وزیراعظم کا دفتر

لندن میں بھارت کی بات سب کے ساتھ پروگرام میں


سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن  کے چیئر پرسن،پرسون جوشی  سے  وزیراعظم نریندر مودی کی گفتگو کا متن

Posted On: 19 APR 2018 5:14AM by PIB Delhi

نئیدہلی۔19؍اپریل۔ لندن میں منعقدہ بھارت کی بات سب کے ساتھ پروگرام میں وزیراعظم جناب نریندر مودی کی سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفکیشن کے چیئر پرسن  جناب پرسون جوشی  سے گفتگو  حسب ذیل ہے:

پرسون جوشی-       نمسکار مودی جی

وزیراعظم - نمستے آپ کو بھی  اور سبھی اہلیان وطن کو نمستے

پرسون جوشی-       مودی جی ہم سب کو معلوم ہے کہ آپ کس قدر مصروف پروگرام میں سے وقت نکال کر یہاں آئے ہیں ، ہم نے آپ کا تھوڑا سا وقت  لے لیا ہے۔پہلے تو آپ کا بہت بہت شکریہ ۔ میں نے اب سے قبل لکھا تھا بھارت کے بارے میں کہ

 دھرتی   کے انتسہ میں جو گہرا اترے گا ، اسی کے نینوں میں جیون کا راگ دکھے گا

دھرتی   کے انتسہ میں جو گہرا اترے گا ، اسی کے نینوں میں جیون کا راگ دکھے گا

جن پیروں میں مٹی ہوگی ، دھول سجے گی انہیں کے سنگ سنگ ایک دن سارا وشو چلے گا

آپ کا سفر ریلوے اسٹیشن سے شروع ہوتا ہے اور آج آپ رائل پیلس میں مہمان خصوصی ہیں۔ مودی جی آپ اس سفر کو کس طرح سے دیکھتے ہیں۔

وزیراعظم-  پرسونجی۔میں آپ سب کا ممنون ہوں کہ مجھے اتنی بڑی تعداد میں آپ سب سے ملاقات کی خوش نصیبی حاصل ہوئی۔ آپ نے دھرتی کی دھول کی بات کی ہے، آپ تو شاعر ہیں، ’ریلوے سے رائل پیلیس‘  یہ تک بندی آپ کیلئے بہت آسان ہے لیکن زندگی کا راستہ بڑا دشوار گزار ہوتا ہے۔ جہاں تک ریلوے اسٹیشن کی بات ہے وہ میری ذاتی زندگی کی کہانی ہے، میری زندگی کی جدوجہد کا ایک سنہری صفحہ ہے، جس نے مجھے جینا سکھایا۔ جفا کشی سکھائی، زندگی اپنے لئے نہیں اوروں کیلئے بھی ہوتی ہے۔ یہ ریل کی پٹریوں پھر دوڑتی ہوئی اور ان سے نکلتی ہوئی آواز  سے میں نے بچپن سے سیکھا سمجھا، یہ میری اپنی بات ہے۔ لیکن یہ رائل پیلیس نریندر مودی کا نہیں ہے۔ یہ میری کہانی نہیں ہے۔

پرسون جوشی-       اور جو جذبہ آپ کے اندر ۔۔۔۔۔

وزیراعظم-  وہ رائل پیلیس  سوا سو کروڑ ہندوستانیوں کے عزائم کا نتیجہ ہے۔ ریل کی پٹری والا مودی ، یہ نریندر مودی ہے ، رائل پیلیس سواسو کروڑ ہندوستانیوں کا خادم ہے ، وہ نریندر مودی نہیں ہے۔ یہ ہندوستان کی جمہوریت کی طاقت ہے۔آئین ہند کی طاقت ہے کہ جہاں ایک ایسا احساس ہوتا ہے ورنہ جو جگہ کچھ کنبوں کیلئے مخصوص رہتی ہے اور جمہوریت میں اگر عوام الناس  فیصلہ کرلیں تو پھر ایک چائے بیچنے والا بھی ان کا نمائندہ بن کر رائل پیلیس میں ہاتھ ملاسکتا  ہے۔

پرسون جوشی-       یہ جوشخص نریندر مودی ، جو وزیراعظم  ملک کی نمائندگی کرتے ہیں یہ دونوں ایک دوسرے میں ضم ہوجاتے ہیں جب ایسے مقام پر آپ ہوتے ہیں یا دیکھتے ہیں کہ میں ایک سفر کرچکا ہوں ، سب مل جاتا ہے اور ایک ہی شخصیت رہ جاتی ہے؟

وزیراعظم-  ایسا ہے، میں وہاں ہوتا ہی نہیں ہوں میں تو آدی شنکر اُدویت کے اُس اصول کو، ایک زمانے میں میں ان سے جڑا ہوا تھا ، تو میں جانتا ہوں کہ جہاں میں نہیں تو ہی تو ہے جہاں دُویت نہیں ہے اسی لئے  میں اپنے داخل میں نریندر مودی کو لیکر  جاتا ہوں تو شاید میں ملک کے ساتھ ناانصافی کروں گا، ملک کے ساتھ انصاف تب ہوتا ہے کہ مجھے اپنے آپ کو بھلا دینا ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو مٹا دینا ہوتا ہے۔ خود کو کھپا دینا ہوتا ہے۔ تب جاکے وہ پودھ کھلتی ہے ، بیج بھی تو بالآخر کھپ ہی جاتا ہے جو وٹ برکہچھ  کو پنپنے میں  مدد کرتا ہے، اس لئے آپ نے جو  کہا میں اسے الگ طریقے سے دیکھتا ہوں۔

