وزارات ثقافت
                
                
                
                
                
                    
                    
                        قلمی نسخوں کے علم اور ثقافتی ورثے کا تحفظ ایک مشترکہ قومی ذمہ داری ہونی چاہیے : سیکریٹری ثقافت وویک اگروال
                    
                    
                        
یونیسکو کے 'میموری آف دی ورلڈ' پروگرام کے تحت بھگوت گیتا اور ناٹیہ شاستر پر قومی سمپوزیم کا اختتام آئی جی این سی اے میں ہوا
                    
                
                
                    Posted On:
                31 JUL 2025 9:35PM by PIB Delhi
                
                
                
                
                
                
                دو روزہ قومی سیمینار جس کا انعقاد اندرا گاندھی نیشنل سینٹر فار دی آرٹس (آئی جی این سی اے)نے کیا تھا، جمعرات کی شام کو اختتام پذیر ہوا۔ اس سیمینار کا موضوع ‘‘بھگوت گیتا اور ناٹیہ شاستر کا یونیسکو کے 'میموری آف دی ورلڈ انٹرنیشنل رجسٹر' میں اندراج’’تھا۔اختتامی اجلاس سموت آڈیٹوریم، آئی جی این سی اے ، نئی دہلی میں منعقد ہوا، جس کے مہمانِ خصوصی جناب وویک اگروال، سیکریٹری، وزارتِ ثقافت، حکومتِ ہند تھے، جبکہ اجلاس کی صدارتڈاکٹر سچچدانند جوشی، ممبر سیکریٹری، آئی جی این سی اے نے کی۔پروفیسر رمیش چندر گور، ڈین (انتظامیہ) اور سربراہ، کلا ندھی ڈویژن، آئی جی این سی اے نے استقبالیہ خطاب پیش کیا اور دو روزہ سیمینار میں ہونے والی گفتگو اور مباحث کا خلاصہ سامعین کے سامنے پیش کیا۔

دوسرے دن، ماہرینِ تعلیم، اسکالرز، اور ثقافتی ماہرین نے چار اجلاسوں میں تبادلۂ خیال کیا، جن میں بھگوت گیتا اور ناٹیہ شاستر کے اہم پہلوؤں پر توجہ مرکوز کی گئی۔پہلا اجلاس بھگوت گیتا میں فکر و عمل: دھرم اور فرض کا تصور اور مختلف ادوار میں اس کی معنویت کے موضوع پر تھا۔ دوسرا اور چوتھا اجلاسیونیسکو کے 'میموری آف دی ورلڈ رجسٹر' میں شمولیت کی موجودہ اہمیت اور اثرات پر مرکوز رہا۔تیسرے اجلاس میں فن، اظہار اور علم: ناٹیہ شاستر کا پائیدار اثر کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ تمام اجلاسوں کے دوران ممتاز مقررین نے بھگود گیتا اور ناٹیہ شاستر میں شامل دانشورانہ اور فنکارانہ روایات کو عالمی سطح پر پہچان دلانے کے لیے جاری کوششوں کو سراہا ۔

جناب وویک اگروال، سیکریٹری، وزارتِ ثقافت، حکومتِ ہند نے کہا کہ بھگوت گیتا اور ناٹیہ شاستر کا یونیسکو کے ‘میموری آف دی ورلڈ رجسٹر’ میں اندراج قومی فخر کا لمحہ ہے۔ یہ اقدام ‘گیان بھارتم مشن آن مینو اسکرپٹ’ کے آغاز کے ساتھ ہم آہنگ ہے، جس کا مقصد صرف قدیم مخطوطات کو محفوظ رکھنا نہیں بلکہ ان کے علم کو اسکالروں، طلبہ، اور عام عوام تک فعال طور پر پہنچانا بھی ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایک قومی سطح کا نیٹ ورک قائم کیا جائے گا جس میں ادارے اور انفرادی ماہرین شامل ہوں گے، تاکہ معلومات کا تبادلہ، صلاحیتوں کی تعمیر، اور مخطوطات کے ذخائر (بشمول نجی ٹرسٹ اور مذہبی ادارے) کے لیے پائیدار مالی وسائل فراہم کیے جا سکیں۔انہوں نے قدیم زبانوں اور رسم الخط کو سمجھنے کی ضرورت پر زور دیا، اور اس مقصد کے لیے مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ جیسی جدید ٹیکنالوجیز کے استعمال کی اہمیت اجاگر کی۔مستقبل میں یونیسکو کے لیے مزید نامزدگیوں کی حمایت کے سلسلے میں انہوں نے بتایا کہ نایاب اور منفرد مخطوطات و دستاویزات کے لیے ایک قومی رجسٹر کی تجویز پیش کی گئی ہے، جس کے لیے آئی جی این سی اے کو مرکزی ادارہ تصور کیا جا رہا ہے۔انہوں نے اس وسیع تر دستاویزی ورثے کے فریم ورک میں کتبوں (ایپیگرافی) اور نایاب بصری ذخائر جیسے معاون شعبوں کو شامل کرنے کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔

اپنی مدتِ کار پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے، جناب وویک اگروال نے وزارتِ ثقافت میں اپنے تجربے کو انتہائی بامعنی اور انقلابی قرار دیا، جو انہیں بھارت کی عظیم فنکارانہ اور علمی روایات سے گہرے طور پر جُڑنے کا موقع فراہم کرتا رہا۔انہوں نے پیپراھوا کے آثار کی بھارت واپسی کو ایک تاریخی کامیابی اور عوام و نجی شعبے کی شراکت داری کی ایک شاندار مثال قرار دیا۔ یہ آثار جن میں بدھ بھگوان کے  باقیات ، کرسٹل کے برتن، سونے کے زیورات، اور دیگر نذرانے شامل ہیں ۔روایتی طور پر بدھ مت کے طریقے کے مطابق ایک استوپا میں محفوظ کیے گئے تھے۔یہ مقدس نوادرات 1898 میں پیپراھوا ستوپا (موجودہ اتر پردیش) کی کھدائی کے دوران برطانوی افسر ولیم کلاکسن پیپے کو ملے تھے۔جناب اگروال نے بھارت کے پائیدار ثقافتی اور تہذیبی ورثے کو محفوظ رکھنے، فروغ دینے اور اس کا جشن منانے کے لیے اجتماعی قومی کوشش کی ضرورت پر زور دیا۔
ڈاکٹر سچچدانند جوشی نے وزارتِ ثقافت کے سیکریٹری جناب ویویک اگروال کی متحرک قیادت اور پیپراھوا کےآثار کی واپسی میں ان کے کلیدی کردار کو سراہا، اور انہیں ایک ایسا عملی شخصیت (Doer) قرار دیا جو وزارت میں نئی توانائی لے کر آئے ہیں۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یونیسکو کے ‘میموری آف دی ورلڈ’ پروگرام میں نامزدگیوں کی تیاری میں آئی جی این سی اے کی ذمہ داری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ حالیہ تمام ڈوزیئرز (دستاویزات) مکمل طور پر ادارے کے اندرونی ماہرین نے تیار کیے، اور ٓئی جی این سی اے اب ایک صلاحیت سازی کا مرکز بنتا جا رہا ہے، جس نے حال ہی میں چھ ممالک کے شرکاء پر مشتمل ایک بین الاقوامی ورکشاپ کی میزبانی بھی کی۔ڈاکٹر جوشی نے وزارتِ ثقافت کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے گیان بھارتم مشن پر ستمبر میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس (جس کا انعقاد بھارت منڈپم میں ہوگا) کی میزبانی ٓئی جی این سی اے کے سپرد کی ہے۔انہوں نے آئندہ یونیسکو نامزدگیوں کی حمایت کے لیے نقوش (کتبوں) اور مخطوطات کے ایک قومی رجسٹر کے قیام کی ضرورت پر زور دیا، اور جاری منصوبوں کا ذکر کیا، جن میں اُتّرامیرور کے کتبوں کی مکمل دستاویز سازی اور راجت رنگنی کے اصل شاردہ مخطوطے کی تلاش شامل ہیں۔ڈاکٹر جوشی نے اگرچہ ڈھانچہ جاتی چیلنجزکا اعتراف کیا، تاہم انہوں نے ٓئی جی این سی اے کے نوجوان اسکالروں کی اعلیٰ معیار کے حصول کے لیے پختہ عزم کا اظہار کیا اور سیمینار میں بھرپور شرکت پر تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔
پروفیسر رمیش چندر گور نے یونیسکو کے ‘میموری آف دی ورلڈ رجسٹر’ میں شریمد بھگوت گیتا اور ناٹیہ شاستر کے اندراج کی مناسبت سے منعقدہ اختتامی اجلاس میں جناب وویک اگروال، سیکریٹری، وزارتِ ثقافت کا پُرتپاک خیرمقدم کیا۔انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ آئی جی این سی اے نے یہ نامزدگیاں ادارے کے اندرونی ماہرین کی مدد سے خود تیار کیں، اور اب یہ ادارہ صلاحیت سازی کا ایک فعال مرکز بنتا جا رہا ہے، جس نے حال ہی میں چھ ممالک کے نمائندوں کے ساتھ ایک بین الاقوامی ورکشاپ کی میزبانی بھی کی۔پروفیسر گور نے اعلان کیا کہ آئی جی این سی اے سات نئے ڈوزیئرتیار کر رہا ہے جن میں سے چار بین الاقوامی رجسٹر کے لیے ہیں:والمییکی رامائن ، تھروکرال ،اشوکا کے کتبے (نیپال کے اشتراک سے)ہنگری کے ساتھ مشترکہ نامزدگی ،ہنگرین مصوراؤں الزبتھ برونر اور الزبتھ ساس برونر پر، جن کی تصویریں (جن میں مہاتما گاندھی اور رابندرناتھ ٹیگور کی عکاسی بھی شامل ہے) بھارت کے ثقافتی ورثے کا اہم حصہ ہیں۔اس کے ساتھ ساتھتین نئی نامزدگیاں علاقائی رجسٹر کے لیے بھی جاری ہیں، اور دستاویزی ورثے کے ایک قومی رجسٹر کے قیام کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔انہوں نے وزارتِ ثقافت کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے گیان بھارتم بین الاقوامی کانفرنس (جو جلد منعقد ہونے والی ہے) کی ذمہ داری آئی جی این سی اے کو سونپی، اور یقین دلایا کہ ادارہ ملک بھر میں ایسی مزید کوششوں کے ذریعے عوامی شرکت کو فروغ دینے کے لیے پُرعزم ہے۔
بھگوت گیتا سے متعلق پینل کی صدارت پروفیسر ششی پربھا کمار نے کی، جبکہ مقررین میں شامل تھے پروفیسر اوم ناتھ بیمالی، پروفیسر راجنیش کمار مشرا، اور پروفیسر (ڈاکٹر) سمپدانند مشرا۔ اس نشست کی نظامت پروفیسر (ڈاکٹر) رمیش چندر گور نے کی۔اگلی نشست کی صدارت پروفیسر (ڈاکٹر) راجندر کمار انایتھ اور جناب کے۔ سیوا پرساد نے کی، مقررہ کے طور پر محترمہ نیرا مشرا نوجود تھی، اور نظامت کے فرائض پروفیسر سدھیر کمار لال نے انجام دیے۔تیسری نشست کی صدارت پروفیسر بھارت گپت نے کی، مقررین میں پروفیسر کرپا شنکر چوبے، پروفیسر پیّال بھٹّاچاریہ، اور ڈاکٹر شرینند باپٹ شامل تھے ۔ اس نشست کے ناظم ڈاکٹر یوگیش شرما تھے۔ اختتامی نشست کی صدارت ڈاکٹر سندھیا پوریچا نے کی، مقررین میں پروفیسر بپلاب لو چودھری، ڈاکٹر راماکانت پانڈے، اور جناب چتّرنند ترپاٹھی شامل تھے ۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر میَنک شیکھر نے انجام دیے۔
یہ سمپوزیم نہ صرف بھارت کی کلاسیکی علمی روایات کو عالمی سطح پر تسلیم کروانے کی طرف ایک اہم قدم تھا بلکہ اس نے نوجوان اسکالروں اور محققین کو اپنی ثقافتی جڑوں سے دوبارہ جڑنے کی ترغیب بھی دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ش ح۔ ش آ۔ع ن)
U. No.3770
                
                
                
                
                
                (Release ID: 2151214)
                Visitor Counter : 5