نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
نائب صدر جمہوریہ کے ساتویں راجیہ سبھا انٹرن شپ پروگرام (آر ایس آئی پی ۔ 7) کے اختتامی اجلاس سے خطاب کا متن (اقتباسات)
Posted On:
20 JUN 2025 4:06PM by PIB Delhi
بہت صبح بخیر، آپ سب کو۔
ایک بات ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ کوئی چیز کبھی مکمل مثالی نہیں ہوتی۔ ہمیں تبدیلی لانی پڑتی ہے، اور یہ تبدیلی بنیادی طور پر آپ کی آراء و تجاویز پر منحصر ہے۔ ذاتی طور پر، میں اسے ادارے کے لیے ایک اہم سنگِ میل سمجھتا ہوں۔
تقریباً ایک سال قبل — میری گنتی کے مطابق 13 ماہ — ہم نے مئی 2024 میں یہ پروگرام شروع کیا تھا۔ یہ اس کا ساتواں ایڈیشن ہے اور اس میں شامل تمام شرکاء کی تعداد 217 ہے۔ بھارت کی نوجوان آبادی کے اہم کردار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، مجھے توقع ہے کہ آئندہ سالانہ شمولیت 250 سے زائد ہوگی۔
ہمارے نوجوانوں کی اوسط عمر 28 سال ہے، یعنی ہم چین اور امریکہ سے تقریباً 10 سال کم عمر کے ہیں۔ آپ ہی وہ اہم قوت ہیں جو وِکست بھارت (ترقی یافتہ بھارت) کے حصول میں مرکزی کردار ادا کریں گے، کیونکہ آپ اپنی زندگی کے اس سنہرے موقع پر ہیں جہاں ہر گزرتے سال کے ساتھ آپ کا سفر وقت اور کوشش دونوں کے اعتبار سے مضبوط ہوتا جائے گا، اور آپ بھارت کو ایک چھٹی انسانیت کے لیے بہتر بنا کر دکھائیں گے۔
لہٰذا، جمہوریت، قومی ترقی اور ترقی یافتہ بھارت کے حصول میں آپ سب سے اہم اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ جیسا کہ میں اکثر کہتا ہوں، ’انجن کو چاروں سلنڈر پورے زور سے کام کرنا ہوں گے۔‘ وِکست بھارت کوئی خواب نہیں، کیونکہ بھارت اب محض ممکنات کا ملک نہیں رہا۔ ہم ایک ترقی کی راہ پر گامزن قوم ہیں اور وِکست بھارت ہمارا یقینی ہدف ہے۔
اگر ہم پورے نظام کو پیشِ نظر رکھیں اور سیکریٹری جنرل محترم پی۔ سی۔ موڈی کے ذریعے اٹھائے گئے ’مستقبل کی غیر یقینی صورتحال—کہ ہم آگے کہاں جائیں؟‘—کے سوال پر غور کریں، تو یہ واقعی ایک سنجیدہ تشویش ہے۔ میں نے ذاتی طور پر سخت اور مشکل حالات میں زندگی گزاری ہے۔ ہمارے بہت سے افسران نے بھی کٹھن راستوں، بھاری حالات، مشکلات اور کبھی مایوسی کے باوجود ہمت سے قدم بڑھایا ہے۔
بھارت کے ماحولیاتی منظر نامے میں پچھلے کچھ عرصے میں 180 درجے کی تبدیلی آئی ہے۔ ہم ایسے وقت میں جی رہے ہیں جو امید اور امکانات سے بھرپور ہے۔ کوئی مایوسی یا بے حسی مناسب نہیں، البتہ راستے میں کچھ رکاوٹیں آئیں گی، جنہیں آپ شاید معقول نہ سمجھ پائیں، مگر ہمیں ہار نہیں ماننی چاہیے—کیونکہ ہم نے ثابت کیا ہے کہ ہم آگے بڑھتے ہیں اور ترقی کے اپنے راستے خود بناتے ہیں۔
کامیابی بعض اوقات غیر منصفانہ محسوس ہو سکتی ہے۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ ایسی صورتوں میں تنقیدی رویہ اختیار نہ کریں؛ یہ زندگی کا حصہ ہے۔ ہمارا مجموعی نظام شاندار ہے، اور حکومت کی حامی پالیسیاں ہر نوجوان ذہن کو اپنی صلاحیتوں سے اپنے خواب اور اہداف پورے کرنے کا موقع دیتی ہیں۔