پرسون جوشی-       ابھی ہم سب نے دیکھا تھا اور ٹوئیٹر پر پرشانت دکشت جی ہیں، جنہوں نے ایک سوال پوچھا ہے کہ بہت کام ہورہا ہے، سڑکیں بن رہی ہیں، ریلوے لائنیں بچھائی جارہی ہیں، تیز رفتاری سے مکان تعمیر ہورہے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ پہلے اگر ہمیں دو قدم چلنے کی عادت تھی، تو اب ہم کئی گنا زیادہ چل رہے ہیں، پھر بھی بے صبری برقرار ہے ابھی کیوں نہیں ، اسے کیسے دیکھتے ہیں آپ؟

وزیراعظم - میں اس کو ذرا الگ طریقے سے دیکھتا ہوں۔ جس گھڑی اطمینان کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے ، چلو یار بہت ہوگیا ، اسی سے گزارا کرلیں گے، تو زندگی کبھی آگے بڑھ نہیں پاتی۔ ہر عمر میں ، ہر دور میں ، ہر حالت میں کچھ نہ کچھ نیا کرنے کا ، نیا پانے کا مقصد ہمیں رفتار دیتا ہے۔ ورنہ میں سمجھتا ہوں کہ زندگی رُک جاتی ہے اور اگر کوئی کہتا ہے کہ بے صبری بری چیز ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اب  وہ بوڑھے ہوچکے ہیں۔ میرے خیال سے بے صبری جوانی کی پہچان بھی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جس گھر میں سائیکل ہے اس گھر کے لوگ چاہتے ہیں کہ اسکوٹر آجائے تو اچھا ہے، اسکوٹر ہے تو دل چاہتا ہے کہ 4وہیلر آجائے تو اچھا ہے، اگر یہ جذبہ نہیں ہے تو کل سائیکل بھی چلی جائے تو کہا جائیگا چھوڑو یار بس پر چلے جائیں گے۔ یہ زندگی نہیں ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج سوا سو کروڑ اہلیان وطن کے دلوں میں ایک امنگ  اور  ایک جوش، ایک امید  اُبھر کر باہر آئی ہے ورنہ ایک دور ایسا بھی تھا کہ ہم مایوسی کے دلدل میں ڈوب گئے تھے اور ایسا تھا چلو چھوڑو یار اب کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہم نے ایک ایسا ماحول بنایا ہے کہ لوگ ہم سے زیادہ امیدیں کرنے لگیں۔ آپ میں سے جو لوگ بہت پہلے  ہندوستان سے آئے ہوں گے لیکن شاید ان کو پتہ نہیں ہوگا آج سے پندرہ بیس برس پہلے جب قحط حالات پیدا ہوتے تھے ، تو گاؤں کے لوگ سرکاری دفتر میں جاکر میمورنڈم دیتے تھے اور مانگ کرتے تھے کہ اس بار قحط ہو تو ہمیں کھدائی کاکام ضرور دیجئے، ہم زمین پر مٹی ڈالنے کاکام کرنا چاہتے ہیں، تاکہ ہمارے یہاں کچی سڑک بن جائے، اس دور میں اتنی ہی بے صبری تھی کہ کم از کم ایک تو قحط آجائے اور مٹی کے گڈھے کھودنے کاکام مل جائے اور پھر ایک سڑک پر مٹی ڈالنے کا کام مل جائے۔

               آج مجھے تجربہ ہے کہ گجرات کے صدور علاقے میں ایک تحصیل ہے وہاں سے کچھ ڈرائیور لوگ مجھ سے ملاقات کیلئے آئے، وہ کہتے ہیں  ہمیں پیببر روڈ چاہیے۔ میں نے کہا یار تمہارے علاقے میں کبھی اسکوٹر پر گھوم رہا تھا، میں بس میں آتا تھا، میں نے برسوں تک جنگلوں میں کام کیا ہے، تمہارے یہاں سڑک تو ہے۔

بولے صاحبب،  روڈ تو ہے لیکن اب ہم کیلے کی کھیتی کرتے ہیں اور ہمارے کیلے ایکسپورٹ ہوتے ہیں۔ تو اس روڈ پر ہم جاتے ہیں تو کیلے ٹرک میں دب جاتے ہیں ہمارا 20 فیصد نقصان ہوجاتا ہے۔ ہمیں پیبر روڈ چاہیے۔ تاکہ ہمارے کیلوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ میرے ملک میں سفر کرنے والوں کے د ل میں یہ بات پیدا ہونا ، یہ بے صبری پیدا ہونا، میرے لیے ترقی کی بیج بوتا ہے اور اسی لئے میں بے صبری کو برا نہیں مانتا۔

دوسرا آپ نے کنبے میں بھی دیکھا ہوگا اگر تین بیٹے ہیں، ماں باپ تینوں کو پیار کرتے ہیں، لیکن کام ہوتا ہے تو ایک ہی سے کہتے ہیں۔ ارے یار ذرا دیکھ لو، جو کریگا اسی سے تو کہیں گے۔ اگر آج ملک مجھ سے زیادہ امید رکھتا ہے اور اس لئے امید رکھتا ہے کہ اسے بھروسہ ہے کہ کبھی تو کریگا ہی۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات صحیح ہے کہ ملک نے کبھی  یہ سوچا نہیں تھا کہ کام اتنی تیز رفتاری سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ مان لیا گیا تھا کہ پہلے انکریمنٹل چینج ہوجائے تو بھی تشفی ہوجاتی تھی۔ یار چلو ہوگیا، اس کو ہوتا ہے ، اس کو نہیں ہوتا ہے۔ پہلے ایک دن میں جتنے راستے تعمیر ہوتے تھے، اب ہم تین گنا راستے بنا رہے ہیں۔ ڈبل لائن کرنی ہو ، سولر انرجی لگانی ہو ، ٹوائلٹ بنانے کا کام ہو، ہر چیز میں ۔ اس لئے یہ بات عین فطرت ہے کہ اہلیان وطن کو امید ہے ، بھروسہ ہے۔

