نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

جواہر لال انسٹی ٹیوٹ آف پوسٹ گریجویٹ میڈیکل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (جے آئی پی ایم ای آر)، پڈوچیری میں نائب صدر جمہوریہ کے خطاب کا متن (اقتباسات)

Posted On: 16 JUN 2025 9:00PM by PIB Delhi

میرے پیارے بچو اور بچیوں،میں آپ کے لیے ہوں، آپ کی وجہ سے ہوں، میں آپ سے ملنے آیا ہوں اور اپنے خیالات آپ کے ساتھ مشترک کرنا چاہتا ہوں۔ اور کیوں؟ میں آپ کو خاص طور پر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں ملک بھر کے پیشہ ور اداروں میں جاتا رہا ہوں، اور مجھے یہ کام بہت پسند ہے۔ لیکن جب میں طب  اور تحقیقاتی اداروں میں آتا ہوں تو مجھے خاص مسرت ہوتی ہے، کیونکہ ڈاکٹر واقعی خدا کے بعد دوسرے درجے پر ہیں۔ یہ ایک ایسا پیشہ ہے جسے آج بھی پاکیزہ مانا جاتا ہے۔

ڈاکٹر خود تجارتی یا مفاد پرستی کی دوڑ میں نہیں لگے ہوتے، اور اگر کہیں یہ رجحان پیدا ہو بھی رہا ہے تو آپ ہی اس کے نگہبان ہیں۔ کیونکہ ہر طبقے کا انسان، چاہے وہ طاقتور ہو، مالدار ہو یا عام آدمی، آپ پر بھروسہ کرتا ہے۔ آپ ہمارے مسیحا ہیں۔ اس عظیم بھروسے کو برقرار رکھیے، کیونکہ آپ سماج کو واپس دینے کی ایک عظیم تحریک اور ترغیب کا ذریعہ ہیں۔

مجھے معلوم ہے کہ ڈاکٹر اکثر اپنے مریضوں کی خدمت کے لیے اپنے والدین سے ملنا تک چھوڑ دیتے ہیں۔ میں آپ کو اپنی ذاتی مثال دوں گا، جب میں ایک رات نصف شب کے بعد ایمس گیا، تو میں نے دیکھا کہ کئی ڈاکٹر جو ڈیوٹی پر نہیں تھے، وہ بھی اپنی ڈیوٹی دے رہے تھے، اور یہ صرف اس لیے نہیں تھا کہ میں کسی بڑے عہدے پر فائز ہوں، بلکہ وہ عام حالات میں بھی ایسا کرتے ہیں۔ اس لیے میری طرف سے تمام ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو دل سے سلام۔اگر آج دنیا میں بھارت کوکووڈ سے نمٹنے کے لیے سراہا جا رہا ہے تو وہ آپ کی قربانیوں اور وزیر اعظم نریندر مودی کی دور اندیش قیادت کا نتیجہ ہے۔

کئی لوگوں نے اُس وقت یہ سوال اٹھایا کہ وزیر اعظم ’’کووڈ وارئیرز‘‘ کی بات کیوں کر رہے ہیں؟ لیکن آپ اُس وقت مریضوں کے پاس پہنچے جب دوسرے اپنے گھروں میں قرنطینہ میں تھے۔ اسی لیے بطور گورنر، ریاستِ مغربی بنگال میں مجھے یہ سعادت حاصل ہوئی کہ میں اُس بالکونی میں کھڑا ہو کر آپ کے لیے تالیاں بجائیں جہاں کبھی انگریز حکمران بیٹھتے تھے۔ مجھے یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ دیے اور شمعیں روشن کر کے آپ کو خراجِ تحسین پیش کروں۔یہی میری بھارت کی ’’سوفٹ ڈپلومیسی‘‘ کی طاقت ہے کہ وزیر اعظم مودی نے نہ صرف اپنے ملک کا خیال رکھا، بلکہ 200 ممالک کو ویکسین مہیا کی۔ کچھ لوگ ہمیشہ منفی سوچ رکھتے ہیں، اور مجھے لگتا ہے کہ ڈاکٹر برادری کو اس ’’منفی سوچ‘‘ کے لیے کوئی انجیکشن یا کیپسول ایجاد کرنا چاہیے، کیونکہ یہ منفی سوچ اب بہت سنگین ہو گئی ہے۔کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ بھارت کامیاب کیسے ہو گا، مگر دنیا نے مان لیا کہ ہم نے بے مثال کامیابی حاصل کی۔ اسی لیے میں یہاں جواہر لال انسٹیٹیوٹ آف پوسٹ گریجویٹ میڈیکل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ میں موجود ہونے کو اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہوں۔