ایک مختصر مثال پیش کرتا ہوں: ہمارے نوجوان حکومت کی نوکریوں کی شدید تلاش کرتے ہیں، یہ سمجھ کر کہ حکومت میں نوکری کے علاوہ کچھ نہیں۔ مگر ایک لمحے کے لیے سوچئے—اگر انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کہتا ہے کہ بھارت سرمایہ کاری کے لیے عالمی پسندیدہ منزل ہے، کیا یہ صرف حکومت کی نوکریوں کی وجہ سے ہے؟ — بالکل نہیں! اس لیے حکومت کی نوکریوں سے آگے بہت کچھ ہے۔ نوجوانوں کو اس سوچ سے نکل کر وسیع مواقع کو دیکھنا ہو گا، کلسٹر بنانا ہو گا، کوچنگ کلاسز جانا ہوں گی، دن رات محنت کرنی ہوگی، مشکل حالات میں زندگی گزارنی ہوگی اور یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اگر نوکری نہ ملی تو سب کچھ ختم ہو جائے گا—وہ وقت گزر چکا ہے۔
آپ کے پاس مواقع کی ایک وسیع فہرست ہے جو مسلسل بڑھ رہی ہے۔ سوچیے—کتنے لوگ، حتیٰ کہ آئی اے ایس اور دیگر سروسز کے بلند پایہ افسر، حکومت کی نوکری چھوڑ کر زرعی پیداوار، دودھ، پھل، سبزیوں کی مارکیٹنگ میں اتر آئے ہیں۔ آئی آئی ایمز اور آئی آئی ٹیز جیسے اداروں کے طلباء بھی حکومت کی نوکری تلاش نہیں کرتے۔ اس لیے جب آپ اپنے ذہن سے یہ سوچ نکال دیں کہ ’میرا مستقبل صرف سرکاری نوکری سے منسلک ہے‘، تو آپ واقعی خوش رہیں گے۔ آپ کو بس تھوڑا ذہن کشادہ کرنا ہوگا اور دستیاب راستے تلاش کرنے ہوں گے۔
لہٰذا، یہ کبھی نہ سوچیں کہ ’میں کیا کروں گا؟‘۔ دنیا کا سب سے بڑا بازار بھارت ہے۔ آپ میں سے ہر ایک شہری 1.4 ارب لوگوں کی زندگی بہتر بنانے میں حصہ ڈال سکتا ہے، اور یہ ہمارے ذہنوں اور ترقی پر زبردست اثر ڈالے گا۔
یہ واقعی ایک سنگین تشویش تھی، مگر آپ جیسے ماہر افراد، آپ جیسے رابطے—ابھی 217 افراد ہیں، تعداد بڑھتی جائے گی، دو ہندسے بڑھ کر چار ہندسوں میں جائے گی۔ آپ کی ترقی کے ساتھ، ہر ضلع میں راجیہ سبھا انٹرن شپ فیلو ہوگا—یہ رابطہ آپ کی زندگی کا نکتہ عروج بنے گا۔
ہم سب کے درمیان باہمی روابط کو مستحکم کرنے کے لیے ایک مضبوط اور مربوط نظام کے قیام کے عمل میں ہیں۔ لوگ ان افراد کی تلاش کریں گے جنہوں نے اس طرح کے انٹرنشپ پروگرام میں حصہ لیا ہے۔ اگرچہ ابھی حتمی طور پر فیصلہ نہیں ہوا، تاہم بچے ہوئے پروگرام کے طور پر ایک اختیاری (آپشنل) پروگرام شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ ہم پہلے پانچ بیچز کے انٹرنز میں سے منتخب افراد کو اعلیٰ تربیت فراہم کریں گے۔ یہ تربیتی پروگرام تین مراحل پر مشتمل ہوگا، اور فی الحال ہم پہلے مرحلے میں ہیں۔
پہلے مرحلے میں، تمام شعبوں سے آراء لی جائیں گی۔ دوسرے مرحلے میں، آپ سب سے معلوم کیا جائے گا کہ آپ کیا چاہتے ہیں اور ہمیں کون سی مشکلات درپیش ہیں۔ یہ ایک مسلسل جاری رہنے والا عمل ہوگا۔ آپ خواہ کسی بھی شعبے میں ہوں، ضرور اپنی سات دن کی دستیابی اسی انٹرنشپ کے دوسرے مرحلے کے لیے رکھیں۔ ہم اس کو ایک مناسب پلیٹ فارم پر متعارف کروائیں گے، بس یہی آپ سے گزارش ہے۔
