جل شکتی وزارت
پانی کی کمی والے اضلاع
Posted On:
18 MAR 2021 4:03PM by PIB Delhi
سنٹرل گراؤنڈ واٹر بورڈ (سی جی ڈبلیو بی) وقتا فوقتا ریاستوں / ریاستوں کے تعاون سے پان -انڈیا کے زیر زمین وسائل کا اندازہ کرتا ہے۔ 2017 کی تشخیص کے مطابق ، ملک میں مجموعی طور پر 6881 تشخیصی اکائیوں (بلاک / تعلقہ/ منڈلوں/ واٹرشیڈس/ فرکاس) میں سے ، 17 ریاستوں/ مرکز کے زیرانتظام ریاستوں میں 1186 یونٹوں (یونٹوں کا 17 فیصد) کی درجہ بندی کی گئی ہے،جہاں پانی کا اندھادھند استعمال ہوا ہے اور جہاں سالانہ زیرزمین پانی کی نکاسی زیرزمین پانی کے وسائل سے کہیں زیادہ ہے۔ ضمیمہ Iمیں تشخیصی اکائیوں کی ریاست وار صورت حال دی گئی ہے۔
سنٹرل واٹر کمیشن (سی ڈبلیو سی) کی رپورٹ کے تحت ، جو‘خلائی آثار استعمال کرتے ہوئے ہندوستان میں پانی کی دستیابی’ کے عنوان سے جاری ہوئی ہے، کہا گیا ہےکہ ملک میں اوسطا آبی وسائل کی ممکنہ تشخیص 1999.20 بی سی ایم کے مطابق کی گئی ہے۔ بیسن کے حساب سے پانی کی دستیابی کی تفصیلات ضمیمہIIمیں منسلک ہیں۔
پانی ریاست کا موضوع ہونے کے ناطے ، ملک میں پانی کی بچت اور پانی کی دستیابی سمیت پانی کے انتظام کے اقدامات بنیادی طور پر ریاستوں کی ذمہ داری ہے۔ تاہم ، مرکزی حکومت کے ذریعے ملک میں بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی کے تحفظ ، زمینی پانی کے انتظام اور موثر نفاذ کے لئے اٹھائے گئے اہم اقدامات مندرجہ ذیل یو آر ایل پر ہیں:
http://jalshakti-dowr.gov.in/sites/default/files/Steps_to_control_water_depletion_Feb2021.pdf۔
اس کے علاوہ ، متعدد ریاستوں نے پانی کے تحفظ /دستیابی کے شعبے میں قابل ذکر کام کیا ہے۔ ان میں سے راجستھان میں ‘مکھیہ منتری جل سوالمبن ابھیان’، مہاراشٹر میں ‘جل یکت شیبر’، گجرات میں ‘سوجلام سوپھلام ابھیان’ ، تلنگانہ میں ‘مشن کاکتیا’، آندھرا پردیش میں ‘نیرو چیٹو’، بہار میں ‘جل جیون ہریالی’ اور ہریانہ میں ‘جل ہی جیون’ اور دیگر کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔
بھارت سرکار نے 2019 میں جل شکتی ابھیان(جے ایس اے) کا آغاز کیا ، ایک مشن موڈ اپروچ کے ساتھ ایک مقررہ مہم، جس کا مقصد ہندوستان کے 256 اضلاع کے پانی کی کمی پر مشتمل زمینی پانی کی صورتحال سمیت پانی کی دستیابی کو بہتر بنانا ہے۔ سی جی ڈبلیو بی کو دستیاب معلومات کے مطابق اضلاع کا انتخاب زمینی پانی کے استعمال کی سطح کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں مرکز اور وزارت جل شکتی کے تکنیکی افسران کے ساتھ مرکزی حکومت کے افسروں کی ٹیموں کو پانی کی کمی والے اضلاع کا دورہ کرنے اور مناسب مداخلت کرنے کے لئے ضلعی سطح کے عہدیداروں کے ساتھ قریبی تعاون سے کام کرنے کے لئے روانہ کیا گیا۔ مزید برآں ، وزارت نے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لئے 21 دسمبر 2020 سے ‘جے ایس اےII-کیچ دی بارش’ کا آغاز کیا۔