یہ ادارہ ایک عظیم سفر کی علامت ہے، جس کی بنیاد 200 سال سے بھی پہلے،1823 میں ایکول ڈے میڈیسن ڈے پوڈوچیری کے طور پر رکھی گئی تھی۔ مجھے اس کی کچھ تاریخ کا اندازہ ہے، کیونکہ میں تین سال پیرس میں بین الاقوامی عدالتِ ثالثی کا رکن رہا ہوں، اور چھ سال ایک عالمی ثالثی کمیشن کا حصہ بھی رہا ہوں۔

پھر آزادی کے بعد یہ سفر شروع ہوا، اور آپ نے ہمیں ہماری ویدک ثقافت اور جوہر کی یاد دلائی-دھنونتری میڈیکل کالج، اور پھر 1964 میں جب ہم نے اپنے پہلے وزیرِاعظم کو کھو دیا، ان کو خراجِ عقیدت کے طور پر موجودہ نام رکھا گیا۔ یہ ایک سنگِ میل ہے، مگر جب میں یہاں کھڑا ہوں تو مجھے ایک عظیم فرزندِ وطن یاد آتا ہے، جس نے ہمارے خلائی سفر کو نئی پہچان دی، اور ہندوستان کے صدر بنے -جن کے نام پر یہ آڈیٹوریم ہے- ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام۔

میں اس بات کا کریڈٹ نہیں لینا چاہتا جو میں کہہ رہا ہوں ،جے آئی پی ایم ای آر کے تعلق سے ایک نہایت قابل فرد نےکہا’’سر، جے آئی پی ایم ای آر کے بارے میں کچھ بتائیے ،‘ میں نے کہا ’’آپ  بتائیے ، تو انہوں نے کہا:یہ ادارہ متاثر کن معالجوں اور سرجنوں کے سفر کی علامت، طبی فضیلت اور انقلابی تبدیلی کی مثال ہے-آپ اس کے نمائندے ہیں۔ یہ ایک قومی اہمیت کا ادارہ ہے، ایک ایسا ادارہ جس کی عالمی سطح پر پہچان ہے۔ دنیا میں بہت کم مقامات ایسے ہیں جنہیں فوراً پہچانا جا سکتا ہے۔ یہ مقام ایک پہچان رکھتا ہے، ایک انفرادیت رکھتا ہے۔

میرے سامنے موجود لڑکے اور لڑکیاں- آپ بھارت کی نمائندگی کرتے ہیں، آپ ہماری شمولیت  کا مظہر ہیں۔ اگر ہم اپنی ویدک ثقافت اور پانچ ہزار سالہ تہذیبی ورثے پر نظر ڈالیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی ہمارے  آس پاس نہیں ہے۔ جہاں تک ہمارے ویدوں، پرانوں اور اُپنشدوں کا تعلق ہے تو یہ ذخیرہ ہیں اور نالندہ، تکشیلا جیسے تعلیمی ادارے  کی بدولت ہم صدیوں تک عالمی رہنما تھے۔

اور اب جو کچھ پچھلے 10 سالوں میں ہوا ہے، میں اسے پورے اعتماد سے کہتا ہوں - کیونکہ 35 سال پہلے جب میں مرکز میں وزیر تھا، میں نے اس وقت کی صورتِ حال دیکھی تھی، اور اب ایک نئے آئینی منصب پر ہوں، تو مجھے موازنہ کرنے کا موقع ملا۔ گزشتہ ایک دہائی میں بھارت نے زبردست معاشی ترقی دیکھی ہے، بنیادی ڈھانچے میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، اور دیہی علاقوں تک ڈیجیٹل نظام نے عام لوگوں کی زندگی بدل دی ہے۔ اب دیہی علاقوں میں بیت الخلاء، بجلی، پانی، گیس کنیکشن، اور سب سے بڑھ کر  بینکاری کی شمولیت ہے۔

