ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارت
مرکزی وزیر ماحولیات جناب بھوپیندر یادو نے بیلیم، برازیل میں منعقدہ سی او پی 30کے دوران موافقت پذیری پر باکو ہائی لیول ڈائیلاگ سے خطاب کیا
ہندوستان نے خبردار کیا ہے کہ گلوبل ایڈپٹیشن فائنانس گیپ وسیع ہو رہا ہے۔ اضافی ، قابل پیشن گوئی، گرانٹ پر مبنی اور رعایتی مالی امداد کا مطالبہ کیا
باکو سے بیلیم روڈ میپ میں بیان کردہ سطح تک موسمیاتی مالیات کی توسیع کے لیے عالمی اجتماعی کوشش ناگزیر ہے: ہندوستان
موافقت کو لازمی سرمایہ کاری کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہئے، نہ کہ اختیاری اضافی اقدام کے طور پر: جناب بھوپیندریادو
ہندوستان نے موافقت کے حوالے سے مضبوط عزم کا اعادہ کیا؛ گزشتہ 7 سالوں میں جی ڈی پی میں حصہ داری کے لحاظ سے ہندوستان میں موسمیاتی موافقت کے اخراجات میں 150 فیصد اضافہ ہوا
प्रविष्टि तिथि:
20 NOV 2025 9:33PM by PIB Delhi
بیلیم/نئی دہلی، 18 نومبر، 2025
ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کے مرکزی وزیر جناب بھوپیندر یادو نے 20نومبر 2025 کو برازیل کے بیلیم میں منعقدہ یو این ایف سی سی سی کی سی او پی30 کے دوران موافقت کے موضوع پر باکو ہائی لیول ڈائیلاگ سے خطاب کیا۔ انہوں نے ڈائیلاگ منعقد کرنے پر سی او پی پریزیڈنسی کا شکریہ ادا کیا اور یو این ایف سی سی سی کی سکریٹریٹ کے کاموں کی ستائش کی۔ وزیرموصوف نے موافقت کی مالی امداد تک رسائی میں ہندوستان کی کوششوں اور تجربات، ترقی پذیر ممالک کو درپیش رکاوٹوں اور موافقت کے عزائم کو فروغ دینے کے لیے درکار عالمی اقدامات پر روشنی ڈالی۔
وزیرموصوف نے اپنے خطاب میں،عالمی خلا کے وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ اسکیل اپ ایڈاپٹیشن فائنانس کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا۔ وزیر موصوف نے پیرس معاہدے کی 10 ویں سالگرہ کے موقع پر آرٹیکل 7.6 کی اہمیت پر زور دیا، جو ترقی پذیر ممالک کے لیے موافقت کے مؤثر اقدامات کرنے میں مدد پر مرکوز ہے ۔ انہوں نے واضح کیا کہ’’2025 کی ایڈپٹیشن گیپ رپورٹ میں یہ تخمینہ پیش کیا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو 2035 تک سالانہ 310 سے 365 ارب ڈالر کے درمیان مالی امداد کی ضرورت ہوگی، جبکہ موجودہ امداد کی مالیت صرف 26 ارب ڈالر کے قریب ہے‘‘۔
وزیر موصوف نے اس بات پر زور دیا کہ متوقع، اسکیل اپ، گرانٹ پر مبنی اور رعایتی مالی امداد ضروری ہے۔ انہوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو گلاسگو ماحولیاتی معاہدہ کے تحت عوامی موافقتی مالیات کو 2019 کی سطح سے دوگنا کرکے 2025 تک تقریباً 40 ارب ڈالر امریکی ڈالر تک لے جانے کا ہدف چھوٹ سکتا ہے۔انہوں نے زور دے کر کہا‘‘باکو تابیلیم روڈ میپ میں بیان کردہ سطح تک موسمیاتی مالی امداد کو 1.3 کھرب ڈالر تک بڑھانے کے لیے یہ عالمی اجتماعی کوشش انتہائی ناگزیر ہوگی۔‘‘
ان چیلنجوں کے باوجود، وزیر موصوف نے موافقت کے تئیں ہندوستان کی مضبوط گھریلو عہدبندی کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان گھریلو وسائل کی مدد سے قومی اور ریاستی سطح پر منصوبہ بندی کے ذریعے موافقت کے اقدامات کو انجام دے رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’جی ڈی پی کے فیصد کے لحاظ سے ،2016-17 سے 2022-23 تک 7 سالوں کے دوران ہندوستان کے موافقت سے متعلقہ اخراجات میں 150 فیصد اضافہ ہوا ہے‘‘۔ انہوں نے زور دے کر کہاکہ بین الاقوامی سطح پر، ہندوستان نے تسلیم شدہ اداروں کی مستعدی کی حمایت اور ادارہ جاتی صلاحیت سازی کے ذریعے موسمیاتی موافقت کی مالیات تک رسائی کی اپنی صلاحیت کو مضبوط کیا ہے۔
موافقت کے لیے مالی امداد کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو اجاگر کرتے ہوئے، وزیر موصوف نے کثیر جہتی موسمیاتی فنڈ سے منسلک پیچیدہ اور سست روی کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے لین دین کی اعلیٰ مالیت، محدود ادارہ جاتی صلاحیت کی تاخیر، واضح محصولات کے ذرائع کی عدم موجودگی اور رسک شیئرنگ کے ناکافی وسائل جیسے عوامل کو اجاگر کیا جو نجی شعبے کی مالی امداد میں مانع ہیں۔ وزیر موصوف نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ نظام کی ان رکاوٹوں کو دور کریں۔