پرسون جوشی- جی ، تو ایسا لگتا ہے کہ جب پہلے سڑک ان تک پہنچتی ہے تو وہ دنیا تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ آپ اس امید کو بیدار کرنے کی بات کرتے ہیں۔ آپ نے بے صبری کو بخوبی سمجھا، اس کی پوزیٹیو سائڈ دیکھی۔

                   مودی جی، لوگوں کی بے صبری تو ایک طرف ہے، لیکن کیا کبھی آپ بے صبر ہوتے ہیں؟ وہ سرکاری نظام جس کے ساتھ آپ کام کرتے ہیں، سرکاری کام کاج کے طریقوں سے کبھی مایوسی ہوتی ہے کہ کام مودی جی کے حساب سے ، ان کی رفتار سے نہیں چل رہا ہے۔

وزیراعظم-      مجھے علم ہے کہ شاعر کے داخل میں بھی ایک صحافی بیٹھا ہوتا ہے، میں مانتا ہوں کہ جس دن میری بے صبری ختم ہوجائے گی اس دن میں  ملک کے کام نہیں آسکوں گا۔ میں چاہتا ہوں میرے داخل میں وہ بے صبری بنی رہنی چاہئے  کیوں کہ وہ میری توانائی ہے، مجھے طاقت دیتی ہے، ہر شام سوتا ہوں تو دوسرے دن کا خواب لیکر سوتا ہوں اور صبح اٹھتا ہوں تو شروع ہوجاتا ہوں۔

                   جہاں تک ناامیدی کا سوال ہے میں سمجھتا ہوں کہ جب کچھ اپنے آپ کے لئے لینا ، پانا، یا بننا ہوتا ہے تو وہ عمل ناامیدی سے جڑ جاتا ہے۔ لیکن جب آپ ’سرو جن ہتائے سروجن سکھائے ‘کے عزم کو لیکر چلتے ہیں تو کبھی بھی ناامیدی کی و جہ نہیں پیدا ہوتی۔

                   کچھ لوگوں کو لگتا ہے چھوڑ و یار کچھ نہیں ہونے والا، سرکار بیکار ہے، اصول بیکار ہے، قانون بیکار ہے، بیورو کریسی بیکار ہے، طور طریقے بیکار ہیں، آپ کو ایسے افراد ملیں گے جو ایسی ہی باتیں کرتے ہیں۔ میں دوسری طرح کا انسان ہوں ، میں کبھی کبھی کہتا تھا کہ اگر گلاس آدھا بھرا ہوا ہے، تو ایک شخص  ملے گا جو کہے گا گلاس آدھا ہے۔ دوسرا کہے گا گلاس آدھا بھرا ہوا ہے۔ایک کہے گا آدھا خالی ہے، مجھ سے کوئی پوچھتا ہے تو میں کہتا ہوں گلاس آدھا پانی سے بھرا ہے آدھا ہوا سے۔ اپنی اس بنیادی سوچ کی وجہ سے یہ تو ہے نہیں کہ میں جو چاہوں وہ سب ہوتا ہے ، کبھی نہیں بھی ہوتا ہے، تو میں ناامید نہیں ہوتا۔ کیوں کہ میں یہ سوچتا ہوں کیوں نہیں ہوا؟ آگے اس کو کرنے کا راستہ نئے طریقے سے تلاش کرتا ہوں اور میں کرکے رہتا ہوں۔

پرسون جوشی- یہاں پر ہم ایک سوال لینا چاہتے ہیں۔ جو ویڈیو کے ذریعے ہم دیکھیں گے، پرینکا ورما جی ہیں دہلی سے، ایک سوال انہوں نے آپ کے لئے بھیجا ہے ؟

پرینکا-          مودی جی! میں دلّی سے پرینکا بول رہی ہوں، میرا سوال یہ ہے کہ ہم سرکار کیوں چنتے ہیں؟ اس لئے کہ سرکار ہمارے لئے کام کرسکے۔ لیکن جب سے آپ آئے ہیں تب سے سسٹم بالکل بدل گیا ہے۔ آپ نے تو سرکار کے ساتھ ساتھ ہم جیسوں کو بھی کام پر لگادیا ہے۔ میرا آپ سے سوال ہے کہ پہلے ایسا کیوں نہیں ہوتا تھا، شکریہ۔

پرسون جوشی- یہ جو سوال پوچھ رہی ہیں کہ اگر آپ لوگوں کو لوگوں سے جوڑتے ہیں، سرکار کے کام کے ساتھ خواہ وہ گیس سبسیڈی کی بات ہو، کئی معاملوں میں آپ ایک امید رکھتے ہیں عوام سے۔

وزیراعظم -     پرینکا نے بہت اچھا سوال پوچھا ہے۔ آپ 1857 سے لے لیجئے 1947 تک ۔ اس سے پہلے بھی جاسکتے ہیں۔ لیکن میں 1857 پر ہی جاتا ہوں، جب جنگ آزادی کی جدوجہد شروع ہوئی تھی1857 سے 1947 تک کا  آپ کوئی بھی سال اٹھا لیجئے ، ہندوستان کے کسی نہ کسی گوشے میں کوئی نہ کوئی آزادی کیلئے شہید ضرور ہوا ہے۔ ملک کی آزادی کی خاطر مرمٹنے کیلئے کچھ نہ کچھ ضرور کیا گیا ہے۔ کسی نہ کسی نوجوان نے اپنی زندگی  جیل میں گزار دی ہے۔ مطلب یہ کہ آزادی کی جدوجہد کسی بھی وقت میں کسی بھی کونے میں رکی نہیں تھی۔

