نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

کالج آف فاریسٹری، سرسی کے فیکلٹی اور طلباء سے نائب صدر کے خطاب کا متن (اقتباسات)

Posted On: 05 MAY 2025 2:52PM by PIB Delhi

سبھی کو نمسکار،

جب  میں اندر آ رہا تھا، میری توانائی کی سطح ہر لمحہ بڑھتی جا رہی تھی۔ یہ سب  آپ کی بدولت ہے۔ اتنا جوش دیکھ کر میں بھی تھوڑا پرجوش ہو گیااور سب سے اہم چیز صنفی توازن ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ کس کا پَلاّ   بھاری ہے۔ میرے خیال میں یہی پَلاّ بھاری ہے۔ لیکن جب میں گہرائی سے سوچتا ہوں تو یہ پیمانہ بھی کم نہیں ہے۔

جب میں سرسی کو دیکھتا ہوں، شاندار مغربی گھاٹوں کی گود میں حیاتیاتی تنوع سے مالامال خطوں میں سے ایک، نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں۔ جب ایسا ماحول ہوتا ہے تو کلاس رومز میں دیواریں نہیں ہوتیں۔ آپ دیواروں کے باہر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ یہاں ایک کلاس روم ہے جو کھلا، سانس لینے اور زندگی سے بھر پور ہے۔ کالج آف فاریسٹری، خوش قسمتی سے اور منفرد طور پر فطرت سے گھرا ہوا ہے اور فطرت اپنی سب سے قدیم شکل میں ہے۔ یہاں کا منظر کچھ اور ہے۔ ماحول خوشی سے لبریز ہے۔

یہاں کی ہوا، سرسی کی ہوا میں کون  کون سی خوشبوئیں آتی  ہیں۔ الائچی، کالی مرچ، کڑوے پتے اور ونیلا۔ ان مصالحوں نے صدیوں سے ہمارے کھانا پکانے کےہنر کو تعریف  عطا کی ہے اور صدیوں سے ہماری معاشی خوشحالی کا سبب بنے ہیں۔ سب سے پہلے جب کارو بارشروع ہواتوانہیں مسالحوں سے ہوا۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کا ماحول خود بولتا ہے۔ ماحول کے رابطے میں آتے ہی، آپ کو ایک عجیب سی خوش بو محسوس ہوتی ہے۔ ہمیں بلند و بالا درختوں سے  سرگوشیاں کرتی ہواؤں کو سننا چاہیے جہاں پرندے چہچہاتے ہیں۔ جنگل کی  کلکل  کرتی ندیاں اور کیاکیابتایاجائے!  لگتا ہے یہیں پر بس جاؤں۔ لیکن آپ کو یہاں تعلیم حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

لڑکوں اور لڑکیوں، یہ آپ کے لیے ایک نادر موقع ہے۔ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں کیونکہ یہاں سے آپ ماحولیات کے تحفظ کے لیے سفیر، مشعل بردار بنیں گے۔ جنگل میں اچھائی کی تلاش  اورماحولیات کی لازمیت پر یقین رکھیں گے۔

لیکن اس زمین کا ایک اور اہم پہلو ہے۔ یہ سرزمین روحانیت اور پائیداری کا سنگم ہے۔ پائیداری معیشت کے لیے ضروری ہے لیکن  یہ صحت مند زندگی کے لیے بھی ضروری ہے۔ ہماری ویدک ثقافت میں ہزاروں سالوں سے پائیداری کی تبلیغ کی جاتی رہی ہے۔ لیکن آج پائیدار ترقی کے سوا کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ ہم قدرتی وسائل کا بے دریغ استحصال نہیں کر سکتے۔ ہمیں صرف اتنا ہی کرنا پڑے گا جو ہماری کم از کم ضرورت ہے۔ ہم سب کو اس سے  واقف ہونا چاہیے۔ ہمیں خوداس بات کی  سمجھ بوجھ ہونی چاہیے کہ جودھرتی  ماں  ہے،جس کو ماں کہتے ہیں، جوماحولیات ہے، جنگل ہے، ماحولیاتی نظام ہے، نباتات، حیوانات ہیں، ہم اس کے  ذمہ داران ہیں، ہم اس کے صارف نہیں ہیں۔ ہمیں اس کو اپنی آنے والی نسلوں تک پہنچانا ہے۔ اور یہ دھرتی  ماں کو زندہ رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

