وزیراعظم کا دفتر

نوی ممبئی بین الاقوامی ہوائی اڈے کے کام کے آغاز کے موقع پر منعقدہ تقریب میں وزیراعظم کی تقریر

Posted On: 18 FEB 2018 8:12PM by PIB Delhi

(18 فروری 2018 کو ممبئی بین الاقوامی ہوائی اڈے کے کام کے آغاز سے متعلق تقریب میں وزیراعظم کی تقریر کا متن حسب ذیل ہے)

 

مہاراشٹر کے گورنر جناب ودیاساگر راؤ ، یہا ں کے وزیراعلیٰ جناب دیویندر فڑنویس جی،

مرکز  میں کابینہ کے میرے رفیق کار جناب نتن گڈکری صاحب ،  اشوک گجپتی راجو جی ، ریاستی حکومت کی وزیر محترم روی چندر چوان جی،

ایم ایل اے جناب پرشانت ٹھاکر جی اور وسیع تعداد میں یہاں آئے ہوئے میرے پیارے بھائیو اور بہنو!

کل چھتر پتی شیواجی مہاراج کے یوم پیدائش کا موقع ہے  اور ایک دن پہلے آج رائے گڑھ ضلع میں یہ موقع اپنے آپ میں خود ایک حسن اتفاق ہے۔ آج دو پروگراموں کا مجھے موقع ملا ہے۔ایک ہمارے نتن گڈکری جی کی رہنمائی میں بھارت کے جہازرانی شعبے  کو، بندرگاہ شعبے کو اور آبی راستے کو جس طرح سے ایک نئی توجہ ملی ہے اور اسی کے تحت ممبئی میں جےاین پی ٹی کے چوتھے ٹرمل کو آج قوم کے نام وقف کیا جارہا ہے۔

کئی برسوں سےہم لفظ سنتے آئے  ہیں، عالم کاری، عالمی تجارت۔ سنتے تو بہت برسوں سے آئے ہیں لیکن یہ عالمی تجارت کے امکانات کے سلسلے  میں گھر میں بیٹھ کر ذکر کرتے رہنے سے ہمارے ملک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے ۔ عالمی تجارت کا منافع تب ہوتا ہے کہ پوری دنیا کے ساتھ مربوط ہونے کے لئے آپ کے پاس عالمی معیار کا بنیادی ڈھانچہ ہو۔

بحری تجارت  اس میں ا یک بڑی اہمیت رکھتی ہے اور بھارت ایک خوش قسمت  ملک رہا ہے کہ بحری طاقت کو پہچاننے والے سب سے پہلے راج پُرش ، قوم کے سپوت،  چھترپتی شیواجی مہاراج  تھے، اسی کا نتیجہ کا ہے آج مہاراشٹر میں اتنے سارے سمندر سے جڑے ہوئے قلعوں کی تعمیر اور ان کے ساتھ ایک بحری قوت کا احساس ۔ آج جب اتنے برسوں کے بعد چھترپتی شیواجی مہاراج کو یاد کرتے ہیں اور جو یہ جے این پی ٹی کے چوتھے ٹرمل کو ہم قوم کے نام وقف کرتے ہیں تو ہم تصور کرسکتے ہیں کہ ہماری یہ جید شخصیات کتنی دور بین ہوا کرتی تھیں اور کتنے وسیع تناظر کے فکر کی حامل تھیں۔

اگر عالمی تجارت میں بھارت کو اپنا مقام بنانا ہے تو بھارت کے پاس سب سے زیادہ بحری راستے کی قوت کئی گنا بڑھانے کی ضرورت ہے، ہماری بندر گاہیں جتنی زیادہ مقدار میں ترقی یافتہ ہوں، جدید ہوں، یہاں سے مال بھیجنے میں کم سے کم وقت لگتا ہو اور تیز رفتار سے چلنے والے جہازوں کی تعداد میں اضافہ ہو ، لاکھوں ٹن ہمارا ساز وسامان عالمی بازار میں پہنچے اور کبھی کبھی پہنچنے کی مسابقت ہوتی ہے۔ ایک بار آرڈر طے ہونے کے بعد اقتصادی کاروبار ہونے کےبعد اگر کم وقت میں مال پہنچتا ہے تو خریدنے والے تاجر کو منافع ہوتا ہے۔ اگر وہ دیر سے پہنچتا ہے تو اسےنقصان  ہوتا  ہے۔ لیکن وہ تب پہنچتا ہے کہ جب ہمارے بندرگاہ کے شعبے میں اس طرح کی سہولت ہو ۔