حکومت ہند اٹل بھوجل یوجنا (اٹل جل) پر عمل پیرا ہے ، یہ 6000 کروڑ روپے پر مبنی ایک مرکزی سیکٹر اسکیم ہے، جس کے تحت کمیونٹی کی شراکت کے ساتھ زمینی آبی وسائل کے پائیدار انتظام کے لئے سینٹرل سیکٹر اسکیم۔ اٹل جل کو سات ریاستوں یعنی پانی کی کمی والے 80 اضلاع میں نافذ کیا جارہا ہے۔ پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر گجرات ، ہریانہ ، کرناٹک ، مدھیہ پردیش ، مہاراشٹر ، راجستھان اور اتر پردیش شامل ہیں۔ ان اضلاع کی نشاندہی زمینی پانی کی انتہائی خطرناک صورتحال کی بنیاد پر کی گئی ہے اور یہ شراکت دار ریاستوں کی تجویز کے مطابق ہے۔
سی جی ڈبلیو بی وقتا فوقتا ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام ریاستوں کے متحرک زمینی آبی وسائل کا جائزہ لیتی ہے۔ سال 2020 کے لیے جائزہ کا عمل جاری ہے۔
مرکزی حکومت مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی اسکیم (ایم جی این آر ای جی ایس) اور پردھان منتری کرشی سنچے یوجنا - واٹرشیڈ ڈیولپمنٹ کمپونینٹ (پی ایم کے ایس وائی - ڈبلیو ڈی سی) کے ذریعہ آبی ذخیرہ اندوزی اور بچاؤ کے کاموں کی حمایت کرتی ہے۔ پچھلے تین سالوں میں منریگا کے تحت پانی سے متعلقہ کاموں پر خرچ ضمیمہIII میں دیا گیا ہے۔ مزیدبراں پی ایم کے ایس وائی - ڈبلیو ڈی سی کے تحت تیار کردہ آبی ذخیرہ کرنے والے ڈھانچوں کی ریاست وار تفصیلات ضمیمہIV میں دی گئی ہیں۔
مرکزی حکومت کے دیگر اقدامات بھی یو آر ایل میں دیکھے جاسکتے ہیں:
: http://jalshakti-dowr.gov.in/sites/default/files/Steps_to_control_water_dlele__ef2021.pdf.
ضمیمہ I
‘پانی کی کمی والے اضلاع’ کے بارے میں 18.03.2021 کو لوک سبھا میں پوچھے گئے سوال نمبر 3840 کے حصہ (اے) اور (بی) کے جواب کا ضمیمہ میں حوالہ دیا گیا ہے۔
ہندوستان میں بلاکوں/منڈل/تعلقہ کی زمرہ بندی (2017)
|
نمبر شمار
|
ریاستیں/ مرکز کے زیر انتظام آنے والے علاقے
|
رسائی والی اکائیوں کی مجموعی تعداد
|
محفوظ
|
نیم خطرناک
|
خطرناک
|
اندھادھند پانی کا استعمال
|
کھارا پانی
|
این او ایس
|
فیصد
|
این او ایس
|
فیصد
|
این او ایس
|
فیصد
|
این او ایس
|
فیصد
|
این او ایس
|
فیصد
|
|
ریاستیں
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
1
|
آندھراپردیش
|
670
|
501
|
75
|
60
|
9
|
24
|
4
|
45
|
7
|
40
|
6
|
2
|
اروناچل پردیش
|
11
|
11
|
100
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
3
|
آسام
|
28
|
28
|
100
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
4
|
بہار
|
534
|
432
|
81
|
72
|
13
|
18
|
3
|
12
|
2
|
0
|
0
|
5
|
چھتیس گڑھ
|
146
|
122
|
84
|
22
|
15
|
2
|
1
|
0
|
0
|
0
|
0
|
6
|
دہلی