لڑکے اور لڑکیوں، جب میں نوجوان ذہن کے کے ساتھ بات چیت کرتا ہوں تو میرے لیے ہمیشہ یہ ایک امرت  ثابت ہوتی ہے اور میں ایسا کیوں کہہ رہا رہوں؟ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جمہوریت میں اہم فریق ہیں۔ آپ لوگ ترقی یافتہ ہندوستان کے سفر میں سب سے مضبوط اور اہم ساتھی ہیں۔

اس لیے میں اپنے خیالات آپ کے ساتھ بانٹنے میں ہمیشہ خوشی محسوس کرتا ہوں اور ان خیالات کو جو میں ایک انتہائی اہم پہلو پر شیئر کر رہا ہوں۔ سرسی میں، تعلیمی فضیلت کا ایک مقام ہےجو ہمارے ماحولیات کی خدمت کرتا ہے اور ماحولیات زندگی کا وہ پہلو ہے جو زمین پر موجود ہر جاندار کو چھوتا ہے۔ جب ماحول کو چیلنج کیا جاتا ہے تو پھر وہ چیلنج صرف بنی نوع انسان کے لیے نہیں بلکہ اس زمین پر موجود ہر چیز کے لیے ہوتا ہے۔ آج یہ ایک بڑی کسوٹی ہے کہ ہم ماحولیات کو محفوظ  رکھیں ۔ ہم آنے والے اس بڑے بحران پر کیسے قابو پا سکتے ہیں۔

یہ چیلنج ایک کسوٹی ہے جس  پر ہم سبھی کو کھرا اترنا ہے۔ اس لیے میں آپ کو سب بتاتا ہوں۔ آپ نے صحیح راستے کا انتخاب کیا ہے، آپ نے صحیح علمی حصول کا انتخاب کیا ہے اور آپ انسانیت کی خدمت کے لیے پوری طرح سے لیس، بڑے منظرنامے میں داخل  ہو رہے  ہیں۔ کیونکہ یہاں آپ کو جو کچھ بھی سکھایا جائے گا، سکھایا جا رہا ہے - آپ کو بھارت ماں کی پوجا کرنی ہے، کائنات کی تشکیل کرنی ہے ، آپ کو اس کی حفاظت کرنی ہے۔ ہم نے بہت جان لیوا کام کیے ہیں، اب تک ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

یہ صحیح کہا گیا تھا کہ جب ہم اپنے سیارے کو دیکھتے ہیں تو ہر ایک کی ضرورت کے لیے سب کچھ موجود ہے لیکن یقیناً لالچ کے لیے نہیں۔ اس لیے یہاں میں کہتا ہوں کہ دھرتی ماں نے جو ہم کو دیا ہے، ہمیں ان وسائل کو کفایت شعاری، بہترین اور کم سے کم بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرنے کا عزم کرنا چاہیے۔

جنگلات بہت اہم ہیں۔ جنگلات ہمارے پھیپھڑے ہیں۔ کسی بھی ملک میں جنگلات ٹھیک ہوں گے، عوام اچھی صحت سے لطف اندوز ہوں گے کیونکہ جنگلات پھیپھڑے ہیں۔ اسی طرح میں بار بار کہتا رہا ہوں کہ زراعت ہماری لائف لائن ہے۔ لیکن جنگل کی ضرورت کیوں ہے؟ وہ آب و ہوا کو منظم کرتے ہیں، وہ آفات کو  ٹالتے ہیں۔ جنگلات ذریعہ معاش میں مدد کرتے ہیں، خاص طور پر غریبوں اور پسماندہ لوگوں کے لیے۔ ہمیں جنگلات کے تحفظ کا عہد کرنا چاہیے اور ہمیں ہر ممکن طریقے سے اپنا تعاون دینا چاہیے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی چیلنج ہے، ایک عالمی خطرہ ہے۔ صورت حال تشویشناک حد تک دگرگوں ہے۔