ساگر مالاپروجیکٹ کے تحت ہم صرف بندرگاہ کو ہی ترقی دینا چاہتے ہیں ،ایسا نہیں ہے، ہم بندرگاہ سے مربوط تمام تر ترقیات پر زور دے رہے ہیں تاکہ ہماری بحری ساحل کے ساڑھے سات ہزار کلو میٹر کا وسیع سمندر ہمارے پاس ہے۔ ہم بحری شعبے میں ایک عظیم قوت بننے کے امکانات والے۔۔۔ ہمیں جغرافیائی  لحاظ سے ایک نظام حاصل ہوا ہے۔ یہ ہمارے لیے چنوتی ہے کہ ہم کیسے فائدہ اٹھائیں اس موقع کا۔ اور ہم اپنے نظام کو اس ترقی کی نئی بلندیوں پر لے جائیں ۔

حکومت ہند نے اس سمت  بیڑا اٹھایا ہے ۔ دنیا ماحولیات کا ذکر کرتی ہے ، ماحولیات کے مسئلے کے حل میں ایک اہم میدان  نقل وحمل ہے اور نقل وحمل کے شعبے کے اندر آبی راستے، 100 سے زیادہ آبی راستے ہم نے شناخت کیے ہیں اور پورے ملک میں ہمیں لگتا ہے کہ ساز وسامان کے نقل وحمل کیلئے اگر ریل یا سڑک کے بجائے اگر آبی وسائل کا استعمال کریں تو ہماری ندیوں کا، ہمارے بحری ساحل کا، تو ہم بہت کم خرچ میں چیزوں کو مہیا کراسکتے ہیں، پہنچا سکتے ہیں۔ ماحولیات کو کم سے کم نقصان کرکے ہم ایک عالمی حرارت کے ساتھ جو لڑائی چل رہی ہے اس میں بھی اپنا مثبت تعاون کرسکتے ہیں۔ ان موضوعا ت کے سلسلے میں  اب ہم ملک میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

آج نوی ممبئی میں سبز فیلڈ ہوائی اڈہ اور ملک میں آزادی کے بعد اتنا بڑا گرین فیلڈ پروجیکٹ ، ہوابازی کے شعبے کا یہ سب سے پہلا ہورہا ہے۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ 20 سال سے آپ نے سنا ہے، کئی چناؤ میں اس کے وعدے کیے ہوں گے۔ کئی رُکن ریاستی قانون ساز اسمبلی چن کرکے آئے ہوں گے اس وعدے پر، کئی ایم پی بن کر کے آئے ہوں گے ، کئی حکومتیں بنی ہوں گی لیکن ایئرپورٹ نہیں بنا اور اس کی وجہ کیا تھی ۔ اس کے پیچھے حکومت کے کام کرنے کے طور طریقے سب سے  بڑی روکاوٹ ہے۔ 1997 میں جب اٹل بہاری واجپئی کی سرکار تھی تب اس کا خواب دیکھا گیا،اس کے بارے میں تذکرہ کیا گیا اور بات آگے بڑھی اور جب میں وزیراعظم بنا تو مجھے اور کوئی کام ہے نہیں ، خالی آدمی ہوں تو دن رات یہی کرتا رہتا ہوں، تو ڈھونڈتے ڈھونڈتے میرے ذہن میں آیا کہ صرف نوی ممبئی ہوائی اڈہ نہیں، بھارت میں ازحد اہم ایسے پرویکٹس کبھی 30 سال پہلے اعلان ہوا ، فائل میں منظوری مل گئی ، کبھی 20 سال پہلے اعلان ہوا ، کبھی تو نیتاجی نے جاکر پتھر بھی جڑ دیا، فوٹو بھی نکلوادیا، تقریر بھی کردی۔ لیکن وہ کاغذ اور فائل کے باہر پروجیکٹ کبھی نکلا ہی نہیں۔ اب یہ تھوڑی فکر اور چونکانے والی بات تھی۔

