نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
چودھری چرن سنگھ ایوارڈز 2024 کے موقع پر نائب صدر کے خطاب کا متن (اقتباسات)
Posted On:
23 DEC 2024 9:04AM by PIB Delhi
خواتین و حضرات، سب سے پہلے میری مبارکباد، ایوارڈ حاصل کرنے والوں کو میری طرف سے مبارکباد۔ چاروں ایوارڈ یافتہ افراد نے اپنی مستند شراکت کے لیے ساکھ کی مہر ثبت کی ہے۔ وہ معاشرے میں معروف ہیں اور وہ صحیح وجہ سے مشہور ہیں۔ اگر میں آپ میں سے ہر ایک کے پاس آؤں...قلم کو نیرجا جی سے بہتر کون سنبھال سکتا ہے۔ مخالف صورتحال میں موقع آئے ہیں متاثر نہیں ہوئی ہیں۔وہ معروضیت کے قریب رہی ہیں جیسا کہ انسانی طور پر ممکن ہے اور اس وجہ سے وہ صحافیوں کے زمرے میں بہت کم لوگوں میں سے ایک ہیں، جو جمہوریت کا چوتھا ستون ہیں جنھوں نے بہت زیادہ چوکس رہ کر کئی افریقی ممالک میں جمہوریت کو یقینی بنایا ہے اور جب میں نیرجا جیسی کسی شخصیت کو دیکھتا ہوں، جنہیں اس عظیم اعزاز سے نوازا گیا ہے، جس میں ملک کے بہترین افراد میں سے ایک کا نام لیا جاتا ہے، تو میں انہیں ایک ایسی شخصیت کے طور پر دیکھتا ہوں جو شفافیت، احتساب،ہم آہنگی، دیہی ترقی کے تئیں پُرعزم رہنے، کسان سے وابستگی کی مظہر ہیں اور اپنے خیالات کے اظہار میں بالکل بے خوف تھیں۔
چودھری چرن سنگھ کی تعریف عظمت، مدبرانہ صلاحیت، دور اندیشی، اور ترقی سے کی گئی ہے جو شمولیاتی ہے اور اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ چودھری چرن سنگھ جمہوریہ ہند کی سب سے بڑی ریاست کے پہلے وزیر اعلیٰ اور پھر وزیر اعظم بنے۔
یہ دیکھ کر دل کو تکلیف ہوتی ہے کہ لوگ اس شخص کی عظیم خدمات کا اندازہ لگانے میں کوتاہ نظری سے کام لیتے ہیں۔ ان کی حیران کن خوبیاں، ان کی گہری لگن اور دیہی بھارت کے بارے میں ان کا معلومات، ان لوگوں کا موضوع ہے جنہوں نے ذہنوں کو روشن کیا ہے۔ پوری دنیا کے لوگوں نے ان کی ذہانت پر گہری نظر ڈالی ہے۔
اور اس لیے مجھے یہ مناسب لگتا ہے کہ ہمارے سابق وزیر اعظم پر تنقیدی تحقیق کرنے کے لیے کسان ٹرسٹ کو راجیہ سبھا فیلوشپ دی جائے۔ مٹی کا بیٹا جو گاؤں سے آگے شہری کا بھی خیال رکھتا تھا۔ وہ بھارت کا ایک ایسا وژن رکھتے تھے جو ہماری تہذیبی اخلاقیات سے مطابقت رکھتا تھا۔
اور اس لیے، نیرجا جی کو یہ ایوارڈ لوگوں کے ذہنوں کو ان مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے ایک طویل سفر طے کرے گا جن کی شیلف لائف ایک دن سے زیادہ ہے۔
سنسنی خیزی روزمرہ کا معمول بن چکی ہے اور سنسنی خیزی انتشار ہوتی ہے۔ آپ نے صحافت کے ذریعے زندگی گزاری ہے، لیکن اب ایک چیلنج جنم لے رہا ہے، حیرت انگیز ٹیکنالوجیاں اور بیانیے سامنے آسکتے ہیں۔ لوگ اب تک ان سے ہم آہنگ نہیں ہوپائے ہیں۔
میں جانتا ہوں کہ مشین لرننگ جیسی ٹیکنالوجی تیزی سے توازن قائم کر سکتی ہے، لیکن ہمیں اس پر کام کرنا ہوگا۔
