نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
بین الاقوامی گیتا مہوتسو 2024 میں نائب صدر کے خطاب کا متن (اقتباسات)
Posted On:
08 DEC 2024 4:13PM by PIB Delhi
ہریانہ کے معزز گورنر، جناب بنڈارو دتاتریہ جی، ہریانہ کے وزیر اعلیٰ، جناب نائب سنگھ سینی جی،زمین سے جڑے ہوئے ، ایک بے عیب کردار، لگن، مکملسمجھ رکھنے والے انسان ہیں۔ میں وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے اور بعد میں ان سے ملا تھا، دوسری مدت کے دوران، پہلی مدت میں بھی، دوسری مدت کے دوران بھی کئی ملاقاتیں ہوئیں۔
مجھے یقین ہے کہ ہریانہ صوبہ لامحدود امکانات کا ملک ہے، ایک ایسی ریاست جو اپنے ملک کا تاج ہے۔ یہاں کا ہنر ہر شعبے میں بے مثال ہے۔ ان کی قیادت میں ہر ہریانوی کی صلاحیتوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا جائے گا۔ میرے ذہن میں کوئی شک نہیں، نائب سنگھ سینی جی ضرور کوئی نہ کوئی حیرت انگیز کام کریں گے۔
سوامی گیانانند جی مہاراج، جب مجھے پہلی بار یہاں آنے کا شرف حاصل ہوا، میں نے آپ سے کافی بات چیت ہوئی جس کو کہتے ہیں نا؟ کہ انہوں نے بہت اچھی شروعات کی ہے اور وہ شروعات مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔
یہ بڑھتی ہوئی نہیں بلکہ عملی طور پر عمودی رفتار پر ہے۔ آپ کی کاوشیں قابل ستائش ہیں، آپ قابل تشکر ہیں۔ آپ نے ایک بات کہی جس سے میں متفق نہیں ہوں، انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر سدیش دھنکھر، میری بیوی میرے ساتھ آئیہیں، میں ان کے ساتھ آیا ہوں۔ میں نے زندگی میں بہت سے رسک لیے ہیں لیکن ایسے رسک لینا میرے بس میں نہیں ہے۔ میری بیوی نے ہریانہ میں تعلیم حاصل کی، ہریانہ کی لڑکی جہاں بھی جائے گی اپنی طاقت دکھائے گی۔
پچھلے تین دنوں سے، اپ راشٹرپتی بھون کے احاطے میں قابل احترام جناب پنڈرک گوسوامی جی مہاراج کی طرف سے تاریخی شریمد بھاگوت ہفتہ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ آج شریمد بھاگوت کا تیسرا دن تھا، توانائی سے بھرپور ہو کر آرہا ہوں۔ حیرت انگیز علم حاصل کیا۔ یہکافی فکر انگیزتھا۔ پنڈرک مہاراج جی کے منہ سے ایک مکالمہ نکلا ’’ زندگی کے انتہائی نامساعد حالات میں جب ایک اچھا ساتھی مل جائے تو بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘‘
جیسے ارجن اپنی خاندانی جنگ میں بڑی مصیبت میں تھا اور اسے بھگوان شری کرشن جیسا ساتھی ملا جس سے گیتا جیسا علم آیا جس نے آج پوری دنیا کی رہنمائی کی ہے۔ اور جب یہ الفاظ ایسے شخص سے آتے ہیں، محترم جناب پنڈرک گوسوامی جی، وہ ایک مقدس روایت سے آتے ہیں، جن کی شان بے مثال ہے۔ سری مان مادھو گوڈیشور وشنواچاریہ روایت کے ایک ممتاز اچاریہ ہیں، جن کا سلسلہ نسببھارتیہ روحانیت کی سنہری تاریخ سے جڑا ہوا ہے۔
مجھے مغربی بنگال میں ان کی آشیر وچن سننے کا موقع ملا۔ یہ صبح حیرت انگیز تھی۔ آٹھ بجے سے میں نے اور میرے رشتہ داروں نے ڈھائی گھنٹے تک سنا۔ آخر میں بات گیتا تک پہنچی۔ انہوں نے کہا آج جہاں سے جا رہے ہیں ،وہاں اس حالت میں واپس نہیں آئیں گے۔
آج، کروکشیتر کی اس مقدس سرزمین پر آ رہے ہیں، یہ کون سی سرزمین ہے جہاں بھگوان شری کرشنا نے ارجن کو وہ وعظدیا ہے جو ہم سب کو راستہ دکھاتا ہے۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے جس کو میں ہمیشہ سجاکے رکھوں گا۔
