نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
نینی تال کی کماؤں یونیورسٹی میں گولڈن جوبلی تقریبات میں نائب صدر جمہوریہ کے خطاب کا متن (اقتباسات)
Posted On:
25 JUN 2025 4:57PM by PIB Delhi
نمسکار،
معزز اساتذہ کرام اور سب سے اہم، میرے عزیز طلبہ و طالبات،
میں یہاں دو خاص وجوہات کی بنا پر موجود ہوں — پہلی یہ کہ گولڈن جوبلی کی تقریب کوئی معمولی تقریب نہیں ہے۔ گولڈن جوبلی ہمیں ایک ایسا موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم ماضی پر نظر ڈالیں، اس کا جائزہ لیں اور پھر آئندہ برسوں اور دہائیوں کا لائحۂ عمل مرتب کریں کہ ہم مستقبل کا سامنا کیسے کریں گے۔اس ایجنڈے کا ایک حصہ پہلے ہی ریاست کے نہایت باصلاحیت گورنر صاحب کے ذریعے پیش کیا جا چکا ہے، لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہر فرد کی اہمیت ہے۔
لہٰذا، میں نے سوچا کہ یہ ایک موزوں موقع ہوگا کہ میں گولڈن جوبلی کی ابتدا یا اس کے بیچ میں موجود رہوں اور یہ ظاہر کروں کہ یہ محض ایک جشن نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔
1973 میں قیام کے بعد سے، کماؤں یونیورسٹی نے اپنے گرد و پیش کے تعلیمی ماحول، ریاست کے عوام کے جذبےاور علم دوستی کو مکمل طور پر جواز بخشا ہے۔ یہ ادارہ علم، نظم و ضبط اور علمی برتری کے لحاظ سے ایک مرکز کے طور پر ابھرا ہے ۔
میں خاص طور پر یونیورسٹی انتظامیہ، اساتذہ کرام، اور طلبہ و طالبات کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے 2015 میں ناصرف این اے اے سی کی باوقار ‘اے’ گریڈ حاصل کی بلکہ اسے سخت محنت اور لگن سے کمایا، یہ اس بات کی غمازی ہے کہ یہاں معیار سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتاہے۔ایک علاقائی ادارے کے طور پر آغاز کرنے والی یہ یونیورسٹی آج ایک ایسے تعلیمی مرکز میں تبدیل ہو چکی ہے جو میرا یقین ہے اور یہ مسلسل ترقی کی جانب گامزن رہے گی۔
دوسرا پہلو جو اِس دن کو اہم بناتا ہے، میرے عزیز دوست مہندر سنگھ پال کی موجودگی اُسے اور بھی زیادہ معنی خیز بنا دیتی ہے۔ آج سے پچاس سال پہلے، اِسی دن، دنیا کی سب سے قدیم، سب سے بڑی اور آج کی سب سے متحرک جمہوریت کو ایک کٹھن دور سے گزرنا پڑا تھا۔ ایک غیر متوقع خطرہ، ایک سخت آندھی کی مانند، ایسا جھٹکا جس نے جمہوریت کی بنیادیں ہلا دیں۔ یہ ایمرجنسی کا نفاذ تھا — ایک سیاہ رات، جب کابینہ کو نظرانداز کر دیا گیا، جب ایک مشکلات میں گھری وزیر اعظم، جسے عدالتِ عالیہ کے خلاف فیصلہ کا سامنا تھا، نے ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دی اور صدرِ جمہوریہ نے آئینی اصولوں کو روندتے ہوئے ایمرجنسی کے اعلان پر دستخط کر دیے۔
اس کے بعد 21 تا 22 مہینے ہماری جمہوریت کے لیے ایک طوفانی دور ثابت ہوئے — ایسا وقت جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جمہوریت کی تاریخ کا سب سے تاریک باب۔ ایک لاکھ چالیس ہزار افراد کو جیلوں میں ڈال دیا گیا، اُنہیں انصاف کے نظام تک رسائی نہ دی گئی، وہ اپنے بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے آواز تک نہ اٹھا سکے۔خوش قسمتی سے نو ہائی کورٹس نے اپنے موقف پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے فیصلہ دیا کہ ایمرجنسی ہو یا نہ ہو، بنیادی حقوق کو معطل نہیں کیا جا سکتا۔ اُنہوں نے مضبوطی سے یہ حکم سنایا کہ ملک کے ہر شہری کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے عدالتی مداخلت کا حق حاصل ہے۔
