بہت چھوٹی، چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کی وزارت

ایم ایس ایم ای کے وزیر نے اہم متعلقہ فریقوں سے کہا ہے کہ وہ کھادی کے شعبے کو فروغ دینے کیلئے یکجا ہوجائیں

Posted On: 27 AUG 2019 6:12PM by PIB Delhi

 

نئیدہلی۔27؍اگست۔بہت چھوٹی، چھوٹی اور اوسط درجے کی صنعتوں ، سڑک ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کے مرکزی وزیر جناب نتن گڈکری نے کہا ہے کہ حکومت نے  ایم ایس ایم ای کے شعبے میں  اگلے پانچ سال میں روزگا رکے پانچ کروڑ موقع تشکیل دینے  کا ایک پروجیکٹ  مشن کی سطح پر شروع کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے  ایم ایس ایم ای برآمدات کا تناسب  اگلے پانچ سال میں پچاس فیصد تک لانے  اور ایم ایس ایم ای شعبے  کے  جی ڈی پی تعاون میں29 فیصد سے 50فیصد کرنے   کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر موصوف نے یہ بات  ممبئی میں  بھارتی صنعت کی کنفیڈریشن  کی اہتمام کردہ  ایک تجارتی  سربراہ کانفرنس  سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ جس کا موضوع تھا ’کھادی کو ، جو  بھارت کیلئے فخر ہے عالمی  برانڈ بنایا جانا‘ ۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/ministerX8NH.JPG

صنعتوں اور دیگر متعلقہ فریقوں  کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایم ایس ایم ای کے مرکزی وزیر جناب نتن گڈکری نے یہ بھی کہا: ’’انڈیا  اور بھارت کے درمیان اکثر ایک امتیاز کیا جاتا ہے۔ گاؤوں میں بہت سے مسائل ہیں جن کی وجہ سے لوگ روزگار کی تلاش میں  گاؤں سے شہروں کی طرف کوچ کرجاتے ہیں، ہمیں یہ عمل روکنا ہوگا۔ ہم چاہتے ہیں کہ عوام   روزگا رکی کمی کے سبب  شہروں میں نہ آئیں۔ یہ تب ہوگا جب ہم اچھی سڑکیں ، اسکول ، اسپتال ، اور فارم دیہی علاقو ں میں  فراہم کرائیں ، اسی لئے  گاندھی جی کہا کرتے تھے کہ ہمیں  زیادہ سے زیادہ  لوگوں کو مصروف کرتے ہوئے  زیادہ سے زیادہ پیداوار کی ضرورت ہے۔ جدیدکاری اور مشین کاری  کے ساتھ ساتھ ہمیں روزگار کے موقعوں پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ اختراع، چھوٹی صنعتیں ، سائنس ، ٹیکنالوجی ، تحقیق اور ہنرمندی  جانکاری پیدا کرتی ہیں ، جسے دولت میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

وزیر موصوف نے کہا کہ ہمیں  کھادی کے شعبے کو مستحکم بنانے کی ضرورت ہے۔ کھادی کی مجموعی تجارت اور دیہی شعبے کو  بڑھاوا دیے جانے کی ضرورت ہے جس پر آبادی کا ایک بڑا حصہ انحصار کرتا ہے۔

جناب گڈکری نے بتایا کہ ان کی وزارت  ریلوے کی وزارت سے بات کررہی ہے کہ مٹی  کے آب خورے (کلہڑ ) چائے کیلئے استعمال کیے جائیں۔ فی الحال یہ آب خورے  دو اسٹیشنوں پر دستیاب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ریلوے کی وزارت  اور سبھی ریاستوں کی ٹرانسپورٹ وزارتوں کو لکھا ہے کہ وہ  سبھی بس اسٹیشنوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر  ان آب خوروں کو لازمی بنائیں۔