                   لیکن مہاتما گاندھی نے کیا کیا؟ انہوں نے اس پورے جذبے کو ایک نئی شکل دے دی۔ انہوں نے عوام الناس کو ایک دوسرے سے جوڑا، وہ عام سے  عام آدمی سے کہتے تھے ، اچھا بھائی تمہیں ملک کی آزادی چاہیے نا؟ تم جھاڑو لیکر ملک کی صفائی کاکام شروع کردو، تم ٹیچر ہو، بچو ں کو اچھی طرح پڑھاؤ ملک کو آزادی مل جائے گی، تم کھادی کا کام کرسکتے ہو کرو، تم نوجوانوں کو ملاکر پربھات پھیری نکال سکتے ہو نکالو۔

مہاتما گاندھی نے آزادی کو عوامی تحریک میں تبدیل کردیا۔ عوام الناس کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام دے دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ  ملک کے لئے  مر مٹنے  والوں کی  کمی نہیں تھی۔ لیکن وہ آتے تھے اور شہید ہوجاتے تھے پھر کوئی نیا شخص کھڑا ہوکر شہید ہوجاتا تھا، لیکن گاندھی جی نے ہندوستان کے گوشے گوشے میں ایک شخص کو کھڑا کردیا جس کے نتیجے میں ہمیں آزادی حاصل ہوسکی۔ میں  سمجھتا ہوں کہ ترقی کو بھی عوامی تحریک بن جانا چاہئے۔ گاؤں میں ایک گڈھا بھی ہو تو گاؤں کے لوگ  ملیں گے ، میمورنڈم تیا رکریں گے، کرائے پر ایک جیپ لیکر تحصیل جائیں گے ، میمورنڈم دیں گے، اگر وہ چاہتے  تو  جیپ کے کرائے کے خرچ میں یہ گڈھا  بھر سکتا تھا، لیکن وہ سرکار کرے گی۔

آزادی کے بعد ایک ماحول بن گیا ، یہ سب کون کرے گا، سرکار کرے گی۔ اس کی وجہ سے عوام الناس اور سرکار کے درمیان دوریاں بڑھ گئیں۔ آپ نے تجربہ کیا ہوگا بس میں تنہا بیٹھا شخص راستہ کاٹنے کی خاطر وہ سیٹ میں انگلی ڈالتا ہے اس میں ایک  سوراخ کردیتا  ہے  لیکن جب اسے یہ احساس ہوجائے کہ یہ بس سرکار کی نہیں میری ہے تو شاید ایسا نہ ہو۔ آج یہ جذبہ ختم ہوچکا ہے۔

سرکار بننے کے بعد میں نے بیت الخلاؤں کی تعمیر کی مہم شروع کی ، آپ تصور کیجئے کوئی سرکار اتنے بیت الخلاء تعمیر کراسکتی تھی۔ پہلے سرکار پانچ ہزار بناتی تھی اب دس ہزار بنالیتی۔ کہا جائے گا پرانی سرکار پانچ ہزار بناتی تھی مودی جی نے دس ہزار بنادی۔ لیکن کیا دس ہزار سے کام  پورا ہوجائے گا؟ عوام  نے بیڑا اٹھا لیا کام  پورا ہوگیا۔

ہندوستان میں بزرگ شہریوں کیلئے  ریلوے  میں ٹکٹوں پر رعایت ہوتی تھی، میں نے کہا کہ بھائی آپ ریزرویشن کے فارم میں لکھیں تو صحیح کہ میں بزرگ شہری ہوں، مجھے بینیفٹ  ملتا ہے لیکن مجھے بینیفٹ نہیں چاہئے ، بات آسان تھی ۔ وزیراعظم کی سطح پر میں نے کبھی اپیل نہیں کی تھی ، آپ سب کو تعجب ہوگا ہندوستان کے عوام الناس کی وطن  پرستی دیکھئے ، ہم نے ابھی فیصلہ کیا ہی تھا کہ  اے سی میں سفر کرنے والے 40 لاکھ بزرگ شہریوں نے لکھ کر دے دیا انہیں رضاکارانہ رعایت نہیں چاہیے۔ اگر میں قانوناً کرتا کہ بزرگ شہری کو کسی کو چ میں رعایت نہیں دی جائے گی تو جلوس نکلتا، پتلے جلتے، پھر مقبولیت کی ریٹنگ آتی، مودی گرگیا۔

میں نے ایک دن لال قلعے سے کہا تھا کہ جو لوگ کفیل ہوسکتے ہیں، ان کو گیس پر چھوٹ کیوں لینی چاہئے؟ ہمارے ملک  میں گیس سیلنڈروں کی تعداد پر چناؤ لڑے جاتے تھے، امیدوار کہتے تھے، مجھے وزیراعظم بنائیے میں 9 سے 12 سیلنڈر کردونگا۔ میں نے لوگوں سے الٹی بات کہی۔ بھائی ضرورت نہیں ہے تو چھوڑ دو سبسیڈی۔ اور آپ کو حیرت ہوگی کہ ہندوستان کے تقریباً سوا کروڑ سے زیادہ کنبوں نے سبسیڈی چھوڑ دی۔ ہم لوگوں کا کام ہے ملک کی طاقت سمجھنا، ان کو جوڑنا، میری کوشش ہے کہ ہمیں ملک ہی نہیں سرکار بھی چلانا ہے۔ سرکاروں کو عوامی گھمنڈ چھوڑ دینا چاہئے، عوام الناس ہی طاقت ہیں۔ ان کو لیکر ہی چلنا چاہئے۔

پرسون جوشی- واہ مودی جی! مجھے دو پرانی لائنیں یاد آرہی ہیں۔ سرکار اور عوام کے درمیان جو دوری پیدا ہوگئی تھی ہم نیچی نظر کرکے دیکھت ہیں، چرن تُمرے، تم جائیکے بیٹھے ہو اونچی اٹریا۔