جناب بھوپیندریادو نے ہندوستان کے اصولی نقطہ نظرکی توثیق کی کہ موافقت کی تدابیر ملک پر مبنی ، صنف کے لحاظ سے جوابدہ، جامع اور سائنس اور روایتی علم سے جڑی ہونی چاہیے۔ انہوں نے ماحولیات کے لحاظ سے لچکدار زراعت، پانی کے انتظام اور ماحولیاتی نظام کی بحالی میں کمیونٹی کی زیرقیادت اور اختراعات پر مبنی پائلٹ پروجیکٹس کا تذکرہ کیا ،یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ ان اقدامات سے مضبوط نتائج برآمد ہوتے ہیں لیکن ’’محدود مالیات، ٹیکنالوجی اور صلاحیت کی وجہ سے چھوٹے ‘‘ شمار ہوتے ہیں۔
وزیر موصوف نے موسمیات کے لحاظ سے لچکدار زراعت میں قومی اختراعات اور موسمیاتی تبدیلی پر قومی موافقت فنڈ جیسے ہندوستان کے اقدامات کو اجاگر کیا، جن سے آب و ہوا کے لحاظ سے مستحکم فصلوں، مٹی کی بحالی اور پانی کے استعمال کی بہتر کارکردگی، ذریعہ معاش کے مجموعی تحفظ کو یقینی بنانے میں مدد ملی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’’یہ کوششیں اہم غیر استعمال شدہ صلاحیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں‘‘۔
سربراہی اجلاس میں موافقت سے متعلق اہم نکات پر روشنی ڈالتے ہوئے، وزیرموصوف نے کہا کہ سی او پی30 کو یہ واضح سیاسی پیغام دینا چاہیے کہ ’’موافقت اختیاری اضافی اقدام نہیں ہے بلکہ ایک ضروری سرمایہ کاری ہے۔‘‘ انہوں نے اس بات کی توثیق کی کہ موافقت اور تخفیف ’’پیرس معاہدے کے تکمیلی ستون‘‘ ہیں، اور یہ کہ موافقت کے عالمی ہدف پر پیش رفت ممالک کے لحاظ سے قومی سطح پر طے ہونی چاہیے۔ سی او پی31 کو مدنظر رکھتے ہوئے ، انہوں نے کہا کہ ’’اشاریوں کو رضاکارانہ، غیرتجویز کردہ اور قومی سطح پر قابل تشریح کے تابع رہنا چاہیے اور فریم ورک کو اضافی متعلقہ بوجھ پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور متنوع قومی تناظر کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔‘‘
جناب بھوپیندریادو نے اس بات پر زور دیا کہ ماہرین کی بات چیت سے متعلقہ فریق پر مبنی خاکہ بند مشغولیت کی طرف منتقلی سے ممالک کو فزیبلٹی کا جائزہ لینے، صلاحیت کی ضروریات کی نشاندہی کرنے اور وسیع تر اطلاق سے پہلے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ مجوزہ نقطہ نظر قومی منصوبہ بندی کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آگے بڑھتے ہوئے، باکو ایڈپٹیشن روڈ میپ کو معلومات کے تبادلے، اچھے طریقوں اور تجربات کو فروغ دیکر ، اور متعلقہ چیلنجوں اور خلا کو دور کرنے میں ترقی پذیر ممالک کی مدد کرکے اشاریوں سے آگے دیکھنا چاہیے۔
وزیر موصوف نے نیشنل ایڈپٹیشن پلان (این اے پی) پر عمل آوری کو مضبوط بنانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کی تشکیل اور عمل درآمد ’’موسمیاتی موافقت کے لیے فراہم کردہ امداد پر منحصر ہے۔‘‘ انہوں نے ترقی پذیر ممالک کے لیے تیاری کی حمایت، مالیاتی میکانزم تک ہموار رسائی اور لین دین کی لاگت میں کمی پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ مضبوط سازگار ماحول سے مقامی طور پر ثابت شدہ حل کو اپنانے میں مدد ملے گی، خطرے کی تشخیص کو منصوبہ بندی میں مربوط کرنے اور زراعت، پانی کی حفاظت، مستحکم انفراسٹرکچر اور ماحولیاتی نظام پر مبنی طریقوں میں سرمایہ کاری کو تیز کرنے میں مدد ملے گی ۔
جناب بھوپیندر یادو نے اس بات کا اعادہ کیا ’’ایڈپٹیشن فائنانس میں مقدار اور معیار دونوں لحاظ سے اضافہ ہونا چاہیے اور اسے گرانٹس کی شکل میں فراہم کیا جانا چاہیے نہ کہ قرض کا بوجھ پیدا کرنے والے آلات کے طور پر‘‘۔ انہوں نے کہا کہ عالمی عزائم کو حتمی طور پر’’برادریوں ، ایکو سسٹم اور معیشتوں کی استحکامی قوت میں حقیقی بہتری‘‘ سے پرکھا جائے گا اور یہ کہ سی او پی30 اور سی او پی31 کو مل کر اعتماد، اطلاق اور تعاون کو بہتر کرنا ہوگا تاکہ مطلوبہ رفتار سے موافقت کے عہد کو پورا کیا جاسکے۔
وزیر موصوف نے ماحولیات کے لحاظ سے مستحکم ترقی کے تئیں ہندوستان کی عہدبندی اور ترقی پذیر ممالک کو مؤثر موافقتی ذرائع سے آراستہ کرنے کے لیے عالمی یکجہتی کو بڑھانے کی ضرورت کا اعادہ کرتے ہوئے اپنی بات ختم کی ۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ش ح ۔ م ش ع۔ع ن)
U. No. 1580
(रिलीज़ आईडी: 2192433)
आगंतुक पटल : 5