دھرتی ماں کے  علاوہ ہمارے پاس رہنے کا کوئی دوسرا بندوبست نہیں ہے ایسے حالات میں آئیے ہم مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کریں اور اس کے لیے ایک بات یاد رکھنا بہت ضروری ہے۔ کرہ ارض انسانی ذات کے لیے مخصوص نہیں ہے، کرۂ ارض تمام جانداروں کا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو پہچاننا چاہیے۔

جب مجھے معلوم ہوا کہ اس تنظیم کے سابق طلباء سرکاری خدمات اور دیگر طریقوں سے بھی بہت زیادہ  تعاون دے  رہے ہیں۔ میں نے ان سے اپیل کی کہ وہ ایک بہت ہی طاقتور سابق طلباء کی انجمن کی شکل اختیار کریں۔ انہیں اپنے الما میٹر سے جڑنا چاہیے اور یہ نہ صرف اس عظیم ادارے کی پرورش میں بلکہ پالیسیوں کے ارتقا میں بھی بہت آگے جائے گا۔ انسانی وسائل کے سابق طلباء کے ذخیرے میں قابلیت ہے، وہ پالیسی سازی میں  شامل افراد کو بجا طور پر مشورہ دے سکتے ہیں۔

جو میرے سامنے ہیں، لڑکوں اور لڑکیوں، تم بھارت ماں کے مستقبل کے  اولین سپاہی ہو۔ آپ ہمارے جنگلات اور ماحولیات کے محافظ ہوں گے۔ آپ کے سامنے ایک روشن مستقبل ہے کیونکہ پچھلے 10  سالوں میں اگر کسی ملک نے تیزی سے ترقی کی ہے، جس کی معیشت، ادارہ جاتی ڈھانچہ، تکنیکی رسائی نے دنیا کو حیران کر دیا ہے، وہ ملک ہندوستان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سب کی نظریں ہندوستان پر ہیں اور وہ ہندوستان کی طرف جس وجہ سے دیکھ رہے ہیں وہ ہندوستان میں نوجوانوں کی طاقت ہے، آبادیاتی ڈیویڈنڈ جو کہ دنیا کے لیے قابل رشک ہے۔

آج آپ کو ایسے مواقع مل رہے ہیں جن کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ حکومت کی مثبت پالیسیاں ہیں جو ہمارے نوجوانوں اور نوجوان ذہنوں کو اپنے عزائم اور خوابوں کو حاصل کرنے کے لیے ان کی صلاحیتوں اور ٹیلنٹ کو مکمل طور پر بروئے کار لاتی ہیں۔ ایسے ماحول میں ہمیں قوم پرستی سے لبریز ہو کر قوم کی خدمت میں لگ جانا چاہیے۔ ہمارے لیے زیادہ سے زیادہ تعاون دینے اور معاشرے کوا س کاحق ادا کرنے کا وقت ہے۔

میرے ذہن میں کوئی شک نہیں، آج آپ کو اس بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے جب آپ اس ادارے سے باہر نکلیں گے، ‘آپ کیا کریں گے؟’ آپ کے پاس متعدد متبادل ہوں گے۔ جو آج ہو رہا ہے وہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ہمارے نوجوان ذہن، آپ کے لیے متعدد مواقع  ہیں اور جولگاتاربڑھتے جارہے ہیں۔ آپ کو اس کا علم ہونا چاہیے۔ بہت اچھے مواقع آپ کے سامنے آئیں گے۔ لیکن میں آپ سے ایک بات بتاؤں گا: جستجو کریں۔

نئی چیزیں سیکھنے کی خواہش ہونی چاہیے اور آپ کی علمی جستجو میں اتنے امکانات  موجود ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر آپ ہمارے ثقافتی ورثے میں جھانکیں گے تو آپ کو ایک خزانہ ملے گا اور آپ جتنا زیادہ مطالعہ کریں گے،کائنات کی اتنی ہی زیادہ خدمت کر سکیں گے۔ آج آپ کا جو بھی مسئلہ ہے حل اسی سےنکلتا ہے، مصنوعات اسی سے نکلتی ہیں۔ آپ جنگل کی پیداوار کے حوالے سے تحقیق کے لیے واقعی موثر ثابت ہوسکتے ہیں اور اس کی کتنی بڑی جہتیں ہوسکتی ہیں۔

