جدید اور قابل تجدید توانائی کی وزارت

سال 20۔2019 (دسمبر  2019 تک) 7591.99 میگا واٹ قابل احیا توانائی کی پیداوار ہوئی؛ 34160 میگا واٹ قابل احیا توانائی کی صلاحیت،  زیر عمل درآمد ہے: آر کے سنگھ

Posted On: 04 FEB 2020 2:46PM by PIB Delhi

نئی دہلی،  4 فروری 2020،   نئی اور قابل احیا توانائی اور بجلی کے وزیر مملکت  (آزادانہ چارج) ہنرمندی کے فروغ اور صنعت کاری کے وزیر مملکت جناب آر کے سنگھ نے وقفہ سوالات کے دوران راجیہ سبھا کو بتایا کہ سال 20۔2019 (دسمبر 2019 تک)  کے دوران 7591.99 میگا واٹ کی قابل احیا توانائی کی پیدوار ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مزید 34160 میگاواٹ  قابل احیا توانائی کی صلاحیت عمل درآمد کے مختلف مراحل میں ہے۔ امید ظاہر کی جاتی ہے کہ 20۔2019 کے دوران قابل احیا توانائی میں اضافہ ہوگا اور یہ 19۔2018 میں حاصل کی گئی اضافی صلاحیت کو تجاوز کرجائے گی جو 8532.22 میگا واٹ تھی۔

جناب سنگھ نے مزید بتایا کہ ملک میں قابل احیا توانائی کے پروجیکٹوں کو گرڈ کے ساتھ جوڑنے کا زیادہ تر کام پرائیویٹ سیکٹر کے ڈیولپروں کے ذریعہ کیا جارہا ہے جن کا انتخاب شفاف مسابقتی بولی لگانے کے عمل سے ہوا ہے۔ ان ڈیولپروں نے اپنی سہولتی معلومات میں پونجی لگائی ہے۔ پھر بھی فی میگا واٹ پر معیاری سرمایہ کاری کی لاگت کی بنیاد پر سال 19۔2018 کے دوران قابل احیا توانائی کے شعبے میں 40459.99 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ سال 20۔2019 کے دوران (دسمبر 2019 تک) 36729.49 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

قابل احیا توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی غرض سے حکومت کے ذریعہ کئے جارہے اقدامات کی وضاحت کرتے ہوئے، وزیر موصوف نے کہا کہ  ان اقدامات میں خود کار راستے سے صد فیصد براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری  (ایف ڈی آئی)  کی اجازت دینا، بجلی کی خریداری کے معاہدوں  (پی پی اے) کو مستحکم کرنا، قابل احیا توانائی کے پیداکاروں کو بروقت ادائیگی کو یقینی بنانے کے لئے ترسیلی لائسنسوں کے ذریعہ پیمنٹ  سکیورٹی میکانزم کے طور پر لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) کو یقینی بنانا،  سرمایہ کاروں کو پلگ اینڈ پلے کی بنیاد پر اراضی اور ٹرانسمیشن مہیا کرانے کی غرض سے الٹرا میگا رینیو ایبل انرجی پارکوں  (یو ایم آر ای پی) کا قیام،  31 دسمبر 2022 تک شروع ہونے والے شمسی پون بجلی پروجیکٹوں کی بین ریاست فروخت میں ہونے والے اخراجات اور بین ریاستی ترسیلی نظام  (آئی ایس ٹی ایس)، چارجز کی معافی،  کم لاگت پر مسابقتی شرحوں  پر شمسی اور پون بجلی توانائی کی خریداری کے لئے تقسیمی لائسنس حاصل کرنے کے لئے معیاری  بولی لگانے سے متعلق رہنما خطوط کا اعلان کرنا، سال 2022 تک قابل احیا توانائی کی خریداری  کے معاہدے (آر پی او) کا اعلان  کرنا،  قابل احیا توانائی کی دولت سے مالا مال ریاستوں سے گزرنے کے لئے انڈر گرین کوریڈور اسکیم کے تحت ترسیلی لائنیں بچھانا،  گھریلو سطح پر مینوفیکچرنگ کی صلاحیت پیدا کرنے کے لئے  ٹینڈر سے منسلک مینو فیکچرنگ کو حتمی شکل دینا، پردھان منتری کسان اورجا سرکشا ایوم اتّھان مہا ابھیان  (پی ایم ۔ کے یو ایس یو ایم)، سولر روف ٹاپ فیس۔2، بارہ ہزار میگا واٹ سی پی ایس یو اسکیم فیس۔2 وغیرہ  شامل ہیں۔