|
34
|
3
|
9
|
7
|
21
|
2
|
6
|
22
|
65
|
0
|
0
|
7
|
گوا
|
12
|
12
|
100
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
8
|
گجرات
|
248
|
194
|
78
|
11
|
4
|
5
|
2
|
25
|
10
|
13
|
5
|
9
|
ہریانہ
|
128
|
26
|
20
|
21
|
16
|
3
|
2
|
78
|
61
|
0
|
0
|
10
|
ہماچل پردیش
|
8
|
3
|
38
|
1
|
13
|
0
|
0
|
4
|
50
|
0
|
0
|
11
|
جموں وکشمیر
|
22
|
22
|
100
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
12
|
جھارکھنڈ
|
260
|
245
|
94
|
10
|
4
|
2
|
1
|
3
|
1
|
0
|
0
|
13
|
کرناٹک
|
176
|
97
|
55
|
26
|
15
|
8
|
5
|
45
|
26
|
0
|
0
|
14
|
کیرالہ
|
152
|
119
|
78
|
30
|
20
|
2
|
1
|
1
|
1
|
0
|
0
|
15
|
مدھیہ پردیش
|
313
|
240
|
77
|
44
|
14
|
7
|
2
|
22
|
7
|
0
|
0
|
16
|
مہاراشٹر
|
353
|
271
|
77
|
61
|
17
|
9
|
3
|
11
|
3
|
1
|
0
|
17
|
منی پور
|
9
|
9
|
100
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
18
|
میگھالیہ
|
11
|
11
|
100
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
19
|
میزورم
|
26
|
26
|
100
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
20
|
ناگالینڈ
|
11
|
11
|
100
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
21
|
اوڈیشہ
|
314
|
303
|
96
|
5
|
2
|
0
|
0
|
0
|
0
|
6
|
2
|
22
|
پنجاب
|
138
|
22
|
16
|
5
|
4
|
2
|
1
|
109
|
79
|
0
|
0
|
23
|
راجستھان
|
295
|
45
|
15
|
29
|
10
|
33
|
11
|
185
|
63
|
3
|
1
|
24
|
سکم
|
4
|
4
|
100
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
25
|
تمل ناڈو
|
1166
|
427
|
37
|
163
|
14
|
79
|
7
|
462
|
40
|
35
|
3
|
26
|
تلنگانہ
|
584
|
278
|
48
|
169
|
29
|
67
|
11
|
70
|
12
|
0
|
0
|
27
|
تری پورہ
|
59
|
59
|
100
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
28
|
اترپردیش*
|
830
|
540
|
65
|
151
|
18
|
48
|
6
|
91
|
11
|
0
|
0
|
29
|
اتراکھنڈ
|
18
|
13
|
72
|
5
|
28
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
30
|
مغربی بنگال **
|
268
|
191
|
71
|
76
|
28
|
1
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
|
مجموعی ریاستیں
|
6828
|
4265
|
62
|
968
|
14
|
312
|
5
|
1185
|
17
|
98
|
1
|
|
مرکز کے زیر انتظام علاقے
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
1
|
انڈومان اور نیکوبار
|
36
|
35
|
97
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
1
|
3
|
2
|
چھتیس گڑھ
|
1
|
0
|
0
|
1
|
100
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
3
|
دادر اور ناگر حویلی
|
1
|
1
|
100
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
4
|
دمن اینڈ دیو
|
2
|
1
|
50
|
0
|
0
|
1
|
50
|