جب چیزیں صحیح سمت میں چلتی ہیں—جیسے کسی خاندان میں آمدنی بہتر ہو، ملک ترقی کے راستے پر ہو—تو چیلنجز بھی سامنے آتے ہیں۔ یہ چیلنجز مادی ترقی کے ساتھ آتے ہیں۔ جب بھارت اس رفتاری سے ترقی کر رہا ہے، تو دنیا یہ سوچتی ہے کہ ‘پانچ ہزار سال پہلے یہ ملک موجود تھا’—یہ ہماری تہذیب کی انفرادیت ہے۔ اس لیے ہمیں ہر لمحہ چوکس رہنا ہوگا۔
میرا آپ سے درخواست ہے که قومی ذہنیت کی تبدیلی میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ہمارا ذہن ‘قوم اول’ ہونا چاہیے۔ ہمیں قومی فلاح و بہبود اور حب الوطنی کے لیے غیر مثال عزم کا مظاہرہ کرنا ہے۔ قومی مفاد سب سے اعلیٰ ہے—اس سے بڑھی کوئی مالی یا ذاتی فایدہ نہیں ہو سکتی۔ لیکن آج کل لوگ سڑکوں پر پبلک آرڈر کو چیلنج کرتے ہیں، سرکاری املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں—ایسی صورتحال پر قومی غصہ ہونا چاہیے، قومی خشم ہونا چاہیے! ایسے افراد کا نام آیا اور باعزت توہینِ آن محسوس کیا جانا چاہیے۔ ہمارا نظام جلدی کارروائی کرے گا، مگر مجموعی طور پر یہ ذہنیت قابل قبول نہیں کہ کوئی عوامی نظم و ضبط کو چیلنج کرے۔قومی نظم و ضبط، چاہے سڑک پر ہو یا کسی اور جگہ، یہ طے کرتا ہے کہ ہماری قوم کس طرف جا رہی ہے۔
لہٰذا، میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آج خود سے عہد کریں۔ پانچ پران کا عہد لیں جو ہماری تہذیبی اقدار سے ماخوذ ہے۔ یہ پانچ اصول جو بلندیوں سے بھرپور ہیں، قوم کو بار بار عظیم بنانے کے لیے ہیں۔ پہلا اصول ہے 'سماجی ہم آہنگی،جو تنوع سے بالاتر ہو کر قومی اتحاد کا باعث بنتا ہے۔
دنیا نے بھارت سے سیکھا ہے، "وسودھیو کُٹمبکم" یعنی دنیا ایک خاندان ہے۔ ہم نے اپنی اُپنشادوں، ویدوں، مہاکاوی داستانوں اور شمولیت کے ذریعے دنیا کو یہ دکھایا ہے۔ اس لیے سماجی ہم آہنگی بنیادی ہے، جس کے تحفظ کے لیے ہمیں ان قوتوں کا مقابلہ کرنا ہوگا جو اس تصور کے مخالف ہیں۔ سماجی ہم آہنگی (سماجک سمراستا) کو سب سے بڑا چیلنج ہماری شناخت کو نشانہ بنا کر ابھرا ہے، اور ہماری شناخت کی وضاحت ہمارے تاریخی پس منظر سے کی جا سکتی ہے۔
اسی لیے وہ آبادیاتی تبدیلیاں جو غیر فطری ہوں، جن میں کسی خاص طبقے کی آبادی میں اس حد تک اضافہ ہو کہ وہ تعداد کے زور پر طاقت کے قریب آ جائے، قبول نہیں کی جا سکتیں۔
ہم اپنے ملک میں لاکھوں غیر قانونی مہاجرین کو برداشت نہیں کر سکتے۔ اس لیے آپ کی ذاتی ذمہ داری ہے کہ ان کی نشاندہی کریں۔ ایسے افراد کو کیوں ملازمت دی جائے جو ہمارے شہری نہیں ہیں؟ جو قانونی طور پر نہیں بلکہ غیر قانونی طور پر ملک میں آتے ہیں؟ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے۔ کچھ آسانی یا سستی کی خاطر جب آپ غیر قانونی مہاجرین کو ملازمت دیتے ہیں تو آپ ہمارے اپنے لوگوں سے کام چھین رہے ہوتے ہیں۔ مجھے دکھ اور اذیت کے ساتھ یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہ غیر قانونی مہاجرین کئی اہم شعبوں میں، خاص طور پر بلند عمارتوں میں، کام کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے روزگار کے مواقع اور شہری سہولیات پر بہت بڑا بوجھ ہیں۔ آپ کو اس معاملے میں چوکس رہنا ہوگا۔
