سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
کوڈائی کنال آبزرویٹری کے ایک صدی پرانے اعداد و شمار سے سورج کے مستقبل کے راز ہوئے افشا
Posted On:
19 NOV 2025 3:34PM by PIB Delhi
انیس نومبر 2025، فلکیات دانوں نے کوڈائی کنال سولر آبزرویٹری(کے او ایس او)میں 100 سال سے بھی زیادہ پہلے لی گئی تاریخی شمسی تصاویر کا تجزیہ کرکے سورج کے ماضی کے قطبی مقناطیسی رویّے کو دوبارہ تشکیل دینے کا ایک نیا طریقہ دریافت کیا ہے، جو اس کے مستقبل کے بارے میں اہم اشارے فراہم کرتا ہے۔
ایک صدی سے زائد عرصے سے سائنس دان سورج کی پراسرار دھڑکنوں، سورج کے دھبوں، شعلوں اور مقناطیسی طوفانوں کے پیٹرن کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو زمین پر سیٹلائٹ کے نظام سے لے کر بجلی کے گرڈ تک سب کچھ متاثر کر سکتے ہیں۔ اس شمسی پہیلی کا ایک اہم حصّہ سورج کے قطبی مقناطیسی میدانوں میں پوشیدہ ہے، جو ہر شمسی چکر کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور مستقبل کی شمسی سرگرمی کی پیش گوئی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ چونکہ سورج کے قطبی مقناطیسی میدانوں کی براہِ راست پیمائش صرف 1970 کی دہائی میں شروع ہوئی، اس لیے گزشتہ صدی کے بیشتر حصّے کے لیے ہمارے پاس متعلقہ معلومات بہت محدود ہیں۔
محکمۂ سائنس و ٹیکنالوجی(ڈی ایس ٹ)، حکومتِ ہند کے ماتحت خود مختار ادارے آریہ بھٹہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف آبزرویشنل سائنسز (اے آر آئی ای ایس) کے محققین نے، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، ساؤتھ ویسٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (بولڈر، امریکہ)، میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار سولر سسٹم ریسرچ (گوٹنگن، جرمنی)، اورآئی این ایف اےاوسرویٹو آسترونومیکو دی روما (روم، اٹلی) کے ماہرین کے ساتھ مل کر اس پہیلی کا حل تلاش کر لیا ہے۔
دبیا کرتی مشرا کی قیادت میں ٹیم نے ایک صدی پرانیکے او ایس اوکی شمسی تصاویر کا تجزیہ کرکے سورج کے ماضی کے قطبی مقناطیسی رویّے کو دوبارہ تشکیل دینے کا طریقہ دریافت کیا ہے۔کے او ایس او، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹرو فزکس(آئی آئی اے)کا فیلڈ اسٹیشن ہے جو بنگلورو میں واقع ہے اور یہ بھی محکمۂ سائنس و ٹیکنالوجی(ڈی ایس ٹی)، حکومتِ ہند کے تحت ایک خود مختار ادارہ ہے۔

تصویر:1904 سے 2022 کے دوران دوبارہ تشکیل دیے گئے قطبی مقناطیسی میدانوں کی زمانی تبدیلی کو دکھایا گیا ہے (شمالی نصف کرہ کے لیے ٹھوس سرخ لائن اور جنوبی نصف کرے کے لیے نیلی ٹوٹی ہوئی لائن)۔
اسی طرح PSPT-R سے حاصل کردہ قطبی میدانوں کو بھی دکھایا گیا ہے (شمالی نصف کرے کے لیے ٹھوس گہرے سرخ رنگ کی لائن اور جنوبی نصف کرے کے لیے نیوی نیلی ٹوٹی ہوئی لائن)۔
موازنہ کے لیے، ویلکاکس سولر آبزرویٹری کی جانب سے کیے گئے قطبی میدانوں کی براہِ راست پیمائشیں بھی 1976 سے 2022 تک کے اوورلیپنگ دورانیے میں شامل کی گئی ہیں، جن میں شمالی نصف کرے کے لیے گلابی ٹوٹی–ڈاٹیڈ لائن اور جنوبی نصف کرے کے لیے جامنی نقطہ دار لائن دکھائی گئی ہے۔
کوسو (شمالی نصف کرہ کے لیے ٹھوس سرخ لائن اور جنوبی نصف کرے کے لیے نیلی ٹوٹی ہوئی لائن) میں شمسی فلکیات دانوں نے 1904 میں ہی سی اے II کے نا می خصوصی طولِ موج میں سورج کا مشاہدہ شروع کر دیا تھا۔ یہ طولِ موج سورج کی کروموسفیر کی سرگرمی کو ظاہر کرتی ہے۔ سورج کی کروموسفیر اُس کی مرئی سطح کے بالکل اوپر کی ایک تہہ ہے، جہاں مقناطیسی سرگرمی کے باعث “پلیجز”اور نیٹ ورکس نامی روشن دھبّے بنتے ہیں۔ اسی لیے یہ مشاہدات پچھلی ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے کے لیے شمسی مقناطیسیت کے راز اپنے اندر رکھتے ہیں۔
کوسو کا آرکائیو اے آئی/ایم ایل اطلاق میں استعمال کے لیے ایک بڑے ڈیٹا کا خزانہ تصور کیا جا سکتا ہے، کیونکہ 100 سال سے زائد مشاہدات کو اب ڈیجیٹل تصاویر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ جب اس ڈیٹا کو اٹلی کے روم-پی ایس پی ٹیکے حالیہ مشاہدات کے ساتھ ملایا گیا تو تحقیقاتی ٹیم نے جدید فیچر شناختی الگورتھم کا استعمال کرتے ہوئے سورج کے قطبین کے قریب موجود بہت چھوٹے روشن نقوش کی نشاندہی کی، جنہیں قطبی نیٹ ورککہا جاتا ہے۔ اس سے انہیں گزشتہ صدی کے دوران سورج کے قطبی مقناطیسی میدان کا اندازہ لگانے میں مدد ملی۔
محققین نے بتایا کہ قطبی نیٹ ورک ایک طاقتور "پراکسی"یعنی قطبی مقناطیسی میدان کی قوت کا مؤثر متبادل ہے۔ انہوں نے اس باز تعمیر شدہ ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے جاری شمسی سائیکل 25 کی طاقت کا اندازہ بھی لگایا۔
سورج کے مقناطیسی رویّے کو سمجھنا سائنس دانوں کے لیے اس لیے اہم ہے کہ اس سے شمسی طوفانوں کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے—جو سیٹلائٹس کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، جی پی ایس کو متاثر کر سکتے ہیں اور یہاں تک کہ بجلی کے گرڈ کو بھی ناکارہ بنا سکتے ہیں۔ تاریخی تصاویر اور خودکار الگورتھم پر مبنی یہ نیا طریقہ ہمیں سورج کی مقناطیسیت کا پہلے سے کہیں طویل اور زیادہ قابلِ اعتماد ریکارڈ فراہم کرتا ہے۔
ریسرچ ٹیم نے پورا ڈیٹا سیٹ—جس میں دوبارہ تشکیل دیا گیا قطبی میدان اور پولر نیٹ ورک انڈیکس(پی این آئی )سیریز شامل ہے—گٹ ہب اورزینیڈو پر عوام کے لیے مفت دستیاب کر دیا ہے، تاکہ دنیا بھر کے محققین ہمارے اس ستارے کے مزید راز کو جان سکیں۔
تحقیقی مقالے کا لنک : https://doi.org/10.3847/1538-4357/adb3a8
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ش ح۔ع و۔ ن م۔
U-1494
(Release ID: 2191735)
Visitor Counter : 7