بدقسمتی سے، ملک کی سب سے اعلیٰ عدالت، یعنی سپریم کورٹ، ایک تاریک وقت میں اپنا کردار ادا نہ کر سکی؛ اس نے نو ہائی کورٹس کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس نے دو اہم باتوں کا فیصلہ سنایا: ایک یہ کہ ایمرجنسی کا نفاذ حکومتِ وقت یعنی ایگزیکٹو کا فیصلہ ہے، جو عدالتی نظرثانی کے دائرے میں نہیں آتا؛ اور دوسرا یہ کہ ایمرجنسی کتنی دیر تک چلے گی، اس کا تعین بھی حکومت کرے گی اور اس دوران شہریوں کو بنیادی حقوق حاصل نہیں ہوں گے۔یہ فیصلہ عوام کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ انہیں یہ علم ہی نہیں تھا کہ یہ ایمرجنسی کب ختم ہوگی۔ ذرا سوچیے، نوجوان لڑکو اور لڑکیو، کیونکہ تمہیں یہ سب کچھ سیکھنا ہوگا، جب تک آپ خود اس کا مطالعہ نہیں کریں گے، تب تک آپ نہیں جان سکیں گے۔اس وقت پریس کے ساتھ کیا ہوا؟ کن لوگوں کو جیل میں ڈالا گیا؟ وہی لوگ بعد میں اس ملک کے وزیر اعظم بنے، وہی لوگ صدر بھی بنے۔یہ تھا وہ دور، اور اسی لیے، جیسا کہ معزز گورنر صاحب نے کہا، ہماری نوجوان نسل کو اس بارے میں باخبر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہماری اوسط عمر 28 سال ہے، ہم چین اور امریکہ سے ایک دہائی جوان ہیں۔
آپ ہی ہو جو جمہوریت کے اصل محافظ ہو، آپ ہی ہو جو حکومت کے سب سے اہم متعلقہ شراکت دار ہو۔ اس لیے آپ نہ تو اس سیاہ دور کو بھول سکتے ہو اور نہ ہی اسے جانے بغیر آگے بڑھ سکتے ہو۔حکومتِ وقت نے بہت سنجیدگی سے فیصلہ کیا کہ اس دن کو ‘سموِدھان ہتیا دوس’کے طور پر منایا جائے گا۔اس دن کا مقصد یہ ہوگا کہ ایسا اندھیرا وقت دوبارہ کبھی نہ آئے؛ یہ دن اس عزم کا اظہار ہوگا کہ جنہوں نے انسانیت کے حقوق، آئین کی روح اور اس کے وقار کو پامال کیا، اُن کے نام اور اُن کے اعمال کو یاد رکھا جائے۔یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ سپریم کورٹ میں ایک جج نے اختلافی رائے دی — جسٹس ایچ آر کھنہ۔ امریکہ کے ایک معروف اخبار نے تب لکھا کہ اگر کبھی بھارت میں جمہوریت واپس آئی، تو جسٹس ایچ آر کھنہ کے لیے یقیناً ایک یادگار تعمیر کی جائے گی، کیونکہ وہ اپنے اصولوں پر ڈٹے رہے۔
لہٰذا، میں اس عظیم یونیورسٹی کے طلبہ سے گزارش کرتا ہوں کہ 25 جون 1975 پر ایک مضمون قلمبند کریں۔ مضمون کا موضوع ہوگا: ‘‘سموِدھان ہتیا دوس’’۔ میرا دفتر آپ کو ای میل آئی ڈی فراہم کرے گا جہاں آپ اپنا مضمون بھیج سکیں گے اور ہم ابتدائی 100 مضامین حاصل کریں گے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ 100 طلبہ ضرور مضمون لکھیں گے۔ہم یہ فیصلہ نہیں کریں گے کہ کون سا مضمون بہتر ہے، بلکہ ان 100 میں سے صرف 50 مضامین کو منتخب کیا جائے گاا ور اُن 50 طلبہ کوبھارت کی پارلیمنٹ میں میرا مہمان بننے کی دعوت دی جائے گی۔
