ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارت
’’جنگلاتی علاقے کے معاملے میں ہندوستان دنیا کے دس اہم ممالک میں شامل ہے‘‘: ڈاکٹر ہرش وردھن
آندھراپردیش، کرناٹک، کیرالہ میں سب سے زیادہ جنگلاتی علاقہ ہے
جنگلات کی صورت حال کے بارے میں ہندوستانی رپورٹ 2017جاری کردی گئی
Posted On:
12 FEB 2018 1:36PM by PIB Delhi
نئی دہلی،12/فروری۔ ماحولیات، جنگلات اور آب و ہوا کی تبدیلی کے مرکزی وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن نے ملک میں جنگلاتی علاقے بڑھنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ پچھلے ایک عشرے کے دوران جنگلات کم ہونے کے عالمی رجحان کے برخلاف ہندوستان میں جنگلات اور درخت بڑھنے کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ ڈاکٹر ہرش وردھن نے کہا کہ ہندوستان جنگلاتی علاقے کے معاملے میں دنیا کے 10 ملکوں میں شامل ہے۔ حالانکہ دیگر 9 ملکوں میں آبادی کا تناسب 150 افراد فی مربع کلومیٹر ہے، جبکہ ہندوستان میں، جس کی آبادی بہت زیادہ ہے، فی مربع کلومیٹر انسانوں کی تعداد 382 ہے۔ انھوں نے یہ بات 2017 کی ہندوستان میں جنگلات کی صورت حال کے بارے میں رپورٹ (آئی ایس ایف آر) جاری کرتے ہوئے کہی۔ وزیر موصوف نے کہا ’’ہندوستان دنیا میں دسویں نمبر پر ہے، جہاں جنگلات اور پیڑ پودوں والی زمین 24.4فیصد ہے، جبکہ اس کا دنیا میں زمینی علاقہ 2.4 فیصد ہے۔ جنگلات کا یہ علاقہ 17 فیصد انسانوں اور 18 فیصد مویشیوں کی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ اتنی زبردست آبادی اور ہمارے جنگلات پر مویشیوں کے بوجھ کے باوجود ہندوستان اپنی جنگلاتی دولت کو محفوظ کرنے اور اس میں توسیع کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ ڈاکٹر ہرش وردھن نے مزید کہا کہ خوراک و زراعت کی عالمی تنظیم ایف اے او کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ہندوستان کو ان دس ملکوں کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر رکھا گیا ہے، جو جنگلات کے علاقے سے سب سے زیادہ سالانہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔
جنگلات کی صورت حال کے بارے میں ہندوستان کی رپورٹ 2017 کے حوالے سے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر ہرش وردھن نے کہا کہ تازہ ترین اندازے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی کل جنگلاتی آراضی میں اور جس علاقے پر درخت اُگے ہوئے ہیں اس میں 8021 مربع کلومیٹر (تقریباً 80.20 ملین ہیکٹیئرس) کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ 2015 کے پچھلے جائزے کے مقابلے میں ہے۔ انھوں نے کہا کہ جنگلات کے علاقے میں 6778 مربع کلومیٹر اور جس علاقے میں درخت لگے ہوئے ہیں اس میں 1243 مربع کلومیٹر کا اضافہ ہوا ہے۔ وزیر موصوف نے بتایا کہ ’’ہندوستان کے جغرافیائی علاقے کو دیکھتے ہوئے جنگلات اور درختوں والے علاقے کا کل فیصد 24.39 ہے۔‘‘ انھوں نے اس ہمت افزا علامت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جنگلات کے علاقے میں اضافہ بہت گھنے جنگلوں (وی ڈی ایف) کے سلسلے میں ہوا ہے اور یہ جنگلات فضا سے زیادہ سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اپنے اندر کھینچتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’گھنے جنگلوں کے علاقے میں اضافہ کے بعد کھلے جنگلوں کا علاقہ آتا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ 2017 کی ہندوستان کی جنگلات کی صورت حال کے بارے میں رپورٹ سائنسی آلات کی مدد سے تیار کی گئی ہے۔
