نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
خواتین صحافیوں کے وفد سے نائب صدر کے خطاب کا متن (اقتباسات)
Posted On:
24 DEC 2024 3:54PM by PIB Delhi
محترم خواتین، سب کچھ ریکارڈ میں جائے گا۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ کچھ بھی ریکارڈ میں نہیں جائے گا۔ چیئرمین کہتے رہتے ہیں، کہتے رہتے ہیں۔ یہ ایک اچھا دن ہے۔ سب کچھ ریکارڈ پر آئے گا۔ ریکارڈ کا حصہ بنیں۔ ہم سب کے لیے رہنمائی کا ریکارڈ رہے گا۔
آپ سبھی لوگوں کو میری جانب سے کرسمس کی مبارکباد، نئے سال کی مبارکباد۔ ایک بہت ہی خاص وجہ سے مبارک باد کیونکہ ملک ،ہندوستانی آئین کو اپنانے کی صدی کے آخری چوتھائی حصے میں داخل ہو گیا ہے۔ اس عظیم سفر کا حصہ بننے کے لیے آپ سب کو مبارک باد ، جس کا تصور ہم نے اپنی جوانی کے دور میں بھی نہیں کیا تھا۔ اور وہ یہ کہ ایک ترقی یافتہ قوم، بھارت اب کوئی خواب نہیں رہا۔ یہ ایک مشن ہے، جسے حاصل کیا جا سکتا ہے اگر اس سے پہلے نہیں تو س اس وقت حاصل کیا جا سکتا ہے جب ہندوستان 2047 میں اپنی آزادی کی صد سالہ جشن منائے۔
میں 1989 میں پارلیمنٹ میں پہنچا تھا ۔ یہ ایک بڑی تبدیلی تھی۔ یہ تبدیلی اس لیے آئی تھی کیونکہ ملک میں بدعنوانی ، جسے اس وقت بوفورس کہا جاتا ہے ، کے خلاف عوامی لہر تھی۔
اور ایک پارٹی جس کو 400 سے زیادہ کی اکثریت حاصل تھی، اپوزیشن میں آ گئی۔ مجھے یاد ہے کہ پارلیمنٹ میں ہمارے درمیان عقل، طنزو مزاح، حاضر جوابی تھی ۔ حکمراں جماعت اور حزب اختلاف کے درمیان بات چیت ہوتی تھی ۔ انہیں اسے ٹریژری بنچ کیوں کہنا چاہئے؟ کیا کوئی خزانہ ہے ؟ سوچئے ۔ میں کہوں گا حکمراں اور حزب اختلاف ۔ مجھے یاد ہے جب صحافی پریس گیلری میں تھے اور ہمارے وزیر اعظم وی پی سنگھ جو صرف ایک لائن میں اپنی بات کہنے کے لیے مشہور تھے ، حزب اختلاف کے اس وقت کے لیے راجیو گاندھی کے مطابق اپنی بات کہنے کے بعد گیلری کی طرف دیکھتے تھے۔ راجیو گاندھی نے مداخلت کرتے ہوئے کہا محتر م اسپیکر! ، وزیر اعظم ہر بار بات کرنے کے بعد پریس گیلری کی طرف دیکھتے ہیں اور وی پی سنگھ کی طرف سے جواب آیا، لیکن آپ کے طرح میں ہر بار ان پر مسکراتا نہیں ہوں۔
جب مجھے پارلیمانی امور کا قلمدان ملا۔ پریس روم میرے کمرے کے ساتھ ہی تھا۔ چنانچہ میرے پاس دو بہت ہی نامور حضرات تھے جنہوں نے ہندوستانی سیاست کی معمر شخصیات تصور کئے جاتے تھے۔ وہ مجھے آشیرواد دینے کے لیے میرے کمرے میں آئے ۔
ایک چودھری بنسی لال ، جن کی بہو راجیہ سبھا کی معزز رکن ہیں اور این کے پی سالوے، جن کے بیٹے ہریش سالوے جو قومی اور عالمی سطح پر ہمارے لیے باعث فخر بنے ہوئے ہیں۔ وہ دونوں میرے کمرے میں آئے۔ حالانکہ ان کی اور میری عمر میں بڑا فاصلہ تھا۔ انہوں نے ان حالات میں اقتدار کا لطف اٹھایا، میں شاید سب سے جونیئر وزیر تھا، اور کہا جگدیپ، تمہارا کمرہ صحافیوں کے کمرے کے پاس ہے،بھگوان تمہاری حفاظت کرے۔