وزیراعظم-      میں تو عوام الناس سے یہی گزارش کروں گا کہ آپ ہمیں آشیرواد دیں کہ ہم میں وہ عادت نہ پیدا ہوجائے ۔

پرسون جوشی- مودی جی! ہم ایک سوال لیتے ہیں ۔ ناظرین میں سے ایک سوال۔ ہم سے گزارش تھی جناب میوریش اوجھانی جی ایک سوال پوچھنا چاہتے ہیں۔ میوریش جی اپنا سوال پوچھیں۔

سائل (سوال کرنے والا)-        نمستے مودی جی، جب آپ نے سرجیکل اسٹرائک کرنے کا انتہائی اہم، تاریخی اور ہمت والا فیصلہ لیا تھا اس وقت آپ کے اندر کون سا جذبہ تھا؟

وزیراعظم -     میں آپ کا ممنون ہوں۔ آپ اپنی زبان میں اپنے جذبے کا اظہار نہیں کرپارہے ہیں۔ لیکن آپ نے اپنے جذبے کا اظہار کردیا اور الفاظ میں مجھ تک پہنچایا۔ یہ منظر اپنے آپ میں دل کو چھو لینے والا ہے۔ لنکا سے روانگی کے وقت بھگوان رام چندر جی اور لکشمن کے جو مکالمے ہیں، ہم نے ان کے اصولوں کو دیکھا ہے لیکن جب کوئی دہشت گردی کو سند بناکر بیٹھا ہو، میرے ملک کے بے قصور شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہو، جنگ لڑنے کی طاقت نہیں ہے، پیٹھ پر وار کرنے کی کوشش ہوتی ہو، تو یہ مودی اسی زبان میں جواب دینا جانتا ہے۔ ہمارے جوان ٹینٹ میں سوئے ہوئے تھے ، رات میں کچھ بزدل آکر ان کو موت کے گھاٹ اتار دے، آپ میں سے کون چاہے گا کہ میں اس پر چپ رہوں۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جانا چاہئے کہ نہیں؟ اسی لئے سرجیکل اسٹرائیک کی گئی ۔ مجھے اپنی فوج پر فخر ہے۔ مجھے اپنی فوج کے جوانوں پر فخر ہے جو منصوبہ تیار کیا گیا تھا انہوں نے بغیر کسی قسم کی غلطی کے اس پر عمل آوری کی اور صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے واپس لوٹ آئے۔ ہماری نیک دلی دیکھئے ہم نے یہ آپریشن کرنے والے افسر سے کہا  کہ اس سے پہلے کہ ہندوستان کو معلوم ہو میڈیا وہاں پہنچے ، آپ پاکستانی فوج کو فون کرکے بتا دیں آج رات ہم نے کیا کیا ہے؟ یہ لاشیں یہاں پڑی ہوں گی، تمہیں وقت ہو تو آکر اٹھا لے جاؤ ۔ ہم سب صبح گیارہ بجے سے  ان سے فون پر بات کرنے کی کوشش کررہے تھے، وہ فون پر آنے سے ڈر رہے تھے۔ میں نے صحافیوں کو بلا رکھا تھا، ہمارے فوجی افسر کھڑے تھے، صحافیوں کو تعجب ہورہا تھا کہ کیا بات ہے؟  کوئی نہیں بتا رہا ہے ہمیں کیوں بلایا گیا ہے۔ میں نے کہاصحافیوں کو بیٹھائے لیکن سب سے پہلے پاکستان سے بات کیجئے ہم نے کیا کیا ہے؟ چھپایا نہیں ہم نے۔ بارہ بجے وہ ٹیلی فون پر آئے ، ان کو بتایا گیا  ہم نے یہ کیا ہے، تب جاکر ہم نے ملک کی میڈیا اور دنیا کو بتایا ۔ سرجیکل اسٹرائک ہندوستان کے بہادروں کی جوانمردی  تھی لیکن دہشت گردی ایکسپورٹ کرنے والوں کو پتہ ہونا چاہئے کہ اب ہندوستان بدل چکا ہے۔

پرسون جوشی- مودی جی! جب آپ نے بہادری کی بات کی ، فوج کی بات کی، فوج کے اتنے ایثار وقربانی کے بعد بھی وہاں ہم سیاست کو داخل ہوتے دیکھ رہے ہیں ، فوج کی بہادری پر لوگ سوال کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟

وزیراعظم-      دیکھئے  میں ایک بار پھر اس پلیٹ فارم کو سیاسی حریفوں کی نکتہ چینی کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہتا، میں اتنا ہی کہوں گا ، خدا سب کو نیکی دے۔

پرسون جوشی- مودی جی ! یہ بات تو ہوئی بدلاؤ کی ، بے صبری کی، کہتے ہیں جہاں نہ پہنچے روی وہاں پہنچے کوی۔ میں کوی یا شاعر ہونے کی حیثیت سے یہ بات نہیں کہہ رہا ہوں ، سچی ترقی وہی ہے جو سب تک پہنچے۔ کوئی بھی تہذیب اس وقت تک اپنے آپ پر فخر نہیں کرسکتی جب تک کہ اس میں سماج کے محروم سے محروم ترین لوگوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔

                   پروگرام کے اس حصے میں ہم ان طبقوں اور زمروں کی بات کرنا چاہتے ہیں جو شاید ہوکر بھی دکھائی نہیں دیتے تھے۔ بڑے بڑے منصوبوں کے شور میں جن کے مفادات کہیں کھو جاتے تھے، جیسے ڈھول کے شور میں کہیں بانسری کی دھن کھو جاتی ہے، آئیے کچھ تصویریں دیکھتے ہیں۔