اور اس لیے، مجھے لگتا ہے کہ یہ اعزاز اس انداز میں دیا گیا ہے جس سے ہم سب کو فخر ہے۔ میں نے صرف ان کی کتاب، ’ہاؤ پرائم منسٹر ڈسائڈ‘ پر ان کی تعریف کی۔ مجھے نویں لوک سبھا کا ممبر لوک سبھا بننے کی سعادت نصیب ہوئی۔ مجھے دو وزرائے اعظم کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ جناب وی پی سنگھ، میں ان کی وزراء کونسل کا رکن تھا اور جناب چندر شیکھر جی، میں نے ان کی وزراء کونسل کا رکن بننے سے انکار کر دیا۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ آپ کا لکھا ہوا ہر لفظ تنقیدی لیکن معروضی، تجزیاتی لیکن واضح، معلوماتی لیکن علم پر مبنی ہے اور مجھے یقین ہے کہ قوم آپ کی دوسری کتاب کی طرف دیکھ رہی ہے، جو آپ کے منتخب کردہ موضوع کے پیش نظر ضروری ہے۔ ڈاکٹر راجندر سنگھ۔ ہمارے ملک میں بہت کم لوگ ہیں جنہیں ٹیگ ملتا ہے، باپو ایک ٹیگ تھا جو لوگوں سے ملا تھا۔ اسی طرح مرد آہن سردار پٹیل، چاچا پنڈت جواہر لال نہرو کو ٹیگ دیا گیا تھا۔ یہ ٹیگ تاریخ کے ذریعہ عطا کیے گئے ہیں۔ یہ نامیاتی طور پر تیار ہوتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں ڈاکٹر راجندر سنگھ کو ’’بھارت کا آبی آدمی‘‘ کہا جاتا ہے۔
اب جب بھارت کی بات آتی ہے تو ہم انسانیت کا 1/6 حصہ ہیں، ہم تمام سطحوں پر واحد متحرک تعاملی جمہوریت ہونے کے ناطے منفرد ہیں، پنچایت سے لے کر پارلیمنٹ تک ہمارا آئینی طور پر ایک خاکہ ہے لیکن ان کے کام نے اس ملک کے ایک ایک انچ حصے کو متاثر کیا ہے۔ میرے اپنے گاؤں میں تالابوں کی بحالی ہوئی ہے جن کا وجود بس ریکارڈ میں رہ گیا تھا۔ بہت پہلے سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ آیا تھا ’’ایک بار ایک تالاب ہمیشہ تالاب ہوتا ہے‘‘ لیکن یہ زمینی طور پر نتیجہ خیز نہیں ہوا۔ دنیا نے اس شخص کی تعریف کی ہے، دنیا نے ایوارڈز کے ذریعے اس کی تعریف کی ہے، میگسیسے ایوارڈ ان میں سے ایک ہے اور بہت سےاور بھی ہیں۔ لیکن یہ زمینی حقیقت ہے جس سے فرق پڑتا ہے اور اس وجہ سے کسی بھی معیار کے مطابق ایوارڈ کی توقع اور مطالبہ صحیح وقت پر صحیح آدمی تک پہنچا ہے۔ یہ جذبے کے ساتھ مشن موڈ میں ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ اسے اثردارطور پرتحریک دیتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اس سے آب و ہوا میں تبدیلی کے حوالے سے ہمارے سامنے آنے والے خطرناک چیلنج پر بھی اثر پڑے گا۔ کسانوں کی بہبود ایوارڈ ڈاکٹر فیروز حسین۔ اب زراعت ایک ایسا شعبہ ہے جس کے حوالے سے میں نے چودھری چرن سنگھ جی کی تحریروں سے بہت کچھ سیکھا۔ مزید یہ کہ ملک کا نائب صدر جمہوریہ بننے کے بعد کیونکہ جب وزیر اعظم نے کسان کا بیٹے کہا تھا، تو میری بیوی نے مجھ سے کہا، کہ انہوں نے آپ کو کسان نہیں کہا ہے، کسان کا بیٹا کہا ہے۔ اس کا مطلب آپ کسان نہیں ہیں۔ کسان کی آپ کو جانکاری نہیں ہے اور کہا کہ میں اس بات کو صحیح مانتی ہوں کیونکہ یہ کسان کے بارے میں زیادہ کام کرتی ہے۔
میں آپ سے اور ہمارے بہت ہی معزز شخص پریتم جی سے بھی اپیل کروں گا،
زراعت دیہی ترقی کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ جب تک زراعت ترقی نہیں کرتی، دیہی منظرنامے کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور جب تک دیہی منظرنامہ کی تزئین میں تبدیلی نہیں آتی، ہم ایک ترقی یافتہ ملک کی خواہش نہیں کر سکتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت اس وقت جس بلندی پر ہے اتنا پہلے کبھی نہیں رہا۔ بلاشبہ، ہماری اقتصادی ترقی تیزی سے بڑھ رہی ہےاور اس میں شک نہیں ہے کہ ہماری معیشت فروغ پارہی ہے۔