اور میں نے ان میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھا۔ رجت شرما، پربھو چاولہ، ہریش گپتا، دعا صاحب، ہریش شنکر ویاس اور دیکھئے ، نیرجا چودھری، جنہیں چودھری چرن سنگھ ایوارڈ دینےکی ہمیں خوش نصیبی حاصل ہوئی تھی ، صرف ایک دن پہلے میں نے انہیں خوش آمدید کہا۔
لیکن صحافی بہت تیز ہوتے ہیں۔ نیرجا جی نے بہت اچھی کتاب لکھی ہے۔ انہوں نے "وزیراعظم کیسے فیصلہ کرتے ہیں" میں موجودہ وزیر اعظم کا احاطہ نہیں کیا ہے۔
لیکن جب مجھے پتہ چلا کہ ایک ادارہ ہے ، ویمن جرنلسٹ ویلفیئر ٹرسٹ۔
اس کی ضرورت ہے۔ یہ ایک دن بھی جلدی نہیں آیا۔ اس کی آبیاری کی ضرورت ہے۔ یہ ایک بہت مؤثر پلیٹ فارم ہونا چاہیے کیونکہ صحافت ایک مشکل کام ہے۔
صحافتی اخلاقیات کو برقرار رکھنے کے لیے، صحافت میں تحقیق کا عنصر لانے کے لیے ان شعبوں کو دیکھنے کے لیے جو حکومت آپ کو نہیں دکھانا چاہتی، آپ کو ایک فلاحی ٹرسٹ کی ضرورت ہے اور آپ کو ایک مضبوط باڈی، قانونی ادارے کی ضرورت ہے، نہ کہ صرف فزیکل باڈی ، تاکہ آپ کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ اگر آپ پوری دنیا کا جائزہ لیں تو آپ کو خواتین، صحافی اور اینکرز ہمیں قابل فخر نظر آئیں گی۔ اور ہمارے ملک میں یہ تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ اصل میں، یہ وقت کی بات ہے جب اس مخصوص میدان میں آپ کی صنف کا غلبہ ہوگا۔
لیکن مجھے لگتا ہے کہ آپ نے اچھی طرح سے کام لیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اچھی شروعات کام کو آسان کر دیتی ہے۔ بہت سے لوگ سوال کریں گے کہ اس عمر میں بھی آپ یہی کہہ رہے ہیں لیکن میں صرف اپنی بات پر زور دے ۔
پہلے سیمینار نے انسانی سوچ کو متحرک کیا۔ آپ نے بہت اچھے موضوع کا انتخاب کیا۔ کیا یہ امرت کال ہندوستانی جمہوریت کی خواتین کے لیے ہے؟ اور کیوں نہیں؟
سال 2023 میں ایک عہد کی ترقی ہوئی، 3 دہائیوں کی ناکامیوں کے بعد، جہاں ارادہ تھا لیکن کوئی کوشش نہیں ہوئی۔ کوشش تھی لیکن ارادہ نہیں تھا۔ لیکن یہ ایک آئینی طور پر سود مند نہیں بن سکا۔ لیکن 2023 میں، آپ کے پاس ایسی گیم چینجر آئینی ترمیم تھی، ریاستی مقننہ اور لوک سبھا میں خواتین کے لیے ایک تہائی ریزرویشن۔ مجھے یقین ہے کہ یہ راجیہ سبھا میں بھی ہوگا، وقت کی بات ہے۔ بڑی بات ہے ۔ فوراً کیوں نہیں ۔ جب میں نوٹس کرتا ہوں تو میرا دل دکھتا ہے کہ آج ہی کیوں نہیں کر دیتے ؟