۔ جب انہوں نے ساتھی تلاش کرنے کا کہا تو میں نے محسوس کیا کہ ساتھی یا سارتھی بہت فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ آپ کی ریاست کو نائبسینی کے روپ میں عوام کا ساتھی اورسارتھی ملا ہے اور 6 دہائیوں کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کو ملک کاسارتھی بننے کا شرف حاصل ہوا ہے، یہ واقعہ ساٹھ سال بعد پیش آیا ہے۔ بھارت نے پچھلے دس سالوں میں دیکھا ہے کہ ساتھی اور سارتھی کا کردار کتنا فیصلہ کن ہوتاہے ۔ ناقابل تصور اقتصادی ترقی، ناقابل یقین ادارہ جاتی ڈھانچہ، بھارت کو وہ درجہ مل رہا ہے جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ آج بھارت کی آواز بلند ہے۔ ہم دنیا کی سپر پاور ہیں لیکن ہم نے ایک راستہ چنا ہے، ہم نے 2047 میں وکست بھارت کا راستہ اختیار کیا ہے۔
ترقی یافتہ بھارت اب خواب نہیں رہا، ترقی یافتہ بھارت ہمارے سامنے ہدف ہے، اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں گیتا کے علم کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ ارجن نے جو ارتکاز دکھایا، ارجن کی نظر مچھلی پر نہیں تھی، ارجن کی نظر مچھلی کی آنکھوں پر بھی نہیں تھی، ارجن کی نظریں اپنے نشانے پر تھیں۔ ہمیں ایک ہی نظر، ایک ہی وژن، وہی عزم، وہی ارتکاز رکھنا ہوگا، تاکہبھارت یقینی طور پر 2047 تک یا اس سے پہلے ایک ترقی یافتہ ملک کا درجہ حاصل کر لے۔ میرے ذہن میں کوئی شک نہیں کہ ایسا ہو گا۔
میں نے چار دہائیوں کی سیاست میں بہت کچھ دیکھا ہے، رکن پارلیمنٹ اور مرکز میں وزیر رہتے ہوئے لرزہ محسوس کیا ہے۔ میں نے بھارت کا سونا ، وہ بھارت جسے سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا،اس کی ساکھ بچانے کے لیے سوئٹزرلینڈ کے دو بینکوں میں گروی رکھتے ہوئے دیکھا ہے۔ جب حالات سنگین ہوں اور عزت کو بچانا ہو تو زیورات گروی رکھے جاتے ہیں۔ اور اس کی وجہ کیا تھی؟ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر ایک ارب امریکی ڈالر کے قریب منڈلا رہے تھے۔
آج یہ غیر ملکی ذخائر 650 بلین ڈالر، 680 بلین ڈالر، کبھی 700 بلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ ہر ہفتے چار سے پانچ بلین ڈالر کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ کشمیر گیاتھا۔وزراءکونسل کا رکن تھا، یہ 1990 کا زمانہ تھا۔ سڑک پر ایک یا دو درجن سے زیادہ لوگ نظر نہیں آئے۔ میرے اندر کتنی توانائی آئی ہوگی، میری ہمت کتنی بڑھی ہوگی جب میں راجیہ سبھا میں بطور چیئرمین کرسی پر بیٹھا تھا اور حکومت نے جواب دیا کہ پچھلے دو سالوں میں جموں و کشمیر میں سیاحوں کی تعداد دو کروڑ سے زیادہ ہے۔
آج بھی بھارت میں کچھ ایسے جاہل لوگ ہیں جو بھارت کی اصل فطرت کو نہیں جانتے۔ انہیں ہوشکے ناخن لینے چاہئیں، انہیں دیکھنا چاہئے کہ آج کابھارت وہ بھارت ہے جس کی لوگ تعریفیں کر رہے ہیں؟ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ان کی تعریف کر رہا ہے کہ آج دنیا میں ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے، آج ایک ایسی زمین ہے جہاں موقع مل سکتا ہے، جہاں سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے، وہ ہے بھارت۔
