صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت
ڈاکٹر ہرش وردھن نے کووڈ-19 ٹیکہ کاری کے تیسرے مرحلے سے متعلق حکمت عملی کے بارے میں تشویشوں پر غوروخوض کیا
انہوں نے عوامی صحت کی مہم کوزک پہنچانے کی غرض سے جان بوجھ کر غلط معلومات پھیلانے کی کارروائی پر نکتہ چینی کی
‘‘اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت اعلیٰ درجہ کے متفقہ نظریات ہیں’’
Posted On:
25 APR 2021 11:05PM by PIB Delhi
صحت اور خاندانی بہبود کے مرکزی وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن نے کووڈ-19 ٹیکہ کاری کے اصلاح شدہ اور تیز تر کئے گئے تیسرے مرحلے سے متعلق حکمت عملی، جس کا کہ حال ہی میں اعلان کیا گیا ہے، کے بارے میں کچھ حلقوں کی جانب سے پیش کی گئی تشویشوں پر آج غوروخوض کیا۔ اپنے بلاگ میں انہوں نے کہاہے کہ امراض کی تشخیص کے علم اور ویکسین کی مبینہ قلت کے بارے میں ‘‘ اعتماد کے بحران’’ کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ کسی بھی قسم کی کوئی قلت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہر ایک کے ذریعہ اعلیٰ درجہ کے متفقہ نظریات ہیں۔
یکم مئی سے شروع ہونے والے ٹیکہ کاری کے تیسرے مرحلے سے متعلق نئی پالیسی کے بارے میں کچھ حلقوں کی جانب سے سلسلے وار رائے زنی کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘‘ افسوس کی بات ہے کہ مجھے بھی اس بات کو اجاگر کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے کہ ایسے بعض سیاسی لیڈرس ہیں، جو ٹیکہ کاری کے بارے میں غیر ضروری سیاست کر رہے ہیں اور ہر قدم پر غلط اطلاعات بہم پہنچا کر گمراہ کر رہے ہیں۔ چاہے یہ ہماری ویکسین کے مؤثر ہونے کے بارے میں ہو یا ان کی قیمت کے بارے میں ہو۔
ان کے بلاگ کو ذیل میں پیش کیاجا رہا ہے۔
ہمیں اعلیٰ درجہ کے متفقہ نظریات کی ضرورت ہے۔
حکومت نے یکم مئی سے کووڈ-19 ٹیکہ کاری سے متعلق اصلاح شدہ اور تیز تر کی گئی تیسرے مرحلے کی حکمت عملی کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت 18 سال سے زیادہ عمر کا ہر شخص کووڈ-19کا ٹیکہ لگوانے کا اہل ہو جائے گا۔
کسی بھی لڑائی میں وقت سب سے زیادہ ناگزیر ہوتا ہے۔ اب جبکہ یہ جان لیوا بیماری سُنامی کی طرح پھیل رہی ہے، تو یہ ضروری تھا کہ کنٹرول کے نظام میں نرمی کی جائے اور ریاستی سرکاروں کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کو مکمل طو رپر چھوٹ دے دی جائے۔ اس لئے وزیراعظم نریندر مودی کی قابل رہنمائی میں ہم نے ٹیکہ کاری کی پالیسی سے متعلق ضابطوں میں نرمی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
البتہ یہ افسوس کی بات ہے کہ ٹیکہ کاری کے اس سب سے اہم مرحلے کے بارے میں بہت بڑے پیمانے پر گمراہ کن خبریں پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کچھ اہم نکات ہیں، جو میں عوام کے درمیان رکھنا چاہتا ہوں تاکہ کچھ مفاد پرست عناصر کی کوششوں کو نا کام بنایا جائے، جو دنیا کی اس سب سے بڑی ٹیکہ کاری مہم کو زک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ابھی تک ریاستوں کے ذریعہ 14 کروڑ سے زیادہ ٹیکے لگائے جا چکے ہیں اور دیگر چند کروڑ ویکسین اسٹاک میں موجود ہیں۔ ابھی تک حکومت ہند نے یہ تمام ٹیکے ریاستی حکومتوں کو مفت فراہم کئے ہیں۔
نئی پالیسی کے مطابق، یکم مئی 2021 سے شروع ہونے والی ٹیکہ کاری کے تیسرے مرحلے کے آغاز کے بعد سے بھی حکومت ہند کی قیمتیں مفت تقسیم کئے جانے کی اسکیم کے تحت جاری رہیں گی۔ اس سے پہلے کی طرح مرکز، ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو اپنے 50 فیصد کو ٹہ سے مفت ویکسین فراہم کرنا جاری رکھے گا اور ریاستیں اور مرکز کے زیر انتظام علاقے ان ویکسین کا انتظام کرتی رہیں گی۔
