صدر جمہوریہ کا سکریٹریٹ

صدر جمہوریہ ہند جناب رام ناتھ کووند کا ‘یوم دستور’کی افتتاحی تقریر سے خطاب

Posted On: 26 NOV 2019 1:41PM by PIB Delhi

 

نئی دہلی،26؍نومبر:

معزز ممبران پارلیمنٹ ،

  1. میں ‘آئین ہند’ کو اپنانے کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر  آپ سب کو  اور ہندوستان اور بیرون ملک  میں مقیم اپنے تمام ساتھی شہریوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
  2. آج سے70 سال قبل ٹھیک اسی دن  اسی سینٹرل ہال میں دستور ساز اسمبلی کے ممبروں کے ذریعہ  ہم ہندوستان کے لوگوں نے اس آئین کو اپنایا ، نافذ کیا اور اپنے آپ کو دیا۔
  3. سال2015 میں باباصاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے125 ویں یوم پیدائش کے موقع پر حکومت ہند نے ہر سال 26 نومبر کو ‘یوم دستور’ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ یہ ہمارے آئین کے چیف معمار کا شکریہ ادا کرنے کے تئیں ایک قابل تحسین اقدام ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ جب پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے  ارکان کی شرکت کے ساتھ  ہم سب سینٹرل ہال میں ‘یوم دستور’ منا رہے ہیں۔ اس تاریخی واقعہ کاگواہ بننا اور اس  میں شرکت کرنا ہم سب کے لئے اعزاز کی بات ہے۔
  4. ہمارے آئین سازوں نے  اپنے شعور، حکمت ، تدبر ، دور اندیشی اور مستعدی کے ذریعہ ایک مستقبل  رخی اور متحرک دستاویز تیار کیا، جس سے ایک طرف ہمارے نظریات اور امنگوں کی نمائندگی ہوتی ہے تو وہیں دوسری طرف تمام ہندوستانیوں کے مستقبل کی حفاظت بھی ہوتی ہے۔ آئین ہند ملک کے جمہوری ڈھانچے میں ایک اعلیٰ ترین قانون ہے اور یہ ہماری کوششوں میں ہماری مسلسل رہنمائی کرتا ہے۔آئین ہمارے جمہوری نظام حکمرانی اور ہماری رہنمائی کی بھی بنیاد ہے۔
  5. ہم ہندوستانیوں میں اپنی ہندوستانی شناخت کو برقرار رکھنے کی روایت رہی ہے اور ساتھ ہی تمام ذرائع سے نکلنے والے عمدہ خیالات کا خیرمقدم بھی کیا گیا ہے۔ ان ثقافتی اقدار کی ہمارے آئین کی تشکیل میں بھی جھلک ملتی ہے۔ ہم نے دوسرے ممالک کے متعدد دیگر دستوروں سے بہترین طریقوں کو اختیار کیا ہے۔اس کے علاوہ ہمارےقدیم دور کےاقدار اور ہماری جدوجہد آزادی کے نمونوں کو بھی ہمارے آئین میں دیکھا جاسکتا ہے۔ہمارا آئین ہندوستان کے عوام کے لئے، ہندوستان کے لوگوں کے ذریعہ تعمیر ہندوستان کے لوگوں کا آئین ہے۔یہ ایک قومی دستاویز ہے، جس کے مختلف پہلو ہماری قدیم  اسمبلیوں اور سبھاؤں ، لچھویز اور دیگر قدیم ہندوستانی جمہوریتوں اور بودھ سنگھوں کے جمہوری نظام میں بھی پائے جاتے ہیں۔
  6. ڈاکٹرراجندر پرساد کی صدارت میں دستور سازاسمبلی نے مختلف نظریات کے درمیان توازن اور امتزاج کی غیر معمولی مثال پیش کی۔ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر  کی صدارت میں آئین ساز اسمبلی کی ڈرافٹنگ کمیٹی نے  عقلمندی ، دیانت داری ، شرافت اور تندہی کا مظاہرہ کیا اور آئین کو حتمی شکل دی۔ ہمارے آئین میں ہندوستانی  جمہوریت کا دل دھڑکتا ہے اور اس کی گونج ملتی ہے۔ یہ یقینی بنانے کے لئے کہ آئین وقت کے ساتھ مطابقت رکھے،آئین بنانے والوں نے مستقبل کی نسلوں کے ذریعے وقت کے مطابق ضروری سمجھے جانے والے ترامیم کے لئے بھی التزامات شامل کئے۔
  7. پوری دنیا میں ہندوستانی جمہوریت کا پوری طرح سے احترام کیا جاتا ہے۔اس سال ، ہندوستان کے عوام نے 17 ویں عام انتخابات میں شرکت کی اور دنیا کے سب سے بڑے جمہوری مشق کو پورا کیا۔ اس الیکشن میں 610 ملین سے زائد افراد نے اپنے  ووٹ  ڈالے ۔ خواتین رائے دہندگان کی شرکت مردوں کے تقریباً برابرتھی۔ 17 ویں لوک سبھا میں آج تک کی سب سے بڑی تعداد میں 78 خواتین ارکان پارلیمنٹ کا منتخب کیاجانا ہماری جمہوریت کی ایک قابل فخر حصولیابی ہے۔آج  خواتین کو بااختیار بنانے سے متعلق پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کی تمام ارکان خواتین ہیں۔ یہ ایک روشن مستقبل کی عکاس اور ایک اہم معاشرتی اور سیاسی تبدیلی کی علامت ہے۔
  8. 70 سال کی مدت میں  آئین ہند نے  جو قدر اور احترام حاصل کیا ، اس کے لئے ملک کے سبھی باشندے ستائش کے حقدار ہیں۔ ساتھ ہی مرکز اور ریاستی حکومتوں کے تینوں اعضاء یعنی قانون سازیہ ، عاملہ اور عدلیہ بھی اسی تعریف کے مستحق ہیں۔مرکز اور ریاستوں کے مابین تعلقات  اور ہم آہنگی کو مضبوط بناتے ہوئے ‘کوآپریٹو فیڈرلزم’ کی طرف ہمارا سفر، ہمارے آئین کے متحرک ہونے کی ایک زندہ مثال ہے۔
  9. 25نومبر 1949 کو دستور ساز اسمبلی میں اپنی آخری تقریر کرتے ہوئے  ڈاکٹربھیم راؤ امبیڈکر نے کہا تھا کہ آئین کی کامیابی کا انحصار ہندوستان کے عوام اور سیاسی جماعتوں کے طرز عمل پر ہوگا۔ ہمارے آئین سازوں نے احسان ، ہمدردی یا ناجائز خواہش اور تعصب سے دور رہ کر  پوری انہماک اور ایمانداری کے ساتھ کام کرنے کے احساس کو اپنی زندگی میں اپنا یاتھا۔ ان میں یہ یقین ضرور رہا ہوگا کہ ان کی آنے والی نسلیں یعنی ہم سبھی ہندوستانی باشندے  انہی کی طرح ان اقدار کو اتنی ہی ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ اپنائیں گے۔میرے خیال میں موجودہ دور میں ہم سب کو مل کر اس پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔

