نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
دھارواڑ کے زرعی علوم کی یونیورسٹی کے زراعت کے کالج کے امرت مہوتسو کی افتتاحی تقریب میں نائب صدر جمہوریہ کے خطاب کے متن کے اقتباسات
Posted On:
16 JAN 2025 4:22PM by PIB Delhi
سبھی کو نمسکار۔
ممتاز اساتذہ، عملے کے ارکان، سابقہ ساتھیوں اور معزز حاضرین، یہ میرے لیے ایک بڑا اعزاز ہے کہ میں زرعی سائنسز یونیورسٹی، دھارواڑ کے کالج آف ایگریکلچر کے امرت مہوتسو میں شامل ہو رہا ہوں۔
یہ جشن منفرد نوعیت کا حامل ہے، جس میں 75 سال کے سفر کے ساتھ سابق طلباء کے اجتماع کا اہم موقع بھی شامل ہے۔ سابق طلباء کسی بھی ادارے کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اگر آپ غیر ملکی یونیورسٹیوں کے فنڈز پر نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ اِس میں ان کے سابق طلباء نے نمایاں تعاون کیا ہے۔ ہارورڈ کا فنڈ 50 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔
میں آج یہاں موجود معزز سابق طلباء سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنا تعاون دیں۔ آپ کا تعاون جتنا بھی ہو، ادارے سے آپ کا تعلق اہم ہے۔ اس تعلق کے سبب ادارے کی ترقی میں گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور یہاں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی حوصلہ افزائی ہوگی ۔ اس رابطہ کا گہرا اثر پڑے گا، یہ یہاں تعلیم حاصل کرنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کی ترقی میں معاون ثابت ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ سابق طلباء یکجا ہوں گے اور ضروری اقدام کریں گے۔
میں چاہوں گا کہ اس ادارے کے سابق طلباء وائس پریسیڈینٹ اینکلیو آئیں اور میرے ساتھ صلاح مشورہ کریں۔ اس مقصد کے تحت، میں اس ادارے کی خدمات کی تعریف کرتا ہوں جو زرعی علوم کو آگے بڑھا نے میں مدد دے ہے اور کسانوں کی زندگیوں میں تبدیلی لا رہا ہے۔
مجھے وائس پریذیڈنٹ انکلیو میں اس ادارے کے سابق طلباء کا استقبال کرنے اور ان کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے خوشی ہوگی۔ میں ایک مقصد کے ساتھ کر رہا ہوں کیونکہ ملک کے متعدد اداروں کی وجہ سے یہ ادارہ نمایاں ہے۔ زرعی علوم کو آگے بڑھانے اور کسانوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے پر وائس چانسلر، فیکلٹی، عملہ، طلباء کو خراج تحسین، یہ واقعی قوم کی بہت بڑی خدمت ہے۔
میں دوسرے اداروں سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ جو اچھا کام کر رہے ہیں اس کی تقلید کریں۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی اور مسرت ہوئی کہ آپ کی یونیورسٹی کرشی وگیان کیندر کے ساتھ براہ راست رابطہ قائم کر رہی ہے، مبارک ہو!
