وزارتِ تعلیم

تعلیم اورامتحانات کے سلسلے میں  معذوربچوں کے لئے ایک جامع پالیسی وضع کرنے کے مقصد سے سی بی ایس ای کے

 زیراہتمام غوروفکرپرمبنی  اجلاس کا انعقاد

Posted On: 04 JUL 2018 8:37PM by PIB Delhi

نئی دہلی ،05 جولائی   : مرکزی بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن(سی بی ایس ای)  کے زیراہتمام 4جولائی ، 2018کو آئی ٹی ایل ، پبلک اسکول ، واقع دوارکامیں مسئلہ کا حل نکالنے کے لئے ایک اجلاس منعقد ہوا تاکہ تعلیم اورامتحانات میں معذوربچوں کے لئے ایک جامع پالیسی وضع کرنے کے مقصد سے فیصلہ لیاجاسکے اوران بچوں کو تعاون فراہم کیاجاسکے ۔ مختلف ریاستی اسکولی تعلیمی بورڈوں ، این آئی او ایس ، آئی سی ایس ای ، اگنو، این سی ای آرٹی ، اوپن اسکول جن کا تعلق مختلف ریاستوں سے ہے ، این جی او  کے نمائندگان اورمختلف اسکولوں کے پرنسپل حضرات ، خصوصی تعلیمی ماہرین اور مختلف النوع معذوری کے شکاربچوں کے والدین نے اس اجلاس میں شرکت کی ۔ اس موقع پراشاراتی زبان کا ترجمہ کرنے والا ایک ماہربھی موجود تھا تاکہ سمعی و گویائی صلاحیت سے محروم مندوبین کے خیالات کی ترجمانی کے فرائض انجام دے سکے ۔

                اپنے  کلیدی خطبے میں سی بی ایس ای کی صدرنشین آئی  اے ایس ، محترمہ انیتاکاروال نے مندوبین کو بورڈ کے ذریعہ خصوصی ضروریات کے حامل بچوں کو سہولت بہم پہنچانے اور انھیں فراہم کی جانے والی استثنائی سے واقف کرایا۔ موصوفہ نے سی بی ایس ای کے ذریعہ اس شعبے میں جوخصوصی اقدامات کئے گئے ہیں ان پربھی روشنی ڈالی ۔ ان اقدامات میں اسکولوں میں خصوصی ایجوکیٹروں کی فراہمی ، خصوصی ایجوکیٹروں کو قومی ایوارڈ کی تفویض ، خصوصی بچوں کے لئے کھیل کود کے مقابلوں کا اہتمام ، صحت اورتعلیم پرخصوصی توجہ دیتے ہوئے اسکولوں میں اس کے عملی پہلو کو رواج دینا ، پیشہ ورانہ مضامین کو شامل نصاب کرنے پرتوجہ ، متبادل سوالات کی تجویز اورفراہمی اورمتعدددیگرسہولتیں اور معذوربچوں کو فراہم کی جانے والی دیگررعایات شامل ہیں ۔ محترمہ کاروال نے ناظرین کو بتایاکہ سی بی ایس ای اسکولوں کوان بچوں کی حالت کے تئیں حساس اوربیداربناتی آئی ہے اور ان کی شکایات اور تکالیف اورازالے کے لئے خصوصی تجاویز کے نفاذ پرزوردیتی رہی ہے ۔ انھوں نے شریک اسکول بورڈوں اورماہرین کو تلقین کی کہ وہ اپنے یہاں اپنائے جانے والے اچھے طریقہ ہائے کار کو یہاں بیان کریں تاکہ ایک مجموعی جامع اور تمام پہلووں پراحاطہ کرنے والی پالیسی وضع کی جاسکے ۔ انھوں نے حاضرین کو بتایاکہ ایسے بورڈوں کو یہ نہیں سوچنا چاہیئے کہ ایسے بچوں کے ذریعہ معاشرے کو کیاحاصل ہوگااوراس کی قدروقیمت کیاہوگی بلکہ ایسے بچوں کی زندگی کو قابل قدربنانے کے لئے کیاکیاجاسکتاہے ، اس بات پرتوجہ مرکوز کرنی چاہیئے ۔ انھوں نے بتایاکہ سی بی ایس ای نے ایک بیماربچے کو موجودہ قواعد وضوابط سے تجاوزکرتے ہوئے سن کرلکھنے والا کاتب فراہم کرایا۔لہذاتمام شراکت والے بورڈوں کو ڈگرسے ہٹ کرسوچنا چاہیئے اور بچوں کی فلاح وبہبود کو یقینی بنانے کے لئے لال فیتہ شاہی اوربندھے ٹکے اصولوں سے احتراز کرتے ہوئے قابل عمل سفارشات ،جامع پالیسی کی تشکیل کے لئے اپنی جانب سے پیش کرنی چاہیئں ۔