0
|
0
|
0
|
0
|
5
|
لکشدیپ
|
9
|
6
|
67
|
3
|
33
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
0
|
6
|
پڈوچیری
|
4
|
2
|
50
|
0
|
0
|
0
|
0
|
1
|
25
|
1
|
25
|
|
مرکز کے زیر انتظام مجموعی علاقے
|
53
|
45
|
85
|
4
|
8
|
1
|
2
|
1
|
2
|
2
|
4
|
|
مجموعی میزان
|
6881
|
4310
|
63
|
972
|
14
|
313
|
5
|
1186
|
17
|
100
|
1
|
نوٹ
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
بلاک- بہار، چھتیس گڑھ، ہریانہ، جھارکھنڈ، کیرالہ، مدھیہ پردیش، منی پور، میزورم، اڑیسہ، پنجاب، راجستھان، تری پورہ، اترپردیش، اتراکھنڈ، مغربی بنگال
|
تعلقہ-کرناٹک، گوا، گجرات، مہاراشٹر
|
منڈل-آندھراپردیش، تلنگانہ
|
ضلع/وادی- اروناچل پردیش، آسام، ہماچل پردیش، جموں اور کشمیر، میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ
|
جزائر- لکشدیپ، انڈومان اینڈ نیکوبار جزائر
|
فرکا- تمل ناڈو
|
خطہ-پڈوچیری
|
مرکز کے زیرانتظام علاقے- چنڈی گڑھ، دادر اینڈ ناگرحویلی، دمن اور دیو
|
تحصیل- نیشنل کیپٹل ٹریٹری دہلی
|
*اترپردیش: مجموعی طور پر 820 بلاک اور 10شہر
|
** زیرزمین آبی وسائل کے اندازے کے لیے 2013 میں کئے گئے اقدامات مغربی بنگال میں بھی نافذ کیے گئے ہیں۔
|
ضمیمہ-II
ضمیمہ کے حصے (اے ) اور (بی) میں دیے گئے حوالے 18.03.2021 کو لوک سبھا میں ‘پانی کی کمی’ والے اضلاع کے بارے میں پوچھے گئے سوال نمبر 3840 کے جواب پر مشتمل۔
ہندوستان میں بیسن –وار اوسط سالانہ پانی کی دستیابی کی تفصیلات
نمبر شمار
|
ندی بیسن
|
ندی کے کنارے کے متاثر علاقے (اسکوائرکلومیٹر)
|
اوسط آبی وسائل کی صلاحیت(بی سی ایم)
|
1.
|
دریائے سندھ
|
317708
|
45.53
|
2.
|
گنگا-برہم پتر-میگھنا
|
|
|
|
(اے)گنگا
|
838803
|
509.52
|
|
(بی)برہم پتر
|
193252
|
527.28
|
|
(سی)براک اور دیگر
|
86335
|
86.67
|
3.
|
گوداوری
|
312150
|
117.74
|
4.
|
کرشنا
|
259439
|
89.04
|
5.
|
کاویری
|
85167
|
27.67
|
6.
|
سبرنریکھا
|
26804
|
15.05
|
7.
|
برہمنی-بیترنی
|
53902
|
35.65
|
8.
|
مہا ندی
|
144905
|
73.00
|
9.
|
پنار
|
54905
|
11.02
|
10.
|
ماہی
|
39566
|
14.96
|
11.
|
سابرمتی
|
31901
|
12.96
|
12.
|
نرمدا
|
96659.79
|
58.21
|
13.
|
تاپی
|
65805.80
|
26.24
|
14.
|
تاپی سے تادری تک مغرب میں بہنے والی ندیاں
|
58360
|
118.35
|
15.
|
تادری سے کنیاکماری تک مشرق میں بہنے والی ندیاں
|
54231
|
119.06
|
16.
|
مہاندی سے پنار تک مشرق میں بہنے والی ندیاں
|
82073
|
26.41
|
17.
|
پنار سے کنیاکماری کے درمیان مشرق میں بہنے والی ندیاں
|
101657
|
26.74
|
18.
|
لونی سمیت کچھ اور سواشٹرکی مغرب میں بہنے والی ندیاں
|
192112
|
26.93
|
19.
|
راجستھان میں اندرونی سطح پر ڈرینج کا علاقہ
|
144835.90
|
نظرانداز کے قابل
|
20.
