نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
نائب صدر جمہوریہ ہند کی 98ویں اکھل بھارتیہ مراٹھی ساہتیہ سمیلن کے مندوبین کے ساتھ بات چیت کا متن( اقتباسات)
Posted On:
20 FEB 2025 6:39PM by PIB Delhi
کسی بھی ملک کی ثقافت اس کے تعریف کے لیے کافی ہوتی ہے۔ کسی بھی ملک کا سب سے بڑا اثاثہ اس کا ثقافتی ورثہ ہوتا ہے اور ان سب میں سب سے مستند ستون زبان ہے۔
کسی ملک کی تعریف اس کی ثقافتی دولت، اس کے ثقافتی اخلاق سے کی جاتی ہے اور اس حد تک، بھارت، جہاں انسانوں کی آبادی کا چھٹواں حصہ آباد ہے، منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ دنیا کا کوئی ملک ہمارا موازنہ نہیں کر سکتا۔ یہ ہزاروں برسوں کی تہذیبی اخلاقیات کا حامل ملک ہے۔
یہ ہمارا پابند فریضہ ہے اور ایک لحاظ سے ہماری ثقافت اور زبانوں کی آبیاری کرنا ہمارے بانیوں کا آئینی حکم ہے۔ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے کہ یہ پھولے پھلے، اور یہ صرف ان لوگوں کی دستگیری کے ذریعہ جا سکتا ہے جو اس ادب کو محفوظ کرنے میں مصروف ہیں جو پہلے سے موجود ادب کے فروغ اور اس میں اضافہ کرنے میں مصروف ہیں اور یہ بنیادی بات ہے۔ میں بہت مسرور ہوں کہ یہ تنظیم ایک ایسے پروگرام کا اہتمام کر رہی ہے۔ اس تنظیم سے جوبھی جڑے ہوئے ہیں وہ تعریف کے مستحق ہیں۔
اگر ہم اپنے آئین کو دیکھیں تو ہمارے آئین سازوں نے دور اندیشی اور گہری سوچ کا مظاہرہ کیا ہے اور ہمیں اپنی ثقافت سے روشناس کرایا ہے۔ ’ستیہ میو جیتے‘ پہلے آتا ہے، پھر بل، موہنجوداڑو کی مہر، ہڑپہ تہذیب کی نشانی، گروکل ثقافت اور جب بنیادی حقوق کا سوال اٹھتا ہے تو ہم کیا دیکھتے ہیں؟ ادھرم پر دھرم کی جیت، ماں سیتا، شری رام اور لکشمن ادھرم کو شکست دینے کے بعد سرخرو ہوکر ایودھیا لوٹ رہے ہیں۔
جب پالیسی اصولوں کی بات آتی ہے تو ہندوستان کا آئین کیا تصویر پیش کرتا ہے؟ بھگوان شری کرشن کروکشیتر میں ارجن سے خطاب کر رہے ہیں اور واعظ کا بنیادی منتر کیا ہے؟ اس راستے پر قائم رہو جو حق کا ساتھ دیتا ہے، انصاف کا ساتھ دیتا ہے، اور اس بات سے قطع نظر کہ آپ کے سامنے کوئی بھی ہو ثابت قدم رہو۔
آگے بڑھتے ہیں، ہم ہر دور کی بات آتی ہے، بدھ کی آتی ہے، مہاویر کی بات آتی ہے۔ لیکن جمہوریت کی سب سے بڑی بنیاد -بات چیت ہے۔ اننت وات کو ادب سے گہرا لگاؤ ہے۔ اننت وات ایک طرح سے انتخابات سے منسلک ہے، جہاں لوگ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں اور مختلف خیالات پیش کرتے ہیں۔ اور آئین ہند کے حصہ 15 میں جہاں انتخابات کی بات کی گئی ہے، وہاں کس کی تصویر ہے؟ شیواجی مہاراج کا۔ عظیم شیواجی مہاراج، جو ایک عظیم منتظم تھے ، انہوں نے یہ سبق سکھایا کہ قوم پرستی سمجھوتے سے بالاتر ہے۔ وہ کبھی نہیں جھکے، یہی وجہ ہے کہ آئین سازوں نے سوچ سمجھ کر اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتخابات کے معاملے میں شیواجی مہاراج کی تصویر رکھی ہے۔
اگر آپ مہاراشٹر پر نظر ڈالیں، تو دیکھیں گے کہ اسے متعدد عظیم شخصیات سے جاناتا ہے۔ جب ہم دیکھتے ہیں تو زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں ہے جہاں ہم یہ نہ دیکھ سکیں کہ اس کا ملک پر کتنا بڑا اثر ہو رہا ہے۔ ہم جن کی بھی بات کریں، ادب سرفہرست ہے۔
