کیمیکلز اور فرٹیلائزر کی وزارت

کینسر کی دواؤں کو سستا کرنے میں این پی پی اے کا اہم رول


دوا کی قیمتوں کو منطقی بنانے کے لیے فروری 2019 میں شروع کیے گئے این پی پی اے سے 526 کمپنیوں کو کینسر روکنے والی 42 دواؤں کی قیمت میں 90 فیصد تک کی کمی آئی

کینسر میں مبتلا مریضوں کی دواؤں پر ہونے والے خرچوں میں سالانہ 1000 کروڑ روپے تک کی بچت

این پی پی اے 7 نومبر کو کینسر سے بیداری کا قومی دن مناتا ہے

Posted On: 06 NOV 2020 6:04PM by PIB Delhi

 

نئی دہلی، 06 نومبر: نیشنل ہرماسیوٹیکل پرائسنگ اتھارٹی (این پی پی اے) نے کہا ہے کہ کینسر کو روکنے والی دواؤں کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے فروری 2019 میں شروع کی گئی کوشش کے امید سے کہیں بڑھ کر اچھے نتائج دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ عوامی مفاد میں اپنے غیر معمولی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے این پی پی اے نے کینسر کو روکنے والی 42 دواؤں پر پائلٹ پروجیکٹ کی بنیاد پر ٹریڈ مارجن ریشنلائزیشن شروع کیا تھا۔ اس کا مقصد کینسر سے متاثر مریضوں کو سستی قیمت پر طبی خدمات مہیا کرانا تھا۔

7 نومبر کو کینسر سے بیداری کے قومی دن منائے جانے کے تناظر میں ایک بیان میں این پی پی اے نے آج کہا کہ اس فیصلہ کی تمام فریقین نے جم کر ایک آواز میں تعریف کی ہے۔ این پی پی اے کے ذریعے جاری نوٹیفکیشن کی تعمیل کے بعد دوا بنانے والوں سے جو رد عمل حاصل ہوا ہے ان کی بنیاد پر یہ واضح ہو گیا ہے کہ 526 برانڈ کی 42 کینسر مزاحم دواؤں کی قیمتوں میں 90 فیصد تک کی کمی آئی ہے۔ مختلف برانڈ کے ذریعے قیمتوں میں جو کمی کی گئی ہے اس کا فیصد فرق درج ذیل ہے:

 

نمبر شمار

قیمتوں میں کمی کی الگ الگ سطحیں

برانڈ کی تعداد

1

75 فیصد اور اس سے زیادہ

63

2

50 فیصد سے 75 فیصد

167

3

25 فیصد سے 50 فیصد

169

4

25 فیصد تک

127

 

کل

526

 

مثال کے طور پر Birlotib برانڈ کے تحت تیار کردہ 150 ملی گرام کی Erlotinib دوا کی قیمت 9999 روپے سے گھٹ کر 891.79 روپے ہو گئی، جو 91.08 فیصد کی گراوٹ ہے۔ اسی طرح 500 ملی گرام کا Pemetrexed انجیکشن جسے Pemestar 500 کے برانڈ سے فروخت کیا جاتا تھا، اس کی قیمت 25400 سے گھٹ کر 2509 روپے ہو گئی، جو کہ 90 فیصد کی کمی ہے۔ 20 ہزار روپے سے زیادہ قیمت والی نشان زد کی گئی 124 دواؤں میں سے اب تک 62 نے تبدیلیاں کی ہیں۔

اس پائلٹ پروجیکٹ کے نفاذ سے کینسر کے مریضوں کے 984 کروڑ روپے بچائے جا سکے ہیں۔ یہ انتہائی طمانیت کا موضوع ہے کہ اس پائلٹ پروجیکٹ کے مریضوں کے ساتھ ساتھ مددگار گروہوں نے بھی بھرپور پذیرائی کی ہے۔