بھارت ایک ایسا ملک ہے جو ہم آہنگی پر یقین رکھتا ہے، یعنی آپ اپنی مرضی، اپنی پسند، اپنی آزادی سے مذہب اختیار کر سکتے ہیں۔ آپ کو کسی بھی مذہب کی طرف مٹھاس بھرے وعدوں یا لالچ کے ذریعے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ہمارے بھارتی شناخت کے احساس کو تباہ کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔ ہر فرد کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کا مذہب چنے، لیکن اگر لالچ، فریفتگی یا کوئی شرط لگا کر مذہب اپنانے کو کہا جائے تو یہ ہمارے تمدنی جوہر اور بنیادوں کے لیے خطرہ ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ایسا تبدیلی کا عمل جاری ہے۔ ہر فرد کا یہ حق اور فرض ہے کہ وہ اس معاملے پر توجہ دے۔
دوسرا اصول ہے خاندانی بیداری یعنی "کُٹمب پرابودھن"۔ آپ اپنی عمر کے بہترین مرحلے میں ہیں، جو کچھ آپ نے بچپن میں سیکھا وہ پوری زندگی آپ کے ساتھ رہتا ہے۔ اچھے اخلاق اور اقدار بچپن میں ہی جذب ہو جاتی ہیں۔ ہماری ثقافت کا مزاج، ہمارے اقدار، بڑوں کا احترام، پڑوسی سے محبت، اور معاشرے کی دیکھ بھال یہ سب کُٹمب پرابودھن کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔ اور یہ پرابودھن نظم و نسق کے بعد آتا ہے، آپ کو اسے سیکھنا ہوگا۔ اس عمر میں اگر آپ کو کوئی چھوٹا بچہ نظر آئے تو چند لمحات نکال کر اسے اچھی نصیحت دیں، اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ اس سے نظام میں امن و ہم آہنگی قائم ہوگی۔
تیسرا اصول ہے ماحولیاتی تحفظ یعنی "پریاورن سنرکشن"۔ آج کل یہ ہر بورڈ روم، ہر پارلیمنٹ اور عالمی اداروں میں عام بحث کا موضوع ہے۔ موسمیاتی تبدیلی، موسمیاتی تبدیلی۔ ذمہ دار کون ہے؟ قدرت کا بے دریغ استحصال۔ اس لیے آپ سب کو اس کی چمک دار مشعل بردار اور نگہبان ہونا ہوگا۔ ہم قدرتی وسائل کے سرپرست ہیں۔ یہ قدرتی وسائل آپ کی کم از کم ضروریات پوری کرنے کے لیے موزوں طریقے سے استعمال ہونے چاہئیں۔ تصور کریں کوئی کہتا ہے کہ میں کسی بھی تعداد میں گاڑیاں خرید سکتا ہوں اور اپنی گاڑیوں کا استعمال بے تحاشا اور فضول خرچی سے کر سکتا ہوں کیونکہ میں گاڑی، پٹرول اور گیس کی قیمت برداشت کر سکتا ہوں — یہ ممکن نہیں۔ آپ ایسا نہیں کر سکتے، لہٰذا اس اصول کی پیروی کریں۔
وزیراعظم مودی نے ‘ایک پیڑ ماں کے نام’ کا پیغام دیا۔ میں نے کہا کہ یہ کم از کم ‘ایک پیڑ’ ہونا چاہیے۔ نہ تو ایک پیڑ کی حد ہے اور نہ صرف ماں کے نام کا۔ میں نے اپنے دونوں والدین کے نام سے درخت لگانا شروع کیا۔ آپ بھی عہد کریں، کتنا اچھا لگے گا ماں کے نام درخت، باپ کے نام درخت، دادا دادی کے نام، نانا نانی کے نام اور اس درخت کو نرچر کریں۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ کون سا درخت لگانا ہے اور اس درخت کی کیا اہمیت ہے۔ اس سے آپ کو اس درخت سے خاص لگاؤ پیدا ہوگا۔
