نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
مجھے مفت میں کچھ لینے کی عادت نہیں ہے... مجھے چیلنجز پسند ہیں؛ آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنا اولین ذمہ داری ہے - نائب صدرجمہوریہ
اگر کوئی جرم عوامی ضمیر کو جھنجھوڑ دے تو اس پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ جرم کی سزا قانون کے مطابق طے ہونی چاہیے- نائب صدرجمہوریہ
صدر اور گورنر جیسے باوقار آئینی عہدوں پر تبصرے ایسے معاملات ہیں جن پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہئے - نائب صدرجمہوریہ
آئین میں ٹکراؤ کے بجائے بات چیت، تبادلۂ خیال اور سازگار بحث کی توقع کی گئی ہے- نائب صدرجمہوریہ
جمہوریت کی اصل تعریف اظہاررائے اور بحث و مباحثہ ہے -نائب صدرجمہوریہ
میں عدلیہ کا بے حد احترام کرتا ہوں۔ تمام اداروں کومل کر کام کرنا چاہیے - نائب صدرجمہوریہ
سب سے خطرناک چیلنج وہ ہے جس کا تعلق اپنے باطن سے ہوتا ہے، جس کا ہم ذکر نہیں کر سکتے - نائب صدرجمہوریہ
Posted On:
01 MAY 2025 5:02PM by PIB Delhi
نائب صدر جناب جگدیپ دھنکھر نے آج کہا کہ ‘‘مجھے چیلنجز پسند ہیں اور آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی قبول نہیں کی جا سکتی ہے۔’’
‘‘کچھ دیر پہلے، مجھے بتایا گیا، ‘آپ کو [کتاب] مفت میں بھی نہیں ملے گی۔’ عزت مآب گورنر آنندی بین پٹیل، مجھے کوئی چیز مفت میں لینے کی عادت نہیں ہے... سب سے خطرناک چیلنج وہ ہے جس کا تعلق ہمارے باطن سے ہوتا ہے،جس کا ہم ذکر نہیں کرسکتے،یہ ایک ایسا چیلنج ہوتا ہے جو ہمیں اپنے لوگوں سے ملتا ہے، جس کی کوئی منطقی بنیاد نہیں ہوتی،جس کا قومی ترقی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا،اور جس کا تعلق نظم و نسق سے ہوتا ہے۔ آپ ہی نہیں بلکہ میں خود بھی ان چیلنجوں کا شکار ہوں، میں خود ان چیلنجوں کا شکار ہوں۔ البتہ ہمارے سامنے ایک بہت بڑی طاقت ہےاور ہماری طاقت ہمارا فلسفہ ہے، جو ہمیں بتاتا ہے کہ جب بھی کوئی بحران پیدا ہو، توویدوں کا سہارا ہو، گیتا، رامائن، مہابھارت کا سہارا لو– ‘آپ کو اپنے مقررہ فرائض انجام دینے کا حق ہے، لیکن آپ اپنے اعمال کے نتائج کے حقدار نہیں ہیں۔’ جب بھی چیلنجز آئیں گے تو ایسے آئیں گے کہ آپ خود کو بے بس محسوس کریں گے اور سوچیں گے کہ دیواروں کے بھی کان ہیں اس لیے آپ اپنے آپ سے بھی اس چیلنج پر بات نہیں کرتے، لیکن آپ کو فرض کی ادائگی سے کبھی پیچھے نہیں ہٹناچاہیے۔
عزت مآب گورنر محترمہ آنندی بین پٹیل کی ‘آئی لائک چیلنجز’ کتاب کی رونمائی تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے آج لکھنؤ میں کہا، ‘‘لوگ اکثر کہتے ہیں کہ لوگ یاد کم رکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب بھول جائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔کیا ہم ایمرجنسی کو بھول گئے ہیں؟ بہت وقت گزر چکا ہے، لیکن ایمرجنسی کے سیاہ منظر آج بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ یہ ہندوستانی تاریخ کا سیاہ ترین دور تھا جب بلا وجہ جیل میں ڈال دیا گیااور انصاف کے حصول پر روک لگائی گئی۔ بنیادی حقوق ختم کردیے گئے اور لاکھوں لوگوں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ اسی طرح حال ہی میں پیش آنے والے دردناک واقعے کے بارے میں، میرا ماننا ہے-اور یہ میرا یقینِ محکم ہے کہ ہر شخص کو اُس وقت تک بے گناہ سمجھا جانا چاہیے، جب تک کہ اُس کا قصور ثابت نہ ہوجائے۔ایک جمہوریت میں،بے گناہی کو خصوصی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔البتہ جرم چاہے جو ہو، اُس کی سزا قانون کے مطابق طے ہونی چاہیے۔اور اگرکوئی جرم لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑدے تو اس کی پردہ پوشی نہیں ہوسکتی۔میں نے یہ بات واضح الفاظ میں کہہ دی ہے۔بعض لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں اس معاملے میں اتنا بے باک کیوں ہوں ۔مجھے عزت مآب گورنر کی کتاب سے بہت زیادہ ترغیب ملی۔ اور میں نے واضح کردیا ہے کہ مجھے چیلنجز پسند ہیں اور آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔’’
آئینی عہدوں کے بارے میں کئے گئے تبصروں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، جناب دھنکھڑ نے کہا، ’’ہمارے آئین میں، دو عہدوں کو اعلیٰ تصور کیا جاتا ہے - ایک ہندوستان کا صدرجمہوریہ اور دوسرا گورنر۔ اور عزت مآب وزیر اعلیٰ، وہ سب سے اعلیٰ ہیں کیونکہ جو حلف آپ نے اٹھایا ہے، جو حلف میں نے اٹھایا ہے، جو حلف ارکان پارلیمنٹ، وزراء، قانون سازوں، یا ججوں نے اٹھایا ہے، وہ حلف ہے کہ:میں آئین کی پاسداری کروں گا۔ لیکن دروپدی مرمو جی (صدرجمہوریہ) اور آنندی بین پٹیل جی (گورنر) کا حلف اس سے مختلف ہوتا ہے۔وہ (یعنی صدریا گورنر)حلف لیتے ہیں کہ: ‘میں آئین کی حفاظت کروں گا اور اس کا دفاع کروں گا۔’ اور دوسرا حلف یہ ہوتا ہے کہ: ‘میں عوام کی خدمت کروں گا’ - صدر کے لیے، اس سے مراد ہندوستان کے لوگوں ہوتے ہیں اور گورنر کے لیے، یہ متعلقہ ریاست کے لوگ ہوتےہیں۔ اگر اس طرح کے باوقار اور آئینی عہدوں پر تبصرے کیے جائیں، تومیرے خیال میں یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
آئین کے ذریعہ بنائے گئے تمام اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور مکالمے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے زور دے کر کہا کہ ‘‘گزشتہ چند دنوں میں ایک واقعہ پیش آیا ہے، جس پر میں نے ایک بیان بھی جاری کیا ہے اور اس کا تعلق آپ کی ریاست سے بھی ہے۔ میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ مقننہ اورعدلیہ کے درمیان سب سے بڑا ٹکراؤ اسی ریاست میں ہوا ہے۔ یہ ہمارا اولین فریضہ ہے کہ ہمارے آئینی ادارے ایک دوسرے کا احترام کریں اور یہ احترام اس وقت بڑھتا ہے جب ہر ادارہ حدوں میں رہ کر کام کرتا ہے۔ جب ادارے ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔۔۔ہمارا آئین ٹکراؤ نہیں چاہتا بلکہ اس میں تال میل، باہمی تعاون، بات چیت، تبادلۂ خیال اور سازگار بحث و مباحثہ کی توقع کی گئی ہے۔آئین اداروں کے مابین اختلاف کا تصور پیش نہیں کرتا؛ یہ اشتراک اور توازن کے جذبے کی ترویج کرتا ہے۔‘‘