معزز ارکان پارلیمنٹ،

  1. ڈاکٹر امبیڈکر نےدستور ساز اسمبلی میں اپنے ایک خطاب میں آئینی اخلاقیات کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ آئین کو سپریم ماننا اور نظریاتی اختلافات سے اُوپر اُٹھ کر آئینی طریقوں پر عمل کرنا آئینی اخلاقیات کی روح ہے۔سرکار کے تینوں اعضاء، آئینی عہدوں پر بیٹھے لوگوں،سول سوسائٹی کے ارکان اور ہندوستان کے عام شہریوں سے آئینی اخلاقیات پر عمل کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔
  2. ہمارے آئین کے مطابق ہر ایک شہری کا فرض ہے کہ وہ آئین اور اس کے آئیڈیل اور اداروں کا احترام کریں۔ ہماری جہدو جہد آزادی کے اُصولوں پر عمل کریں۔ ایسے طریقوں کو چھوڑیں، جو خواتین کے وقار کے خلاف ہیں۔ہماری ثقافت کی مالا مال وراثت کا قدر کریں اور اس کا تحفظ کریں۔آئین میں ان کے علاوہ شہریوں کی دیگر فرائض کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔
  3. لوگوں کے حقوق اور فرائض کے بارے میں مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ حقوق  کااصل منبع فریضہ کی ادائیگی ہے۔اگر ہم سب اپنے فرائض کی ادائیگی کریں تو حقوق کو زیادہ ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں رہے گی ، لیکن اگر ہم فرائض کو پورا کئے گئے بغیر حقو ق کے پیچھے دوڑیں تو ہمارا یہ دوڑنا سایہ کا تعاقب کرنے کے مترادف ہوگا۔
  4. ہمارے آئین میں بنیادی فرائض سے متعلق التزامات کو شامل کرکے ہماری پارلیمنٹ نے واضح کردیا ہے کہ شہریوں کو اپنے حقوق کے بارے میں محتاط رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض کے تئیں بھی بیدار رہنا ہے۔ ‘بنیادی فرائض شہریوں کو ان کی اخلاقی ذمہ داریوں کا احساس بھی کراتے ہیں۔
  5. حقوق اور فرائض ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ ہمارا آئین اظہار خیال اور اظہار رائے کی آزادی کا بنیادی حق ہمیں دیتا ہے اور اسی کے ساتھ یہ شہریوں کو عوامی املاک کا تحفظ کرنے اور تشدد سے دور رہنے  کی تلقین بھی کرتاہے۔اسی لئے اظہار رائے کی آزادی کا غلط مطلب نکال کر اگر کوئی شخص عوامی املاک کو نقصان پہنچانے جارہا ہے تو اسے ایسے متشددانہ اور انتشار پھیلانے والے کام سے روکنے والے شخص ذمہ دار شہری کہلائیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے ہم سب اپنے فرائض کو نبھاکر ایسے حالات پیدا کریں، جہاں حقوق کا مؤثر تحفظ ہوسکے۔
  6. انسانیت نوازی کےاحساس کو فروغ دینا بھی شہریوں کی ایک بنیادی ذمہ داری ہے۔سب کے تئیں حساس ہوکر خدمات کرنا اس فریضے میں شامل ہے۔ میں گجرات کی محترمہ مکتابین ڈگلی کا ذکر کرنا چاہوں گا، جن کو اسی سال راشٹرپتی بھون میں ‘پدم شری’ سے نوازنے کا مجھے موقع ملا۔ بچپن میں ہی اپنی آنکھوں کی روشنی کھو دینے کے باوجود انہوں نے اپنی زندگی دوسروں کی فلاح و بہبود میں وقف کردی۔انہوں نے بینائی سے محروم کئی بیٹیوں کی زندگی میں روشنی پھیلائی ہے۔اپنے ادارے کے توسط سے وہ ہندوستان کی کئی ریاستوں کی نابینا خواتین کی زندگی میں امید کی روشنی پھیلا رہی ہیں۔ ایسے شہری صحیح معنوں میں ہمارے آئین کے اصولوں کو برقرار رکھتے ہیں۔ وہ قومی معمار کہلائے جانے کے حقدار ہیں۔