آپ کی یونیورسٹی ایگری مارکیٹنگ کورسز سے منسلک ہے، آپ کی یونیورسٹی لوگوں کو مارکیٹنگ، زرعی اشیاء کی برآمد کی تربیت دینے میں پیش پیش ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو کسانوں کی زندگیوں کو بدل دیں گی اور انہیں جدید ترین مقام فراہم کریں گی۔ یہ صنعت آئی سی اے آر کے ساتھ ساتھ آئی سی اے آر کی ایک بہت بڑی سلطنت ہے ، بہت سے ادارے، یونیورسٹیاں اور 730 سے زیادہ کرشی وگیان کیندر ہیں۔ انہیں لگن، اختراع کی مثال دینی چاہیے اور یہ ایک قومی خدمت ہوگی کیونکہ انہیں زرعی شعبے کی ترقی کو یقینی بنانا ہے۔ ہمیں ان اداروں کے تعاون کو بھرپور طریقے سے بڑھانے کی ضرورت ہے، تاکہ کسانوں کی زندگی بہت بہتر ہو۔ آئی سی اے آر کا نیٹ ورک، اس کے ادارے شاید دنیا کا سب سے وسیع نیٹ ورک ہے۔ یہ نظام کسانوں کے فائدے کے لیے تمام تر طریقوں کو استعمال کریں۔
خواتین و حضرات میں آپ کو وہاں لے جاتا ہوں جہاں ہم اس وقت ہیں۔ جو اس وقت ہمارے بھارت کی پوزیشن ہے۔ ہم تیزی سے معاشی عروج کی طرف گامزن ہیں، یہ معیشت عروج کی طرف گامزن ہے۔ ہم اتنی تیزی سے ترقی کرنے والی سب سے بڑی عالمی معیشت ہیں۔ ہم ایک سنگ میل سے دوسرے سنگ میل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہم دو سال میں پانچویں بڑی عالمی معیشت سے تیسری بڑی عالمی معیشت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہم بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں غیر معمولی ترقی کر رہے ہیں۔ ہمیں ڈیجیٹائزیشن اور تکنیکی رسائی حاصل ہے۔ ہماری قومی شبیہ، وزیر اعظم کی شبیہ اس ملک کی تاریخ میں اب تک کی بلند ترین ہے۔
دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت نے قوم کو خواہشات کی حامل ایک قوم میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہم آج دنیا کی سب سے زیادہ خواہش مند قوم ہیں کیونکہ سڑک کے بعد، ریل کے بعد، ہوا کے بعد، ڈیجیٹل کنیکٹوٹی کے بعد، آپ مزید چاہتے ہیں۔ بیت الخلاء کے بعد، پانی کے پائپ کے بعد، گیس کے کنکشن کے بعد، آپ کو اور کچھ چاہیے۔ سستی رہائش کے بعد، آپ مزید بہت کچھ چاہتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر بینکنگ شمولیت کے بعد، آپ مزید بہت کچھ چاہتے ہیں۔ کیونکہ یہ چیزیں ہمارے خواب کے دائرے سے باہر تھیں۔ ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہمارے عام لوگوں کو دیہی علاقوں میں یہ فوائد حاصل ہوں گے۔ ایک بیت الخلا، پائپ پانی، گیس کنکشن، سستی رہائش، سڑک رابطہ، انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی۔ ہم نے کبھی اس کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ اس لیے، وزیراعظم نے ملک میں ایک ماحول بنایا- یہ دل مانگے مور’’۔
ہم بڑی توقعات رکھنے والی قوم بن چکے ہیں اور بلند توقعات کے اس دور میں زرعی شعبے سے بھرپور تعاون کرنا ہوگا۔ زرعی شعبہ بنیادی طور پر آپ جیسے ادارے چلاتے ہیں۔ مہاتما گاندھی نے زرعی شعبہ کی اہمیت کو محسوس کیا اور اسے ہندوستان کی اقتصادی اہمیت کا حامل قرار دیا۔
