ارضیاتی سائنس کی وزارت
بھارت، عوام کی قیادت میں موسمیاتی کارروائی کے لئے اپیل کا خواہاں ، پائیدار شہری مستقبل کے لیے پالیسی-ٹیکنالوجی اور نوجوانوں کی ہم آہنگی پر زور : ڈاکٹر جتیندر سنگھ
ایک لچکدار اور کم کاربن والے مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے ایشیائی ممالک سے اجتماعی کوششوں کا مطالبہ
ہندوستان اقتصادی ترقی کو ماحولیاتی استحکام سے جوڑنے والے، عالمی مشعل بردار کے طور پر ابھر کر سامنے آیا : ڈاکٹر جتیندر سنگھ
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے پائیدار ترقی کے ماڈل کے طور پر ہندوستان کے گرین ہائیڈروجن، سرکلر اکانومی، اور لائف ای کے اقدامات کو اجاگر کیا
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں، نوجوانوں کو علم اور ڈیجیٹل ٹولز کے ساتھ بااختیار بنانا ایک پائیدار مستقبل کی کلید ہے
Posted On:
06 NOV 2025 6:58PM by PIB Delhi
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں ایشین کانفرنس آن جغرافیہ (اے سی جی 2025) میں افتتاحی خطاب کرتے ہوئے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ یہ کانفرنس بروقت اور اہم ہے، کیونکہ یہ تین گہرے باہم جڑے ہوئے مسائل ، آب و ہوا کی تبدیلی، شہر کاری، اور پائیدار وسائل کے نظم و نسق کا تعین کرتی ہے، جو ہمارے مشترکہ مستقبل کا تعین کرتی ہے۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے آج کہا کہ ہندوستان اقتصادی ترقی کو ماحولیاتی پائیداری کے ساتھ جوڑنے میں ایک عالمی مشعل بردار کے طور پر ابھرا ہے، جس کی رہنمائی وزیر اعظم نریندر مودی کے 2070 تک خالص صفر کے ہدف کو حاصل کرنے اور لائف ای- لائف اسٹائل فار انوائرمنٹ موومنٹ کے ذریعے فطرت کے ساتھ ہم آہنگ طرز زندگی کی حوصلہ افزائی کے لیے ہے۔
وزیر موصوف نے ہندوستان میں اس باوقار کانفرنس کے پہلے ایڈیشن کی میزبانی کرنے پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ستائش کی اور وائس چانسلر پروفیسر مظہر علی اور آرگنائزنگ ٹیم کی تعریف کی کہ وہ بین الاقوامی ماہرین، ماہرین تعلیم اور طلباء کو ان عالمی چیلنجوں پر غور و فکر کرنے کے لیے اکٹھا کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے یہ بھی کہا کہ ایشیا عالمی تبدیلی کے مرکز میں واقع ہے، جو متاثر کن صنعتی اور اقتصادی حرکیات سے نشاندہی کرتا ہے، پھر بھی دنیا کے نصف سے زیادہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ ڈال رہا ہے۔ آئی پی سی سی کی چھٹی تشخیصی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے خبردار کیا کہ اگر موجودہ سطح پر اخراج جاری رہتا ہے تو خطے کو شدید موسمی واقعات، جن میں ہیٹ ویوز، سیلاب اور پانی کے دباؤ کے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا ہے۔
انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ اکیلے جنوبی ایشیا میں 750 ملین سے زیادہ لوگ آب و ہوا کے شدید خطرات سے دوچار ہیں، ہمالیہ کے گلیشیر پگھلنے سے لے کر ساحلی سیلاب اور شہری گرمی کے جزیروں تک، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ دہلی، ڈھاکہ، بنکاک، اور منیلا 2050 تک سب سے زیادہ آب و ہوا کے خطرے سے دوچار بڑے شہروں میں شامل ہیں۔
ڈاکٹر سنگھ نے نشاندہی کی کہ ترقی کی علامت کے ساتھ ساتھ شہر کاری بھی غیر منصوبہ بند توسیع، سیلابی علاقوں پر تجاوزات، زیر زمین پانی کے ذخائر کی کمی، اور بڑھتی ہوئی آلودگی کی سطح کی وجہ سے ایک بڑے چیلنج کے طور پر ابھری ہے۔
انہوں نے 2014 کے سری نگر کے سیلاب کو بطورمثال ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایسی آفات محض قدرتی نہیں ہیں بلکہ اکثر انسانی غفلت اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے، اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نےاس ضمن میں اعدادوشمار کا حوالہ بھی دیا: ترقی پذیر ایشیائی ممالک میں تقریباً 80فیصد گندے پانی کو بغیر ٹریٹ کے کیا جاتا ہے، اور شہری ہندوستان ،سالانہ 55 ملین ٹن ٹھوس فضلہ پیدا کرتا ہے، جو کہ سالانہ 5فیصد کی شرح سے یہ بڑھ رہا ہے۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے اس بات پر زور دیا کہ فضلہ سے دولت تک کی ٹیکنالوجی اور سرکلر اکانومی کے اقدامات مستقبل کی کلید ہیں، جہاں ’فضلہ‘ کا تصور ہی ختم ہو جائے گا۔ دہرادون سے مثال دیتے ہوئے، انہوں نے استعمال شدہ کوکنگ آئل ری سائیکلنگ جیسے کامیاب اقدامات کا ذکر کیا، جو نہ صرف ماحولیاتی اہداف کی حمایت کرتے ہیں بلکہ کمیونٹی کی سطح پر آمدنی بھی پیدا کرتے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کوئی بھی حکومتی اقدام عوامی شرکت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا، جب تک کوئی سماجی تحریک نہ ہو، کوئی بھی پالیسی یا سیمینار بہترین نتائج نہیں دے گا۔ انہوں نے ’سوچھ بھارت مشن‘ کی کامیابی کا سہرا شہریوں میں بڑے پیمانے پر رویے کی تبدیلی کو دیا۔ ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ پائیدار ترقی کے لیے ہندوستان کی وابستگی پالیسی اور حکمرانی کے ایک مضبوط فریم ورک میں شامل ہے۔
وزیر نے موسمیاتی تبدیلی پر قومی ایکشن پلان (این اے پی سی سی )، ریاستی ایکشن پلان، اسمارٹ سٹیز مشن، اے ایم آر یو ٹی ، اور سوچھ بھارت مشن کا حوالہ دیا کہ کس طرح پائیداری کو شہری منصوبہ بندی اور حکمرانی میں سرایت کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی کے ذریعہ متعارف کرائے گئے لائف اقدام نے ذمہ دارانہ کھپت، پائیدار زندگی اور ماحولیاتی ذمہ داری کی طرف عالمی تحریک کو تحریک دی ہے۔
انہوں نے کہا،’بھارت کے اقدامات، گرین ہائیڈروجن سے لے کر بائیو اکانومی، سرکلر اکانومی، اور ڈیجیٹل انڈیا، اقتصادی ترقی کو ماحولیاتی توازن کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے ہمارے عزم کی عکاسی کرتے ہیں۔ سائنس اور اختراع کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی ہندوستان کے پائیدار ایجنڈے کے مرکز میں ہیں۔
انہوں نے اسرو کے ارضیات آبزرویشن مشن، نیشنل جیو اسپیشل پالیسی (2022) اور سوامتوا پروگرام کے تحت سروے آف انڈیا کی ڈرون پر مبنی میپنگ کی شراکت کا ذکر کیا، جس نے موسمیاتی لچک کے لیے منصوبہ بندی اور نگرانی کو تبدیل کر دیا ہے۔
انہوں نے ایک پائیدار مستقبل کی تشکیل میں تعلیم، نوجوانوں اور یونیورسٹیوں کے اہم کردار پر بھی روشنی ڈالی۔ نیشنل ایجوکیشن پالیسی (این ای پی ) 2020 کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ نیا تعلیمی فریم ورک طلباء کو اپنی حقیقی صلاحیتوں کو تلاش کرنے اور جغرافیہ جیسے بین الضابطہ مضامین کے ساتھ مشغول ہونے کے قابل بناتا ہے، جو ماحولیاتی تفہیم کے لیے بہت ضروری ہیں۔ ڈاکٹر سنگھ نے کہا،کہ نوجوانوں کو علم اور پائیداری کے اوزار کے ساتھ بااختیار بنانا، ہمارے اجتماعی مستقبل میں سب سے طاقتور سرمایہ کاری ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان کی 70فیصد سے زیادہ آبادی 40 سال سے کم ہے، ڈاکٹر سنگھ نے زور دیا کہ موسمیاتی کارروائی کی زبان نوجوانوں کی زبان ہونی چاہیے۔ ڈیجیٹل، تخلیقی، اور متاثر کن۔ انہوں نے پائیدار طریقوں کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا مہم اور مختصر ڈیجیٹل مواد سے فائدہ اٹھانے کا مشورہ دیا، مزاحیہ انداز میں مزید کہا کہ استعمال شدہ تیل کو ضائع کرنے کے بجائے اکٹھا کرنا جیسے چھوٹے اقدامات بھی معاشی اور ماحولیاتی قدر پیدا کر سکتے ہیں۔
مضبوط علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داری کا مطالبہ کرتے ہوئے، ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ ہندوستان بین الاقوامی شمسی اتحاد (آئی ایس اے) اور (سی ڈی آرآئی ) جیسے اقدامات کے ذریعے عالمی تعاون میں سب سے آگے رہا ہے۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ایشیا، سب سے زیادہ متحرک اور سب سے زیادہ کمزور خطہ ہونے کے ناطے، ایک لچکدار، کم کاربن، اور مساوی مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے قریبی تعاون کرنا چاہیے۔
کانفرنس کے انعقاد کے لیے جامعہ ملیہ اسلا میہ کا اظہار تشکر کرتے ہوئے، ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ اس طرح کے پلیٹ فارم تعلیمی تعاون، پالیسی مکالمے اور ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے نوجوانوں کی شمولیت کو تقویت دیتے ہیں۔ انہوں نے آخر میں یہ کہتے ہوئے اپنی بات مکمل کی کہ’آب و ہوا صرف پالیسی سازوں یا سائنسدانوں کی فکر نہیں ہے؛ بلکہ یہ ہر شہری کی ذاتی فکر ہے، ہماری اپنی صحت، ہماری اپنی بھلائی اور ہمارے بچوں کے مستقبل کے لیے اہم ہے ۔‘




ش ح ۔ ال
UR-870
(Release ID: 2187132)
Visitor Counter : 9