جناب گڈکری نے مزید کہا کہ کھادی گاندھی جی کی سوچ کی روح ہے۔ اپنے اصولوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کیے بغیر ہمیں کھادی کو ، اشیاء کی ڈیزائننگ ، فیشن ڈیزائننگ ،  بُننے  اور دیگر کاموں میں جدید شکل دیے جانے کی ضرورت ہے۔  اس سلسلے میں نئی تحقیق اور طریقوں کو شامل کیے جانے کی ضرورت ہے، خاص طور پر ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ملوں میں بنائے جانے والے دھاگے کی بہ نسبت ہم کس طرح  بہتر اور کم لاگت والا دھاگا بناسکتے ہیں۔  فیشن ڈیزائننگ میں ایک پیشہ ورانہ طریقہ کار اپنائے جانے کی ضرورت ہے تاکہ کھادی  مصنوعات کے معیار کو بہتر بنایاجاسکے۔

وزیر موصوف نے پرائیویٹ شعبے میں محنت کش لوگوں سے بھی کہا کہ وہ کھادی کو فروغ دینے کیلئے  آگے آئیں ۔ انہوں نے کہا  کہ ٹیکنالوجی اور کوالٹی  کے نقطہ نظر سے یہ  کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ’’اگر ہمیں صنعت سے اچھا مال ملے تو برانڈ کھادی کو دنیا بھی میں مشہور کیا جاسکتا ہے۔ صارفین کی پسند بدل چکی ہے، اس سربراہ اجلاس کا مقصد کھادی کی برانڈ ویلیو اور مارکٹ ویلیو کے اضافے میں صنعت کا تعاون حاصل کرنا ہے۔

جناب گڈکری نے مزید کہا کہ آسانی پیدا کرنے  کی غرض سے  حکومت ترقی کو فروغ دینے کی پالیسیوں پر کام کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بھارت کرافٹ کے نام سے علی بابا جیسا ایک ای ۔ مارکٹ پورٹل تیار کررہی ہے۔ اس سے خریداروں اور فروخت کاروں کے درمیان براہ راست رابطہ قائم ہوسکے گا۔ ہم نت نئے خیالات اور اختراعات کا ایک بینک بھی شروع کررہے ہیں۔

’’حکومت  شفاف  اور بدعنوانی سے پاک  ہے اور وہ تیزی سے فیصلے کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ہم کھادی کو آگے لے جانے اور زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے تئیں آپ کا تعاون  اور مشورے چاہتے ہیں۔ بہت زیادہ امکانات ہیں جنہیں تحقیق اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ گاندھی جی کے خواب کے مطابق  ہمیں  زیادہ سے زیادہ تعداد میں دیہی عوام کو مصروف کرتے ہوئے  زیادہ سے زیادہ پیداوار کی ضرورت ہے۔ ہمیں  ہر ملک میں  کھادی کی دستیابی کو یقینی بنانے  اور دنیا کے ہر کونے میں اسے لے جانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ حصولیابی  آپ کے تعاون سے ہوجائے گی۔ 

اس موقع پر وزیر موصوف نے ٹیک سکشم کا بھی  آغاز کیا جو سی آئی آئی کا ایک ٹیک پروجیکٹ ہے جس کا مقصد ٹیکنالوجی  کے ذریعے ایم ایس ایم ای کے فروغ کو اور زیادہ رفتار بخشنی ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/Photo-8KUDD.jpg

ایم ایس ایم ای کے وزیر مملکت جناب  پرتاپ چندر سارنگی  نے  کہا ،’’کھادی صنعت نے  مہاتما گاندھی کی قیادت میں  ہماری جدوجہد آزادی کے دوران مقبولیت حاصل کی۔ گاندھی جی نے  ایک معمولی چیز کو  قومی فخر کی علامت کی شکل دے دی۔ ایک معمولی کپڑا ہماری قومی تحریک کا ایک عظیم ہتھیار بن گیا۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/MoSFLQW.JPG

اب ہمارے وزیراعظم جناب نریندر مودی اس  نظریے کو آگے لے جانا چاہتے ہیں اور کھادی کو عالمی نوعیت بخشنا چاہتے ہیں۔  کھادی میں  ایک آفاقی جاذبیت ہے ، یہ ماحول دوست ہے، جسم کی حفاظت کرنے والی ہے، اس میں پانی کا کم استعمال ہوتا ہے اور لاکھوں کو گزر بسر کا وسیلہ فراہم کرتی ہے۔ مجھے  اعتماد ہے  کہ اگر 130 کروڑ شہری  کھادی کا استعمال کریں تو اس سے  15 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو  روزگار کے موقع فراہم ہوں گے۔ لہٰذا  ہم  کھادی کی خریداری کرکے  اپنے ملک  کی بہتر خدمت کرسکتے ہیں۔ 