خواتین و حضرات، اسے آج پہلے سے کہیں زیادہ جواز حاصل ہے ۔ ہمارے پاس ایک کے بعد ایک وزیر اعظم ہیں، جنہوں نے کسانوں کا خیال رکھا، لال بہادر شاستری، ‘‘جئے جوان، جئے کسان’’ پھر ہمارے پاس اٹل بہاری واجپائی تھے جنہوں نے کسان دیوس شروع کیا جب پانچویں وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ نے 100 سال مکمل کئے۔ انہوں نے جئے جوان، جئے کسان، جئے وگیان کا اضافہ کیا۔ پھر ہمارے پاس نریندر مودی جی کی شکل میں ایک ایسا وزیر اعظم ہےجنہوں نے 60 سال بعد لگاتار تیسری بار اقتدار میں رہنے کا ریکارڈ بنایا اور انہوں نے تحقیق و ترقی میں اضافہ کیا۔ ان سب کو حقیقی شکل دینے میں اہم کردار ، آپ جیسی تنظیموں کا ہے۔
زرعی شعبہ میں تابناکی آئے گی، قوم کا مستقبل روشن ہو گا، قوم پھولے گی پھلے گی۔ معیشت وسعت پائے گی، عروج پر آئے گی۔ مجھے بہت خوشی ہوئی جب میں نے وزیر تجارت پیوش گوئل کا اعلان سنا۔ ہلدی سے متعلق قومی بورڈ ، ہلدی کے لیے ایک بہترین قدم۔ پانچ سال میں پیداوار دوگنی ہو جائے گی، برآمداتی منڈی تشکیل دینے کے لیے مثبت رجحان پیدا کیا جائے گا ۔ کسانوں کو فائدہ ہوگا، کسان اس کی قیمت میں بھی اضافہ کریں گے اور میں آپ کو دوستو، ہلدی کی اہمیت بتاتا ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ ہلدی کی طبی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ تو کوئی میرے جیسا کسان کا بیٹا بیوپاری کی دکان پر گیا اور کہا ‘‘ہلدی (اریشنہ) کا بھاؤ کیا ہے؟’ اس نے کہا، ‘چوٹ بہت گہری ہے؟’ قیمت کا تعین چوٹ کی نوعیت سے ہوتا ہے۔ ٹرمرک بورڈ بناکر بھارت سرکار نے ہلدی کو ہیلینگ ٹچ دیا ہے۔
میں حکومت سے پرزور مطالبہ کرتا ہوں کہ اس طرح کے مزید بورڈز بنائے تاکہ ہر زرعی پیداوار کی قدر میں اضافہ اور خصوصی طریقۂ کار مل سکے۔ دوستو، وقت آگیا ہے کہ زرعی شعبے کا تجزیہ کیا جائے اور بنیادی دباؤ سے نجات دلائی جائے۔ حکومت بہت کچھ کر رہی ہے، لیکن کسان خراب موسم پر منحصر ہے۔ مارکیٹ کے غیر متوقع حالات، اگر قلت ہے تو وہ سہتا ہے۔ اگر وافر مقدار میں ہے تو اسے تکلیف ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں یہ دیکھنے کے لیے طریقے وضع کرنے ہوں گے کہ ہمارے کسانوں کی معاشی اور ذہنی صحت اچھی رہے ۔
کسانوں کی پریشانی کو دور کرنے کے لیے فوری قومی توجہ درکار ہے۔ کسانوں کو معاشی تحفظ کی ضرورت ہے۔ ہم اس قوم میں ان پریشانیوں کے متحمل نہیں ہو سکتے جو ابھر رہی ہے اور عروج کو روکا نہیں جا سکتا اور یہ عروج پہلے کبھی نہیں تھا کہ کسانوں کی پریشانیوں کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ وقت تمام مسائل کے حل کا نچوڑ ہے لیکن میں یہ کہوں گا کہ جب کسانوں کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی بات آتی ہے تو وقت کی اصل اہمیت ہے۔
حکومت کام کر رہی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ہر کوئی حل تلاش کرنے کے لیے مثبت ذہن کا حامل ہو ۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ زرعی دباؤ کا اثر زراعت کے شعبے سے باہر ہوتا ہے کیونکہ کسان کی طرف سے زراعت کو نسلی میراث کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ آئی سی اے آر اور زراعت کو تکنیکی مدد، اقتصادی مدد، ویلیو ایڈیشن، اور منصفانہ قیمتوں کے تعین کے لیے باہمی تعاون کو مضبوط کرنا چاہیے تاکہ زرعی شعبے پر دباؤ کم ہو۔
وکست بھارت اب ہمارا خواب نہیں رہا، وکست بھارت ہمارا مقصد ہے۔ وکست بھارت ہماری مخصوص منزل ہے لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس میں تیزی آئے گی۔ جب ہم فارم سیکٹر پر پوری توجہ دیں گے تو یہ تیزی سے آگے بڑھے گا۔ گودام، مارکیٹنگ، ویلیو ایڈیشن، اور ڈیری مینجمنٹ کی ترقی کے ذریعے فارم سیکٹر کو بااختیار بنائیں۔