موبائل ٹیکنالوجی، دنیا دنگ رہ گئی۔ کہا گیا کہبھارت میں لوگ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ آج گاؤں کا کم پڑھا لکھا شخص پڑھے لکھے سے زیادہ موبائل استعمال کرتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اگر ہم وقت کے ساتھ انٹرنیٹ کی کھپت کو دیکھیں تو ہم چین اور جاپان سے آگے ہیں۔
اور پیسے کا لین دین، شروع میں لوگوں کو سمجھ نہیں آئی کہ بھارت کا وزیر اعظم بینک اکاؤنٹ کیوں کھلوارہاہے، اور پچاس کروڑ لوگوں کے بینک اکاؤنٹ کھلوائے جا رہے ہیں، یورپ کی آبادی اتنی نہیں ہو گی، میں سمجھتا ہوں کہ 70سے80 ممالک مل جائیں تو بھی اس کا نتیجہ نہیں نکلا، اور آج ہمارا لین دین شفافیت سے ہو رہا ہے، نہ بجلی کا بل، نہ پانی کا بل، نہ ٹیلی فون کی کوئی درخواست ، نہ کوئی قطار، کوئی امتحان نہیں ، اور آج میں اس مقدس سرزمین سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ملک کے نوجوانوں کو ایک چیز پر توجہ دینا ہوگی، ان کے لیے دستیاب امکانات سرکاری ملازمت سے کہیں بہتر ہیں۔
آخر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے ہماری بڑائی کسی سرکاری نوکری کے لیےتو نہیں کی۔ وہ کس موقع کی بات کر رہے تھے؟ یہ دیکھنا باقی ہے اور بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعلیٰ آپ کو دو دن کا کام ایک دن میں کرنا پڑے گا۔ آپ کی استطاعت ایک دن میں تین دن کرنے کی ہے لیکن میں دو دن کہوں گا۔
آج میں نے بہت سوچا کہ اس جگہ سے شہریوں کو گیتا کا کیا پیغام دوں، جو ان کے اختیار میں ہے، جو انہیں کرنا چاہیے، جس میں انہیں کسی اور کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے جو پانچ اہم اصول دکھائے گئے ہیں، میں انھیں ابھیشاسنپنچ امرت کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔ یہ گیتا سے ماخوذ ہے اور ہر شہری اسے کرسکتا ہے۔ اسے صرف ایک عزم لینے کی ضرورت ہے۔ اور میں نے دیکھا کہ یہ اصول سماجی نظم و ضبط کے لیے، امن کے لیے، ترقی کے لیے، بھائی چارے کے لیے، ترقی کے لیے، خوشی کے لیے بہت اہم ہیں۔
اور پہلا بامعنی ابلاغ ہے۔ اور بامعنی مکالمے کی مثال کیا ہے؟ شری کرشن اور ارجن کے درمیان مکالمہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اختلافات کو تنازعات نہیں بننا چاہیے۔ اختلاف رائے ہو گا، لوگوں کے ذہن مختلف طریقوں سے کام کریں گے۔ دستور ساز اسمبلی نے ان اختلافات کو دیکھا اور اس کا حل تلاش کیا۔ 3 سال کے کچھ دن کام ، 18 اجلاسوں میں دستور ساز اسمبلی میں بحث و مباحثہ ہوا۔ اور اس اصول کی بنیاد پر
بامعنی مکالمے کا راستہ تلاش کریں گے۔ کوئی ہنگامہ، کوئی خلل، کوئی نعرہ بازی، کوئی پلے کارڈ نہیں۔
لہٰذا یہ پیغام بہت بڑا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے ممبران پارلیمنٹ، ہماری قانون ساز اسمبلی کے ممبران، پنچایت اور بلدیہ میں ہمارے عوامی نمائندے اور ہم میں سے ہر فرد، ہر ادارے میں اس بات کا خیال رکھیں گے کہ بات چیت بامعنی ہو، جس کا نتیجہ نکلے گا۔ بات چیت ذاتی مفاد میںنہیں، یہ معاشرے کے مفاد میں ہونی چاہیے، ملک کے مفاد میں ہونی چاہیے۔ معاشرہ اور قومی مفاد سے بڑا کوئی مفاد نہیں اور قومی مفاد سب سے بڑا ہے۔
دوسرا، جس کا میں نے پہلے تھوڑا سا اشارہ دیا تھا وہ ذاتی پاکیزگی ہے۔
اس کی شدید ضرورت ہے۔ ہمیں یہ کرنا چاہیے کہ کسی بھی عہدے پر فائز ہونے والوں کا طرز عمل چاہے وہ انتظامی عہدہ ہو، سیاسی عہدہ ہو یا معاشی دنیا میں۔ مثالی ہونا چاہیے، عوام کو متاثر کرنا چاہیے۔ انہیں ایسے طرز عمل سے مثال دینا چاہیے جو قابل تقلید ہو۔ اس کا معاشرے پر بہت بڑا اثر پڑے گا۔