دوسرے سوال کے جواب میں جناب آر کے سنگھ نے مزید بتایا کہ حکومت نے ملک میں قابل احیا توانائی کے استعمال سے متعلق ترغیبات کے لئے  متعدد مالی پالیسی  اور ریگولیٹری اقداما ت کئے ہیں۔ ان اقدامات میں روف ٹاپ سولر پی وی سسٹم کے لئے مالی ترغیبات اور تقسیم کار کمپنیوں (ڈی آئی ایس سی او ایم) کو کارکردگی کی بنیاد پر ترغیبات،  حرارتی بجلی گھروں میں بجلی کی پیداوار اور شیڈولنگ میں لچک، قابل احیا توانائی کے بڑھتے حصے کے لئے گرڈ خریداری، سرکاری دائرہ کار کے اداروں (سی پی ایس یو) کے ذریعہ سولر پی وی پاور پروجیکٹوں کو گرڈ کے ساتھ جوڑنے کی اسکیمیں، شمسی اور پون بجلی پروجیکٹوں کی بولی پر مبنی شفاف  محصول  کے لئے رہنما خطوط ، آف گرڈ کے قیام اور شمسی نظام کی  لازمرکزیت کے لئے سبسڈی،  فیملی ٹائپ بایو گیس پلانٹوں کے قیام کے لئے سبسڈی، سولر فوٹو وولٹکس سسٹم /  آلات کی تنصیب کے لئے معیارات کا اعلان اور 15 کروڑ روپے کی حد تک قرض لینے کے لئے ترجیحی سیکٹر  میں قرضوں کی صورتحال شامل ہے۔

ڈی آئی ایس سی او ایم کے سرمائے اور  عملی غیر یقینی حالت کے اسباب سے متعلق سوال کے  جواب میں انہوں نے کہا کہ اس کے کئی اسباب ہیں جن میں  دوسری چیزوں کے ساتھ ٹیرف کا لاگت کو ظاہر نہ کرنا، ٹیرف کی ادائیگی ممیں تاخیر، سبسیڈائزڈ زمروں میں کی گئی سپلائی کے مقابلے میں ریاستوں کے ذریعہ سبسڈی کی ادائیگی میں تاخیر  اور عدم اجرا یا جزوی طور پر اجرا، اعلی اوسط پر تکنیکی اور کاروباری خسارے کی سطح (اے ٹی اینڈ سی) وغیرہ شامل ہیں۔حکومت نے ڈسکام (ڈی آئی ایس سی او ایم) مالی اور عملی نابرابری کو دور کرنے کے لئے اجول ڈسکام ایشورینس یوجنا (یو ڈی اے وائی) شروع کی ہے۔ حکومت نے ریاستوں کو صارفین کے موجودہ میٹروں کو اسمارٹ پری پیڈ میٹروں میں تبدیل کرنے کا مشورہ بھی دیا ہے تاکہ بلنگ اور کلکشن کی خرابی تین سال کی مدت کے اندر بہتر ہوسکے۔پہلے سبسڈی کے اجرا کو یقینی بنانے اور پابندی سے توانائی کا ایڈٹ   کرانے کا مشورہ بھی دیا ہے۔

قابل احیا توانائی کے پیدا کاروں کو بروقت رقم کی ادائیگی کو یقینی بنانے کی غرض سے جناب آر کے سنگھ نے بتایا کہ ہندوستان کی قابل احیا توانائی ترقی ایجنسی لمیٹیڈ  (آئی آر ای ڈی) جو کہ ایک سرکاری کمپنی ہے اور غیر بیکنگ مالی ادارہ ہے۔ترجیحی شرحوں پر ڈسکام کو قلیل مدتی قرض دیئے ہیں۔ مالی سال 20۔2019 کے دوران  آئی آر ای ڈی اے نے  تلنگانہ کے درمیان 900 کروڑ روپے، آندھرا پردیش کو 1200 کروڑ روپے اور تمل ناڈو کو 4500 کروڑ روپے  تقسیم کئے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

  م ن۔ ش س۔ن ا۔

U- 536



(Release ID: 1601928) Visitor Counter : 136


Read this release in: English