تو میں نے ایک پرگتی نام کا پروگرام چلایا ، ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ملک کے تمام چیف سکریٹریوں کے ساتھ اور بھارت کی حکومت کے سبھی سکریٹریوں کے ساتھ ان پروجیکٹوں کو لیکر میں بیٹھتا ہوں اور خود بھی اس کی نگرانی، نظرثانی کرتا ہوں۔ اب اس میں جیسے ابھی دیویندرجی بیان کررہے تھے ، یہ پروجیکٹ میرے سامنے ہے۔ کچھ نہیں ہوا تھا جی۔ کاغذ پر تھا۔ کل آئے گا ، کل ایک کوئی بیان دیگا، یہ تو ہمارے وقت میں ہوا تھا۔ یہ ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے اور اس لیے اس  پرگتی کے تحت سبھی محکموں کو بٹھا کرکے مسائل کا حل کریے بھائی۔ اگر پروگرام وضع کیا گیا تھا تو اس میں غلطی کیوں کی ۔ اگر آپ اس وقت غلطی نہیں کی ہے تو آج لاگو کیوں نہیں کیا۔ واضح سوالوں کے ذریعے چیزوں کو آگے بڑھاؤ آپ کو جان کر خوشی ہوگی کہ اس پرگتی کی نگرانی کے ذریعے 20-20، 30-30 سال پرانے لٹکے ہوئے اور پرانی حکومتوں کی فطرت تھی لٹکانا، اٹکانا، بھٹکانا۔ یہی ہوتا رہا۔ آپ حیران ہوں گے، قریب قریب دس لاکھ کروڑ روپئے کے پروجیکٹس جو ایسے ہی لٹکے ہوئے ، اٹکے ہوئے، بھٹکے ہوئے پڑے تھے، ان کو ہم نے کارآباد بنایا، رقم کا انتظام کیا اور تیز رفتار سے وہ کام آگے چل رہا ہے۔ اور اسی میں نوی ممبئی کے ہوائی اڈے کا کام ہے جی۔

ہوا بازی کا شعبہ ہمارا تیز رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے گجپتی راجو جی آپ کو تفصیل سے ابھی بتارہے تھے۔ آج سے 20-25 سال پہلے پورے ہندوستان کے ہوائی اڈوں پر جتنا ٹریفک تھا ، مسافر آتے تھے، جاتے تھے، آج اس سے بھی زیادہ اکیلے ممبئی ہوائی اڈے پر ٹریفک ہے۔ آپ سوچیے، پورے ملک میں جو تھا اتنا آج اکیلے ممبئی میں ہے۔ آج وقت ایسا بدل چکا ہے کہ جیسے آپ بس کی لائن میں لوگوں کو دیکھتے ہیں، اگر ہوائی اڈے پر جائیں، لمبی قطار میں لوگ کھڑے ہیں جہاز میں چڑھنے کیلئے اور یہ دن بھر ہندوستان کے کئی ہوائی اڈوں پر آپ کو دیکھنے کو ملے گا۔

جس تیزی سے ہوا بازی کے شعبے کی ترقی ہورہی ہے ، اس کی ضرورت کے مطابق ہم ہوا باز ی کے شعبے کے بنیادی ڈھانچے  میں بہت پیچھے چل رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے رفتار بڑھائیں، اس کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ ہم نے، اب یہ آپ نے آج سے کئی برسوں پہلے 80 کی دہائی میں اکیسویں صدی آرہی ہے ،اکیسویں صدی آرہی ہے، روزانہ آتا تھا ، اخباروں میں۔ روز وزیر اعظم جی کے منہ سے اکیسویں صدی کا ذکر آتا تھا۔ لیکن اکیسویں صدی لفظ سے آگے کبھی گاڑی بڑھی نہیں۔