آج کوئی بھی ادارہ اپنے آپ میں الگ تھلگ نہیں ہو سکتا۔ ایک وقت تھا جب میڈیکل ایجوکیشن، انجینئرنگ ایجوکیشن، مینجمنٹ ایجوکیشن، انوائرمنٹ ایجوکیشن، فارسٹ ایجوکیشن الگ الگ شعبہ تھے۔ آج کل یہ بین الضابطہ بن گیا ہے۔ لہذا، آپ کو سیکھنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر رکھنا ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ وائس چانسلر اور ڈین اس سے باخبر ہوں گے۔ لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں، دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں، فطرت کے ساتھ جو ہم آہنگی تاریخ میں درج ہے اور آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہے، ہندوستان میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

فطرت کے ساتھ ہم آہنگی ہمارا طرز زندگی رہا ہے اور ہمیں اسی کی پرورش کرنی ہے۔ ہمارے قدیم صحیفے، ویدوں سے لے کر اپنشد تک ہمارے فلسفے، انھوں نے ہمیشہ ماحولیاتی توازن پر بہت زیادہ زور دیا۔ ایک چھوٹا موٹا ٹکراؤ نظر آئے گا - ترقی اور ماحولیات کا تحفظ، ترقیاتی نمو اور ماحولیاتی تحفظ لیکن اس کے لیے تمام پہلوؤں کا جامع طور پر نوٹس لینے کے بعد ایک صاف توازن قائم ہونا چاہیے۔

میرے ذہن میں کوئی شک نہیں کہ ملک جس سمت میں جا رہا ہے، جس رفتار سے ہندوستان آگے بڑھ رہا ہے، وہ رفتار دنیاکے لیےبے مثال  ہے۔ اس  میں جنگلات کے معاملے میں بھی حکومت ہند نے بہت سے مثبت قدم اٹھائے ہیں۔ انڈیا اسٹیٹ آف فاریسٹ رپورٹ (آئی ایس ایف آر 2023)سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے جنگلات اور درختوں کا احاطہ اس ملک کے کل جغرافیائی رقبے کا 25.17فیصدہے۔ 2021 کے مقابلے میں، 1 فیصد اضافہ ہوا ہے، لیکن ہمارا ہدف یہ ہے کہ ہمیں جنگلات کے 33 فیصد کے قریب پہنچنا ہے۔ ہمیں اس سمت میں ہوشیاری سے آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ عوامی تحریک ہونی چاہیے۔

ہمارے گاؤں میں جنگل کا احاطہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ شجرکاری کو جنگلات لگانے کےمترادف  نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ شجرکاری اور جنگلات لگانا دو مختلف چیزیں ہیں۔ ہمارے جنگلات کا احاطہ بڑھنا چاہیے۔

اور اس میں وزیر اعظم نے ایک پہل کی ہے، جس کا تعلق شجرکاری سے ہے، ‘ایک پیڑ ماں کے نام’۔ آج اس مقدس مقام سے میں نے اپنی ماں کے نام پر ایک درخت لگا کر سب سے اپیل کی ہے کہ کم از کم ایک پیڑماں کے نام پر لگائیں اور باقی اس  کو بڑھاتے رہیے۔

دوستو، لڑکوں اور لڑکیوں، زندگی کے لیے سب سے اہم چیز ہے،  وہ  ہے ‘ہوا’۔ پرانی تہذیب میں جائیں گے تو پوچھتے تھے کہ ہوا اور پانی کیسا ہے؟ مطلب ہوا اچھی ہے کیا؟ پانی صاف ہے کیا؟ان سب کا آپ کی تعلیم سےتعلق ہے۔

اس لیے میں آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ نے ایک سمت چنی ہے، تعلیم کا حصول،جو بنی و نوع انسان کی زندگی  اور انسانیت کی  بقا کے لیے بنیادی  اہمیت کی حامل ہے۔

شکریہ

******

ش ح۔ ش ب۔ اش ق  

 (U: 597)


(Release ID: 2127115) Visitor Counter : 12
Read this release in: English , Hindi