وزیرِاعظم کا وژن اور اُن  کے سوچنے کا پیمانہ دیکھیےکہ 50 کروڑ لوگوں کو بینکنگ نیٹ میں شامل کر دیا ہے۔ میں نے اپنے دور میں ایسا کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ 12 کروڑ سے زیادہ خاندانوں کو گیس کنکشن دیے گئے۔ یہ پیمانہ بھارت کے شایانِ شان ہے، اور اسی لیے بھارت نے عالمی معیشت میں 10ویں مقام سے چوتھے مقام تک کا سفر طے کیا ہے۔ ہم جلد ہی تیسرے مقام پر پہنچنے والے ہیں-لیکن یہ مقام صرف تب قائم رہ سکتا ہے جب آپ کی شرکت  برقرار رہے۔قوم کی صحت، ترقی کی بنیاد ہے۔ کوئی شخص جتنا بھی باصلاحیت ہو، جتنا بھی قوم کا خیرخواہ ہو اگر اُس کی صحت اچھی نہ ہو تو وہ دوسروں کے لیے باعثِ  رحم بن جاتا ہے۔ اس لیے ’’فِٹ انڈیا‘‘ ہی ہمارا راستہ ہے اور آپ اس کے نگہبان ہیں۔ آپ کو میرا سلام۔

تقریباً دو ماہ قبل، ہم سب فکرمند، پریشان اور صدمے میں تھے-22 اپریل کے پہلگام دہشت گردانہ حملے نے سب کو جھنجھوڑ کر رکھادیا۔ انہوں نے ہمارے اقدارکو چیلنج کیا، ایک ایسی قوم کو نشانہ بنایا جو دنیا کی سب سے پرامن قوم ہے، جس نے کبھی توسیع پسندی کی روش اختیار نہیں کی۔وزیر اعظم نے  ملک سے وعدہ کیا کہ دہشت گردی کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اور میں اپنی مسلح افواج کو مبارکباد دیتا ہوں جنہوں نے وزیر اعظم کے وعدے کو پورا کر کے دکھایا۔ مریدکے اوربہاولپور میں تباہی ہماری براہموس میزائلوں کی طاقت کا گواہ ہیں۔جیشِ محمد اور لشکرِ طیبہ کے ٹھکانے، ہیڈکوارٹرز کو نہایت درست، منظم اور ٹارگیٹڈ حملوں کے ذریعے تباہ کیا گیا۔ نہتے شہریوں کو نقصان نہیں پہنچایا گیا، صرف دہشت گرد مارے گئے۔ ان کی لاشیں دہشت گردوں، مسلح افواج اور سیاستدانوں کی موجودگی میں قبرستان لے جائی گئیں۔ انہوں نے خود دنیا کو ثبوت دیا کہ یہ نیا بھارت ہے  جودلیر، خوداعتماد لیکن محتاط ہےکیونکہ جنگ مسئلے کا حل نہیں ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے واضح کیا ہے کہ ہمیں ’’جنگ کے دور‘‘ میں نہیں رہنا ہے۔ ہمیں سفارت کاری اور بات چیت کا راستہ اختیار کرنا ہے، مگر پیغام پوری دنیا تک بلند اور واضح طور پر پہنچ چکا ہے۔دنیا نے اب تسلیم کیا ہے کہ دفاعی ساز و سامان کی مقامی پیداوار بھارت کے لیے کتنی اہم ہے۔براہموس میزائلیں اتر پردیش میں بنتی ہیں، جو اب اُتم پردیش بن چکا ہے، اور یہ ممکن ہوا ہے بہترین حکمرانی، امن و امان، اور مثالی نظم و نسق کے باعث۔

آکاش جیسے حفاظتی نظام نے ہمیں مضبوطی بخشی، اسی لیے بھارت کی جوابی کارروائی ’’آپریشن سندور’’ کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی - کامیابی کے ساتھ ساتھ تحمل کی علامت بھی بنی۔ کیونکہ جنگ کسی کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔

آئیے، اس پس منظر میں ہم سب عہد کریں کہ ہمیشہ اپنے ملک کو سب سے پہلے رکھیں یہ ذہنیت ہر بھارتی کے دل میں ہونی چاہیے، کیونکہ جنگ کا طریقہ بدل چکا ہے۔ ترقی کے لیے امن ضروری ہے، اور امن صرف طاقت سے آتا ہے۔امن کی بہترین ضمانت یہ ہے کہ ہم ہر لمحہ جنگ کے لیے تیار ہوں۔ اور یہ تب ممکن ہے جب  ملک کی ذہنیت’’ ملک پہلے‘‘ پر مرکوز ہو۔ ہمیں اپنے قوم پرستی پر یقین رکھنا ہو گا۔میں خاص طور پر ملک کی سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ قومی سلامتی اور قوم پرستی کے معاملات کو سیاسی مفادیا پارٹی وابستگی سے بالا تر رکھا جائے۔

مجھے یہ جان کر خوشی  ہوئی کہ مختلف پارٹیوں کے اراکینِ پارلیمان کو بیرونِ ملک بھیجنے کے وزیر اعظم کے دور اندیش قدم سےملک اور دنیا بھر میں مثبت ردعمل  حاصل ہوا۔ تمام سیاسی جماعتیں یکجا ہوئیں۔ یہی وہ بھارت ہے جس کی ہمیں قومی سلامتی اور قومی ترقی پر مکمل اتفاق کی روز ضرورت ہے-مجھے یقین ہے کہ یہ قدم ملک کو ایک نئی سمت دے گا۔

گزشتہ دس سالوں میں، جب ہم صحت اور تندرستی کی بات کرتے ہیں، تو یہ ایک انقلابی سفر رہا ہے۔ یہ ایک ایسا سفر ہے جس میں بہت بڑی چھلانگ لی گئی ہے۔ اگر آپ دنیا کی ترقی یافتہ جمہوریتوں، مثلاً امریکہ کے نظامِ صحت کا جائزہ لیں تو وہاں کا نظام ہمیشہ زیرِ بحث رہتا ہے۔مگر آپ جیسے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ جب بات بھارت کی آئی توآیوشمان بھارت ایک انقلابی قدم ثابت ہوا ہے۔ یہ وہ انقلابی قدم تھا جس کی ہمارے ملک کو سخت ضرورت تھی۔ورنہ جو لوگ سرکاری ملازمین نہیں تھے، جن  کے لیے کوئی سرکاری تحفظ نہیں تھا، اگر ان کے گھر میں کوئی بیمار پڑ جاتا تو ان کی زندگی گھبراہٹ، پریشانی اور عدم تحفظ  میں مبتلا ہو جاتی تھی۔اور اب دیکھیں کہ 500 ملین سے زائد افراد کو اس اسکیم کے تحت صحت کی سہولت کا تحفظ حاصل ہے۔یہ ایک یقین دہانی ہے، خاص طور پر ان  معمر شہریوں کے لیے جن کی عمر زیادہ  ہے۔ یہ سہولت بلا امتیاز، بغیر کسی شرط کےدستیاب ہے۔یہ ایک انقلابی قدم تھا، جس کا آغاز 23 ستمبر 2018 کو ہوا۔لیکن میرے سامنے بیٹھے نوجوانوں، آیوشمان بھارت آپ کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟اس کا مطلب ہے کہ ہمیں اب مزید ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی ضرورت ہے۔تشخیصی مراکز بڑھانے کی ضرورت ہے۔تحقیق میں اضافہ درکار ہے۔سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں نئے اسپتال اورصحت مراکز قائم ہونے چاہییں۔یہ سب کچھ اس دور میں ممکن ہوا، اورملک کی حقیقی ضرورت پوری ہونے لگی ہے۔ایمس جیسے ادارے، جو ہمارے لیے باعثِ فخر ہیں، ان کی تعداد اس مدت میں تین گنا ہو گئی ہے- اب 25  ایمس  ہیں، جن میں سے 20 کام کر رہے ہیں اور 5جلد کام شروع کریں گے۔ایم بی بی ایس کی نشستوں کی تعداد میں 110فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ ابھی اور بھی بڑھنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن اس پر کام شروع ہو چکا ہے۔ یہی عمل پوسٹ گریجویٹ نشستوں کے لیے بھی جاری ہے۔

