شہری ہوابازی کی وزارت

پی پی پی نیلامی کے عمل کے تحت پورٹل میں 6 ہوائی اڈوں کے لئے 86 رجسٹریشن موصول ہوئے


پریس نوٹ

Posted On: 21 JAN 2021 4:59PM by PIB Delhi

مؤرخہ 15 جنوری 2021 کو ایک نیوز آرٹیکل میں یہ رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ 2019 کے پی پی پی نیلامی عمل میں ’’اڈانی کے ذریعہ 6 ہوائی اڈوں پر کلین سویپ سے قبل وزارت خزانہ اور نیتی آیوگ نے تشویشات کا اظہار کیا تھا‘‘ اور حکومت نے اس کو نظرانداز کر دیا۔ یہ بیان حقیقتاً غلط ہے کیونکہ نیلامی کا عمل حکومت ہند کے ای ۔ ٹینڈرنگ پورٹل کے توسط سے مسابقتی اور شفاف انداز میں انجام پایا جس میں دنیا بھر کی 25 کمپنیوں نے خود کو درج رجسٹر کرایا اور 6 ہوائی اڈوں کے لئے اس پورٹل میں مجموعی طور پر 86 رجسٹریشن موصول ہوئے۔

ان رجسٹریشن میں سے، 6 ہوائی اڈوں کے لئے  32 نیلامیاں 10 مختلف کمپنیوں  کی جانب سے موصول ہوئیں۔ چونکہ نیلامی کا عمل شفاف انداز میں مکمل ہوا، اس لیے نیلامی کے عمل میں شرکت کرنے والے کسی بھی ادارے نے کسی طرح کی تشویش یا اعتراض کا اظہار نہیں کیا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ نیلامی کے دوران کامیاب ہونے والے اداروں کا نام کسی کے بھی سامنے ظاہر نہیں کیا گیا۔ ٹینڈر دستاویز میں نیلامی کا معیار بولی لگانے والے کے ذریعہ ’فی مسافر قیمت‘ متعین کیا گیا اور جس کمپنی کی بولی فی مسافر قیمت کے لحاظ سے زیادہ ہے اس کو کامیاب بولی لگانے والا قرار دیا جائے گا۔

تکنیکی طور پر اہل بولی لگانے والوں کی مالی نیلامی کا عمل شروع ہونے کے بعد، یہ بات سامنے آئی کہ تمام چھ ہوائی اڈوں کے لئے میسرز اڈانی انٹرپرائزیز لمیٹڈ کی بولی سب سے زیادہ تھی۔ چونکہ ہر ہوائی اڈے کے ٹینڈر کا عمل انفرادی بنیادوں پر شروع کیا گیا تھا، تاہم اسی دوران سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو نیلامی دستاویز کی شرائط کے مطابق کامیاب سمجھا گیا۔

یہ کہنا کہ وزارت خزانہ اور نیتی آیوگ نے 2019 میں عمل میں ہوائی اڈوں کی نیلامی کے عمل پر اپنی جانب سے اعتراض کا اظہار کیا ہے، حقیقتاً غلط ہے اور اس میں حقائق کا فقدان ہے کیونکہ بطور اراکین، وزارت خزانہ (اقتصادی امور کا شعبہ، اور لاگت کا شعبہ)، اور شہری ہوابازی کے ساتھ سکریٹریوں کے خودمختار گروپ (ای جی او ایس) کو ان معاملات پر عوامی نجی شراکت داری اپریزل کمیٹی (پی پی پی اے سی) کے دائرہ کار سے باہر فیصلہ لینے کے لئے مرکزی کابینہ کے ذریعہ اختیارات دیے گئے تھے۔ اسی کے مطابق، پی پی پی کی لین دین کی شرائط 17 نومبر 2018 کو منعقدہ میٹنگ میں ای جی او ایس کے ذریعہ طے کی گئیں جن پر 11 دسمبر 2018 کو منعقدہ میٹنگ کے دوران پی پی پی اے سی کے ذریعہ اتفاق کیا گیا۔ ای جی او ایس نے بولی کے لئے ہوائی اڈوں کی تعداد پر کسی طرح کی پابندی عائد نہ کرکے یا کسی ایک کمپنی کو ہی ٹینڈر دے دینے سے متعلق ایک سمجھداری بھرا فیصلہ لیا۔ اس سلسلے میں اس حقیقت کو مدنظر رکھا گیا کہ یہ چھ ہوائی اڈے سائز میں چھوٹے ہیں اور مسافروں کی 9.5 فیصد تعداد پر ہی احاطہ کرتے ہیں جبکہ دہلی اور ممبئی کے ہوائی اڈوں کو، جب 2006 میں پی پی پی کے تحت لایا گیا تو اس وقت وہ مسافرین کی مجموعی تعداد کے 45 فیصد حصہ پر حاطہ کرتے تھے، اور ایک ہوائی اڈے کو واحد بولی لگانے والے تک محدود کرنا ضروری تھا۔ واحد کمپنی کے ذریعہ متعدد ہوائی اڈوں کی انتظام کاری کے مقابلے میں نجی ہوائی اڈہ آپریٹروں کے ذریعہ مسافرین کی تعداد کی انتظام کاری زیادہ اہم ہے۔ اس کے علاوہ، ای جی او ایس نے مسابقت میں اضافہ کرنے اور ان کمپنیوں کی اجارہ داری سے بچنے کے لئے جن کے پاس پہلے سے ہی ہوائی اڈوں کا تجربہ ہے، تاکہ وہ دیگر کمپنیوں پر سبقت نہ لے جائیں، لازمی اہلیت کے طور پر پہلے سے ہوائی اڈے کا تجربہ رکھنے کو معیار کے طور پر متعین نہیں کیا۔