یہ کہا گیا ہے، اور بجا طور پرکہا گیا ہے کہ کسی علاقے کو فتح کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس علاقے میں جاکر اس پر قبضہ کیا جائے بلکہ اس کی ثقافت پر قبضہ کیا جائے، اس کی زبان کو برباد کر دیا جائے۔ اور یہ خوش آئند بات ہے کہ آزاد ہندوستان میں اور حالیہ برسوں میں زبان پر بہت زور دیا جا رہا ہے۔ ہماری ہر زبان، مراٹھی ان میں سرفہرست ہے، علم کا ذخیرہ ہے۔ پیدائش سے ہی ایسی زبانیں ہیں جن میں ہم خواب دیکھتے اور سوچتے ہیں۔ لیکن یہ دور تقریباً 1200-1300 سال پہلے شروع ہوا۔ تب تک سب کچھ عروج پر تھا، سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ دنیا ہماری طرف دیکھ رہی تھی، ہم علم کا ذخیرہ تھے۔ نالندہ اور تکشیلا جیسے ادارے ہمارے ہاتھ میں تھے، پھر حملہ آور آئے۔ وہ ہماری زبان، ہماری ثقافت، ہمارے مذہبی مقامات کے لیے بہت جابر، بہت ظالم، سفاک تھے۔ بربریت اور انتقام کی انتہا تھی۔ عظمت کو اس نقطہ نظر سے دیکھا جا سکتا ہے- ہمارے دلوں کو ٹھیس پہنچانے کے لیے،ہمارے مذہبی مقام کے بالکل اوپر اپنی جگہ بنا لی۔ اور ہماری زبانوں کو مایوس کیا۔ اگر ہماری زبان بالیدہ نہیں ہوگی تو ہماری تاریخ بھی بالیدہ نہیں ہوگی۔
میں اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں اور آپ اس کے بارے میں عالمی نقطہ نظر رکھ سکتے ہیں۔ اپنی زبان میں سوچنے کی آزادی، اپنی زبان میں پرورش پانے کی آزادی جمہوری نظام میں بھی اچھی طرح سے مربوط ہے۔
اگر فخر کی تعریف کرنی ہے تو یہ مراٹھا فخر ہے۔ اگر بہادری کی تعریف کرنی ہے تو شیواجی مہاراج، رانا پرتاپ ہیں۔
اپنے جب جاتے ہیں ملک میں کہیں بھی اور اچانک ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارے بہادر لوگ کون تھے۔ اب تاریخ میں دوسرے نقطہ نظر سے نہیں دیکھنا ہوگا۔ ہمیں خود کو دیکھنا ہوگا۔ ہماری زبان اور زبانیں یہ ہماری تہذیب کا زیور ہیں۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں کہ ہمیں یہ سکھائے کہ ہماری انکلوزیویٹی کیا ہے؟ بھارت واحد ملک ہے جس کی زبانیں دنیا میں اپنا مقام رکھتی ہیں۔ خواتین و حضرات میں آپ کو بتاتا ہوں، زبان صرف ادب ہی نہیں، زبان ادب سے ماورا ہے کیونکہ ادب عصری منظر نامے، اس وقت کے منظر نامے، اس وقت درپیش چیلنجز اور علم و دانش کو بھی بیان کرتا ہے۔
کیونکہ تکنیکی انقلاب بہت خوفناک ہے، جدید تکنالوجی کی آمد کسی صنعتی انقلاب سے کم نہیں ہے۔ ہر لمحہ مثالی تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ میں مرکزی حکومت اور مراٹھی ادب کے لیے حکومت مہاراشٹر سے گذارش کروں گا کہ وہ تکنالوجی کے بھرپور استعمال کے لیے ہر ممکنہ کوشش کریں تاکہ ہماری زبانوں کا وسیع تر پھیلاؤ ممکن ہو سکے۔
تین دہائی کے بعد ایک بہت اچھی کوشش کی گئی۔ قومی تعلیمی پالیسی کی شکل میں، تبدیلی کی گئی، تبدیلی کا بنیادی مرکز مادری زبان ہے۔ جس زبان کو بچہ بچی سب سے پہلے سمجھتے ہیں۔ جس زبان میں خیالات آتے ہیں۔ یہاں تک کہ سائنسی حالات بھی بتاتے ہیں کہ فطری چیز کیا ہے؟ جو فطری طور پر تیار ہوتی ہے وہ آرام دہ اور پائیدار ہوتی ہے اور سب کی فلاح و بہبود کے لیے ہوتی ہے۔
لابھلے آمہاس بھاگیہ بولتو مراٹھی
جاہلو کھریچ دھنیہ ایکتو مراٹھی!
جب اس کا مطلب دیکھتے ہیں تو بھارت کی تمہید، بھارت کی ثقافت، شمولیت، یکجہتی، مل جل کر کام کرنا، سب نظر آتا ہے۔ آگے-
دھرم، پنتھ، جات ایک جانتو مراٹھی
ایوڈھیا جگات مائے مانتو مراٹھی!
مراٹھی سے میرا لگاؤ میری مادری زبان کا نہیں ہے، لیکن جب میں اسے پڑھتا ہوں تو مجھے شہد کی طرح میٹھا لگتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کے آئین نے جو بنیادی حقوق دیے ہیں، مذہب، فرقہ اور ذات- ان سب سے بڑھ کر ایک ہیں۔ جانتو مراٹھی کتنا بڑا پیغام ہے!
**********
(ش ح –ا ب ن)
U.No:7398
(Release ID: 2105104)
Visitor Counter : 33