اب میں سمجھ سکتا ہوں کہ لاعلم افرد اس کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ لیکن جب باشعور لوگ اپنے سیاسی فلسفے کی تشہیر کے لیے بڑی آبادی کی کم علمی کا فائدہ اٹھاتے ہیں تو عوامی مفاد کے خلاف اس سے بڑھ کرکچھ اور نہیں ہو سکتا۔ ایک بات تو طے ہے کہ یہ ایک زمینی حقیقت بنے والی ہے۔ اور تصور کیجئے کہ جب یہ روبہ عمل آئے گا ، تو ایک تہائی سے زیادہ ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں ہوں گی، کیونکہ ایک تہائی سیٹیں ریزو ہیں۔ وہ اب بھی غیر محفوظ زمرے میں الیکشن لڑ سکتی ہیں۔ پھر اس ریزرویشن کا ایک معیاری زاویہ ہے۔ یہ عمودی اور افقی ہے۔ لہذا جب کہ ایس سی اور ایس ٹی کے لیے پہلے سے ہی ریزرویشن موجود ہے۔ اس میں بھی خواتین کے حصے میں ایک تہائی سیٹیں آئیں گی۔
لہذا، یہ واقعی ہندوستانی جمہوریت میں خواتین کے لیے ایک امرت کال ہے۔ آپ پارلیمانی اداروں میں اپنی طاقت کے بل بوتے پر پالیسی سازی، فیصلہ سازی، گورننس کا حصہ بنیں گی ۔ ان کا تحفظ صرف میڈیا ہی کر سکتا ہے۔ لیکن اگر میڈیا ہماری ساکھ کو تباہ کرنے والا بن جائے تو ہم زمین پر کیا کر سکتے ہیں؟
لیکن اگر آپ کرتویہ پتھ پر 2024 کے یوم جمہوریہ کے پریڈ کا مشاہدہ کریں گے تو پائیں گےہے بھگوان ، مرد تودکھ ہی نہیں رہے تھے۔ پریڈ میں، ہتھیاروں میں، آسمان میں، ہر جگہ آپ خواتین ہی چھائی ہوئی تھیں۔ اور کیوں نہیں؟ ہندوستان کی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے ایک ریکارڈ قائم کیا، پہلی خاتون وزیر خزانہ بننے کا ۔ اور صرف ایک، مرد شامل ہیں، جس نے لگاتار اتنے سالوں تک بجٹ پیش کیا۔ بہت باصلاحیت اور میں آپ کو بتاتا چلوں کہ کوئی وزیر خزانہ یا فنانس ڈائریکٹر مقبول نہیں ہو سکتا۔ مقبولیت حاصل نہیں کرسکتا۔
اگر کوئی وزیر خزانہ مقبول ہو جائے تو آپ تصور کر سکتے ہیں، ہولوکاسٹ آنے والا ہے، لیکن دیکھیں کہ اس نے 10 سالوں میں کیا کیا ہے۔ ایک ایسا کارنامہ جس میں ایک عورت نے بڑا رول ادا کیا ہے۔
ہم فریجائل 5 زمرے کے تحت لڑکھڑاتی ہوئی معیشت تھے اور حیران نہ ہوں، میں اس وقت وزیر تھا جب ہمارا سونا سوئٹزرلینڈ کے دو بینکوں میں بھیجنے کے لیے، ہوائی جہاز سے بھیج دیا گیا، کیونکہ زرمبادلہ تقریباً ایک ارب امریکی ڈالر تھا۔ اور وہ اپنے کام اور حکومتی پالیسیوں اور وزیر اعظم کی قیادت سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ 650 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کا زرمبادلہ، مواقع پر 700 بلین ڈالر تک پہنچ جاتا ہے۔
ہم اب پانچویں سب سے بڑی عالمی معیشت ہیں اور جاپان اور جرمنی اگلے ایک یا دو سال میں تیسرے نمبر پر آ جائیں گے۔ لیکن پھر ہمارا کردار ختم نہیں ہوتا۔ ترقی یافتہ قوم بننے کے لیے ہماری آمدنی آٹھ گنا بڑھانی ہوگی۔ یہ ایک مشکل کام ہے لیکن قابل حصول ہے ۔