اگر اکیسویں صدی کا ہوابازی کا شعبہ کیسا ہوگا، اس کے لئے کسی نے آج سے 20-25 سال  پہلے سوچا ہوتا تو شاید ہمیں آج جتنی دوڑ لگانی پڑتی ہے، شاید نہ لگانی پڑتی۔ اس ملک میں آزادی کے بعد کسی حکومت نے اتنا اہم شعبہ آنے والے وقت میں اس کی اہمیت بڑھنے والی ہے۔ اس میں کوئی ترد ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ پھر بھی ہمارے ملک میں کبھی بھی ہوابازی سے متعلق پالیسی نہیں تھی۔ ہم نے آکر کے ہوابازی کی پالیسی بنائی اور ہوابازی کو اگر ہم یہ غلطی کریں گے ، کیوں کہ ایک زمانہ تھا کہ مہاراجا کی تصویر رہا کرتی تھی۔ اس کے اوپر ۔ آج یہ عام آدمی کا ہے۔ جب اٹل جی کی حکومت تھی تو ہمارے ایک ہوابازی کے وزیر تھے ۔ میں تو سیاست میں بہت تنظیم کا ایک کونے میں کام کرتاتھا۔ میں ان کو کہا کہ آج بھی ہوائی جہاز پر یہ مہاراجا کی تصویر کیوں لگائے رکھتے ہوئے۔ اس زمانے میں مہاراج  لوگ کی سطح پر بیٹھتے تھے۔ میں نے کہا ، اب تو آپ کو لکشمن کے کارٹون میں جو عام آدمی ہوتا ہےنا، اس کی تصویر لگانی چاہئے، وہ ہوائی جہاز میں بیٹھتا ہے، اور بعد میں اٹل جی کی حکومت کے وقت کو شروع بھی کیا گیا۔

ہم نے کہا کہ کیوں نہ میرے ملک میں جو ہوائی چپل پہنتا ہے ، اسے بھی ہوائی جہاز میں اڑنا چاہئے۔ ہم نے پرواز کا منصوبہ بنایا ، ملک میں 100 سے زیادہ نئے ایئرپورٹ بنانا یا پرانے پڑے ہیں تو ان کو ٹھیک کرنا اور اس کو کارآمد کرنے کی سمت ہم کام کررہے ہیں۔

چھوٹے چھوٹے مقامات پر ہوائی جہاز چلیں، چھوٹے چلیں۔ 20 لوگوں کو لے جانے والے، 30 لوگوں کو لے جانے والے، لیکن آج لوگوں کو رفتار چاہیے اور ہم نے ایک منصوبہ ایسا بنایا ، خاص کر شمال مشرق کے لوگوں کیلئے جس میں ڈھائی ہزار روپئے کا ٹکٹ اور شمال مشرق میں جو مشکل بھرا علاقہ ہے ، جہاں رابطہ بہت ضروری ہے، اس پر  بھی ہم زور دے رہے ہیں۔

آپ کو جان کر خوشی ہوگی بھائیو بہنو، ہمارے ملک میں اتنے برسوں سے جو ہوائی جہاز خریدے گئے، چلائے گئے، آج ہمارے ملک میں قریب قریب 450 ہوائی جہاز کام کررہے ہیں ، ملک  میں خدمت میں ہیں، ساڑھے چار سو ، سرکار ی ہو، پرائیویٹ ہو، سب ملکر کے۔ آزادی سے ا ب تک ہم 450 پر پہنچے۔ آپ کو جان کر خوشی ہوگی کہ اس ایک برس میں اس ملک کے ہوابازی کے شعبے سے لوگوں کے ذریعے  900 نئے ہوائی جہازوں کے آرڈر بُک کیے گئے ہیں۔ یعنی آزادی کے 70 سال ہوگئے ، 450  اور اس ایک برس میں 900 نئے ہواجہاز خریدنے کا آرڈر بُک ہوا۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ کتنی تیزی سے ہوابازی کا شعبہ آگے بڑھ رہا ہے اور ہوابازی کا شعبہ روزگار کے بھی نئے امکانات لیکر آتا ہے اور ابھی جب دیویندر بتارہے تھے کہ اس کے ساتھ بنیادی ڈھانچہ بنے گا، پانی سے ، زمین سے، آسمان سے ، اس کے سبب معاشی سرگرمی کتنی متحرک ہوتی ہے۔ دنیا کا ایک مطالعہ ہے کہ ہوابازی شعبے کے بنیادی ڈھانچے میں جب 100 روپئے لگائے جاتے ہیں تو وقت رہتے  اس میں سے  سوا تین سو روپئے نکلتے ہیں۔ اتنی طاقت ہے، روزگار دینے کے امکانات بہت ہیں۔ بھارت کی سیاحت کو بھی بڑھاوا ہے۔