باقی کے 50 فیصد کوٹہ اور اس کا کیا مطلب ہے، کے بارے میں بہت سے سوالات کئے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے وضاحت کرنی پڑ رہی ہے کہ اس بقیہ 50 فیصد کوٹہ کے ذریعہ ریاستوں کے لئے لچک فراہم ہوتی ہے۔ بہت سی ریاستوں نے درخواست کی ہے کہ ٹیکہ کاری کا عمل ان کے لئے کھول دیا جائے۔ اب یہ ‘‘ بقیہ 50 فیصد کوٹہ’’ انہیں اس بات کی آزادی فراہم کرے گا کہ وہ اپنی ترجیح کے حساب سے گروپوں کے ٹیکے لگائیں۔
یہ ایک حقیقیت ہے کہ صحت ایک ریاستی معاملہ ہے، جس کے بارے میں مرکز ریاستوں کے ساتھ لازمی طور پر اشتراک کرتا ہے اور سہولت پیدا کرتا ہے۔ ویکسین کی تقسیم سے متعلق پالیسی میں اصلاحات کئے جانے اور اس کا کنٹرول ریاستوں کے ہاتھوں میں دیئے جانے کے بارے میں تقریبا تمام ریاستوں سے درخواستیں موصول ہونے کے بعد ہم نے آگے پیش قدم کرنے کا فیصلہ کیا ۔
بقیہ 50 فیصد کوٹہ، کارپوریٹ اور نجی شعبے کے لئے بھی دستیاب ہے تاکہ وہ اپنے وسائل کو یکجا کر سکیں اور ٹیم انڈیا کی مشترکہ کوشش کو، جتنا جلد ممکن ہو، ہر بالغ شخص کے ٹیکے لگانے کے لئے بروئے کار لایا جا سکے۔
حکومت ہند کے ذریعہ ٹیکہ کاری کا عمل پہلے کی طرح جاری رہے گا اور اس سلسلے میں تمام اخراجات مرکز برداشت کرے گا۔ اب جبکہ اس مرحلے میں ٹیکہ لگوانے کے بارے میں اہلیت کے معیار میں مزید اضافہ کیا جا رہا ہے، حکومت ہند، ریاستوں کو مکمل مدد فراہم کرے گی تاکہ وہ تمام اہل افراد کے مفت ٹیکہ لگا سکیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پرائیویٹ اور کارپوریٹ سیکٹر کا وسیلہ، بڑی تعداد میں لوگوں کو بااختیار بنا دے گا کہ وہ حکومتی وسیلہ کے علاوہ جتنا جلد ہو سکے ٹیکہ لگوا لیں۔ مختصر یہ کہ جو لوگ پرائیویٹ اور کارپوریٹ سیکٹر کے داموں پر ٹیکہ لگوانے کا خرچ برداشت کر سکتے ہیں، وہ ٹیکہ لگوا لیں۔
اس لئے ریاستوں کو، ان کی ترجیح اور وعدوں کے مطابق، صرف اُن باقی بچے لوگوں کو ٹیکہ لگانا ہوگا، جنہوں نے یا تو حکومت ہند کے مفت وسیلے یا پرائیویٹ وسیلے کے ذریعہ ابھی تک ٹیکے نہیں لگوائے ہیں۔
اس لئے عام لوگوں کے لئے اس بات کو اجاگر کئے جانے کی اہمیت ہے کہ مفت ٹیکہ لگوانے کا ہمیشہ ایک متبادل دستیاب ہے اور ہمیشہ رہے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ٹیکے کی قیمت ان کے لئے ایک بوجھ نہ بن پائے۔
اس بات کو دوہراتے ہوئے، حکومت ہند براہ راست کسی کو بھی ٹیکے فراہم نہیں کرتی۔ 50 فیصد کوٹہ، جو کہ حکومت ہند کی قیمت پر ہے، ٹیکوں کی مفت تقسیم کے لئے ہے اور ان تمام ٹیکوں کی تقسیم صرف ریاستوں کے ذریعہ کی جائے گی۔ اس لئے یہ الزام کہ صرف مرکز ان ویکسین کو سستی قیمت پر حاصل کر رہا ہے اور ریاستیں نہیں، بالکل غلط ہے۔
اب مجھے ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ریاستیں کیوں شکایت کر رہی ہیں، وہ انہیں فراہم کی جانے والی ویکسین پر عائد بندشوں کو ہٹانے کی مانگ کر رہی ہیں۔ نئی پالیسی کے تحت انہیں مکمل آزادی ہے کہ وہ انہیں مینوفیکچررس سے براہ راست حاصل کریں اور یہاں تک کہ وہ مقدار اور تعداد پر مبنی قیمتوں کے بارے میں بھی بات کر سکتی ہے۔ اس سے تاخیر میں بھی کمی ہوگی۔ میری ہمدردیاں ریاستوں کے ساتھ ہیں، کیونکہ وہ پیش پیش رہ کر اس لڑائی کی قیادت کر رہی ہیں اور انہیں ویکسین کا نیا اسٹاک تیزی سے دستیاب کرائے جانے کی ضرورت ہے انہیں فیصلہ کرنا ہے کہ کب، کیسے اور کتنا اور کس کو۔ یہ بالکل وہی عمل ہے، جو مرکز نے اس عمل کو آسان بنانے کی غرض سے کیا ہے۔