ہم قومی اور عالمی سطح پر دشوار گزارراستوں اور رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اس وقت عالمی سطح پر پانچویں سب سے بڑی معیشت ہیں ۔ ہم اب تیسرا نمبر حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہیں، جاپان اور جرمنی سے آگے لیکن ایک ترقی یافتہ ملک بننے کے لیے، جو اب کوئی خواب نہیں ہے اور 2047 کاہمارا ایک ہدف ہے، تو ہماری آمدنی آٹھ گنا بڑھنی چاہیے۔
یہ انتہائی مشکل چیلنج ہے اور اس چیلنج کا حل تبھی مل سکتا ہے جب گاؤں کی معیشت ترقی کرے اور گاؤں کی معیشت تبھی ترقی کرسکتی ہے جب کسان اور کسان کے خاندان کو پیداوار کی بازار کاری میں شامل کیا جائےپیداوار کی قدر میں اضافی ہو اور کلسٹرز کی مکمل ترقی ہوتاکہ جب استعمال کی بات ہو تو وہ خود کفیل ہو جائیں۔ اس وقت، ہمارے پاس جو سب سے بڑی منڈی ہے اس کا تعلق زرعی پیداوار سے ہے، لیکن اس میں کسان برادریوں کی شمولیت بہت کم ہے۔
اور دوسری بات یہ کہ صنعتیں زرعی پیداوار پر چلتی ہیں جن کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے۔ کسان برادریوں کو اس میں شامل نہیں کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر دودھ کو ہی لیں۔ ایک کسان اسے زیادہ سے زیادہ بیچتا ہے، اس کی قیمت میں اضافہ نہیں کرتا اور اس کی دہی یا چھاچ بنا کر اسی قیمت میں اضافہ کرتاہے۔
ہم آئس کریم پر غور کیوں نہیں کرتے؟ دیگر اشیاء کے بارے میں؟ ہماری میز پرموجود روزمرہ کے استعمال کی تمام اشیاء کو دیکھیں۔ اگر کھیت میں کچھ ہوتا ہے، تو یہ قابل ذکر ہوگا۔ اب، کاشتکاری کے شعبے کو کسی بھی حکومت کو اس انداز سے دیکھنا ہوگا کہ یہ ایک ترجیحی شعبہ ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جو سطح مرتفع کی طرح معاشی ترقی کرتا ہے۔ یہ آپ کے گھر کے قریب روزگار پیدا کرتا ہے۔
اور اس لیے، یہ ڈاکٹر فیروز، پریتم جی جیسے لوگوں کا موضوع ہونا ضروری ہے، ہمیں یہ کرنا ہے جو آپ دیکھتے ہیں۔ اگر ہم دودھ اور دودھ کی مصنوعات لیں تو کسان پنیر سے بہت دور ہے، کیوں، آئس کریم کیوں؟ جب دوسری کئی مصنوعات کی بات آتی ہے، تو مجھے یقین ہے کہ صنعت اس کا خیال رکھے گی، عزت مآب وزیر یہاں موجود ہیں۔
گاؤں کی خود کفالت گاؤں، یا دیہات کے ایک کلسٹر کے ذریعے وجود میں آنی چاہیے تاکہ یہ ایک بہت بڑا علاقہ ہو۔ لہٰذا جن شعبوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، ان کا تعلق ہماری فلاح و بہبود، ہماری خوشی، ہماری سماجی ہم آہنگی اور ہمارے استحکام سے ہے اور اس لیے اس قسم کے ایوارڈز کا خیرمقدم ہے۔
یہ ایوارڈز برائے ایوارڈز نہیں ہیں۔ یہ ایوارڈز اس لیے ہیں کہ یہ ایوارڈز کسی ایسے شخص کو نمایاں حیثیت دینے کے لیے نہیں دیے جاتے جو ہمارے ملک میں مسئلہ ہے۔ حیران کن پیرامیٹرز پر لوگوں کو شہرت دی گئی ہے۔ ان ایوارڈز کی خاص اور اطمینان بخش بات یہ ہے کہ یہ ایوارڈز ان لوگوں کو دیئے گئے ہیں جن کی ساکھ سب سے زیادہ ہےاور جن کی خدمات عوام کے علم میں ہیں۔ اس لیے میں تمام ایوارڈ یافتگان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان میں سے ہر ایک کا الگ الگ انٹرویو سنسد ٹی وی کی طرف سے ان کی سہولت کے مطابق لیا جائے گا اور یہ اگلے چار ہفتوں میں ہو گا۔ تاکہ آپ بڑے پیمانے پر لوگوں، اراکین پارلیمنٹ، قانون ساز، زرعی ماہرین اقتصادیات کے ساتھ اپنے خیالات شیئر کر سکیں۔ مجھے غور کرنے کا موقع ملا اور میں خاص طور پر ڈاکٹر فیروز اور پریتم جی کا ذکر کر رہا ہوں،