چوتھا، مہاتما گاندھی نے آزادی کی تحریک کے دوران ‘سوادیشی’ کا پیغام دیا۔ وزیراعظم مودی نے ایک اور پیغام دیا ہے — ‘لوکل کے لیے آواز اٹھائیں’۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ سوادیشی پر یقین رکھیں، لوکل کے لیے آواز بلند کریں تاکہ ہم خود انحصار بھارت (آتم نربھر بھارت) کا خواب پورا کر سکیں۔ میں آپ کو ایک چھوٹی مثال دیتا ہوں۔ غیر ضروری اشیاء کی درآمد جیسے کپڑے، قالین، لائٹس، کھلونے، فرنیچر وغیرہ کی وجہ سے ہم اربوں ڈالر کی زرمبادلہ ملک سے باہر بھیج رہے ہیں، اور اس کے علاوہ ہم اپنے لوگوں کو کام سے محروم کر رہے ہیں۔ اگر آپ سوادیشی اور ‘لوکل کے لیے آواز اٹھائیں’ کے لیے پرعزم ہوں، یہ ایک فرد کی کوشش ہے، تو آپ اس ملک کی معیشت میں بہت بڑا حصہ لیں گے۔ میں اسے اقتصادی قوم پرستی کہتا ہوں۔ اقتصادی قوم پرستی کی قیمت پر ہم مالی فائدہ حاصل نہیں کر سکتے۔ مالی فائدہ چاہے جتنا بھی ہو، یہ اقتصادی قوم پرستی کے عزم کو ترک کرنے کی کوئی جواز نہیں دے سکتا۔ یہ وہ چیز ہے جو آپ کو کرنا ہے۔
ہمارے آئین کے ابتدائی ورژن میں بنیادی فرائض شامل نہیں تھے، کیونکہ اس وقت کی دستاویز کو مختصر اور جامع رکھا گیا تھا۔ درحقیقت، یہ فرائض ہماری ثقافت اور تہذیب میں ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے ملک نے ترقی کی، آئین میں ان فرائض کو باقاعدہ شامل کرنا ضروری محسوس ہوا۔ اسی مقصد کے تحت حصہ IV اے آئین میں شامل کیا گیا، جو بنیادی فرائض سے متعلق ہے۔
آج ہمارے آئین میں 11 بنیادی فرائض درج ہیں۔ اگر آپ نے اب تک ان کا مطالعہ نہیں کیا، تو براہ کرم آج ہی کریں۔ آپ صرف ‘‘پارٹ فور اے آف داانڈین کنسٹی ٹیوشن ۔ فنڈامینٹل ڈیوٹیز‘‘ گوگل کریں، اور آپ کو تمام 11 نکات مل جائیں گے۔ ان میں سے ہر ایک پر عمل کرنا آسان ہے، لیکن ان کا اثر غیر معمولی ہے — قوم، سماج اور معاشرے کے حق میں۔ اس پر یقین رکھیں۔
دو واقعات ہم سب کے بالکل قریب ہیں۔ پہلا، بین الاقوامی یوگا ڈے، جو کل منایا جائے گا۔ یہ دن نہ صرف ہماری تہذیب کا حصہ ہے بلکہ ایک عالمی تحفہ بھی بن چکا ہے۔ یوگا کی جڑیں بھارت میں پیوست ہیں؛ ہمارے صحیفے، خاص طور پر اتھرو وید، صحت، تندرستی اور جسمانی نگہداشت کے حوالے سے انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ خیال وزیر اعظم نریندر مودی کو آیا کہ یوگا جیسی قیمتی وراثت کو دنیا کے ساتھ شیئر کیا جانا چاہیے۔ ستمبر 2014 میں، انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران یوگا کو عالمی سطح پر اپنانے کی اپیل کی۔ ان کے الفاظ تھے:
"یوگا، بھارت کی قدیم روایت کا انمول تحفہ ہے۔"
دنیا نے اس اپیل کو سراہا۔ صرف 75 دنوں میں، 177 ممالک نے اس کی حمایت کی، اور اقوام متحدہ نے 11 دسمبر 2014 کو قرارداد 69/131 کے ذریعے 21 جون کو بین الاقوامی یوگا ڈے کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔
تب سے، یہ دن پورے ملک میں جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہوا کہ میں نویں بین الاقوامی یوگا ڈے کی مرکزی تقریب میں جبل پور میں شریک ہوا، جب کہ ہمارے وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں ہونے والے ایک عالمی پروگرام میں شرکت کی — ایک ایسی تقریب جہاں دنیا کی سب سے بڑی، سب سے متحرک اور سب سے قدیم جمہوریت کی نمائندگی کی گئی۔