میری نظر میں یہ علاقہ (یعنی جہاں یہ ادارہ واقع ہے) ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ایک خواب جیسی جگہ ہے، ان کے لیے جو روحانیت، سیاحت اور سکون کے متلاشی ہیں۔یہ ایک قدرتی جگہ ہے جہاں  عالمی سطح کے ویلنیس سینٹرز،ہیلتھ سینٹرز قائم کیے جا سکتے ہیں۔ اور اسی لیے یہ ہماری قومی ترجیح ہونی چاہیے۔مجھے پورا یقین ہے کہ اس شعبے سے وابستہ تمام افراد اور لیفٹیننٹ گورنر کا جو جوش  وجذبہ اور مشنری انداز ہے،اس سے  اس علاقے میں ویلنیس سینٹر بننے سے صحت کے ساتھ ساتھ سیاحت کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔اگر یہاں ایک عالمی معیار کا ویلنیس سینٹرقائم ہوتا ہے، تو وہ صرف صحت ہی نہیں، بلکہ سیاحت کو بھی فروغ دے گا، اور پورے علاقے کو ترقی کی نئی راہوں پر گامزن کرے گا۔

اگر آپ ہمارے شاستروں کو دیکھیں تو آپ کو ملے گا’’پہلا سکھ نروگی کایا’’۔ یعنی صحت کو ہر چیز پر فوقیت دی گئی ہے۔ اگر آپ اتھرو وید کا مطالعہ کریں، جو صحت اور تندرستی کے حوالے سے ایک انسائیکلوپیڈیا ہے، تو آپ کو وہاں علم کا خزانہ ملے گا۔ ہم اس سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں، لیکن ہمیں اس پر مزید سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔یہ نہایت اطمینان بخش اور خوش آئند بات ہے کہ9؍نومبر کو  2014 میں آیوش کے لیے ایک علیحدہ وزارت قائم کرنے کا قدم اُٹھایا گیا۔ یہ ایک گیم چینجر ثابت ہوا۔اس سے پہلے تشویش تھی کہ اگر کسی کو ڈائلیسس کی ضرورت پڑے تو کیا ہوگا؟ لیکن اب ہر ضلع کے صدر دفتر میں ڈائلیسس کی سہولت موجود ہے۔پھر سوال اُٹھتا تھا کہ اگر کسی کو کینسر ہو جائے تو کیا ہوگا؟ آج ابتدائی تشخیص ممکن ہے اور کینسر اب جان لیوا مرض نہیں رہا۔

میں نے وہ دور دیکھا ہے جب تپ دق (ٹی بی) ایک جان لیوا مرض تھا، پھر کینسر آیا۔ سہولیات میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ سب کو تحقیق کے میدان میں بھی اپنے قدموں کو آگے بڑھانےہوں گے۔  ہندوستان کو طبی تحقیق اور میڈیکل آلات کی تیاری میں عالمی رہنما بننا ہے۔میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ میں سے ہر ایک کے اندر ہر میدان میں کچھ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ حکومت کی پالیسیوں کو دیکھیں — پہلی بار ایسا ماحولیاتی نظام قائم ہوا ہے جو ہر نوجوان پیشہ ور کو اپنی صلاحیتوں کو مکمل طور پر بروئے کار لانے، اپنے خوابوں اور امنگوں کو حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔لہٰذا آپ کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ یہی وہ یقینی طریقہ ہے جس کے ذریعے آپ معاشرے کو وہ سب لوٹا سکتے ہیں جو آپ چاہتے ہیں — اور یہی ایک صحت مند ہندوستان (فِٹ انڈیا) کی بنیاد بنے گا۔