اس لیے مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت میں، جو غیر معمولی طور پر امید اور امکان کا ایک ماحولیاتی نظام دیکھ رہا ہے، آپ کا کردار اہم ہے۔ چیلنجوں کا مطلب صرف آپ کے لیے مواقع ہیں۔ اپنے پیشے میں، آپ کو تغیر پذیر ٹیکنالوجیز کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ آپ کو اس کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ اور اس کو تیزی سے سیکھیں۔ کیونکہ کیونکہ گمراہ کن معلومات صرف سنسنی پیدا کرنے کےلیے ہی پھیلائی جاتی ہیں۔
اکثر میں نے دیکھا ہے کہ ان وقعات کو منظم طریقے سے ان قوتوں کے ذریعے فروغ دیا جاتا ہے جو ملکی مفادت کے منافی ہیں۔
ان کا مقصد ہمارے آئینی اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجانا، صدر کو بدنام کرنا ہے، اور آپ کو معلوم ہے کہ صدر کون ہے؟ اس ملک کی صدر بننے والی پہلی قبائلی خاتون۔ آپ کی ہی طرح خاتون۔ آپ جانتے ہیں کہ انہیں کیسے مخاطب کیا گیا تھا۔
وزیر اعظم نے تاریخ رقم کی ہے۔ آزادی کے بعد سے وہ دوسرے وزیر اعظم ہیں جن کی مسلسل تیسری میعاد ہے ۔ اور تیسری مدت کار میں ایک ایسے وقت میں جب سیاست بہت چیلنجنگ ہے۔ یہ انتہائی مثالی ہے ۔ حالانکہ کچھ لوگ اب بھی اس سے متفق نہیں ہیں۔
آپ ہمارے آئینی اداروں کو نشانہ بناتے ہیں ۔ میں اپنے لیے کچھ نہیں کرتا لیکن نائب صدر کے خلاف نوٹس دیکھئے ۔ بس اس پر نظر ڈالیئے ۔
ذرا ان کے دیے ہوئے چھ لنکس کو دیکھ لیں۔ آپ چونک جائیں گے۔ چندر شیکھر جی نے کہا تھا، سبزی کاٹنے کے لیے کبھی چاقو سے بائی پاس سرجری نہ کرو۔ وہ تو سبزی کاٹنے والا چاقو بھی نہیں تھا۔ جس شخص نے میرا نوٹس تحریر کیا تھا۔ اس کا چاقو زنگ آلود تھا۔ وہ جلدبازی تھی۔ میں اسے پڑھ کر دنگ رہ گیا۔ لیکن میں حیران ہوں کہ آپ میں سے کسی نے اسے نہیں پڑھا۔ پڑھتے تو کئی دن سو نہیں پاتے۔
میں بتاتا ہوں کہ نوٹس کیوں آیا۔
کسی بھی آئینی عہدے کو صحیح ثابت کرنا ہوتا ہے ، اسے عظمت ، سخت خصوصیات، آئین پسندی کو درست طریقے سے ثابت کرنا ہوتا ہے۔ عہدے کا وقار برقرار رکھتے ہیں ۔ ہم حساب برابر نہیں کرتے ہیں ۔ جب معاملہ اٹھایا گیا، حزب اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی ،وہ بعد میں حزب اختلاف لیڈر بنے ۔ یہ راجیہ سبھا میں تھا۔
ایوان کے اس وقت کے لیڈر پیوش گوئل نے یہ مسئلہ اٹھایا۔ میں نے فیصلہ کیا۔ اسے پڑھیں۔ اگر کچھ غلط ہے تو رہنمائی کرنے میں مجھے خوشی ہوگی۔ انہوں نے اس میں کوئی رعایت نہیں کی۔ لیکن وہ ہضم نہیں کر سکے کہ راجیہ سبھا چیئرمین ایسا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں۔
میں جانتا ہوں کہ یو پی اے کی چیئرپرسن ایک شریف خاتون ہیں، لیکن انہوں نے اس آئینی عہدے کے خلاف کہا جس کا فیصلہ کرنے کے لیے مجھے بلایا گیا تھا۔ میں نے فیصلہ کیا۔ میڈیا نے نہیں پڑھا۔ کیوں؟