لڑکوں اور لڑکیوں، یاد رکھیں کہ یوگا صرف 21 جون کے دن تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ایک طرزِ زندگی ہے۔ اسے اپنی روزمرہ کی روٹین کا حصہ بنائیں۔ آپ دن کے کسی بھی وقت تھوڑا سا وقت نکال کر اس پر عمل کر سکتے ہیں۔ یہ آپ کو ذہنی سکون، جسمانی صحت اور جذباتی استحکام عطا کرے گا۔
دوسرا واقعہ ایک سنگین یاد ہے۔ اس ہفتے کے دوران ہی وہ تاریخ آتی ہے جو ہمیں ایک افسوسناک دور کی یاد دلاتی ہے — ہندوستان میں ایمرجنسی کا نفاذ۔
25 جون 1975 کی آدھی رات کو، جب بھارت نے اپنی آزادی کے 28 سال مکمل کیے تھے، اس وقت کے صدر فخر الدین علی احمد نے اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی کے مشورے پر ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے احکامات پر دستخط کیے۔ یہ جمہوریہ ہند کی تاریخ میں پہلا موقع تھا جب ملک نے ایمرجنسی کا سامنا کیا۔
آج آپ سب باشعور ہیں، اور جانتے ہیں کہ صدرِ جمہوریہ کو صرف کسی ایک فرد — چاہے وہ وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو — کے مشورے پر اس طرح کے سنگین فیصلے نہیں کرنے چاہئیں۔
’’آئین بالکل واضح ہے کہ صدرِ جمہوریہ کی معاونت اور مشورے کے لیے وزیر اعظم کی سربراہی میں وزراء کی ایک کونسل ہوتی ہے۔ لیکن اس اصول کی خلاف ورزی کی گئی۔ نتیجہ کیا نکلا؟ ملک کے ایک لاکھ سے زائد شہریوں کو چند گھنٹوں میں جیلوں میں ڈال دیا گیا، انہیں ان کے گھروں سے گھسیٹ کر لے جایا گیا اور ملک بھر میں حراستی مراکز میں بند کر دیا گیا۔ ہمارا آئین معطل ہو گیا، میڈیا کو یرغمال بنا لیا گیا۔
’’نامور اخبارات جیسے انڈین ایکسپریس — صرف ایک مثال — اور دیگر میڈیا ادارے خالی اداریے شائع کرنے پر مجبور ہو گئے۔ وہ لوگ کون تھے جنہیں یکایک جیلوں میں ڈال دیا گیا؟ ان میں سے کئی بعد میں اس ملک کے وزیر اعظم بنے — اٹل بہاری واجپائی، مرارجی دیسائی، چندر شیکھر جی۔ ان میں سے کئی افراد ریاستوں کے وزیر اعلیٰ، گورنر، سائنسدان اور باصلاحیت شہری بنے۔ ان میں سے کئی آپ ہی کی عمر کے تھے۔
’’یہ وہ وقت تھا جب جمہوریت کی تمام بنیادی اقدار اور اصول پامال کر دیے گئے۔ ایسی گھمبیر صورتحال میں لوگ عدلیہ کی جانب رجوع کرتے ہیں۔ ملک کی نو ہائی کورٹس نے شاندار انداز میں قرار دیا کہ ایمرجنسی ہو یا کوئی اور حالت، عوام کے بنیادی حقوق برقرار رہتے ہیں اور انصاف تک رسائی حاصل ہے۔ لیکن افسوس، سپریم کورٹ نے ان تمام نو ہائی کورٹس کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا اور ایک ایسا فیصلہ دیا جو قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والے کسی بھی ملک کی عدالتی تاریخ میں ایک سیاہ باب سمجھا جائے گا۔