ہم مہاتما گاندھی کو کئی اہم پہلوؤں کے لیے یاد کرتے ہیں، جن میں سچائی، عدم تشدد  کے علاوہ صفائی کے اصولوں کے لیے بھی شامل ہیں۔ صفائی، جسے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک مشن بنا دیا ہے۔ ‘سوچھ بھارت‘ مشن شاندار نتائج دے رہا ہے۔کیا کوئی کبھی سوچ سکتا تھا کہ دیہی علاقوں کے ہر گھر میں بیت الخلا جیسی بڑی  مہم کو کامیابی سے مکمل کیا جا سکتا ہے؟ یہ حاصل کر لیا گیا ہے۔اب جبکہ یہ ممکن ہوا ہے، تو خاندان کی سطح پر، اسکول کی سطح پر طبی صفائی (میڈیکل ہائیجین) کی تعلیم پر توجہ دینا ضروری ہو گا اور مجھے یقین ہے کہ آپ ہفتے کے ساتوں دن اور چوبیس گھنٹے( 24/7 )اس قابلِ فخر تبدیلی کے سفیر بن سکتے ہیں۔

لیفٹیننٹ گورنر نے ماحولیاتی تبدیلی پر بات کرتے ہوئے‘ایک پیڑ ماں کے نام’ مہم پر زور دیا۔ انہوں نے کہاکہ میں اس سے کچھ آگے بڑھا ہوں، چونکہ میرا تعلق قانونی برادری سے ہے، تو میں اپنے والدین میں امتیاز کیوں کروں؟ اس لیے میں نے اسی ترتیب سے آج سے آغاز کیا ہے:ایک پیڑ ماں کے نام، ایک پیڑ پتا کے نام ۔تاہم وزیر اعظم نے نہایت بصیرت کے ساتھ دنیا کے ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر جی20 کے تحت ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد کر کے ایک بلند ترین معیار قائم کیا۔ اس کانفرنس کا نعرہ تھا: ایک کرہ ارض، ایک خاندان، ایک مستقبل — جو ہمیں وسودھیو کٹمبکم (یعنی ‘ساری دنیا ایک خاندان ہے) کی یاد دلاتا ہے۔

اب جب کہ صورتحال ایسی ہے، تو ہمیں خود کو سنبھالنا سیکھنا ہوگا اور اسی لیے ہمیں اپنے اہلِ خانہ، اپنے ہمسایوں اور اپنے معاشرے کے ساتھ نہایت شفقت اور نرمی سے پیش آنا چاہیے — اور یہی رویہ باقی تمام معاملات کا خود بخود خیال رکھے گا۔

ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں پائیداری (سسٹین ایبلیٹی) کا چرچا دنیا بھر کے بورڈ رومز، عالمی اداروں جیسے اقوام متحدہ اور عالمی پارلیمانوں میں ہو رہا ہے، لیکن اگر ہم اپنے ویدوں کی طرف نظر ڈالیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ سوچ تو ہمیشہ سے ہمارے یہاںموجود تھی۔ہم درختوں کی پوجا کرتے تھے، جنگلات کا احترام کرتے تھے اور ایسا طرزِ زندگی اپناتے تھے جو ان بیماریوں کے بالکل مخالف تھی  جنہیں آج ہم لائف اسٹائل ڈیزیزز(خراب طرز زندگی سے پیدا ہونے والی بیاریاں) کہتے ہیں۔لہٰذا آئیے ہم  اپنی پائیداری پر یقین رکھیں ،یہی بنیادی اصول ہے۔

میں ایک اقتباس کا حوالہ دینا چاہوں گا -میں نے پہلے بھی آپ کی توجہ اتھرو وید کی اہمیت کی طرف مبذول کرائی تھی، خاص طور پر اُن لوگوں کے لیے جو طبی شعبے سے وابستہ ہیں۔ یہ صحت اور تندرستی کے حوالے سے ایک انسائیکلوپیڈیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے’’ماتا بھومی‘ یعنی زمین ہماری ماں ہے اور ہم اُس کے بچے ہیں۔آئیے ہم اپنی ماں کو زخمی نہ کریں، قدرتی وسائل کا اندھا دھند استعمال اور استحصال نہ کریں۔ ہمیں وسائل کے دانشمندانہ استعمال پر توجہ دینی ہوگی۔یہ کیسے قابل قبول ہو سکتا ہے کہ کوئی کہے:‘مجھے مالی طور پر استطاعت حاصل ہے، اس لیے میں 20 گاڑیاں رکھوں گا؟" اُسے اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ ہم قدرتی وسائل کے امین ہیں اور ہمیں اس  امانت کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرنا ہے۔میرے خیال میں ہمیں اس حوالے سے ایک ذمہ دارانہ سوچ اپنانی ہوگی۔

