پیٹرولیم اور قدرتی گیس کی وزارت
خام تیل پر درآمدی انحصار کو کم کرنے کے لیے حکومت کے اقدامات
Posted On:
12 DEC 2024 2:45PM by PIB Delhi
وزیر مملکت برائے پیٹرولیم اور قدرتی گیس، جناب سریش گوپی نے آج لوک سبھا میں تحریری جواب میں بتایا کہ حکومت نے خام تیل کی درآمد پر انحصار کو کم کرنے کے لیے ایک کثیرجہتی حکمت عملی اپنائی ہے جس میں مختلف اقدامات شامل ہیں، جن میں ملک بھر میں قدرتی گیس کو ایندھن اور خام مال کے طور پر استعمال کو فروغ دینا، قدرتی گیس کے معیشت میں حصے کو بڑھانا اور گیس پر مبنی معیشت کی طرف بڑھنا، توانائی کے متبادل اور قابلِ تجدید ذرائع جیسے ایتھانول، کمپریسڈ بایو گیس(سی بی جی) اور بایوڈیزل کا فروغ، الیکٹرک گاڑیوں کے لیے چارجنگ سہولت قائم کرنا، ریفائنری کے عمل میں بہتری، توانائی کی بچت اور تحفظ کو فروغ دینا، تیل اور قدرتی گیس کی پیداوار کو مختلف پالیسی اقدامات کے ذریعے بڑھانے کی کوششیں شامل ہیں۔ کمپریسڈ بایو گیس (سی بی جی) کو موٹر گاڑیوں کے ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کو فروغ دینے کے لیے حکومت نے کم خرچ پر مبنی آمدو رفت کے پائیدار متبادل سے متعلق منصوبہ(ایس اے ٹی اے ٹی) بھی شروع کیا ہے۔
حکومت نے عام شہریوں کو بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے سے بچانے کے لیے کئی دیگر اقدامات بھی کیے ہیں، جن میں خام تیل کی درآمد کے ذرائع میں تنوع پیدا کرنا ، سب کو سہولت فراہم کرنے کی خاطر ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی دستیابی کو یقینی بنانا، پٹرول میں ایتھانول کو شامل کرنے میں اضافہ کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
حال ہی میں تیل فروخت کرنے والی سرکاری کمپنیوں (پی ایس یو او ایم سیز)نے ریاستوں میں مال برداری میں اصلاحات کی ہیں۔ اس سے ریاستوں کے دور دراز علاقوں میں صارفین کو پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں فائدہ ہوا ہے اور اس اقدام سے ریاست کے اندر پٹرول یا ڈیزل کی زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم قیمتوں کے درمیان فرق میں کمی آئی ہے۔
گزشتہ دس سالوں میں، سرکاری شعبے کی تیل فروخت کرنے والی کمپنیوں کے ایتھانول بلینڈنگ پروگرام (ای بی پی) کے ذریعے 30 ستمبر 2024 تک تقریباً 1,08,655 کروڑ روپے کے غیر ملکی زر مبادلہ کی بچت ہوئی ہے۔ شکر پر مبنی خوردنی اشیا سے تیار ہونے والا ایتھانول چینی کی ملوں کو اپنے زائد چینی کے ذخائر کو کم کرنے اور گنے کے کسانوں کے واجب الادا بقایاجات کو جلد ادا کرنے میں مدد دے رہا ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں، ای بی پی نے کسانوں کو تقریباً 92,409 کروڑ روپے کی بروقت ادائیگیاں کی ہیں، اور توقع ہے کہ پٹرول میں 20فیصد ایتھانول شامل کئے جانے سے کسانوں کو ہر سال 35,000 کروڑ روپے سے زیادہ کی ادائیگی ہو گی۔
بھارت کا توانائی کا شعبہ اہم تبدیلیوں سے گزر رہا ہے، جس کے تحت صاف ستھری توانائی کے ذرائع پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔ حکومت 2030 تک ایندھن کے روایتی ذرائع سے 500 گیگا واٹ کی بجلی کی صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسے کئی منصوبے شروع کیے گئے ہیں جیسے پردھان منتری کسان اُورجا سورکشا ایوَم اُتھّان مہابھیاں (پی ایم –کسُم)، پی ایم سُوریہ گھر مفت بجلی یوجنا، زیادہ صلاحت والے شمسی پی وی ماڈیولز سے متعلق قوم پروگرام ، نیشنل گرین ہائیڈروجن مشن، وغیرہ۔ حکومت نے قابل تجدید توانائی سے متعلق سپر میگا پارکس کے قیام کے لیے اسکیم شروع کی ہے تاکہ پروجیکٹ تیار کرنے والوں کو ان منصوبوں کی تیز تکمیل میں سہولت مل سکے۔ حکومت نے ساحل کے نزدیک توانائی سے متعلق منصوبوں کے لیے ویبلٹی گیپ فنڈنگ ( وی جی ایف) اسکیم بھی منظور کی ہے تاکہ 1 گیگا واٹ آف شور ونڈ انرجی پروجیکٹس کونصب اور کمیشن کیا جا سکے۔