انڈین کونسل آف ایگریکلچر ریسرچ، اس کی زرعی معیشت کے ہر قابل فہم مرحلے میں پورے ملک میں تقریباً 180 تنظیمیں ہیں۔ ان اداروں کو حقیقی سرگرمی میں لانے کی ضرورت ہے۔ عزت مآب وزیر شیوراج سنگھ چوہان نے انہیں ہائی گیئر میں ڈالنے کا ذمہ خود لیا ہے۔ میں نے تبدیلی دیکھی ہے، تبدیلی آ رہی ہے۔
میں 25 اور 26 دسمبر کو جنوبی ریاستوں میں سے ایک ریاست میں جا رہا ہوں اور مجھے ایک الگ ہی احساس ہو رہا ہے، کہ محترم وزیر کا اثر محسوس ہورہا ہے لیکن پھر آپ جیسے لوگ، اگران سے ملاقات کریں اور اپنا محاسبہ کریں، تو ہر ایک کو ایک محتاط انداز اختیار کرنا پڑےگا۔ آپ نے جن شعبوں کا انتخاب کیا ہے وہ درحقیقت چودھری چرن سنگھ جی کے فکری عمل کو زبردست خراج عقیدت ہے۔
ضروری ہے کہ یہ ایوارڈز آئندہ نسلوں کے لیے اس طرح ترتیب دیے جائیں کہ وہ خود پر انحصار کریں اور خود کفیل ہو جائیں۔ ایک قدم جو آپ نے اٹھایا ہے،وہ ہے آپ کے ٹرسٹ کی ساخت ہے۔ دوسرا یہ کہ اسے مالی طور پر مضبوط کیا جانا چاہیے۔ کام کی لچک کے لیے مالی استحکام بنیادی اہمت رکھتا ہے، ورنہ ہم رکاوٹوں کا شکار ہوتے ہیں۔
میں اپنی سطح پر جو کرسکتا ہوں اس کے لیے میں اپنے طریقے سےٹرسٹیوں کے ساتھ رابطے میں رہوں گالیکن جس کے دل میں دیہی بھارت کی فلاح و بہبود، کسان کی فلاح و بہبود ہے، چاہے اس کا تعلق کارپوریٹ سے ہو، دانشوروں سے ہو یا زندگی کے کسی بھی دوسرے شعبے سے، اس طرح کے اعتماد کو پروان چڑھانے کے لیے آگے آنا چاہیے، کیونکہ آنے والے ایک لمبے عرصے تک ہمیں ایک اور چودھری چرن سنگھ نہیں ملے گا۔
چودھری صاحب کے جذبے کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اظہار اور مکالمہ جمہوریت کی تعریف متعین کرتے ہیں۔ ایک ملک کے جمہوری ہونے کی تعریف اس کے لوگوں اور تنظیموں کے اظہار کی حالت سے کی جاتی ہے اور اس سے کہ حکومت کتنی ذمہ دار ہوتی ہے اس کا فیصلہ مکالمے کی نوعیت سے کیا جاتا ہے لیکن کسی بھی جمہوریت کی کامیابی کے لیے اظہار اور مکالمے کو دونوں طرف سے بڑی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ ساتھ چلنا چاہیے۔
میں اس موقع پر زیادہ نہیں کہوں گا لیکن میں ایک سوچ کے ساتھ آپ سے رخصت چاہوں گا کہ،
اب وقت آگیا ہے کہ اہل فکر بھارتی دماغ پر زور ڈالے اور ان تمام لوگوں کے ساتھ جوابدہی کا گہرا احساس پیدا کرے جن کے ساتھ ذمہ داریاں وابستہ ہیں۔ کسی غلط فہمی میں نہ پڑیں، میری مراد ارکان پارلیمنٹ سے ہے۔ ہماری آزادی اور آئین ہند کے نفاذکی آخری چوتھائی میں مجھے جس طرح کا تماشا دیکھنے کا موقع ملا تو یہ باعث تشویش ہونا چاہیے۔ میں دیکھتا ہوں کہ کہیں کوئی تشویش نہیں پائی جاتی۔ لوگوں نے بدنظمی کو نظم و نسق سمجھنا شروع کردی ہے۔ اس انحطاط کسی کو نہیں ہے۔
میں امید کرتا ہوں کہ لوگوں کی قلم چلے گی، لوگ سوچیں گے، لوگ مجبور کریں گے کہ آپ سوچیے آپ کیوں وہاں گئے تھے وہاں؟
میں اسے اسی سوچ کے ساتھ رخصت ہوتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ش ح۔ک ح۔ا ک م
U-4446
(Release ID: 2087197)
Visitor Counter : 12