                   مودی جی آپ نے لال قلعے سے ٹوائلٹ جیسے معاملے پر بات کی۔ کسی وزیراعظم نے پہلی بار معمولی دکھائی دینے والے اس انتہائی اہم معاملے پر بات کی۔ یہ جو ترجیحات بدلی ہیں ، آپ جن ترجیحات کا فیصلہ  کرتے ہیں، اور یہ مسائل کب سامنے آتے ہیں۔

وزیراعظم-      دیکھئے میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ آزادی کے 70 برسوں کے دو ران کسی سرکار کا ان مسائل پر دھیان ہی نہیں گیا یہ کہنا تو ان کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ میں نے تو لال قلعے سے یہ بھی کہا تھا کہ آج ہندستان جہاں ہے وہاں ملک کے آزاد ہونے سے لیکر سبھی سرکاروں، سبھی وزرائے اعظم کا، سبھی ریاستی سرکاروں کا، سبھی وزرائے اعلیٰ کا، ہر عوامی نمائندے  کی کوئی نہ کوئی خدمت رہی ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ اتنے منصوبے ہیں ، اتنا سرمایہ خرچ ہورہا ہے، لیکن عام آدمی کی زندگی میں بدلاؤ کیوں نہیں آرہا ہے۔ مہاتما گاندھی نے ہم لوگوں کو ایک اصول دیا تھا کہ کسی بھی ترقی پذیر ملک  کیلئے اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں ہوسکتا۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ کوئی بھی پالیسی بنائیں تو اسےترازو سے تولیے کہ اس کا فائدہ وہ جو آخری سرے پر بیٹھنے والا انسان ہے اس تک پہنچ رہا ہے، میں نے مہاتما گاندھی کی اسی بات کو پیش نظر رکھ کر پالیسی سازی کی۔  بھئی ہم بڑی بڑی باتیں کریں لیکن ہم جس کے لئے  یہ منصوبے بنارہے ہیں، وہ سماج کے آخری کونے پر بیٹھا ہوا شخص اس تک پہنچنے کیلئے ہم کہاں جارہے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ میں نے جو دشوار گزار کام اپنے سر پر لیے ہیں، ان ہی میں سے کچھ منفی بات بھی نکالی جاسکتی ہے۔ لیکن کیا اس کے لئے ان کاموں کو چھوڑ دیا جائے؟ غریب جہاں پڑا ہے وہیں پڑا رہے؟ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ جب کسی چھوٹی بچی کے ساتھ زنا ہوتا ہے تو وہ کتنا دردناک واقعہ ہوتا ہے ۔ لیکن کیا ہم یہ کہیں گے کہ تمہاری سرکار میں اتنے ہوتے تھے میری سرکار میں اتنے ہوتے ہیں؟میں سمجھتا ہوں یہ غلط راستہ ہے۔ زنا، زنا ہوتا ہے، ایک بیٹی پر یہ ظلم کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے؟ اسی لئے میں نے لال قلعے سے نئے طریقے سے اس کو پیش کیا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ اگر بیٹی شام کو دیر سے گھر آتی ہے تو ماں باپ پوچھتے ہیں کہاں گئی تھی، کیوں گئی تھی۔

                   ارے بھائی بیٹیوں سے تو سب پوچھ رہے ہو، کبھی بیٹوں سے بھی تو پوچھو کہاں گئے تھے؟ یہ بات میں نے لال قلعے سے کہی تھی۔ میں مانتا ہوں یہ برائی سماج کی ہے ، فرد کی ہے، لیکن اس سب کے باوجود بھی یہ مسئلہ تشویش کا ہے۔ ظلم کرنے والا کسی کا تو بیٹا ہے ، اس کے گھر میں بھی تو ماں ہے۔

                   اسی لئے میں دل سے مانتا ہوں کہ سیاست اپنی جگہ ہے، اسے خواہ میری سماجی پالیسی یا قومی پالیسی سمجھا جائے، میں ان کی زندگی میں کچھ بدلاؤ لانا چاہتا ہوں۔ اسی لئے میں نے لال قلعے سے کہا تھا کہ ہم ان 18 ہزار مواضعات تک بجلی پہنچائیں گے  جہاں تک پچھلے 70 برسوں میں بجلی نہیں پہنچ سکی تھی۔ میں نے سرکاری دفتر سے کہا بھائی  کب کرو گے، کسی نے کہا سات سال لگیں گے، میں نے کہا میں سات سال انتظار نہیں کرسکتا،  میں نے لال قلعے سے اعلان کردیا کہ یہ کام ایک ہزار دن میں پورا کرنا چاہتا ہوں۔ دشوار گزار کام تھا ، دشوار گزار علاقے تھے، کہیں انتہاپسند لوگ، اور کہیں ماؤ نوازوں کا علاقہ تھا لیکن اب 18ہزار مواضعات میں بجلی پہنچانے کاکام پورا ہوچکا ہے۔ شاید ڈیڑھ سو پونے دو سو گاؤں باقی بچے ہیں۔ کام جاری ہے۔

                   میں نے بیڑا اٹھایا ہے سوبھاگیہ یوجنا کے تحت میں ان چار کروڑ کنبوں کو بجلی کنکشن دوں گا ، ان کے بچے بجلی میں پڑھیں گے، اگر گھر میں کمپیوٹر چلانا ہے، موبائل چارج کرنا ہے تو دنیا سے جڑیں گے، ٹی  وی لانے کا خرچ مل جائے گا تو ٹی وی دیکھیں گے۔ بدلتی ہوئی دنیا دیکھیں گے۔ بدلتی ہوئی دنیا سے جڑنے کیلئے ان میں بھی بے صبری پیدا ہوگی۔ میں ان میں یہ بے صبری پیدا کرنا چاہتا ہوں تاکہ وہ کچھ کرنے کیلئے میرے ساتھ جڑ جائیں۔