اس کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں، وی آئی پی کلچر کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے، گاڑیوں کے اوپر کی لائٹس بند کر دی گئی ہیں۔ اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا لیکن یہ ایک احساس کو بیدار کرتا ہے۔ مساوات کا احساس، پاکیزگی کا احساس۔
تیسرا اصول بے لوث قربانی کا جذبہ ہے۔ بھگوان شری کرشن کہتے ہیں’یگیاتھرا تک مرنو‘یعنی حکمرانی کو قربانی سمجھیں، ذاتی فائدے کا ذریعہ نہیں۔ اور اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے، میں اپیل کرتا ہوں 2047 میں ترقی یافتہبھارت کے لیے یہ ایک بڑی قربانی ہے۔ اس یگیہ میں ہر کسی کو اپنی استطاعت کے مطابق قربانی کرنی چاہیے، تاکہ مکمل قربانی ملک کے مفاد میں ہو۔ یہ ہر شہری کا فرض ہے۔
چوتھا اصول ۔ ہمدردی!
ہمدردی ہمارا ورثہ ہے، جو 5000 سال کی ثقافت کا نچوڑ ہے۔ ہم نے دکھایا کہ ہمدردی کیا ہوتی ہے۔ سینیجی، میں مغربی بنگال کا گورنر تھا، ہم نے کووڈ کے دوران ہمدردی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس بحران کا کیسے مقابلہ کیا، اور بھارتی ثقافت ہمدردی سے اس قدر متاثر ہے کہبھارت نے اس دور میں سو سے زیادہ ممالک کو کورونا ویکسین دی جبکہ ہم خود بھی کورونا کا سامنا کررہےتھے۔ آج بھی دنیا میں اگر کوئی جہاز سمندر میں روکا جائے تو بھارتیہ بحریہ ہی جاتی ہے۔ جنگ کے دوران اگر کسی کے طلبہ کو نکالنا پڑتا ہے تو بھارت ان کی مدد بھی کرتا ہے اور اپنے طلبہ اور شہریوں کو بھی لاتا ہے۔ ایسی دنیا میں جہاں زلزلہ آتا ہے، قلت پیدا ہوتی ہے،بھکمری ہوتی ہے،بھارت سب سے پہلا جواب دینے والا ہے۔ ہمدردی! لیکن میں سمجھتا ہوں کہ عام آدمی کو ہمدردی کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔
اور آخری بات باہمی جذبات ہیں، مقابلہ ہونا چاہیے لیکن مقابلہ کا مطلب جنگ نہیں، آج کوئی مخالف نہیں، اس کی رائے مختلف ہو سکتی ہے، مخالفت ہو سکتی ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت اہم ہے کیونکہ ہمارا ملک۔ ذرا تصور کیجیے کہ ہمارے ہاں جس قسم کی تنوع ہے اور ان سب کو یکجا کرنے کے بعد میں نے سوچا کہ اب حکمرانی میں ان کا نام پنچ امرت رکھا جا سکتا ہے۔
آج ملک کو کچھ ایسے ہی بحرانوں کا سامنا ہے۔ جو ہم محسوس کر رہے ہیں۔ ملک اور بیرون ملک کچھ ایسی طاقتیں ہیں جوبھارت کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں، ہماری معیشت کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں، پیسے کی طاقت کے بل بوتے پر بیانیہ کو بڑھانے کے لیے سازشیں کرکے ہمارے اداروں کو غیر فعال کرنا چاہتی ہیں۔
ان کا مذموم مقصد، نقصان دہ مقصد ہمارے آئینی اداروں کو داغداراورمجروح کرنا ہے تاکہ ہماری ترقی کی رفتار کو کم کیا جا سکے۔ اب ایسی قوتوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری ثقافت کہتی ہے کہ بعض مواقع ایسے آتے ہیں جب ایسی طاقتوں کو کچلنا پڑتاہے اور اور ہم یہ سب گیتا سے سمجھتے ہیں۔ میں اس سرزمین سے یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہملک ہمارے لیے سب سے اوپر ہے۔ حب الوطنی میں کوئی پیمانہ نہیں، خالص ہو گا، سو فیصد ہو گا اور صرف سو فیصد ہو گا۔
ہم ہمیشہملک کو سب سے مقدم رکھیں گے!