صنعت کو وسعت دیے جانے کی ضرورت ہے۔ اس کی  بہت بڑے پیمانے پر گنجائش ہے۔ ہمیں کاریگروں کو  ان کا حق ادا کرنے کے  طریقوں پر سوچ وچار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ  مارکٹ کی دستیابی اور رسائی کو بہتر بنایاجاسکے اور  کاریگروں کو ٹیکنالوجی فراہم کی جاسکے۔ 

کھادی  نہ صرف روزگار کی فراہمی کیلئے سب سے زیادہ مناسب شعبہ ہے بلکہ  ہماری ثقافت کو بھی  دور دور تک پھیلانے کا ایک ذریعہ ہے۔  جب ہم کھادی کو دوسرے ملکوں میں لے جاتے ہیں تو یہ  ہمارے قوم کے سفیر کاکام انجام دیتی ہے۔ کھادی  سردیوں میں آرام پہنچانے والا ایک گرم منفرد نوعیت کا کپڑا  ہے اور گرمیوں میں  ٹھنڈا رہنے والا کپڑا بن جاتا ہے۔  دلچسپی کی بات یہ ہے کہ یہ سبھی کپڑے  ہاتھ سے بنائے جاتے ہیں۔

بچولیوں کو  جتنا ممکن ہو ہٹا دیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ منافع کاریگروں کو پہنچ سکے اور وہ ایک باوقار زندگی جی سکے۔ کھادی کی خوبصورتی کو پوری دنیا میں پھیلائے جانے کی ضرورت ہے۔ ہم کھادی کے ذریعے  غریبی  کی لعنت سے لڑسکتے ہیں۔

ایم ایس ایم ای کے سکریٹری  ڈاکٹر ارون کمار پنڈا نے کہا : ’’کہ کھادی ایک مقصد ہے جو  ملک اور اس میدان میں کام کرنے والے  لوگوں کیلئے  اہم ہے۔ کھادی ایک عظیم وراثت اور طاقت ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ کھادی کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ میں امید کرتا ہوں  کہ اس پلیٹ فارم سے جس پر مختلف میدانوں کے ماہرین موجود ہیں، کھادی کیلئے  مستقبل کا ایک خاکہ بنانے میں مدد ملے گی۔ مہربانی کرکے اس شعبے کو مستحکم بنانے کیلئے نت نئے خیالات اور حل پیش کریں۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/SecTC5V.JPG

کھادی کے دو کپڑے ایک جیسے نہیں ہوتے، کھادی ہاتھ سے تیا رکی جاتی ہے ،یہ عمدہ ہوتی ہے۔

ہمیں  الگ طرح سے سوچنے کی ضرورت ہے اور  اس بات کی گنجائش تلاش کرنے کی ضرورت ہے  کہ کھادی  کے فائدے کیلئے ٹیکنالوجی کو کس طرح  استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آدھار کے بعد جو کاریگر کھادی کے شعبے میں مصروف  ہیں ان کی تعداد کم ہوکر چار لاکھ  75 ہزار سامنے آئی ہے۔  کاریگروں کو  فراہم کی جانے والی ہر ترغیب  براہ راست فائدے کی منتقلی کے ذریعے  ان کے بینک کھاتے میں  براہ راست چلی جاتی ہے۔  ہمیں  اسے توسیع دینے کی ضرورت ہے  تاکہ بہتر معیارات، کوالٹی  لائی جاسکے اور بین الاقوامی اشتراک کیا جاسکے۔

کیا ہم کاریگروں کیلئے  کم شرحوں پر قرض کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں؟ ٹیکنالوجی مارکٹ رسائی کو بہتر بنانے کیلئے اندرون ملک اور بیرون ملکاستعمال کی جانی چاہئے ۔