|
میانمار (برما) اور بنگلہ دیش تک بہنے والی چھوٹی ندیاں
|
31382
|
31.17
|
|
میزان
|
3271953
|
1999.20
|
ذریعہ: خلائی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے جون 2019 میں ہندوستان میں پانی کی دستیابی کا از سر نو جائزہ۔
ضمیمہ-III
ضمیمہ کے حصے (اے ) اور (بی) میں دیے گئے حوالے 18.03.2021 کو لوک سبھا میں ‘پانی کی کمی’ والے اضلاع کے بارے میں پوچھے گئے سوال نمبر 3840 کے جواب پر مشتمل۔
رواں سال اور پچھلے تین سال کے دوران مہاتماگاندھی دیہی ترقیاتی روزگار اسکیم (منریگا) کے تحت تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام ریاستوں میں پانی کے تحفظ اور پانی کی دستیابی کے تعلق سے کیے گئے کام۔
مہاتماگاندھی دیہی ترقیاتی روزگار اسکیم (منریگا) کے تحت (15مارچ 2021 تک) پانی کی ذخیرہ اندوزی اور دستیابی کے تعلق سے کیے گئے کام۔
|
سال
|
تکمیل
|
جاری
|
کام کی تعداد
|
خرچ
(لاکھ روپے میں)
|
کام کی تعداد
|
خرچ
(لاکھ روپے میں)
|
2020-21
|
4,09,727
|
5,94,210.71
|
9,96,961
|
15,27,538.27
|
2019-20
|
3,61,683
|
8,66,406.33
|
7,44,236
|
4,43,911.50
|
2018-19
|
3,16,917
|
8,08,484.14
|
6,04,991
|
2,26,140.19
|
2017-18
|
3,81,705
|
6,11,878.52
|
4,70,559
|
69,815.22
|
ضمیمہ-IV
ضمیمہ کا حصہ (ایف) میں دیے گئے حوالے 18.03.2021 کو لوک سبھا میں ‘پانی کی کمی’ والے اضلاع کے بارے میں پوچھے گئے سوال نمبر 3840 کے جواب پر مشتمل۔
پی ایم کے ایس وائی-ڈبلیو ڈی سی کے تحت 2015-16 سے 2020-21 کے دوران (30.9.2020 تک) پانی کی دستیابی / بہتری کے لیے کیے گئے اقدامات کی ریاست وار تفصیل۔
نمبر شمار
|
ریاست
|
ڈبلیو ایچ ایس کے تحت / کام کی تفصیل
(تعداد میں)
|
1
|
آندھرا پردیش
|
182075
|
2
|
اروناچل پردیش
|
441
|
3
|
آسام
|
6797
|
4
|
بہار
|
6045
|
5
|
چھتیس گڑھ
|
7608
|
6
|
گجرات
|
39061
|
7
|
ہریانہ
|
3245
|
8
|
ہماچل پردیش
|
6655
|
9
|
جموں وکشمیر*
|
4898
|
10
|
جھارکھنڈ
|
3630
|
11
|
کرناٹک
|
24430
|
12
|
کیرالہ
|
25296
|
13
|
مدھیہ پردیش
|
27132
|
14
|
مہاراشٹر
|
9673
|
15
|
منی پور
|
6814
|
16
|
میگھالیہ
|
1522
|
17
|
میزورم
|
9092
|
18
|
ناگالینڈ
|
2488
|
19
|
اوڈیشہ
|
21292
|
20
|
پنجاب
|
365
|
21
|
راجستھان
|
91869
|
22
|
سکم
|
125
|
23
|
تمل ناڈو
|
40220
|
24
|
تلنگانہ
|
19011
|
25
|
تری پورہ
|
2355
|
26
|
اترپردیش
|
20307
|
27
|
اتراکھنڈ
|
14634
|
28
|
مغربی بنگال
|
13558
|
|
میزان
|
5,90,638
|
نوٹ: یہ عبوری ہے اور(ریاستوں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق) قابل تبدیلی بھی۔
* سابق جموں وکشمیر
یہ اطلاع وزیر مملکت برائے جل شکتی و سماجی انصاف اور تفویض اختیارات جناب رتن لال کٹاریہ نے آج لوک سبھا میں دی۔
*************
ش ح۔ ج ق۔ ت ع
U No. 3043
(Release ID: 1707493)
Visitor Counter : 390