ہمیں یاد رکھنا ہوگا، ہم بھارتیہ ہیں، ہندوستانیت ہماری پہچان ہے اور ہم اتنے عظیم ملک کے شہری ہیں کہ دنیا میں اس جیسا کوئی دوسرا ملک نہیں ہے، تو کیا ہم اپنی مادر ہند کو مجروح ہونے دیں گے؟ یہ قوتیں ابھرتی ہیں، کچھ قوتیں ابھرتی ہیں ،ناسمجھی ہےانہیں سمجھانے کی ضرورت ہے۔ کچھ ایسی طاقتیں ہیں جو یہ مانتی ہیں کہ اگر بھارت دنیا کا لیڈر بن گیا تو کئی ممالک پریشان ہو جائیں گے۔ آخر ہم وہی ملک ہیں جو 11 سال پہلے ہماری معیشت دنیا کی 5 متزلزل معیشتوں میں شامل تھی اور ہم کس کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں؟ جنہوں پر ہم پر صدیوں تک حکومت کی،بڑی طاقتوں کو پیچھے چھوڑ دیا، آنے والے دو سالوں میں یا اس سے کم وقت میں جاپان اور جرمنی بھی پیچھے رہ جائیں گے۔ اس میں نوجوانوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے مان لیا کہ 80 کروڑ غریب ہیں۔ دیکھیں ان کی سوچ کتنی بگڑی ہوئی ہے، آپ مدد کریں تاکہ آپ اٹھیں اور اوپر جائیں اور ملک میں یہی ہو رہا ہے۔
کچھ لوگ افراتفری کا نسخہ ہوتے ہیں، وہ صرف تنقید کر سکتے ہیں، مثبت انداز میں نہیں سوچ سکتے۔
میرا ان کے لیے پیغام ہے کہ آپ گیتا کے جوہر کو سمجھیں، گیتا کے پیغام کو سمجھیں۔
بات ختم کرنے سے پہلے، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ میں نے وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان جی کو بتایا کہ دھرمیندر جی، اور میں نے راجیہ سبھا میں یہ کہا کہ دھرمیندر جی، میرے دل میں بہت درد ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ویدوں کو نہیں دیکھا۔ ویدوں کو پڑھنا اوران کا مطالعہ کرنا تو دور کی بات ہے۔
اور تقریر میں وہ کہتے ہیں کہ وید علم کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے، اس لیے کم از کم ہمیں ان کی زندگی میں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔
میں دھرمیندر پردھان جی کو مبارکباد دیتا ہوں،
انہوں یہ چیزیں ہر ممبر کو فراہم کیں۔ راجیہ سبھا سکریٹریٹ کی جانب سے، آپ کی رہنمائی میں، میں گیتا سے متعلق علم کو پھیلاؤں گا، جو ہر رکن کے پاس ہونا چاہیے۔
*****
(ش ح۔اص)
UR No 3635
(Release ID: 2082156)
Visitor Counter : 39