حکومت نے پورے ملک میں خاص طور پر کھادی کیلئے چار ڈیزائن ہاؤس قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، ایک چیلنج جس سے نمٹنے کی ہمیں ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہم کھادی کی طرف نوجوانوں اور اُمنگ بھرے عوام کو کس طرح اپنی طرف راغب کرسکتے ہیں؟

ہم چرخے کا وزن اور لاگت  کس طرح کم کرسکتے ہیں تاکہ کاریگروں کی محنت ومشقت میں ٹیکنالوجی کااستعمال کرکے کمی لائی جاسکے؟ صنعت سے میری درخواست ہے کہ وہ کھادی کی اس طرح پرورش کریں  جیسے اپنے بچوں کی۔ حکومت  دو فلمیں بنانے کا منصوبہ بنارہی ہے، ایک  اندرون ملک  لوگوں کیلئے اور دوسری   غیرملکی  لوگوں کیلئے ۔وزارت ان رضاکاروں  کا بھی خیرمقدم کرے گی جو یہ فلمیں بنائیں گے۔ ہمیں  مخصوص مارکٹوں پر بھی  دھیان دینا ہوگا جہاں ویلیو ایڈیشن ہوتا ہے  اور پیسہ کاریگروں کو جاتا ہے۔

کھادی کو ایک مقام بخشنے میں میڈیا کا بھی ایک بڑا رول ہے کہ اسے بھارت اور بیرون ملک ایک مخصوص شئے کے طور پر متعارف کرائے۔

کے وی آئی سی کے چیئرمین جناب ونئے کمار سکسینہ نے کہا ’’ کہ 2014 میں تقریباً 889 کروڑ روپئے  سے ، کے وی آئی سی کی مجموعی تجارت  اب 3215 کروڑ روپئے تک آگئی ہے۔ اس کا سہرا کھادی کو اختیار کرنے کی، وزیراعظم جناب نریندر مودی کی اپیل کو جاتا ہے۔ اس سربراہ اجلاس کے ذریعے ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس مجموعی تجارت کو  20 ہزار کروڑ روپئے تک لے جانے کے راستے تلاش کیے جائیں۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/Chair30MN.JPG

کھادی میں  کچھ وراثتی خاصیتیں ہیں جنہیں ابھی تک  بروئے کار نہیں لایا گیا، ہمیں ان خاصیتوں سے عوام کو روشناس کرانے کی ضرورت ہے۔ کھادی سب سے زیادہ قدرتی کپڑا ہے، یہ کپڑا کاربن سے  بالکل پاک ہے، جسے کوئی مشین نہیں بناسکی۔ یہ سب سے زیادہ ماحول دوست ہے۔ ایک میٹر کھادی کپڑے  کیلئے  تین لیٹر پانی چاہئے ہوتا ہے، جبکہ یہی کپڑا اگر مل میں تیار کیاجائے تو 56 لیٹر پانی درکار ہوتا ہے۔

کھادی کی مجموعی تجارت اور گاؤں کی صنعت میں جو 15-2014 میں 32000 کروڑ روپئے  تھی   اب بڑھ کر 74 ہزار کروڑ روپئے ہوگئی ہے۔

کھادی کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں کاریگروں کو روزگار ملا ہے، کھادی ، میک اِن انڈیا کی بہترین مثال ہے۔

میں ہر ایک سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ کھادی اور اس کی مصنوعات کے احساسات کو سمجھے اور اسے ایک پلیٹ فارم بخشے۔  کے وی آئی سی نے کارپوریٹ کے ساتھ مشترکہ پروجیکٹ شروع کیے ہیں جس کا کارپوریٹ پر گہرا اثر پڑا ہے۔

کھادی خالصتاً ہاتھ سے بُننے والا کپڑا ہوتا ہے جو مہاتما گاندھی نے ہمیں سونپا ہے۔  ہمیں اسے اُن بلندیوں تک لے جانے کی ضرورت ہے جس کی یہ مستحق ہے۔

سربراہ اجلاس  سی آئی آئی کے مغربی خطے کے چیئرمین جناب پی نند کمار کی شکریے کی تحریک کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

م ن۔اس۔ع ن

U-3891


(Release ID: 1583216) Visitor Counter : 208


Read this release in: English , Hindi , Marathi