اس ماہ دو اہم تقریبات  ہونے جارہےہیں، جن میں سے ایک 21 جون کو منایا جانے والا بین الاقوامی یومِ یوگا ہے۔ اس پہل  کا آغاز وزیر اعظم نے  امریکہ میں واقع اقوام متحدہ میں کیا تھا اور بہت ہی کم وقت میں کافی زیادہ ممالک نے اسے تسلیم کیا ہے۔ اس لیے 21 جون کو یوگا دنیا بھر میں منایا جاتا ہے اور اب یہ ہمارا قومی رویہ بن چکا ہے۔دنیا کے ہر گوشے میں  لوگ اسے اپنا چکے ہیں۔میں چاہوں گا کہ عزت مآب لیفٹیننٹ گورنر اور وزیراعلیٰ اس مقام سے ایک عالمی پیغام بھیجیں کہ یوگا امن اور روحانیت کی علامت ہے اور یہی وہ بات ہے جسے ہمیں یاد رکھنا چاہیے۔

ایک اور موقع ایسا بھی آتا ہے جو ہمیں پچاس سال پہلے پیش آنے والے واقعے کی یاد دلاتا ہے اور وہ ہے 25 جون۔ لڑکوں اور لڑکیوں، آپ اُس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے، مجھے اس بات کا یقین ہے۔ آپ میں سے کوئی بھی 50 سال سے زیادہ عمر کا نہیں ہے، خاص طور پر طلباء۔

پچاس برس پہلے 25 جون کو، ایک وزیر اعظم نے اپنی کرسی بچانے کے لیے ایمرجنسی نافذ کر دی، جس نےوزراء کی  کونسل کے تمام آئینی اداروں کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا اور سیکڑوں اور ہزاروں لوگوں کو بغیر کسی وجہ کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ ایسے مشکل اورسنگین حالات میں، عدلیہ تک رسائی بنیادی حق ہے۔ ہمارے آئین کے بانیوں نے ہمارے لیے آئینی حق  دیاتھا۔ حتیٰ کہ اس حق کو بھی پامال کیا گیا، انتظامیہ نے عوام پر بے حدظلم و ستم میں کیا ۔ جو لوگ جیلوں میں تھے وہ بعد میں وزیر، وزیراعلیٰ، وزیر اعظم اور صدر بنے۔ حب الوطنی اور قوم پرستی کے جذبے سے لبریز ایسے لوگ بغیر کسی وجہ کے قید کیے گئے۔ایسا واقعہ دوبارہ نہ ہو، ہماری تاریخ کا ایسا تاریک باب نہ کھلے، ہمیں اس بات کا مکمل ادراک ہونا چاہیے کہ اس وقت کیا ہوا تھا، اسی لیے اس دن کو منایا جا رہا ہے، جو گزشتہ برس سے شروع ہو ہےسموِدھان ہتیا دیواس’۔ براہ کرم چند لمحے نکال کر اس کے بارے میں مزیدمعلومت حاصل کریں،اس کے ساتھ ساتھ ایک اور دن بھی منایا جاتا ہے 26 نومبر کو۔آئین کو تسلیم کیے جانے کے طور پر اس دن کا آغاز دس برس قبل  کیا گیا تھا ، کیونکہ یہی آئین ہمیں مساوات کا حق دیتا ہے، یہی آئین ہمیں مساوی ترقی کی یقین دہانی کراتا ہے۔ یہی آئین اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ہمیں اپنی مرضی سے وقت گزارنے کی آزادی حاصل ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(ش ح –م ع ن-ع ر)

U. No.1811


(Release ID: 2136880)
Read this release in: English , Hindi