مزید برآں، نئی اور قابل تجدید توانائی کی وزارت، بھارت کو گرین ہائیڈروجن اور اس کے ذرائع کی پیداوار، استعمال اور برآمد کا عالمی مرکز بنانے کے مقصد کے تحت نیشنل گرین ہائیڈروجن مشن کو نافذ کر رہی ہے۔
حکومت نے نیشنل بایو انرجی پروگرام (این بی پی)کی بھی منظوری دی ہے جس کا مقصد بایو انرجی اور کوڑے کرکٹ سے توانائی حاصل کرنے سے متعلق ٹیکنالوجیز کا استعمال بڑھا کر صاف ستھری توانائی کے حل کو فروغ دینا ہے تاکہ توانائی کی یقینی فراہمی کو بڑھایا جا سکے اور بھارت میں پائیدار ترقی میں مدد کی جا سکے۔ ماحول کے لئے ساز گار ایندھن اور دیگر متبادل ایندھن کو فروغ دینے کے لیے پبلک سیکٹر کی آئل مارکیٹنگ کمپنیاں( آئی او سی ایل / بی پی سی ایل / ایچ پی سی ایل) کو اپنے ریٹیل آؤٹ لیٹس پر کم از کم ایک نئے نئے سلسلے کے متبادل ایندھن جیسے سی این جی / ایل این جی /الیکٹرک گاڑیوں کے چارجنگ پوائنٹس وغیرہ کی سہولت نصب کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
مندرجہ ذیل حکومتی اقدامات بھارت میں تیل اور گیس کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے کیے گئے ہیں:
iپی ایس سی کے تحت ہائیڈروکاربن دریافتوں کی فوری مونیٹائزیشن کے لیے پالیسی (2014)۔
iiدریافت شدہ چھوٹے میدانوں کی پالیسی (2015)۔
Iiiہائیڈروکاربن کے امکانات تلاش کرنے اور لائسنسنگ پالیسی (ایچ ای ایل پی)(2016)۔
ivپی ایس سی کی توسیع کے لیے پالیسی (2016 اور 2017)۔
vنیشنل ڈیٹا رپوزٹری کا قیام (2017)۔
Vi نیشنل سیزمک پروگرام کے تحت طاس کے علاقوں میں جگہوں کا جائزہ (2017)۔
vii نئے امکانات تلاش کرنے سے پہلے کی لائسنسنگ پالیسی(پی آر ای – این ای ایل پی) کے تحت دریافت شدہ میدانوں اور ایکسپلوریشن بلاکس کے لیے پی ایس سی کی توسیع کے لیے پالیسی فریم ورک (2016 اور 2017)۔
Viii تیل اور گیس بہترطور پر حاصل کرنے کے طریقوں کو فروغ دینے اور ترغیبات دینے کی پالیسی (2018)۔
ix موجودہ پیداوار اشتراک معاہدوں(پی ایس سیز) ، کول بیڈ میتھین(سی بی ایم)معاہدوں اور نامزد میدانوں کے تحت غیر روایتی ہائیڈروکاربن کی تلاش اور استعمال کے لیے پالیسی فریم ورک (2018)۔
X خاص طور پر کیٹیگری II اور III بیسنز کے تحت بولی دہندگان کو متوجہ کرنے کے لیے او اے ایل پی بلاکس کے مرحلہ اول میں کم رائلٹی کی شرح، صفر ریونیو شیئر (ونڈفال گین تک) اور ڈرلنگ نا کرنے کا عہد ۔
Xi ساحل کے نزدیک تقریباً 1 ملین اسکوائر کلومیٹر (ایس کے ایم) ’’نو گو‘‘ علاقے کو اسےعمال کرنا ، جو دہائیوں سے امکانات تلاش کرنےکے لیے بند تھے۔
xii حکومت ساحل کے نزدیک اور زمینی علاقوں میں سیسمک ڈیٹا حاصل کر رہی ہے اور پتھریلے علاقے میں کنویں کھود کر بھارتی سیڈیمینٹری بیسنز کا معیاری ڈیٹا بولی دہندگان کے لیے دستیاب کر رہی ہے۔ حکومت نے بھارت کے خصوصی اقتصادی زون(ای ای زیڈ) کے علاوہ آف شور میں 20,000 کلومیٹر 2D سیسمک ڈیٹا اور آنلینڈ میں 30,000 کلومیٹر اضافی سیسمک ڈیٹا کے حصول کی منظوری دی ہے۔
..................................................... ...................................................
) ش ح – ا ع خ -س ع س )
U.No. 3896
(Release ID: 2083718)
Visitor Counter : 35