میں آپ سب کو مدعو کرتا ہوں، اور مجھے یقین ہے کہ یہ آئندہ ایک مہینے کے دوران مکمل ہو جائے گا۔ وہ 50 طلبہ جو منتخب ہوں گے، میرے خصوصی مہمان ہوں گے، اور باقی 50 طلبہ اگلے دور میں مدعو کیے جائیں گے۔ اس طرح، میں اس جامعہ کے 100 طلبہ کو پارلیمنٹ کی نئی عمارت دیکھنے کی دعوت دے رہا ہوں - وہ عمارت جو کووڈ کے دوران محض 30 مہینوں میں تعمیر ہوئی اور جس میں آپ کو ہماری پانچ ہزار سالہ تہذیبی وراثت کی جھلک دکھائی دے گی۔
آئیے، اِس دن کی مناسبت سے ہم یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز کے کردار پر بھی غور کریں۔ دراصل، کسی بھی ادارے کی شناخت وائس چانسلرز اور اساتذہ سے ہوتی ہے۔ آپ سب نے تکشِلا کا نام سنا ہے، لیکن تکشِلا وہی تکشِلا بنی کیونکہ پانینی اور چانکیہ جیسے عظیم مفکر اس سے وابستہ تھے۔ نالندا یونیورسٹی کو شہرت ملی کیونکہ شِلابھدّر اس کے سربراہ تھے۔ ہمارے یہاں ایک عظیم ادارہ ‘‘انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس’’ بھی ہے، جس کی قیادت ہومی بھابھا اور وکرم سارا بھائی نے کی، مگر اِس کی اصل پہچان سر سی وی رمن کی وجہ سے بنی جنہیں رمن ایفیکٹ کے لیے جانا جاتا ہے۔ اُن تمام طلبہ کے لیے جو سائنس میں دلچسپی رکھتے ہیں، یہ ایک بڑی مثال ہے۔
دوستو، بھارت کے متنوع تعلیمی منظرنامے میں اب ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو وژن رکھتے ہوں، جن میں جوش ہو، جن کے پاس کوئی مشن ہو۔یہ مشن اس نظریے سے ہم آہنگ ہونا چاہیے کہ ہم ایک منفرد قوم ہیں، جس کی تہذیبی تاریخ پانچ ہزار سال پر محیط ہے۔ ہمارے یہاں قدیم زمانے میں نالندہ، تکشِلا، اوڈنت پوری جیسے عظیم ادارے ہوا کرتے تھےاور آج ہمارا عزم ہے کہ 2047 تک بھارت ایک ترقی یافتہ قوم بنے۔لیکن میرے عزیز نوجوان ساتھیو، میں آپ کے ساتھ ایک بات ضرور مشترک کرنا چاہوں گا ، آپ نے وہ وقت نہیں دیکھا جو میری نسل نے دیکھا۔آج آپ ایک ایسے ماحول میں جی رہے ہیں جہاں امید ہے، امکانات ہیں۔
کوئی اب یہ نہیں کہتا کہ بھارت میں ترقی کی صلاحیت ہے کیونکہ اب یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور اس عروج کو عالمی سطح کی تنظیموں، ممتاز اداروں جیسے ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی طرف سے تسلیم کیا جا رہا ہے۔جیسا کہ معزز گورنر صاحب نے فرمایا، وِکست بھارت ہمارا خواب نہیں ہے ، یہ ہمارا طے شدہ مقدر ہے۔شاید یہ ہدف پہلے ہی حاصل ہو جائے اور کیوں نہ آپ ہی کے وقت میں حاصل ہو، میرے وقت میں نہیں، آپ کے وقت میں۔ جب میں اور ڈاکٹر مہندر پال پارلیمنٹ میں تھے، اُس وقت ملک کا زرمبادلہ صرف 1 ارب امریکی ڈالر تھا۔ ہم نے وہ منظر بھی دیکھا جب ملک کا سونا ہوائی جہاز کے ذریعے سوئٹزرلینڈ لے جایا گیا تاکہ وہاں دو بینکوں میں رکھا جا سکے۔
اور آج زرمبادلہ 700 ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔
ہماری معیشت ایک وقت میں نہایت کمزور تھی، ہم دنیا کی سب سے کمزور معیشتوں میں شمار ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک دہائی پہلے بھی ہم واحد ہندسے (سنگل ڈیجٹ) میں بھی نہیں تھے۔ لیکن اب ہم تیزی سے تیسرے نمبر کی معیشت بننے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ہم پہلے ہی چوتھے نمبر پر پہنچ چکے ہیں۔ اپنے سائز کے لحاظ سے معیشتوں میں ہم سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت ہیں۔بھارت نے گزشتہ دس سالوں کو دنیا کے کسی بھی ملک کے لیے ترقی کا سب سے شاندار عشرہ بنایا ہے۔ آج کا بھارتی نوجوان سب سے زیادہ پُرامید، پُرجوش اور پرعزم ہے۔ آپ کے پاس تین راستے ہیں، آپ بے چین رہیں، آپ سست ہو کر آرام کریں، یا آپ ایک محرک بنیں جو بڑی تبدیلی لانے کا ذریعہ بنے۔میری خواہش اور امید یہی ہے کہ آپ تیسری صف میں شامل ہوں گے ، وہ لوگ جو تبدیلی کے علمبردار بنتے ہیں۔
مجھے یہ بھی عرض کرنا ہے کہ اگر میں غلط نہیں ہوں اور وائس چانسلر صاحب اگر مناسب سمجھیں تو تصحیح فرما دیں کہ گزشتہ پچاس برسوں میں آپ کے ادارے سے غالباً ایک لاکھ کے قریب فارغ التحصیل طلبہ ہوں گے۔ ایک تعلیمی ادارے کے سابق طلبہ اس کے لیے نہایت اہم سرمایہ ہوتے ہیں۔اگر آپ سوشل میڈیا یا گوگل پر نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ ترقی یافتہ ممالک کے کئی تعلیمی اداروں کے سابق طلبہ فنڈز کا مجموعی ذخیرہ 10 ارب امریکی ڈالر سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ ایک ادارہ ایسا ہے جس کے پاس 50 ارب امریکی ڈالر سے زائد کا ذخیرہ موجود ہے۔یہ سب کچھ کسی طوفان کی طرح اچانک نہیں آتا بلکہ یہ قطرہ قطرہ سے بنتا ہے ، ایک مستقل، مسلسل تعاون سے، جسے ٹکل افیکٹ کہتے ہیں۔
آئیے، میں آپ کو ایک مثال دے کر بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اگر اس عظیم ادارے کے ایک لاکھ سابق طلبہ یہ فیصلہ کر لیں کہ وہ ہر سال صرف دس ہزار روپے کا تعاون کریں گے، تو سالانہ رقم ایک سو کروڑ روپے ہوگی۔ کیا میں نے کوئی ہندسہ غلط لیا ہے؟ نہیں، بالکل صحیح سو کروڑ روپے! ذرا تصور کیجیے، اگر یہ تعاون ہر سال مسلسل جاری رہے، تو پھر آپ کو کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، آپ خود کفیل ہو جائیں گے۔
دوسری بات یہ کہ اس سے سابق طلبہ کو اپنے مادرِ علمی سے جڑنے کا موقع ملے گا۔ اس طرح ایک آسان راستہ نکلے گا اوہ، اس ادارے کے سابق طالبعلم اُس ادارے میں ہے، ہم ان سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ وہ آپ کی رہنمائی کریں گے ، وہ آپ کا ہاتھ تھامیں گے۔
میں پُرزور انداز میں گزارش کرتا ہوں کہ دیو بھومی سے اس سمت میں ایک مضبوط آغاز ہونا چاہیے یعنی سابق طلبہ کی باقاعدہ تنظیم کے ذریعے ادارے سے مستقل ربط کا نظام قائم ہو۔
میرے عزیز طلبہ و طالبات، تعلیمی ادارے صرف ڈگریاں یا اسناد حاصل کرنے کے مراکز نہیں ہوتے، یہ اس سے کہیں آگے کی بات ہے۔
