نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

راجا مہندر پرتاپ کی ایک سو اڑتیسویں یومِ پیدائش کی تقریبات کے موقع پر نئی دہلی کے بھارت منڈپم میں نائب صدر جمہوریہ کے خطاب کا متن

Posted On: 01 DEC 2024 2:34PM by PIB Delhi

اقتباسات:

مجھے بے حد اعزاز حاصل ہے کہ میں راجا مہندر پرتاپ کی 138ویں یوم پیدائش کی تقریبات منا رہا ہوں۔ وہ پیدائشی سفارتکار، ریاستی امور کے ماہر، دور اندیش اور سچے قوم پرست تھے۔ انہوں نے قوم پرستی، حب الوطنی اور دور اندیشی کی بہترین مثال قائم کی اور اپنی عملی زندگی سے یہ ثابت کیا کہ قوم کے لیے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔

کیا شاندار دور اندیشی تھی! آج یہ آسان معلوم ہوتا ہے، لیکن اُس وقت یہ ناقابلِ تصور اور بہت مشکل تھا۔

یہ وہ شخصیت تھی جو تقریباً 30 سال کی عمر میں قوم پرستی کے جذبے سے سرشار ہو کر اکھنڈ بھارت کی آزادی کے لیے حل تلاش کرنا چاہتی تھی۔ انہوں نے  29 اکتوبر 1915 کو اس نے اپنی غیر معمولی قابلیت کا مظاہرہ کیا۔

کابل میں پہلی عارضی حکومت قائم کی گئی۔ اور یاد رکھیں، معزز حاضرین، یہ برطانوی حکومتِ ہند کے قانون سے دو دہائیاں پہلے کی بات ہے، کیونکہ تب برطانوی حکومت نے ہمیں کسی قسم کی حکومت دینے کا سوچا۔ کیا دنیا کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال موجود ہے؟ نہیں۔ وہ اپنی مثال آپ تھے۔

اور ان کی حکمرانی کی صلاحیت اور شمولیت پر غور کریں، ایک غیر معمولی تصور۔ وہ صدر بنے، مولانا محمد برکت اللہ نائب وزیر اعظم مقرر ہوئے، ڈاکٹر چمپکرمن پلائی وزیر خارجہ بنے، عبید اللہ سندھی کو وزیر داخلہ اور ڈاکٹر متھرا سنگھ کو بغیر قلمدان کے وزیر بنایا گیا۔

واقعی وہ ایک دور اندیش شخصیت تھے! یہ عمل ہماری تہذیبی اقدار کی عکاسی کرتا ہے جو 5,000 سال کے امتحان میں کامیاب رہی ہے۔

یہ عظیم انسان، جو معمولی چیزوں سے اوپر اٹھ چکے تھے کیونکہ آزادی انسانیت کی سب سے بڑی خواہش ہے، انہیں سال 1932 میں این اے نیلسن کے ذریعہ نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا۔

اور بنیاد کیا تھی؟ وہی کردار جو بعد میں گاندھی جی کو جنوبی افریقہ میں مہم کے لیے مشہور بناتا ہے۔ جب میں اس نامزدگی کو پڑھتا ہوں تو میں وقت نہیں لوں گا، براہِ کرم آپ بھی اسے پڑھیں، اُس شخصیت کی عظمت ہر لفظ میں جھلکتی ہے۔

کتنی بڑی ناانصافی ہے، کتنا بڑا المیہ ہے۔ ہم اپنی آزادی کے 75ویں سال میں ہیں، لیکن ہم نے بری طرح ناکامی کا مظاہرہ کیا ہے کہ اس عظیم شخصیت کے شاندار کارناموں کو پہچان سکیں۔ ہماری تاریخ نے اُنہیں وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ مستحق تھے۔

اگر ہم اپنی آزادی کی بنیادوں پر نظر ڈالیں، تو ہمیں بہت مختلف انداز میں سکھایا گیا ہے۔ ہماری آزادی کی بنیادیں ایسے عظیم لوگوں کی بے مثال قربانیوں پر رکھی گئی ہیں جیسے راجا مہندر پرتاپ سنگھ اور دیگر گمنام یا کم معروف ہیروز۔