پرسون جوشی- مودی جی آپ پور ی محنت کررہے ہیں یہ سب مانتے ہیں پر کیا آپ اکیلئے ملک کو بدل پائیں گے؟

وزیراعظم-       آپ نے کہا ، میں محنت کرتا ہوں، میں سمجھتا ہوں ملک میں اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں۔ یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے اگر نہ کرتا  تو مسئلہ ہوتا۔ میرے پاس سوا سو کروڑ اہلیان وطن کا پیا رہے اسی لئے مجھے زیادہ سے زیادہ محنت کرنی چاہئے، اسی لئے میں اپنے ملک کے عوام سے کہنا چاہتا ہوں کہ میں آپ ہی کے جیسا ایک عوام شہری ہوں۔ مجھ میں ساری کمیاں ہیں جو ایک عام آدمی میں ہوتی ہے۔ مجھے الگ نہ سمجھا جائے۔

                   اب سوال یہ ہے کہ میں نے کبھی نہیں سوچا کہ میں ملک بدل دوں گا لیکن میرے اندر  یہ اعتماد ضرور ہے کہ  میرے ملک میں اگر لاکھوں مسائل ہیں تو سواسو کروڑ حل بھی ہیں۔ اگر کروڑوں مسائل ہیں تو کھربوں حل بھی ہیں۔ مجھے ارجنٹینا کے صدر محترم ملے تھے وہ کہہ رہے تھے مودی جی میرے بہت اچھے دوست ہیں، میں اور میری اہلیہ بات کررہے تھے میں نے کہا کیا ہوا؟ بولے یا ر تم نے جب نوٹ بندی کی تو وینیزوئیلا میں بھی یہی سب چل رہا تھا۔ ملک کی 86 فیصد کرنسی کاروباری نظام سے باہر ہوجائے گی۔  لیکن اپنے ملک کے لوگوں کے تئیں میرا اعتماد تھا کہ میرے ملک کا شہری ایمانداری کیلئے مصیبت کا سامنا کرنے کیلئے تیا رہے۔ اگر مجھ میں طاقت ہے تو مجھے اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنا چاہئے۔

پرسون جو شی-         جی۔

وزیراعظم-      میں کیوں کہ ایسی زندگی گزار کے آیا ہوں اس لئے میرے لیے یہ سب براشت کرنا فطری تھا۔ ہم ٹھوکریں کھاتے کھاتے  آئے ہیں ۔ بہت سے مسائل  سے نکل کر آئے ہیں تو میں نے لکھا تھا کہ جو لوگ مجھ پر پتھر پھینکتے ہیں میں ان پتھروں سے ہی زینہ بناتا ہوں اور اس پر چڑھ کر آگے دیکھتا ہوں۔ اسی لئے میرا تصور رہا ہے ٹیم انڈیا۔ صرف سرکار  میں بیٹھے ہوئے لوگ نہیں ۔ بیورو کریسی ہے، ریاستی سرکار ہے، وفاقی ڈھانچے کیلئے  میری بہت بڑی ترجیح ہے، میں نے کوآپریٹیو فیڈرالزم  کو  کمپیٹیٹیو کو آپریٹیو فیڈرالزم کی سمت میں لے جانے کی کوشش کی ہے۔

                   میں نے ابھی ملک کے 115 اضلاع کی  ایسپیریشن ڈسٹرکٹ کے  طور پر شناخت کی ہے۔  میں ان میں حوصلہ بیدار کررہا ہوں۔ آپ اپنی ریاست کے اوسط پر آجاؤ میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں ان کا حوصلہ بڑھا رہا ہوں، اور وہ کررہے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بیت الخلاؤں کی تعمیر کا نشانہ مکمل ہوگیا ہے۔

                   مودی اکیلا کچھ نہیں کریگا اور مودی کو کچھ کرنا بھی نہیں چاہیے۔ لیکن ملک سب کچھ کریگا اور مودی بھی۔ کبھی تو میں کہتا تھا جب میں گجرات میں تھا تب بات کرتا تھا، میں کہتا تھا ہمارا ملک ایسا ہے کہ سرکار اگر روکاوٹ بند کردے تو ملک بہت آگے بڑھ سکتا ہے۔ میں اسی بنیادی جذبے کے ساتھ چلنے والا انسان ہوں۔

پرسون جوشی- آپ نے ابھی شاعری کی بات کی تھی، تو آپ کو سامنے دیکھ کر میں ایک کویتا سنائے دیتا ہوں۔ یہ کویتا بھارت پر پوری طرح کھری اترتی ہے۔ آپ پر بھی کھری اترتی ہے آپ سمجھیں میں کیا کہہ رہا  ہوں؟

कि सर्प क्‍यों इतने चकित हो? सर्प क्‍यों इतने चकित हो? दंश का अभ्‍यस्‍त हूं।

सर्प क्‍यों इतने चकित हो? दंश का अभ्‍यस्‍त हूं, पी रहा हूं विष युगों से, सत्‍य हूं, आश्‍वस्‍त हूं।

सर्प क्‍यों इतने चकित हो? दंश का अभ्‍यस्‍त हूं, पी रहा हूं विष युगों से, सत्‍य हूं, आश्‍वस्‍त हूं।

ये मेरी माटी लिए है गंध मेरे रक्‍त की, जो कह रही है मौन की, अभिव्‍यक्‍त की।

मैं अभय लेकर चलूंगा, मैं विचलित न त्रस्‍त हूं।

सर्प क्‍यों इतने चकित हो? दंश का अभयस्‍त हूं।

है मेरा उद्गम कहां पर और कहां गंतव्‍य है?