درحقیقت ریاستوں میں بھی اس پہل کا رد عمل خوشگوار اور حوصلہ افزا رہا ہے۔ آسام، اترپردیش، مدھیہ پردیش، بہار، مہاراشٹر، جھارکھنڈ، جموں و کشمیر، تمل ناڈو، ہماچل پردیش، کیرالہ، چھتیس گڑھ، ہریانہ، سکم، مغربی بنگال، تلنگانہ، آندھرا پردیش وغیرہ جیسی کثیر النوع ریاستوں نے پہلے ہی دن اعلان کر دیا ہے کہ وہ 18 سے 45 سال تک کی عمر کے افراد کو کورونا وائرس کے خلاف مفت ٹیکے لگائیں گی۔ یہ ایک خوش آئند فیصلہ ہے اور اصلاح شدہ نئی پالیسی کے تحت انہیں ایسا کرنے کی مکمل آزادی ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں حکومت ہند، کووڈ-19 عالمی وبا کے خلاف لڑائی کی قیادت کرنے اور صحت عامہ سے متعلق انہیں ذمہ داریوں کو مؤثر اور متاثر کن طریقے سے پورا کرنے کے تئیں عہد بند ہے۔
یہ اسی نظریہ کے عین مطابق ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے کووڈ-19 کے خلاف بچاؤ کے لئے ٹیکہ کاری کی دنیا کی سب سے بڑی مہم کا آغاز کیا، جو سائنسی صلاح اور بہترین عالمی طور طریقوں پر مبنی ہے۔ حفظان صحت کے کارکنان اور زد پذیر گروپوں جیسے بزرگ شہریوں اور 45 سال سے زیادہ عمر کے افراد کو ابتدا میں ترجیح دی گئی تھی۔ ٹیکہ کاری کے اس عمل کو اب اگلی سطح تک لے جایا گیا ہے، جس میں ریاستوں، مرکز کے زیر انتظام علاقوں اور کارپوریٹ اور پرائیویٹ سیکٹر کے لئے ایک وسیع تر کردار کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ دوا تیار کرنے والوں کی بھی مدد کی گئی ہے۔ ان میں دوا کی تیاری میں تیزی لانے کی غرض سے مالی امداد بھی شامل ہے۔ یہ ایک جنگ ہے، جو ٹیم انڈیا آپس میں مل کر لڑ رہی ہے اور مل کر اس میں فتح حاصل کرے گی۔
افسوس کی بات ہے کہ مجھے بھی اس بات کو اجاگر کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے کہ بعض ایسے سیاسی لیڈرس ہیں، جنہوں نے ٹیکہ کاری کے معاملے پر غیر ضروری سیاست میں شامل ہونے کا راستہ چنا ہے اور وہ ہر قدم پر گمراہ کن باتیں پھیلا رہے ہیں، چاہے یہ ویکسین کے مؤثر ہونے کا معاملہ ہو یا اس کی قیمت کے بارے میں ہو۔
اس لئے میں ان سیاسی پارٹیوں سے اپیل کرتاہوں کہ وہ، ٹیکہ کاری کے پروگرام کی کامیابی کو سب سے مقدم رکھیں تاکہ ہم اپنے عوام کی زندگیاں بچا سکیں۔
میں یہاں اس بات کو دوہرانا چاہوں گا کہ میں ہمیشہ تعمیری تنقید کی ستائش کرتا ہوں ، کیونکہ یہ معلومات فراہم کرنے کا ایک معاون طریقہ ہے، جس کے ذریعہ مخصوص اور قابلِ اعتماد تجاویز فراہم ہوتی ہیں۔
ابھی تک اس عالمی وبا کے خلاف سب سے بڑی کامیابی، ٹیم ورک اور لوگوں کے ذریعہ اپنی ذاتی شہرت کے بجائے بہترین اور درست نتائج پیش کرنا رہی ہے۔ سائنس دانوں اور تنظیموں نے ، درحقیقت، ایک معنیٰ خیز مقصد فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ چاہے یہ ملک کے طور پر پورے بھارت میں ہو یا پورے براعظم میں ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس اس جان لیوا بیماری سے نمٹنے کے لئے بہت سی ویکسین تیار ہیں:
امراض کی تشخیص کے علم اور ویکسین کی مبینہ قلت کے بارے میں ‘‘ اعتماد کے بحران’’ کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ایسی کوئی بھی قلت نہیں ہے۔
ہم سبھی کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس عالمی وبا کی وجہ سے اس کھلی حقیقت پر سے پردہ اٹھ گیا ہے کہ آئندہ دو دہائیوں میں صحت سے متعلق بہت سے ضروری چیلنج پیش آ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس عالمی وبا نے ہمیں سکھا دیا ہے کہ یہ تمام چیلنج ایک متفقہ جوابی کارروائی کے متقاضی ہیں، کیونکہ یہ مشترکہ خطرات ہیں، جن سے نمٹنے کی غرض سے مشترکہ ذمہ داری کی ضرورت ہے۔ درحقیقت، اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت اعلیٰ درجہ کے متفقہ نظریات ہیں۔
*************
ش ح ۔ ع م۔ ک ا۔
3964U. No.
(Release ID: 1714068)
Visitor Counter : 189