ورنہ پھر ورچوئل لرننگ اور کیمپس لرننگ میں فرق ہی کیا رہ جاتا؟آپ فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ آپ نے جو وقت کیمپس میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ گزارا، وہی آپ کی سوچ، آپ کا ذہنی رویہ اور آپ کی شخصیت کی بنیاد بناتا ہے۔یہ ادارے اس تبدیلی کے لیے ایک محرک ہوتے ہیں جس کی ملک کو ضرورت ہے، یا جو آپ اپنے مستقبل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔یہ وہ قدرتی اور فطری تجربہ گاہیں ہوتی ہیں جہاں تخلیقی خیالات اور نئی سوچ جنم لیتی ہے۔
خیالات آتے ضرور ہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان خیالات کی تخلیق اور ترتیب بھی ہو یعنی صرف سوچنے سے کام نہیں چلے گا، سوچ کو باقاعدہ تشکیل دینا ضروری ہے۔اگر کوئی خیال آپ کے ذہن میں آتا ہے اور آپ صرف ناکامی کے خوف سے اُس پر عمل کرنے یا کوئی نئی اختراع کرنے سے گریز کرتے ہیں، تو ہماری ترقی رک جائے گی۔ یہ ادارے ایسے مقامات ہیں جہاں دنیا رشک کرتی ہے، جہاں ہمارا نوجوان طبقہ نہ صرف اپنے کیریئر کی کہانی خود لکھنے کا موقع رکھتا ہے بلکہ بھارت کی تقدیر بھی رقم کر سکتا ہے۔ لہٰذا، آگے بڑھیں۔ آپ نے ایک مشہور کارپوریٹ پراڈکٹ کا نعرہ ضرور سنا ہوگا: جسٹ ڈو اِٹ۔ ایم آئی رائٹ؟ میں اس میں ایک اور جملہ شامل کرنا چاہوں گا: ڈو اِٹ ناؤ ۔
لہٰذا، آپ سب کو چاہیے کہ عزم اور عہد کے ساتھ اپنے آپ کو وقف کریں، جیسا کہ معزز گورنر صاحب نے اشارہ دیا، کہ ہمیشہ یہ بھروسہ رکھیں کہ ملک سب سے پہلے ہے۔میں ملک کی سیاسی قیادت سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ خدارا، قومی مسائل، قومی سلامتی اور ترقی سے متعلق معاملات کو سیاسی نقطۂ نظر سے نہ دیکھیں۔ یہ ہمارے قومی مزاج، ہماری روایت کا حصہ نہیں ہے۔ ایسے مسائل پر ہم سب کو ایک پیج پر ہونا چاہیے، ایک ہی سوچ کے ساتھ۔
میں یہ نہیں کہتا کہ سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی حکمت عملی نہ اپنائیں، ضرور اپنائیں، لیکن جب بات قومی مفاد اور قومی ترقی کی ہو، تو پھر ہم سب کے پاس ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے مل کر، یکجہتی سے آگے بڑھنا۔
میرے پیارے نوجوان دوستو، آپ آج ایک ایسے نظام کا حصہ ہیں جس پر میں رشک کرتا ہوں۔میں ایک ایسے گاؤں میں پلا بڑھا، جہاں گھر میں بیت الخلا نہیں تھا، جہاں بجلی نہیں تھی، گیس کا کنکشن نہیں تھا، انٹرنیٹ کا کوئی تصور نہ تھا، سڑک کی کوئی سہولت نہیں تھی، نہ ہی کوئی نزدیکی اسپتال تھا اور نہ ہی اسکول اور آج وہی گاؤں مکمل طور پر بدل چکا ہے ،180 ڈگری کی تبدیلی آ چکی ہے۔
لہٰذا، آپ کو جو مواقع میسر ہیں، اُن میں بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ محدود سوچ میں نہ رہیں، اس دائرے میں نہ پھنسیں کہ صرف سرکاری ملازمت ہی واحد راستہ ہے۔گورنر صاحب نے اس بات پر زور دیا ہے اور میں اس کی زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ آپ کے لیے مواقع کا دائرہ دن بہ دن وسیع ہوتا جا رہا ہے۔آپ کو صرف اپنے اردگرد نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ آپ کو حکومت کی اُن پالیسیوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے جو آپ کے حق میں ہیں، جو آپ کی رہنمائی کر رہی ہیں۔
آپ کو یہ جاننا چاہیے کہ ہمارے ملک میں اسٹارٹ اپس اور یونی کارنز کا جو پس منظر ہے، اُس میں نوجوانوں کا کردار بنیادی ہے — اور وہ نوجوان آپ ہی ہیں۔