بھارت اتنا گونا گونیت سے مالامال ملک ہے ، اگر مناسب رابطہ مل جائے تو دنیا کے لوگ ایک ضلع میں اگر مہینہ بھی نکال دیں، تو بھی شاید پورا دیکھ کر نہیں رہ سکتے، اتنی گونا گونیت سے مالامال ہمارا ملک ہے۔ یہ ہوابازی کا شعبہ ، اس کی طاقت ملک کی سیاحت کو بھی بہت بڑی طاقت دے گی۔ اور سیاحت کا ایک ایسا شعبہ ہے کہ جہاں کم سے کم حصص کی  فروخت سے زیادہ سے زیادہ روزی روٹی کمائی جاسکتی ہے۔ اب سیاحت میں ہر کوئی کمائے گا۔ ٹیکسی والا کمائے گا، آٹورکشا والا کمائے گا، گیسٹ ہاؤس والا کمائے گا، پھل پھول بیچنے والا کمائے گا، مندر کے باہر بیٹھا ہوا پوجا پاٹھ کرنے والا بھی کمائے گا، ہر کوئی کماتا ہے۔

یہ جو ہوابازی کے شعبے کو بڑھاوا دینے کے پیچھے ہماری جو کوشش ہے وہ سیاحت کے ساتھ بھی سیدھی سیدھی وابستہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آج کا یہ نوی ممبئی گرین فیلڈ ہوائی اڈے کا سنگ بنیاد اور میں ہمیشہ پروگرام میں پوچھتا رہتا ہوں، بھئی پورا کب ہوگا۔ کیوں کہ وہ پرانے زمانے کا تجربہ کیسا ہے، آپ لوگوں کو معلوم ہے ۔ تو ہم نے ملک کو اس کلچر سے باہر نکالنے کیلئے بڑی محنت کرنی پڑرہی ہے۔   لیکن کریں گے۔ آپ نے کام دیا ہے تو ہم اس کو پورا کرکے رہیں گے۔

اور میں دیکھ رہا ہوں کہ جو پروجیکٹ ان دنوں میں دیکھ رہا ہوں  ممبئی اور مہاراشٹر میں۔ میں موٹا موٹا اندازہ لگاؤں کہ 2022 اور 2022 کے  فوراً بعد کا دور کیسا ہوگا۔ ذرا تصویر کیجیے آپ ، کیا ہوگا؟ شاید اس کے  پہلے 20 سال  ، 25 سال میں بھی آپ سوچ نہیں پائے ہوں گے ۔ اگر 2022، 23،24،25 ، اس دوڑ کو دیکھیں  آپ دیکھیں گے کہ یہیں  پر آپ کی آنکھوں کے سامنے نوی ممبئی کے ہوائی اڈے سے ہوائی جہاز اڑنے لگے ہوں گے۔ اسی دور میں جب سمندر پار 22 کلو میٹر لمبے ٹرانس ہاربر لنک روڈ پر آپ کی گاڑیاں پوری رفتار سے دوڑتی ہوں گی۔ اسی دور میں ممبئی ڈبل لائن، سب اربن کوریڈور کا کام پوری تیز رفتار سے ہوگیا ہوگا۔ اسی طرح سے ، اسی وقت آپ کو یہاں سمندر سےتعلق رکھنے والے جتنے بھی پروجیکٹ ہیں ، پانی سے تعلق رکھنے والے ، زمین سے تعلق رکھنےو الے ریل سے تعلق رکھنے والے ، ایک ساتھ 22 کے آس پاس کے وقت میں آپ کو نظر آنے لگیں گے اور دوسری طرف چھترپتی شیواجی مہاراج کا خوبصورت مجسمہ بھی تیار ہوگیا ہے۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ کیسے بدل جائے گا۔

تو میں سارے ان اقدامات کیلئے شریمان دیویندر جی کو ، مرکز میں اپنے ٹیم کے ساتھ گجپتی راجو جی، نتن گڈکری جی ، ان سب کو مبارکباد دیتے ہوئے، آپ سب کو بہت جلد اس ہوائی سفر کاموقع یہیں سے مل جائے، اس کے لئے بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

شکریہ ۔

 

 

U-939



(Release ID: 1520886) Visitor Counter : 147


Read this release in: English , Tamil