اسی تناظر میں، انہوں نے مزید کہا،‘‘تمام اداروں کے اپنے اپنے کردار ہیں، ایک کو دوسرے کا کردار ادا نہیں کرنا چاہئے۔ ہمیں آئین کا احترام کرنا چاہئے –حرف بہ حرف، پورے جوش و جذبے سے اور میں نے پہلے بھی کہا ہے، 140 کروڑ لوگ اپنے جذبات کا اظہار انتخابات کے ذریعے، اپنے نمائندوں کے ذریعے کرتے ہیں اور وہ نمائندے عوامی ذہن کی عکاسی کرتے ہیں اور لوگ انتخابات میں اُن کا احتساب کرتے ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ میں نے عام زبان میں کہا ہےکہ جس طرح مقننہ حکم نامہ نہیں لکھ سکتی کیوں کہ یہ کام عدالت کا ہے، بالکل اسی طرح عدالت بھی قانون نہیں بنا سکتی۔‘‘
انھوں نے مزید کہا کہ‘‘میں عدلیہ کا بے حد احترام کرتا ہوں؛ میں عدلیہ کا سپاہی رہا ہوں۔ میں چالیس سال وکیل رہا ہوں۔ صرف 2019 میں، جب میں مغربی بنگال کا گورنر مقرر ہوا، تو میں نے وکالت چھوڑ دی تھی۔ میں جانتا ہوں کہ عدلیہ میں انتہائی باصلاحیت لوگ موجود ہیں۔عدلیہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ہمارا جمہوری نظام کتنا مضبوط ہے۔-یہ عدلیہ کی حیثیت سے طے ہوتا ہے۔ عالمی معیارات کی بات کریں تو ہمارے یہاں بھی بہترین جج ہیں۔ لیکن میں اپیل کرتا ہوں کہ ہمیں باہمی تعاون، تال میل اور اشتراک کے جذبے کا اظہار کرنا چاہیے۔ عاملہ، عدلیہ اور مقننہ کو مل کر کام کرنا چاہیے۔’’
جمہوریت میں اظہار رائے اور بحث ومباحثے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے، جناب دھنکھر نے کہا، ’’ایک بہت اہم نکتہ سامنے آیا ہے، جو ہم سب کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ہم خود کو جمہوریت کیوں کہتے ہیں؟ اقتصادی ترقی، ادارہ جاتی ڈھانچے کی ترقی، ٹیکنالوجی کی توسیع- یہ سب اہم ہیں۔ لیکن جمہوریت کی اصل تعریف ہے - اظہار ِ رائے اور بحث و مباحثہ۔ اظہار رائے اور بات چیت جمہوریت کی اساس ہوتی ہیں۔اگر اظہارِ رائے پر پابندیاں ہوں گی تو کسی بھی ملک کے لیے اپنے آپ کو جمہوری کہنا مشکل ہوگا۔لیکن اگر اظہارِ رائے پر کوئی بحث نہ ہوتو اظہارِ رائے کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔ اگر اظہارِ رائےاس حد تک پہنچ جائے کہ بولنے والا یہ سمجھے کہ ‘میں ہی صحیح ہوں’ اوردیگر تمام صورتحال میں، دوسرے غلط ہیں اور ان کی بات سننے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے، تو یہ اظہارِ رائے کا حق نہیں ہے، بلکہ غلط بیانی ہے۔جمہوریت کی توضیح تبھی ہوتی ہے جب اظہارِ رائے اور بات چیت ایک جامع ماحول میں ساتھ ساتھ پروان چڑھتے ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل ہیں۔ اور اگر اظہارِ رائے میں اتنی شدت آجائے کہ پھر بات چیت کی گنجائش نہ ہو تو پھر ہمارے ویدوں کا فلسفہ–تکثیریت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اور اس کی جگہ ‘انا اور تکبر’ جنم لے گا۔ یہ ‘انا اور تکبر’ افراد اور اداروں دونوں کے لیے مہلک ہے۔’’
اس موقع پر نائب صدر جمہوریہ کی شریک حیات محترمہ سدیش دھنکھر، عزت مآب گورنر اتر پردیش محترمہ آنندی بین پٹیل، اتر پردیش کے عزت مآب وزیر اعلیٰ جناب یوگی آدتیہ ناتھ، کابینی وزیر جناب سریش کھنہ اور دیگر معززین بھی موجود تھے۔
*************
UN-441
(ش ح۔ک ح۔ف ر)
(Release ID: 2125897)
Visitor Counter : 20