق کے لئے دستیاب ہیں۔ نریندر ناتھ پاترا نے کہا کہ’’ میں نے جس کہکشاں کا  انتخاب کیا وہ ملکی وے سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی اور  اس لئے ڈسک کے منتشر اور تنگ عناصر کاتناسب   کا مطالعہ کرنا بہت دلچسپ ہے‘‘۔

یہ طریقہ اگرچہ نیا ہے،   ایسے حساب کتاب پر انحصار کرتا ہے جس کو عوامی سطح پر دستیاب اعداد وشمار کی مدد سے  کمپیوٹر پر لگایا جاسکتا ہے۔اس لئے  نریندر ناتھ پاترا اس کو  قریب واقع دیگر  کہکشاؤں  کے معاملے میں بھی  استعمال کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ  ’’اس وقت  آرآر آئی میں ہماراگروپ  8 کہکشاؤں کے ایسے سیٹ  کی کی جی او لائن دستیاب ہیں ،کے لئے  یہی حکمت عمل استعمال کررہا ہے‘‘۔ انہوں نے بتایا ’’ ہم اس بات کی جانچ کرنا چاہتے ہیں کہ  ہمارے نتائج میری منتخبہ کہکشاں کے لئے ہی مخصوص ہے یا  اس کا کوئی طریقہ کار ہے‘‘۔ تحقیق جاری ہے اور ہم اس سال  نتائج کی توقع کرسکتے ہیں۔

 

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001S695.jpg

ہماری کہکشاں ملکی وے کے قریب واقع اینڈرو میڈا  کہکشاں  (تصویر بشکریہ: فارماکو پولوس اینٹونس)

اشاعت کا لنک

https://doi.org/10.1093/mnras/staa3929

مزید تفصیلات کے لئے نریندر ناتھ پاترا  (narendra@rri.res.in) سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ا گ۔ن ا۔

U-4944

                          



(Release ID: 1722711) Visitor Counter : 240


Read this release in: English , Hindi