سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
خاتون رہنماؤ ں نےسائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں خواتین کو آگے بڑھانے کیلئے مختلف پالیسیوں اور بہترین طریق عمل پر غور کیا
Posted On:
09 MAR 2021 4:47PM by PIB Delhi
سائنس اور ٹیکنالوجی کی نامور خاتون رہنماؤ ں نے خواتین کو اسٹیریو ٹائپ کرنے اور انہیں وہ احترام دینے جن کی وہ مستحق ہیں اور ان کی حیثیت تسلیم کرنے کیلئے عوامی ذہنیت میں تبدیلی کی ضرورت پر زور دیا۔خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ایک پینل مباحثہ میں ان خیالات کا اظہار کیا گیا۔
نیشنل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی انٹرپرینر شپ ڈیو لپمینٹ بورڈ (این ایس ٹی ای ڈی بی)کی مشیر اور سربراہ ڈاکٹر انیتا گپتا نے اس پینل مباحثہ میں عورتوں پر زور دیا کہ وہ اپنی زندگی کی ذمہ داری اٹھائیں ۔مباحثہ کا اہتمام حکومت ہند کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے محکمہ ،سینٹر فار پالیسی ریسرچ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اور یونیسکو نے ‘‘مین اسٹریمنگ جینڈر ان ایس ٹی ای ایم :پالیسیز اینڈ پریکٹسیز ’’ عنوان کے تحت کیا تھا۔
انہوں نے اپنا یہ مشاہدہ پیش کیا کہ لڑکیوں کی طرف سے ثانوی نتائج بہتر انجام کے مظہر ہیں لیکن آگے چل کر پائپ لائن میں رساؤ کی بنیادی وجہ خواتین کے تعلق سے ذہنیت اور رویہ ہے۔
برٹش کونسل ساؤتھ انڈیا کی ڈائریکٹر جنک پشپن تھن نے سائنس اور تحقیق کے ان انوکھے تناظر کے بارے میں جو خواتین سامنے لاسکتی ہیں ،بات کرتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ ایس ٹی ای ایم میں روزگار کے مواقع بڑھ رہے ہیں ہمیں عورتوں کو درپیش مسائل کو سمجھنے اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور لڑکیوں کو سائنس سے معاملات کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہےتاکہ ان کے رول ماڈل سامنے آئیں۔
ہندوستان میں شاہی نارویائی ایمبیسی میں سائنس ،ٹیکنالوجی اور اعلیٰ تعلیم کے کونسلر ڈاکٹر مان سنگھ سدھو نےیہ بتاتے ہوئے کہ دنیا کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے، کہا کہ وہ سائنس اورٹیکنالوجی کے ماحولیاتی نظام سے باہر نہیں رہ سکتیں ۔انہوں نے کہا کہ لیڈر شپ ڈیولپمینٹ پروگرام ،لڑکیوں کو سائنس کی طرف راغب کرنے کے نصاب میں تبدیلی ،تحقیق میں صنفی توازن کچھ ایسے طریقے ہیں جو ایس ٹی ای ایم میں خواتین کی تعداد بڑھانے میں مدد کرسکتے ہیں اور ہم نے بہتری کیلئے ان پروگراموں کو نافذ کیا ہے۔
سائنس ٹیکنالوجی اور جدت طرازی (ایس ٹی آئی) کے ماحولیاتی نظا م میں قدم رکھتے وقت خواتین کو جس قسم کے مشکلات اور پریشانی پیش آتی ہیں ان کے تعلق سے اظہار خیال کرتے ہوئے آرگنائیزیشن پارک وومین ان سائنس فار دی ڈیولپنگ ورلڈ (او ڈبلیو ایس ڈی)کی کوآرڈینیٹر ڈاکٹر ٹونیا بلوورس نے کہا کہ اگر چہ مختلف سطحوں پر کوششیں کی جارہی ہیں پھر بھی سائنس ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کے میدان میں خواتین کی حوصلہ افزائی کیلئے ابھی ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
انٹرنیشنل سروسیز فار دی ایکویزیشن آف ایگروپایوٹیک اپلیکیشن (آئی ایس اے اے اے) کی گلوبل کو آرڈینیٹر اور ملائیشین بایو ٹیکنالوجی انفارمیشن سینٹر (ایم اے بی آئی سی)کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر مہالیٹ کومی اروجانن نے زور دیکر کہا کہ ایس ٹی ای ایم پر مردوں کا غلبہ رہا اور خواتین کیلئے لڑکوں کے گروپ میں ہمت کے ساتھ داخل ہونا آسان نہیں ۔انہوں نے کہا کہ خواتین سائنسدانوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود جب پوچھا جاتا ہے کہ کسی سائنسداں کا نام بتایا جائے تو ترقی یافتہ ملکوں میں بھی کسی مرد سائنسداں کی شبیہ ذہن کے پردے ابھرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ خواتین اس دنیا میں کا اہم کردار ہیں اور عالمی آبادی میں وہ نصف حصہ رکھتی ہیں لیکن وہ اب بھی اس کا فائدہ نہیں اٹھاپارہی ہیں۔ہمیں چاہئے کہ انہیں بہترین زندگی اور مستقبل کے رخ پر اس دنیا کا ایک حصہ بنائیں۔
مقررین نے قومی علاقائی اور عالمی سطحوں کی مختلف پالیسیوں اور بہترین طریقہ عمل پر غورکیا۔ساتھ ہی ساتھ سائنس ٹیکنالوجی انجینئرنگ اور ریاضیات کے علاوہ سائنس ٹیکنالوجی اور جدت طرازی میں امتیازات اور صنفی نابرابری ختم کرنے کیلئے ایسی مداخلتوں ، ماڈل اور فریم ورک کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآمد کی راہ میں حائل مشکلات سے نمٹنے اور امکانات سے رجوع کرنے پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
******
ش ح ۔ ع س ۔ م ش
U-2534
(Release ID: 1704798)
Visitor Counter : 151