                ڈائرکٹر(اکیڈیمکس ) ڈاکٹرسنیم بھاردواج نے مندوبین کو معذوربچوں کے لئے فراہم کی گئی سہولتوں کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا ۔انھیں اسکرائب اوربالغ پروپمٹرکی تجاویز سے  بھی واقف کرایاگیا کمزور بصارت والے بچوں کے لئے اسکرین ریڈنگ سافٹ ویئر ، امتحانوں میں جوابات لکھنے کے لئے ٹائپ رائٹریاکمپیوٹروں کی سہولت ، زبانوں کے انتخاب میں استثنائی ، موٹے وجلی حروف میں سوالناموں کی فراہمی اورمتبادل سوالات کی سہولت سے بھی واقف کرایاگیا۔

                علی پور دہلی کی ایس ڈی ایم محترمہ ایراسنگھل اس اجلاس میں خصوصی طورپرمدعوکی گئی تھیں۔ موصوفہ بذات خود مختلف طورپراہل شخصیت ہیں ،جنھوں نے 2015میں یوپی ایس ای کے امتحان میں سرفہرست پوزیشن حاصل کی تھی ۔ انھوں نے زوردیکرکہاکہ جو کچھ بھی پالیسی وضع کی جارہی ہے اسے معذوربچوں کے لئے معاون پالیسی ہونا چاہیئے تاکہ وہ عام بچوں کے جیسے حالات میں آگے بڑھ سکیں اوربعد ازاں آگے کی زندگی میں بھی ان کی مدد ہوسکے ۔ انھوں نے زوردیکر کہاکہ اس پالیسی کو ان بچوں کے لئے ترحم پرمبنی پالیسی نہیں خیال کیاجاناچاہیئے ۔انھوں نے کہا کہ اس طرح کے بچوں کی تدریس کے لئے تکنالوجی کا استعمال کیاجاناچاہیئے ۔

                بعدازاں مندوبین کو 6ورکنگ گروپوں میں تقسیم کردیاگیا،جنھیں نصابات کے انتخابات ، بچوں کی تعلیمی نفسیات ، اسکول کے ماحول ، ان کے صلاحیتوں کے تجزیئے ، تکنالوجی پرمبنی تجزیئے اوردخل اندازی امدادی آلات اور بورڈامتحانات نے ان کی شرکت اور رخصت جیسے موضوعات پرتبادلہ خیالات کرنا تھا ۔آرپی ڈبلیوڈی ایکٹ 2016میں متذکرہ تمام ترمعذوری اوراس کی کیفیت کو اس اجلاس کے تحت زیربحث لایاگیا ۔ہرایک گروپ کو آرپی ڈبلیوڈی ایکٹ 2016میں متذکرہ تمام  ترمعذوریوں کے الگ الگ زمروں پرغوروفکرکرناتھا۔

گروپ 1کو اعصابی معذوری کا موضوع سونپا گیاتھا ۔ جذام سے شفایاب افراد اور رعشہ جیسی معذوری بھی اسی گروپ کے تحت تھی ۔

گروپ 2کو بونے پن یعنی پستہ قدہونے ، اعصاب کے ٹیڑھے میڑھے ہونے اورتیزاب کے حملے کاشکارہونے والوں اور اس سے لاحق ہونے والی معذوری کا موضوع سونپاگیاتھا۔

گروپ3کونابینہ پن اورکمزوربصارت، بہرہ پن اورکم سننے والے بچوں اورزبان میں لکنت اور ادائیگی کی معذوری کا موضوع سونپاگیاتھا۔

گروپ4کوتدریس سے متعلق نااہلی اورمعذوری ، ذہنی معذوری ، نسیان اور ذہنی امراض کا موضوع سونپاگیاتھا ۔

گروپ 5کثیرپہلووئی سیریوسس ، پارکنسن مرض ، ہیموفیلیا ، تھلیسیمیا ، سیکل سیل ڈیزیز اور کثیرالنوع معذوری کا موضوع سونپاگیاتھا

گروپ 6کو معذوری کے شکاربچوں کی تدریس کے  لئے تکنالوجی کے استعمال کا موضوع سونپا گیاتھا ۔ان گروپوں نے معذوربچوں کے زمرے میں شمولیت میں درآئی بد عنوانی کے موضوع اوراس کے انسداد پربھی غوروفکرکیا۔

                تمام گروپوں نے اس غوروفکرکے اجلاس کے دوران اپنے ذریعہ کئے گئے کاموں کا پریزنٹیشن بھی پیش کیا۔ انھوں نے مختلف النوع معذوریوں کے لئے ضرورت پرمبنی خصوصی سفارشات بھی پیش کیں ۔ تمام گروپوں کی سفارشات کو یکجاکرکے مختصرشکلوں میں مندوبین کے روبروپیش کیاگیا۔ یہ تمام ترسفارشات پوری تفصیل کے ساتھ اس فائنل رپورٹ میں پیش کی جائیں گی جن کی تالیف علیحدہ سے عمل میں آئے گی ۔

.

http://pibphoto.nic.in/documents/rlink/2018/jul/i20187401.jpg

 

http://pibphoto.nic.in/documents/rlink/2018/jul/i20187402.jpg

 

***********

U-3472


(Release ID: 1537790) Visitor Counter : 122
Read this release in: English , Bengali