آج ہمیں تعلیم کے ذریعے برابری کا حق حاصل ہے، قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور معاشرتی عدم مساوات تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔اب وہ وقت چلا گیا جب کسی خاص خاندانی پس منظر کو فوقیت حاصل تھی آج سب برابر ہیں۔اب سفارش نوکری، کنٹریکٹ یا روزگار حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہے ، سفارش اب جیل کا راستہ بن گئی ہے۔
یہ وہ خوشگوار وقت ہے جسے آپ جی رہے ہیں، اور اسی لیے، میں آپ سے بغیر مزید وقت لیے یہ اپیل کرتا ہوں کہ آپ کو خود کو پہچاننا ہے، اپنے لیے ایک واضح راستہ متعین کرنا ہے۔
ملک کی ترقی کے انجن کو، ہمارے سفر کو، آپ کی سوچ کو ہر سمت میں امید اور یقین کے ساتھ توانائی سے بھرنا ہے ۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ بھارت کا دانش وارانہ ڈی این اے دنیا بھر میں بے مثال ہے۔ہمارے وقت میں دنیا کی بڑی کمپنیوں میں بھارتی موجودگی تو درکنار، نچلی سطح پر بھی کوئی مقام نہیں ہوتا تھا۔ آج یہ عالم ہے کہ دنیا کی کوئی بڑی کارپوریشن یا ادارہ ایسا نہیں ہے جہاں فیصلہ سازی کے اعلیٰ ترین درجے پر کوئی بھارتی موجود نہ ہو۔
لہٰذا، اب آپ خاندانی وراثت کے سہارے نہیں، بلکہ اپنی صلاحیت سے آگے بڑھیں گے۔ آپ کو اپنا راستہ خود طے کرنا ہے۔اور اسی لیے، میں اکثر یہ بات دہراتا ہوں اور اس کے لیے ایک منٹ چاہوں گا کہ قومی تعلیمی پالیسی 2020 جسے ایک گیم چینجر کہا جا رہا ہے، یقینی طور پر آپ کے لیے نہ صرف ایک نیا موقع ہے، بلکہ آپ کے ذریعے پوری قوم اور انسانیت کے لیے ایک نئی راہ کا آغاز ہے۔مجھے یقین ہے کہ وائس چانسلر صاحب آپ کو اس پالیسی کی مکمل معلومات فراہم کریں گے تاکہ آپ اس کا بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔
میرے نوجوان دوستوں، یہ بات یاد رکھیں کہ آپ کی یونیورسٹی نے دنیا کو ہمالیہ سے روشناس کروایا ہے اور ہمالیہ نے دنیا کو ایک نیا منظر دکھایا ہے۔
مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ کو وہ باتیں بتاؤں جو سوامی وِویکانند نے کہی تھیں، اور یاد رکھیے کہ سوامی وِویکانند نے یہ باتیں اپنے عمر کے لحاظ سے، یعنی تقریباً 35 سال پہلے کہیں ، ان کی عمر محض 40 سال کے قریب تھی۔انہوں نے کیا کہا؟ “تعلیم اُس کمال کا ظہور ہے جو انسانوں کے اندر پہلے سے موجود ہے۔” کمال آپ کے اندر ہی ہے۔انہوں نے زور دے کر کہا، “جاگو، اٹھو، اور تب تک نہ رکّو جب تک مقصد حاصل نہ ہو جائے۔”
میں تہہ دل سے چانسلر صاحب، گورنر صاحب، اور وائس چانسلر صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے مجھے یہ عظیم موقع دیا کہ میں اپنے خیالات آپ کے ساتھ مشترک کر سکیں کیونکہ جب بھارت اپنی آزادی کی سو سالہ تقریب کا جشن منائے گا اور وِکست بھارت کا مقام حاصل کرے گا، تو آپ بھی نہ صرف ان دو مواقع کا جشن منائیں گے بلکہ اپنے ذاتی جشن کا بھی حصہ ہوں گے، جو اُس وقت کے آس پاس ہوگا۔
بہت بہت شکریہ۔
*************
(ش ح ۔ع ح ۔اک م (
U. NO. 2150
(Release ID: 2139649)