ریاست وار تفصیل بتاتے ہوئے ڈاکٹر ہرش وردھن نے کہا کہ تین ریاستوں نے یعنی آندھراپردیش (2141 مربع کلومیٹر)، اس کے بعد کرناٹک (1101 مربع کلومیٹر) اور کیرالہ (1043 مربع کلومیٹر) نے جنگلات کے علاقے میں سب سے زیادہ اضافے کا رجحان ظاہر کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’مدھیہ پردیش میں علاقہ کے لحاظ سے سب سے زیادہ علاقے یعنی 77414 مربع کلومیٹر پر جنگلات واقع ہیں۔ اس کے بعد اروناچل پردیش کا نمبر ہے، جہاں 66964 مربع کلومیٹر علاقے پر اور پھر چھتیس گڑھ میں (55547 مربع کلومیٹر) علاقے پر جنگلات پائے جاتے ہیں۔ لکشدیپ کے کل علاقے کے 90.33 فیصد علاقے میں جنگلات واقع ہیں، جو کہ اس نوعیت کے اعتبار سے سب سے زیادہ تعداد ہے۔ اس کے بعد میزورم کا نمبر ہے، جہاں 86.27 فیصد علاقے پر، جبکہ انڈومان اینڈ نیکوبار جزائر میں 8173 فیصد علاقے پر جنگلات اُگے ہوئے ہیں۔ جنگلات کی صورت حال کے بارے میں رپورٹ تیار کرنے کے زبردست کام کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا ’’آئی ایس ایف آر 2019 کی تیاری کے لئے پہلے ہی کام شروع کردیا گیا ہے۔‘‘
ماحولیات، جنگلات اور آب و ہوا کی تبدیلی کے محکمہ کے وزیر مملکت ڈاکٹر مہیش شرما نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ کو سائنسی طریقۂ کار پر تیار کرنے میں 18000 نکات کو زیرغور رکھا گیا۔ انھوں نے جنگلات کو برقرار رکھنے اور ان کے تحفظ کے زبردست کام میں مدد کے لئے معاشرے اور میڈیا سے اپیل کی ہے۔
ماحولیات، جنگلات اور آب و ہوا کی تبدیلی کے محکمہ کےسکریٹری جناب سی کے مشرا نے اس بات پر زور دیا کہ جنگلات کی اقتصادی قدر و قیمت کا احساس کیا جانا چاہئے اور جنگلات کو اقتصادی اعتبار سے استعمال کیا جانا چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ جنگلات کی قدر و قیمت جنگلات کے آس پاس رہنے والے لوگوں کے لئے زیادہ ہے، اس لئے اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ یہ کام کس کے لئے کیا جارہا ہے۔ جناب مشرا نے کہا کہ جنگلات الگ تھلگ واقع نہیں ہیں اور ان کے فائدے لوگوں تک پہنچنی چاہئیں۔
موجودہ جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ 15 ریاستوں ؍ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کا 33 فیصد جغرافیائی علاقہ جنگلات کے تحت ہے۔ ان ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں سے 7 ریاستیں ؍ مرکز کے زیر انتظام علاقے یعنی میزورم، لکشدیپ، انڈومان اینڈ نیکوبار جزائر، اروناچل پردیش، ناگالینڈ، میگھالیہ اور منی پور کا جنگلاتی علاقہ 75 فیصد سے زیادہ ہے، جبکہ 8 ریاستوں تری پورہ، گوا، سکم، کیرالہ، اتراکھنڈ، دادر اینڈ نگر حویلی، چھتیس گڑھ اور آسام میں جنگلاتی علاقہ 33 فیصد سے 75 فیصد تک ہے۔ ملک کا تقریباً 40 فیصد جنگلاتی علاقہ 10000 مربع کلومیٹر یا اس سے بھی زیادہ سائز کے 9 بڑے بڑے علاقوں پر مشتمل ہے۔
ملک میں جس علاقے میں بانس اگائے جاتے ہیں، اس کا رقبہ اندازاً 15.69ملین ہیکٹیئر ہے۔ 2011 میں لگائے گئے پچھلے اندازے کے مقابلے میں اس میں 1.73 ملین ہیکٹیئر کا اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے حال ہی میں پارلیمنٹ میں ایک بل پاس کیا ہے، جس کے تحت بانس کو درختوں کے زمرے سے باہر نکال لیا گیا ہے۔ اس سے لوگوں کو پرائیویٹ زمین پر بانس اگانے کی ہمت افزائی ہوگی، جس سے کسانوں کی روزی روٹی کے مواقع میں اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ اس سے ملک میں گرین کور میں بھی اضافہ ہوگا۔
جنگلات کے ڈائریکٹر جنرل اور اسپیشل سکریٹری ڈاکٹر سدھانتا داس، جنگلات کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل جناب سائبل داس گپتا اور فاریسٹ سروے آف انڈیا کے سینئر اور ریٹائرڈ افسران بھی اس موقع پر موجود تھے۔
(م ن ۔ ج۔ م ر(
U-847
(Release ID: 1520305)
Visitor Counter : 1683