حال ہی میں کوٹڑا، اُودے پور میں بِرسا منڈا کی 150ویں یوم پیدائش کی تقریبات کے دوران، میں نے 1913 کے منگر پہاڑی کے دل دہلا دینے والے واقعے کی داستان سنی۔ اس سال، جلیانوالہ باغ سے بہت پہلے، 1913 میں، 1507 قبائلی افراد برطانوی گولیوں کا نشانہ بنے۔

کیا قتلِ عام تھا! کیا بربریت کا مظاہرہ تھا! تاریخ نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ میں یہ بات واضح کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ برطانوی ظلم و ستم کے ساتھ مہاراجہ سُراج مَل اور راجا مہندر پرتاپ سنگھ کے حب الوطنی کے کارنامے کیوں مناسب طور پر بیان نہیں کیے گئے؟ انہیں تاریخ میں جگہ کیوں نہیں دی گئی؟ یہ موقع ایک گیم چینجر، ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔

ہماری تاریخ کی کتابوں نے ہمارے ہیروز کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔ ہماری تاریخ کو بدل دیا گیا، تراش خراش کر کے چند لوگوں کو یہ سحرا  دیا گیا کہ انہوں نے ہمیں آزادی دلائی۔ یہ ہمارے ضمیر پر ناقابل برداشت بوجھ ہے، یہ ہمارے دل و روح پر بوجھ ہے۔اور مجھے یقین ہے کہ ہمیں ایک بڑا انقلاب لانا ہوگا۔ 1915 میں اُس وقت کی پہلی ’’بھارت سرکار‘‘ کے قیام سے بہتر موقع نہیں ہو سکتا۔

ہماری تاریخ کو صرف چند لوگوں کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے پروان نہیں چڑھایا جا سکتا، جبکہ دوسرے ہیروز کے کردار کو کم تر دکھایا جائے۔ ہم اپنے ہیروز کو نیچا نہیں دکھا سکتے۔ آج ہم انہی میں سے ایک پر بات کر رہے ہیں، اور یہ ضروری ہے کہ تاریخی حقائق کو بغیر کسی ملمع کاری کے پیش کیا جائے تاکہ موجودہ اور آنے والی نسلوں میں حب الوطنی کا جذبہ بیدار ہو۔

ذرا تصور کریں کہ یہ کام پہلے کیوں نہیں ہوا؟ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کو 1990 میں کیوں پہچانا گیا؟ اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟

ذرا سوچیں، یہ ذہنیت کیسی تھی؟ مجھے یہ اعزاز حاصل ہوا کہ میں پارلیمنٹ کا رکن اور وزیر رہا۔ سیاسی تبدیلی کے بعد، حال ہی میں، چودھری چرن سنگھ اور کرپوری ٹھاکر، جو کسانوں اور دیہی بھارت پر یقین رکھتے تھے، ان کا ذکر آیا۔

یہ میرا عظیم اعزاز تھا کہ میں نائب صدر اور راجیہ سبھا کا چیئرمین رہتے ہوئے ان دونوں عظیم شخصیات کو بھارت رتن دیے جانے کے عمل سے وابستہ رہا۔

ہمیں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ جو ہو گیا, وہ ہو گیا، مگر آگے کا راستہ صحیح ہونا چاہیے۔ ترقی یافتہ بھارت کا قیام کسان کی زمین سے ہوتا ہے۔ وکست بھارت کی سمت کھیتوں کی زمین سے ہے۔ کسان کی مشکلات کا حل تیز رفتاری سے ہونا چاہیے۔

اگر کسان پریشان ہے تو ملک کی عزت و وقار پر بہت بڑا اثر پڑتا ہے اور یہ اس لیے زیادہ ہوتا ہے کیونکہ ہم دل کی بات دل میں رکھتے ہیں۔ آج کے اس پُرمعنی دن پر، میں اپنا عہد ظاہر کرتا ہوں کہ کسان کی مشکلات کا حل کرنے کے لیے میرے دروازے 24 گھنٹے کھلے ہیں، اس طرح میں آزادی کو ایک نیا زاویہ دینے میں معاون بنوں گا، راجا مہندر پرتاپ کی روح کو سکون ملے گا۔

ہم نے طویل عرصے تک ان لوگوں کو نظرانداز کیا ہے جو ہمارے رہنما تھے۔ سچی معنوں میں انہوں نے ملک کے لیے اپنی سب سے بڑی قربانی دی ہے۔

ہم نے قبائلی دن منانا شروع کر دیا ہے۔ بِرسا منڈا کی عمر کیا تھی؟ چلیے دیر سے سہی، مگر درست طور پر آیا۔ پراکرم دن پر مغربی بنگال کے گورنر تھے، نیتاجی سبھاش!