’’اس فیصلے میں کہا گیا کہ ایمرجنسی کے نفاذ اور اس کی مدت کا تعین صرف ایگزیکٹو (انتظامیہ) کی صوابدید پر ہوگا، اور یہ کہ ایمرجنسی کے دوران کوئی بنیادی حقوق موجود نہیں رہتے۔ اس طرح سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے بھارت جیسے ملک، جو دنیا کی سب سے قدیم اور اب سب سے زیادہ فعال جمہوریت ہے، میں آمریت، جبر اور استبداد کو قانونی جواز دے دیا۔‘‘
لہٰذا آپ کو یہ یاد رکھنا ہوگا کیونکہ آپ وہاں موجود نہیں تھے۔ میں وہاں موجود تھا، اور ان میں سے کچھ لوگ بھی موجود تھے۔ اسی لیے حکومت نے بہت سمجھداری کا مظاہرہ کیا اور 11 جولائی 2024 کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا، اور وہی کافی تھا۔ ایک بالکل درست وجہ کے تحت ہم اپنی جمہوریہ کے 75 ویں سال کا جشن منا رہے تھے۔ ہم 1947 میں آزاد ہوئے، اس لحاظ سے 75 واں سال پہلے آیا، لیکن چونکہ ہم ایک جمہوریہ بعد میں بنے، اس لیے ہم نے بھارتی آئین کو اپنانے کے 75 ویں سال کی یاد منانے کا آغاز کیا۔
اسی مناسبت سے 11 جولائی 2024 کو سرکاری گزٹ نوٹیفکیشن کے ذریعے 25 جون کو ’سموِدھان ہتیا دیوس‘ (آئین قتل دن) قرار دیا گیا، تاکہ یہ دن ایک سنجیدہ یاد دہانی بن جائے کہ ہمیں خود کو جمہوری اقدار کا محافظ اور نگہبان بنانا ہے۔
میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ اپنا وقت احتیاط اور شعور کے ساتھ گزاریں۔ آپ کا پہلا ہوم ورک ’بنیادی فرائض‘ سے متعلق تھا۔ دوسرا یہ کہ ہنگامی حالت (ایمرجنسی) کے بارے میں جتنا ممکن ہو سیکھیں۔ تب ہی آپ کو جمہوریت کی اصل قیمت کا اندازہ ہوگا۔
ہمیشہ یاد رکھیں، سیکھنے کا عمل کبھی نہیں رکتا۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ ناکامی کا تصور ایک فسانہ ہے، اور اسی طرح ناکامی کا خوف بھی محض ایک دھوکہ ہے۔
اگر آپ مطالعہ کرتے رہیں تو میں یقین سے کہتا ہوں—جیسا کہ میں ہمیشہ کہتا ہوں—کہ پہلے ہمیں اپنے ویدوں پر ایک نظر ڈالنی چاہیے۔ بہت سے لوگوں نے ویدوں کو دیکھا ہی نہیں۔ ایک بار جب ہم ویدوں کا مطالعہ کریں گے تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ان میں کیا کچھ پوشیدہ ہے۔
جب ہم ویدوں تک پہنچیں گے تو ہمیں کچھ مزید بنیادی حقائق معلوم ہوں گے۔ اس دور میں ہمارا علم فلکیات، نجوم اور وہ حتمی سائنسی پہلوؤں تک پہنچ چکا تھا جو آج پھر سے ابھر رہے ہیں۔
میں آپ کے لیے زندگی میں کامیابی، سکون اور بغیر کسی دباؤ کے سفر کی دعا کرتا ہوں۔
سب سے بڑی توانائی ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے میں ہے، اور اپنے سابقہ راجیہ سبھا انٹرن شپ فیلوز سے بھی جڑے رہنے میں۔
ہم اس تجربے کو ایک تنظیمی شکل دیں گے جو کچھ عرصے بعد آپ کو نہ صرف بھارت بلکہ دنیا کے دیگر حصوں تک لے جائے گی۔
میں اس پلیٹ فارم کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں جسے آپ سب مل کر تیار کر رہے ہیں، اور سیکرٹری جنرل اس پر گہری دلچسپی سے کام کر رہے ہیں۔ اس پلیٹ فارم پر آپ کو وہ تمام معلومات میسر ہوں گی جو نوجوان ذہنوں کو درکار ہیں—عالمی علمی وسائل، مواقع کا ذخیرہ، اور مشاورتی سہولت۔
شکریہ۔
**********
(ش ح۔ اس ک۔ش ب ن )
UR-1941
(Release ID: 2138079)