زرعی اصلاحات ناگزیر ہیں کیونکہ ہم ہر روز بدل رہے ہیں۔ یکسر تبدیلی ہے۔ بہت کچھ کیا جا رہا ہے لیکن انڈین کونسل آف ایگریکلچر ریسرچ اور آپ جیسے اداروں کو اب کسانوں پر مرکوز ہونا پڑے گا۔ ہر سائنسی ترقی کا تعلق زمینی حقیقت سے ہونا چاہیے۔ اس کا حقیقی اثر ظاہر ہونا چاہیے اور اسی لیے میں نے آپ کی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تعریف کی۔ زرعی کاروبار، برآمدی علمی مراکز، ان کی ضرورت ہے۔ کسانوں کے بچے متوجہ ہوں گے، وہ ایسی سرگرمیوں میں شامل ہوں گے جن سے وہ پیدائش سے ہی واقف ہیں۔ میں آپ کو سراہتا ہوں۔
آپ کے اقدامات اس بات کی ایک مثال ہیں کہ دوسروں کو کیسےکام کرنا چاہیے۔ ہم کہتے ہیں، کسان ملک کا کھانا فراہم کرتا ہے، ملک کا ودھاتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ کسان اس سے کہیں زیادہ ہے۔ آج کسان ہماری ریڑھ کی ہڈی ہے ۔ جہاں تک معیشت کا سوال ہے ، کسان سماجی برابری کا سب سے بڑا محافظ ہے۔ سماجی استحکام، سماجی ہم آہنگی، سماجی امن ان سب کے راستے کسان کے کھیت سے نکلتے ہیں۔
کسان ہمارے جی ڈی پی میں بڑے پیمانے پر تعاون دیتا ہے، آپ کو اس کا اعتراف کرنا چاہیے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کسان ہماری آبادی کے ایک بڑے حصے کو مصروف رکھتا ہے۔ سرگرم ، کسان کی خوشی ہر ایک کی خوشی کا باعث بنے گی۔ مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی بھی ہے اور میرا غور و فکر کا بھی دل چاہتا ہے۔ زراعت پر مبنی صنعت، زرعی پیداوار پر مبنی صنعت۔ ٹیکسٹائل ہے، خوراک ہے، خوردنی تیل ہے اور بہت سی چیزیں ہیں۔ وہ خوشحال ہو رہے ہیں، منافع کما رہے ہیں۔ ہمارے کسانوں کو منافع میں برابر کا تعاون دے رہے ہیں۔ ان اداروں کو کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے اپنا سی ایس آر فنڈ ضرور دینا چاہیے۔ زرعی شعبے کی تحقیق کے لیے انہیں اس سمت میں آزادانہ طور پر سوچنا چاہیے، کیونکہ کھیتی کی پیداوار ان کی لائف لائن ہے اور دل کی دھڑکن کسان کے کنٹرول میں ہے۔ ہمیں تین کام کرنے ہیں۔
ایک، ہمارے کسان کو خوش رکھیں۔ دو، ہمارے کسان کو خوش رکھیں اور، تین، ہمارے کسان کو کسی بھی قیمت پر خوش رکھیں۔
زرعی شعبے کو تبدیلی کی ضرورت ہے، تبدیلی مسلسل ہے۔ ٹیکنالوجی کا انضمام، ٹیکنالوجی تیزی سے بدل رہی ہے لیکن کسان اب بھی پرانے ٹریکٹر سے چمٹے ہوئے ہیں۔ ٹریکٹر ایک ایسا شعبہ ہے جس میں سرکاری سبسڈی سب سے زیادہ ہے۔ کسان کو ٹیکنالوجی کو اپنانا چاہیے، ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لیے آمادہ کیا جانا چاہیے اور اس کے لیے کرشی وگیان کیندرکو اصل مرکز ہونا چاہیے۔ ہر کرشی وگیان کیندر عام طور پر 50,000 کسانوں کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ اگر وہ 50,000 کسان درحقیقت کرشی وگیان کیندر سے منسلک ہو جائیں تو زراعت کے شعبے کے لیے زراعت میں ایک مثبت انقلاب آئے گا۔
دوستو، ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جب کسان معاشی طور پر ٹھیک ہوتا ہے، معیشت چلتی ہے کیونکہ کسان کی خرچ کرنے کی طاقت ہوتی ہے۔ جب کسان خرچ کرتا ہے تو معیشت خود بخود چلتی ہے۔ لہٰذا، ایک اور مثبت اثر پڑے گا زرعی شعبے میں کوئی غیر فعال اثاثہ نہیں ہوگا ۔ ہمیں کسان پر دھیان دینا چاہیے جیسا کہ ہم آئی سی یو میں ایک مریض پر توجہ دیتے ہیں۔ آئی سی یو سے ایک مریض جب پوری طرح صحت مند ہوکر باہر آتا ہے تو وہ بہت شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔
انڈین کونسل آف ایگریکلچر ریسرچ کو بے مثال رسائی حاصل ہے جو حقیقی طور پر نظر آنی چاہیے۔ یہ بات ہر کسان کے کانوں میں ضرور گونجتی ہے، ان کی شناخت انڈین کونسل آف ایگریکلچر ریسرچ کی سرگرمیوں سے ہونی چاہیے۔
پی ایم کسان سمّان ندھی ، ایک بڑی اختراعی اسکیم، پہلے ہی تقریباً 3.5 لاکھ کروڑ روپے کسانوں کے لیے جا چکے ہیں، جن کی تعداد 10 کروڑ ہے، لیکن میں چاہوں گا اور پرزور تعریف کروں گا کہ فارم شعبے کو جو بھی سبسڈی کسی بھی شکل میں دی جائے، وہ آپ کی کھاد ہو۔ یا دوسری صورت میں، یہ براہ راست کسان تک پہنچنا چاہیے۔
کسان کو فیصلہ کرنے دیں، کھاد کی سبسڈی بھی جو استعمال ہوتی ہے، اس حکومت نے پہلی بار کیا ہے، کسی اور حکومت نے نہیں کی۔ پہلے حکومت کھاد کی قیمت پر سبسڈی دیتی تھی لیکن مارکیٹ قیمت کا تعین کرتی تھی۔ پہلی بار حکومت نے ڈی اے پی کی قیمت 1350 روپے مقرر کی ہے اور کہا ہے کہ باقی ہم برداشت کریں گے لیکن زرعی ماہرین کو سوچنا چاہیے کہ اگر یہ امداد براہ راست کسان تک پہنچتی ہے تو یہ کسان کو کیمیاوی کھاد کے متبادل کی طرف لے جائے گی۔
کسان ان فنڈز کو نامیاتی اور قدرتی طریقے سے استعمال کر سکتا ہے۔ جب تک ہر ہندوستانی کی فی کس آمدنی آٹھ گنا نہ ہوجائے۔ ہم وِکست بھارت نہیں بن سکتے۔ وزیراعظم اس کے لیے پرعزم ہیں۔ تمام اقدامات کیے جا رہے ہیں، بنیادی ڈھانچہ، سہولیات، آگے بڑھنے میں دوسروں کی مدد ، اسٹارٹ اپ، ایک یونیکورن لیکن کسان کو اس میں آٹھ گنا اضافہ بھی کرنا چاہیے۔ یہ ایک چیلنج ہے اورعزائم ایسے اداروں سے پیدا ہوتے ہیں۔ اسے ذہن میں رکھنے کے لیے آپ کو اپنے مقاصد کو ترجیح دینی چاہیے۔
خواتین و حضرات، میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے قابل ہمیشہ ہی نہیں رہوں گا لیکن میں آپ کے لیے ایک فکر کا موضوع چھوڑے جا رہا ہوں۔ میں نے جب بھارت کو دیکھا تھا، وزیر کی حیثیت سے 1990 میں، اور جو آج دیکھ رہا ہوں، اس کا نہ تو میں نے تصور کیا تھا نہ اس کا خواب دیکھا تھا نہ اس کا اندازہ لگایا تھا۔ میں نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ دنیا کے بڑے ادارے بھارت کو ساباشی دیں گے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا کہنا ہے کہ ہندوستان سرمایہ کاری اور موقعوں کے لیے ایک پسندیدہ عالمی مرکز ہے۔ عالمی بینک ستائش کر رہا ہےکہ ہندوستان 140 کروڑ عوام کے لیے جو تکنیکی مداخلت ہے، ڈیجیٹل موافقت ہے، قابل رسائی ہے، وہ چار دہائیوں میں بھی ممکن نہیں ہے۔ ہمارا ایک سوال ہے کہ ہماری ایک ہی بنیاد ہے کہ جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ ہمیں اور سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ زیادہ کیوں نہیں؟ 2G، 3G، 4G، 5G، اب 6G کے بغیر دل ہی نہیں لگتا۔
بھارت ان منتخبہ ممالک میں ہے جو 6G کو تجارتی شکل دینے میں سرگرم ہیں۔ کوانٹم کمپیوٹنگ جیسی زبردست بات ، دنیا کے پانچ – چھ ملک ہیں، بھارت ان میں سے ایک ہے ۔ بھارت اس صدی کا مرکز ہے اور اس سب کے لیے ہمیں اپنے ان داتا کو سلام پیش کرنا چاہیے، ان داتا کا احترام کرنا چاہیے، ان داتا کے لیے سازگار ماحول بنانا چاہیے اور ان داتا کی جتنی خدمت کریں ہمیں وہ دوگنی ملے گ۔
شکریہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ش ح ۔ ا ب۔ ت ح ۔
U - 5286
(Release ID: 2093509)
Visitor Counter : 12