آل انڈیا ڈرگ ایکشن نیٹ ورک (اے آئی ڈی اے این) نے بھی عوامی مفاد میں کینسر مخالف دواؤں کے منافع کی حد طے کرنے کے لیے این پی پی اے کے ذریعے لیے گئے فیصلے کی تعریف کی ہے۔ آج بھی بھارت سمیت پوری دنیا میں غیر متعدی اور لمبی بیماری سے ہونے والی اموات میں کینسر سب سے بڑے امراض میں سے ایک ہے۔

این پی پی اے نے کہا کہ عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق سب سے زیادہ اموات کے معاملے میں کینسر دنیا میں دوسرے مقام پر آتا ہے۔ سال 2018 میں دنیا میں تقریباً 18 ملین کینسر کے معاملے سامنے آئے تھے، جس میں 1.5 ملین اکیلے بھارت میں تھے۔ 2018 میں ہی دنیا میں کینسر کے سبب ہونے والی 9.5 ملین اموات کے مقابلے بھارت میں 0.8 ملین اموات ہوئی تھیں۔ بھارت میں سال 2040 تک نئے مریضوں کی تعداد دو گنی ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

کینسر کے سبب مریض اور فیملی کو خطرناک غریبی اور یہاں تک کہ دیوالیہ پن کے حالات کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے کینسر کی دواؤں کا سستا ہونا بے حد ضروری ہے تاکہ شروعاتی حالت میں جب یہ علاج کے قابل ہو، کم قیمت پر دوائیں مہیا کرائی جا سکیں اور جان بچائی جاسکے۔ دواؤں کی قیمت میں کمی سے کینسر کے علاج پر ہونے والے خرچوں میں بھاری گراوٹ آئے گی جو ایک بڑی راحت ہے۔

مرکزی حکومت کینسر پر قابو پانے اور سستی و آسان طبی خدمت مہیا کروانے کی ریاستی حکومتوں کی کوشش میں معاون کارول نبھاتی ہے۔ کینسر پر کنٹرول اور علاج، ذیابیطس، قلبی امراض اور اسٹروک کے نیشنل پروگرام (این پی سی ڈی سی ایس) کو نیشنل ہیلتھ مشن (این ایچ ایم) کے تحت ضلعی سطح پر نافذ کیا جا رہا ہے۔

آیوشمان بھارت کے تحت پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا (پی ایم-جے اے وائی) کو نافذ کیا جا رہا ہے تاکہ بیماری کی چپیٹ میں آئے غریب کنبوں کو بہتر طبی سہولیات اور اقتصادی امداد مہیا کرائی جاسکیں۔ اس کے تحت ہر ایک مستفدین کو فی سالل 5 لاکھ روپے کا صحت بیمہ مہیا کرایا جا رہا ہے۔

این پی پی اے، ڈرگ پرائس کنٹرل آرڈر (ڈی پی سی او) 2013 کے تحت تمام قسم کی دواؤں کی قیمتوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ ضروری دواؤں کی قومی فہرست (این ایل ای ایم) کے مطابق دواؤں کی قیمت طے کرتی ہے، جو فرسٹ شیڈول آف ڈرگ پرائسنگ کنٹرول آرڈر (ڈی پی سی او)، 2013 میں شامل ہے۔

شیڈول دواؤں کی قیمتوں کا تعین کرکے، این پی پی اے فارما سیکٹر کے صرف 17-16 فیصد حصے کا احاطہ کرتا ہے۔ ڈی پی سی او کے پہلے شیڈول، 2013 میں کینسر کے علاج میں استعمال کی جانے والی منتخب دوائیں بھی شامل ہیں۔ حالانکہ، طویل عرصے سے مانگ ہوتی رہی ہے کہ ان دواؤں کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جانا چاہیے جو شیڈولڈ نہیں ہیں، کیوں کہ کنٹرول کا کوئی انتظام نہیں ہونے سے بڑی تعداد میں دواؤں کی قیمتیں ضرورت سے کافی زیادہ ہوتی ہیں۔

*****

م ن ۔ ق ت   

U:7056



(Release ID: 1671291) Visitor Counter : 226


Read this release in: English , Hindi , Telugu