  7. آپ سبھی ارکان پارلیمنٹ نے قانون کے ذریعے قائم ہندوستان کے آئین کے تئیں سچا یقین اور عہد رکھنے اورہندوستان کی حاکمیت اور  یکجہتی کو برقرار رکھنے کا حلف لیا ہے۔ آپ سبھی کی طرح صدر کے طورپر میں نے بھی اپنی پوری صلاحیت سے آئین اور قانون کا تحفظ کرنے ، ان کا دفا ع کرنے اور ہندوستان کے عوام کی خدمت اور ان کی فلاح و بہبود میں اپنے آپ کو وقف کردینے کا حلف لیا ہے۔ ہم سب کو اپنے حلف اور عزم کو مسلسل دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہے۔
  8. ہندوستان کے شہری اور رائے دہندگان اپنے نمائندوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کی فلاح و بہبود سے متعلق مسائل کو حل کریں گے۔ زیادہ تر لوگ اپنے ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات نہیں کرپاتے ہیں، لیکن وہ سبھی آپ سب کو اپنی امیدوں اور اُمنگوں کا محافظ مانتے ہیں۔اس اعتماد اور یقین کا احترام کرتے ہوئے عوامی خدمات میں مسلسل رہنا ہم سب کی اعلیٰ ترین ترجیح ہونی چاہئے۔ جمہوریت کے اس مقدس مندر میں آ کر عوامی خدمات کا موقع ملنا بڑی ہی خوش قسمتی کی بات ہوتی ہے۔
  9. آئین کا ایک اہم ترین مقصد  اور اس نے ہمارے لئے جو نمونہ پیش کیا ہے وہ تمام شہریوں کے لئے انصاف، سماجی، معاشی اور سیاسی مساوات اور برابری کے مواقع کو یقینی بنانا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آئین سازوں نے یکساں مواقع کو یقینی بنایا ہے اور اسی کے بل پہ آج مجھے صدر جمہوریہ کے طورپر پارلیمنٹ کی اس تاریخی نشست سے خطاب کرنے کا موقع ملا ہے۔
  10. ہمارے آئین میں شمولی معاشرے کی تعمیر کا نمونہ بھی ہے اور اس کے لئے التزامات کا نظم بھی ہے۔ آج آئینی ترامیم جیسے پرامن طریقے کے ذریعے انقلابی تبدیلیوں کا نظام دینے والے آئین سازوں کے لئے دل سے شکریہ ادا کرنے کا دن ہے۔پچھلے چند  برسوں میں پاس کئے گئے متعدد آئینی ترامیم کے لئے تمام ارکان پارلیمنٹ ستائش کے مستحق ہیں۔
  11. ہمارے ملک میں ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کے لئے آئینی راستے دستیاب ہیں۔ اس لئے ہم جو بھی کام کریں اس کے پہلے یہ ضرور سوچیں کہ کیا ہمارا کام آئینی وقار اور اخلاقیات سے میل کھاتا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ اس کسوٹی کو دھیان میں رکھ کر اپنے آئینی اصولوں کو حاصل کرتے ہوئے ہم سب ہندوستان کو دنیا کی مثالی جمہوریت کے طورپر باعزت مقام دلائیں گے۔آئیے آج ہم عہد کریں کہ ہم ہندوستان کے لوگ اپنے آئین کے اصولوں کو حاصل کرنے کے لئے مسلسل کوشش کرتے رہیں گے اور لاکھوں ساتھی شہریوں کے خوابوں کی تکمیل کریں گے۔

شکریہ،

جے ہند!

********

 

م ن۔م ن۔ن ع

 

U: 5368



(Release ID: 1593630) Visitor Counter : 1097


Read this release in: English , Hindi