سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
بائیوٹیکنالوجی کا شعبہ بی آئی آر اے سی کے ساتھ مل کر بائیو مینوفیکچرنگ اور بائیو فاؤنڈری انیشی ایٹو پر اپنی ویبینار سیریز میں 14ویں ویبینار کی میزبانی کر رہا ہے جس کی تھیم "ایم آر این اے علاج کے لیے بائیو مینوفیکچرنگ" ہے
Posted On:
16 MAY 2025 7:25PM by PIB Delhi
محکمہ بائیوٹیکنالوجی (ڈی بی ٹی)، حکومتِ ہند نے بایوٹیکنالوجی انڈسٹری ریسرچ اسسٹنس کونسل (بی آئی آر اے سی)کے ساتھ مل کر 16 مئی 2025 کو ’بایوفاؤنڈری اور بایومینوفیکچرنگ انیشیٹو‘ کی ویب نار سیریز کے تحت 14ویں ویب نار کا انعقاد کیا۔ اس اجلاس کا موضوع ایم آر این اے "تھراپیوٹکس کے لیے بایومینوفیکچرنگ" تھا، جو بائیو ای 3 (اقتصاد، ماحولیات اور روزگار کے لیے بایوٹیکنالوجی) پالیسی کا ایک اہم جزو ہے۔
یہ پالیسی کابینہ کے اجلاس میں منظور ہو کر معزز وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی کی جانب سے جاری کی گئی ہے، جس کا مقصد بھارت کو بائیو بیسڈ جدت میں عالمی رہنما کے طور پر ابھارنا ہے۔
یہ پالیسی پائیدار بایومینوفیکچرنگ کو مختلف موضوعاتی شعبوں میں فروغ دیتی ہے، جن میں پریسیژن تھراپیوٹکس جیسے ایم آر این اے تھراپیوٹکس شامل ہیں، تاکہ معیشتی ترقی کے ساتھ ساتھ ہندوستانی عوام کے لیے سستی اور قابلِ رسائی صحت کی سہولیات کو یقینی بنایا جا سکے۔
یہ ویب نار ایک اشتراک کار فورم کے طور پر کام کرتا ہے جہاں تعلیمی ادارے، صنعت کے ماہرین، اسٹارٹ اپس، اور محققین ایک ساتھ مل کر ایم آر این اے تھراپیوٹکس کی بایومینوفیکچرنگ میں جدید پیش رفت اور ابھرتے ہوئے مواقع کا جائزہ لیتے ہیں۔
ڈاکٹر الکا شرما، سینئر ایڈوائزر/سکیل ‘ایچ’، محکمہ بائیوٹیکنالوجی، نے بائیو ای 3 پالیسی کے وژن کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ پالیسی پائیدار سبز ترقی کی حمایت کرتے ہوئے اعلیٰ معیار کی بایومینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کا عزم رکھتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ نقطہ نظر عالمی سطح پر پائیداری کی طرف ایک اہم تبدیلی ہے، جو ایک "بائیو انقلاب" کو جنم دے رہا ہے جس کی طاقت معیشتوں اور معاشروں کی تشکیل نو کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سیریز کا 14واں ویب نار ایم آر این اے تھراپیوٹکس پر مرکوز ہے، جو اس پالیسی کے تحت ایک اہم موضوعاتی ذیلی شعبہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کئی بھارتی بائیوٹیک کمپنیز اور تحقیقی ادارے ایم آر این اے پر مبنی ویکسینز اور تھراپیوٹکس کی ترقی میں سرگرم عمل ہیں۔
ڈاکٹر شرما نے اس شعبے کو درپیش کچھ چیلنجز بھی بیان کیے، جن میں مصنوعات کی فراہمی، مصنوعات کی استحکام، اور خام مال کی درآمد پر انحصار شامل ہیں۔

ڈاکٹر ورشنا سنگھ، سائنسدان ‘ڈی’، محکمہ بائیوٹیکنالوجی نے ایم آر این اے تھراپیوٹکس کے ذیلی شعبے کا مفصل جائزہ پیش کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ایم آر این اے پر مبنی تھراپیز بایوٹیکنالوجی میں ایک انقلابی پیش رفت ہیں، جو کینسر، جینیاتی بیماریوں اور متعدی امراض سمیت مختلف بیماریوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر سنگھ نے اس ذیلی شعبے کا ایس ڈبلیو او ٹی تجزیہ کیا، جس میں اس کی مضبوطی، کمزوریاں، مواقع اور خطرات کی نشاندہی کی گئی۔
انہوں نے اختتام پر محکمہ بائیوٹیکنالوجی اور بی آئی آر اے سی کی مشترکہ پہل، ’پریسیژن بائیوتھیراپیوٹکس – ایم آر این اے تھراپیوٹکس‘ کے لیے حال ہی میں جاری کیے گئے کال فار پروپوزلز کی جانب توجہ دلائی، جس کا مقصد اس امید افزا میدان میں دریافت، جدت اور اسکیل اپ کو فروغ دینا ہے۔
ڈاکٹر راغوان ورادراجن، آئی آئی ایس سی بنگلور نے اپنی تقریر میں ایم آر این اے۔ایل این پیویکسین ٹیکنالوجی کی جدید پیش رفتوں کا جائزہ پیش کیا اور اس کی جدید طب میں انقلابی اہمیت پر زور دیا۔
انہوں نے ایم آر این اے ویکسین کے ڈیزائن کے عمل، ایم آر این اے ویکسین کی خصوصیات اور اس کے اہم ساختی عناصر پر بات کی۔
اس کے علاوہ، ایل این پی کی تیاری کے طریقہ کار، مختلف ایم آر این اے۔ایل این پیفارمولیشنز کا موازنہ، مائیکروفلوئڈک چپس کی مختلف اقسام اور فارمولیشن کے مختلف طریقوں کا تقابلی جائزہ بھی پیش کیا۔

ڈاکٹر مونالیزا چٹرجی، سیکّئی بایو پرائیویٹ لمیٹڈ نے کئی اہم موضوعات پر روشنی ڈالی، جن میں بایولوجکس کی محدود قبولیت سے متعلق موجودہ چیلنجز اور آر این اے تھراپیوٹکس کی تبدیلی لانے والی صلاحیت شامل ہیں۔
انہوں نے ان جدید تھراپیز کے مکمل امکانات کو اجاگر کرنے کے لیے نمایاں مواقع کی نشاندہی کی۔
ڈاکٹر چٹرجی نے مینوفیکچرنگ کی صلاحیت اور استعداد کار کو بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا اور اس بات کی وضاحت کی کہ آر این اے ٹیکنالوجیز کی ترقی اور وسیع پیمانے پر نفاذ کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔
اس سیشن کا اختتام ایک دلچسپ سوال و جواب کے مرحلے کے ساتھ ہوا، جس کی میزبانی محکمہ بائیوٹیکنالوجی اور بی آئی آر اے سی کے حکام نے کی۔
شرکاء نے ماہرین کے ساتھ فعال انداز میں گفتگو کی، بایومینوفیکچرنگ میں درپیش چیلنجز اور مواقع پر تبادلہ خیال کیا اور ضابطہ کاری کے پہلوؤں پر غور کیا۔
***
UR-846
(ش ح۔اس ک ۔ خ م )
(Release ID: 2129219)