کل کسان دیوس تھا، ملک کے کسانوں کے لیے بہت اہم، دیہی ترقی کے لیے اہم۔ میں نے 730 سے زیادہ کرشی وگیان کیندروں میں کچھ ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔ انسٹی ٹیوٹ آف ایگریکلچرل ریسرچ کونسل، انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ میں ضرور کچھ ہو رہا ہے۔ خراج تحسین پیش کرنے والی آپ کی تصویر مین اسٹریم میڈیا میں نہیں آئی ہے۔ باقی کو چھوڑ دو۔ مجھ پر جو بجلی گری ہے کیوں کہہ رہا ہوں؟ اس لیے میں کہہ رہا ہوں کہ تم اکیلے ہو۔ خبر وہ ہے جسے کوئی چھپانا چاہے، وہ خبر ہے۔ آپ آخری امید ہیں۔
کیونکہ جمہوریت کی کامیابی کے لیے دو چیزیں لازم و ملزوم ہیں۔ انہیں ہونا ہی چاہئے ۔ ایک، اظہار۔ اظہار رائے کا حق جمہوریت کی تعریف بیان کرتا ہے۔ اگر اظہار کی ایلیت رکھتا ہو، نہ کہ سمجھوتہ کیا ہوا ہو ، یا جبر کا نشانہ بنایا گیا ہو؟ اس صورت میں جمہوری اقداربے معنی ہو جاتے ہیں۔ یہ جمہوری ارتقاء کے خلاف ہے۔ اور دوسرا مکالمہ۔ اور مکالمے کا مطلب ہے، اس سے پہلے کہ آپ اپنی آواز بلند کریں، اپنے کانوں کو دوسرے کے نقطہ نظر کو سننے کا موقع فراہم کرنے دیں۔ اگر یہ دونوں چیزیں نہ ہوئیں تو جمہوریت نہ تو پروان چڑھ سکتی ہے اور نہ ہی پھل پھول سکتی ہے۔ اور جو ہم نے پارلیمنٹ میں دیکھا ہے۔
کیا آپ نے 10، 20، 30 سالوں میں کوئی بڑی بحث دیکھی ہے؟ کیا آپ نے ایوان میں کوئی بڑی شراکت دیکھی ہے؟ ہم غلط وجہ سے خبروں میں ہیں۔ ہم نے نظم و ضبط کے ساتھ جینا سیکھا ہے جو کہ صرف بدنظمی ہے اور کچھ بھی نہیں۔ لیکن دباؤ آپ کی طرف سے آنا چاہئے۔ احتساب میڈیا کو نافذ کرنا ہوگا کیونکہ میڈیا ہی عوام تک پہنچانے کا واحد ذریعہ ہے۔ میڈیا عوام کے ساتھ رابطہ قائم کرسکتا ہے، عوامی نمائندوں پر دباؤ پیدا کرسکتا ہے۔
جب ہمیں جمہوریت کے ان مندروں کے تقدس کا احترام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، تو ہم روز بروز ان کی بے حرمتی ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
راجیہ سبھا میں چیئرمین کی نشست پر بیٹھنے سے پہلےآپ دیکھیں گے ٹیبل پر ہمیشہ 50فیصد سے زیادہ خواتین ملیں گی۔ راجیہ سبھا،ٹیبل کا انتظام 50 فیصد سے زیادہ خواتین سنبھالتی ہیں۔ جب بات وائس چیئرپرسن کی ہو تو ہر سیشن کے لیے میں نے 50فیصد سے زیادہ خواتین کو نامزد کیا ہے۔ اور جب ستمبر کا وہ عظیم دن تھا، خواتین ریزرویشن بل پر بحث ہوئی۔ آئینی مجبوری کی وجہ سے میری اور ہری ونش جی کی مدد سے 17 خواتین پارلیمنٹرین نے صدارت کی۔ وہ تاریخ بن گیا۔ اور ان کی کارکردگی قابل ذکر تھی۔ غیر ملکی وفود میں آپ کی صنف سے تعلق رکھنے والے ملازمین اور ممبران پارلیمنٹ دونوں کو ان کا حق مل رہا ہے۔
***
ش ح۔ ع و ۔ خ م
U. No. 4573
(Release ID: 2088058)
Visitor Counter : 66