दिख रहा है सत्‍य मुझको, रूप जिसका भव्‍य है।

मैं स्‍वयं की खोज में कितने युगों से व्‍यस्‍त हूं।

सर्प क्‍यों इतने चकित हो? दंश का अभयस्‍त हूं।

है मुझे संज्ञान इसका बुलबुला हूं सृष्टि में,

है मुझे संज्ञान इसका बुलबुला हूं सृष्टि में।

एक लघु सी बूंद हूं मैं, एक लघु सी बूंद हूं मैं, एक शाश्‍वत वृष्टि मैं।

है नहीं सागर को पाना, मैं नदी सन्‍यस्‍त हूं।

सर्प क्‍यों इतने चकित हो? दंश का अभयस्‍त हूं।

وزیراعظم-      پرسون جی، ہم لوگ آپ کے جذبات کی قدر کرتے ہیں، ہم اسی جذبے کو لیکر پلے بڑھے ہیں اور اسی لئے ہمارے ملک میں سب نے  نیش زنی بھی برداشت کی ، زہر بھی پیا ہے، پریشانیاں بھی جھیلی ہیں، بے عزتی بھی برداشت کی ہے لیکن اپنے خوابوں کو کبھی مرنے نہیں دیا۔ یہ جذبہ ہی ہے جو ملک کو نئی اونچائیوں تک لے جانے کی طاقت رکھتا ہے۔ میں اسی جذبے کا احساس کرتا ہوں۔

پرسون جوشی- یہاں پر کچھ سوال لیتے ہیں۔ جناب سیمول ڈاؤزرٹ کا سوال ہے۔

سیمول ڈاؤزرٹ-        Good Evening Mr. Prime Minister. What is your opinion about Modicare? Everyone is talking about it.ThankYou

پرسون جوشی- میں سمجھتا ہوں اوبامہ کیئر کی طرح مودی کیئر اور اوبامہ کیئر کے درمیان متوازی فرق ہے۔ شاید وہ ہیلتھ کے سیکٹر کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں؟

وزیراعظم-      دیکھئے میں محسوس کرتا ہوں، میری زندگی کا پس منظر ہی ایسا ہے کہ میں یہاں بیٹھے  اپنے میگھناتھ جیسے بھائیوں سے کوئی ایسی بات کرنے والی میری روایت نہیں ہے۔ لیکن تین چیزیں ، بچوں کی پڑھائی، جوانوں کی کمائی اور بزرگوں کی دوائی۔ یہ تین چیزیں ہیں جن کی ہمیں ایک صحتمند سماج کیلئے فکرکرنی چاہئے۔ کنبہ خواہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، کوئی دشواری نہ ہو،کوئی برائی نہ ہو، لیکن اگر اس کنبے میں ایک بیماری آجائے تو تصور کیجئے کہ چلو بھائی بچی بڑی ہوگئی ہے بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے ہیں، شادی کروانے ہیں اور گھر میں اگر ایک فرد بیمار ہوجائے تو پورا پلان ختم ہوجاتا ہے بچی کنواری رہ جاتی ہے۔ بیماری پورے کنبے کو تباہ کردیتی ہے۔

                   ایک آٹورکشہ چلانے والا آدمی بیمار ہوگیا تو سمجھ لیجئے پورا کنبہ بیمار ہوگیا۔ سارا انتظام درہم برہم ہوگیا۔ تب جاکر ہم نے کچھ سوچا تو ہم نے ہیلتھ کے سیکٹر میں ایک انتہائی ہالسٹک ایپروچ لی ہے۔ آج کچھ لوگ مودی کیئر کی شکل میں اس کی تشہیر کررہے ہیں۔ ہم  پری وینٹیو ہیلتھ  ، ایفورڈیبل ہیلتھ اور سسٹینبل  چین کو لیکر آگے بڑھ رہے ہیں۔

                   ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ کنبے کو ایک ایسا نظام دیا جائے کہ ملک کے تقریباً دس کروڑ کنبوں کے دوا علاج پر آنے والا خرچ پانچ لاکھ روپئے کی ادائیگی سرکار کرے گی۔ اسی وجہ سے غریبوں کی زندگی میں جو مصیبت آتی ہے اس سے نجات ملے گی۔

                   اس کی وجہ سے جو پرائیویٹ اسپتال آنے کا امکان ہے، اس میں اسپتالوں کا ایک اچھا نیٹ ورک کھڑا ہوگا، کیوں کہ ان کو پتہ ہے کہ پیسنٹ  آئے گا پیسنٹ کو پتہ ہے کہ مجھے کوئی پیسہ نہیں دینا ہے۔ اس طریقے سے نئے اسپتالوں کا ایک سلسلہ قائم ہوگا۔ اسی طرح دوا کی پیکنگ اچھی ہوتی ہے ، دوا لکھنے والوں کو بھی کچھ نہ کچھ ملتا رہتا ہے، آپ جانتے ہوں گے کہ ڈاکٹروں کی کانفرنس کبھی سنگا پور میں ہوتی ہے، کبھی دوبئی میں ہوتی ہے ، وہاں اس لئے نہیں جانتے ہیں کہ کوئی بیماری ہے۔ یہ فارماسیٹکل کمپنیوں کے لئے ضروری ہے اس لئے کرتے ہیں۔

                   تو ہم نے کیا کیا؟ جنرک میڈیسن اور معیاری دوائیں ، جو دوا سو روپئے میں ملتی تھی وہ دوا آج میڈیکل اسٹور پر پندرہ روپئے میں ملتی ہے۔ ہم نے ایسے تقریباً تین ہزار جن اوسدھالیہ قائم کئے ہیں اور بھی نئے جن اوسدھالیہ بنائیں گے تاکہ عام آدمی کو اس کا فائدہ پہنچ سکے اسی لئے ہم اس کی تشہیر کررہے ہیں۔

*********

م ن۔س ش۔ع ن۔

U-2163



(Release ID: 1529598) Visitor Counter : 507