ڈی ای اے اور نیتی آیوگ کی سفارشات کو نظرانداز کرنے کے مسئلے پر، یہ بات نوٹ کی جانی چاہئے کہ ای جی او ایس اور پی پی پی اے سی دونوں ہی، وزارت خزانہ (اقتصادی امور کا شعبہ اور لاگت کا شعبہ)، نیتی آیوگ اور شہری ہوابازی، پر مشتمل ہیں۔ اسی لیے، وزارت خزانہ اور نیتی آیوگ نے پہلے ہی ای جی او ایس کی میٹنگ میں نیلامی کے عمل کے منصوبے پر غوروخوض کرکے اسے حتمی شکل دے دی تھی اور اس کے بعد پی پی پی اے سی کی میٹنگ میں اس تجویز کا تخمینہ لگایاگیا۔ اس لیے، یہ کہنا کہ وزارت خزانہ اور نیتی آیوگ کی آراء کو نظرانداز کیا گیا، سراسر غلط اور مفروضات پر مبنی ہے کیونکہ اس تجویز کے مختلف پہلوؤں پر وزارت خزانہ اور نیتی آیوگ کے خیالات پی پی پی اے سی کے قائم شدہ طریقہ کار کا حصہ ہیں تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ پی پی اے سی کے سامنے فیصلہ لیے جانے سے قبل تمام تر پہلوؤں کو اچھی طرح جانچ پرکھ لیا جائے اور اسے خارج نہیں کیا جا سکتا۔

میسرز اڈانی انٹرپرائزیز کے ذریعہ ممبئی ہوائی اڈے میں حصہ داری حاصل کرنے اور اسی وقت میں تین ہوائی اڈوں یعنی احمدآباد، لکھنؤ اور منگلور پر قبضہ لینے کے لئے اے اے آئی سے توسیع لینے سے متعلق، یہ کہا جاتا ہے کہ دونوں ہی لین دین ایک دوسرے سے آزاد ہیں۔ ایم آئی اے ایل میں نجی کمپنیوں کی حصہ داری کی فروخت کی رہنمائی خالصتاً ایم آئی اے ایل کے شیئر ہولڈروں کے ایگریمنٹ کی معاہدہ شرائط کے ذریعہ کی گئی ہے۔ کوئی بھی شیئر ہولڈر ایس ایچ اے میں درج مقررہ پروسیس، جو کہ ابھی مکمل ہونا باقی ہے،  پر عمل کرنے کے بعد اپنا حصہ فروخت کرنے کے لئے آزاد ہے۔ حصص کی حصولیابی، لاک ۔ اِن مدت ختم ہو جانے کے بعد شیئر ہولڈروں کے معاہدے میں دیے گئے پہلے انکار کے حق پر عمل کرتے ہوئے کسی بھی کمپنی کے ذریعہ انجام دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح کا لین دین بنگلور ہوائی اڈے کے معاملے میں پہلے بھی عمل میں آچکا ہے۔ ایل اینڈ ٹی اور زیورِک کے حصص ،جی وی کے ایئرپورٹس ہولڈنگ کے ذریعہ حاصل کیے گئے تھے جس نے بعد میں انہیں فیئرفیکس کو فروخت کر دیا۔

رعایتی معاہدے پر دستخط کے متعین کردہ 6 مہینوں کی مدت سے آگے تین ہوائی اڈوں پر سی او ڈی کی توسیع کے تعلق سے، کووِڈ۔19 وبائی مرض کے دوران پیدا ہوئی صورتحال کے نتیجے میں لاجسٹکس کی وجہ سے ہوائی اڈے پر قبضہ حاصل کرنے میں پریشانی ہوئی۔ اس کے علاوہ، مضمون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گواہاٹی، جے پور اورتھروواننت پورم کے لئے رعایتی معاہدے پر دستخط اے اے آئی کے ذریعہ ستمبر میں کیے گئے جبکہ حقیقت میں دستخط 19 جنوری 2021 کو عمل میں آئے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مذکورہ بالا مضمون میں لگائے گئے تمام الزامات وہی ہیں جنہیں کیرالا ہائی کورٹ میں مختلف پیٹشنروں کے ذریعہ اے اے آئی ایئر پورٹ کے پی پی پی آپریشن کی مخالفت میں داخل کیے گئے اور جن پر میرٹ کی بنیاد پر سنوائی ہوئی اور فیصلہ لیا گیا اور آخرکار کورٹ نے 19 اکتوبر 2020 کو اپنے فیصلے میں تمام پیٹیشنوں کو خارج کر دیا۔ اس طرح حکومت ہند کے ذریعہ شروع کیے گئے پی پی پی پروسیس کی حمایت میں فیصلہ سنایاگیا۔

 

***

 

 

 

ش ح ۔اب ن

U-671



(Release ID: 1691019) Visitor Counter : 178


Read this release in: English , Hindi , Manipuri , Tamil