راجا مہندر پرتاپ تو ان سے پہلے تھے، ایک لحاظ سے نیتاجی کی ہندوستانی قومی فوج کی ابتدا کرنے والے وہ ہی تھے۔ مجھے یاد ہے، میں اُس مقام پر گیا تھا جہاں 1945 میں نیتاجی سبھاش چندر بوس نے پرچم لہرایا تھا اور مجھے خوشی ہوئی کہ تیس سال پہلے یہ عظیم کام راجا مہندر پرتاپ نے کیا تھا۔

ہر بار ایک خیال ذہن میں آتا ہے، ہمیں آزاد بھارت میں کیا کرنا پڑے گا تاکہ ہمارے طبقے کے لوگوں کی جو مہارت ہے، اس کا مناسب احترام اور عزت مل سکے؟ موجودہ نظام ٹھیک ہے، اقتصادی ترقی شاندار ہے۔

ہمارے پاس بے حد اقتصادی ترقی ہے، زبردست بنیادی ڈھانچے کی ترقی ہے۔ ہماری عالمی حیثیت بہت بلند ہے، مگر جیسا کہ میں نے کہا، 2047 تک ایک ترقی یافتہ ملک کے طور پر ہمارا درجہ حاصل کرنے کے لیے ایک پیشگی شرط یہ ہے کہ ہمارا کسان مطمئن ہو۔

ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ اپنوں سے نہیں لڑا جاتا ہے، اپنوں کو نہیں جھکایا جاتا ہے، جھکایا دشمن کو جاتا ہے، اپنوں کو گلے لگایا جاتا ہے۔ کیسے نیند آ سکتی ہے جب کسان کی مشکلات کا حل تیز رفتاری سے نہیں ہو رہا ہو؟

مجھے بہت خوشی ہے کہ وزیرِ زراعت شیوراج چوہان نے اس پر بات کی ہے، ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔ میں کسان بھائیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس ملک میں مسائل کا حل بات چیت سے ہوتا ہے، سمجھانے سے ہوتا ہے، راجا مہندر پرتاپ کی ایک سے بڑھ کر ایک حکمت عملی تھی۔ متنازعہ رویہ کمزور سفارتکاری ہے۔

ہمیں حل کے لیے کھلا رہنا ہوگا، بات چیت کے لیے کھلا رہنا ہوگا کیونکہ یہ ہمارا ملک ہے، یہ ملک دیہی پس منظر سے متاثر ہے، اور میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ میرے کسان بھائی جہاں کہیں بھی ہوں اور جس کسی بھی تحریک میں سرگرم ہیں، میری بات ان تک پہنچے گی اور وہ اس پر دھیان دیں گے۔ آپ سب لوگ مجھ سے زیادہ جانکار ہیں، زیادہ تجربہ کار ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس مسئلے کا تیز ترین حل نکالنے کے لیے مثبت توانائی کا اجتماع ہوگا۔

وہ پارلیمنٹ کے رکن تھے۔ میں نے ان کی تمام کارروائیاں دیکھی ہیں، اور مجھے ایک بہت خاص بات نظر آئی، اور مجھے یہ اندازہ ہوا کہ وہ کتنے دور اندیش تھے، کتنی باتوں کا خیال رکھتے تھے۔

22 نومبر 1957 کو لوک سبھا میں انہوں نے ایک تجویز پیش کی، اور تجویز کا موضوع کیا تھا؟ کہ ہمیں کچھ لوگوں کو عزت دینی چاہیے۔ اور کیوں دینی چاہیے؟ کیونکہ انہوں نے ملک کے معاملات میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے، آزادی کے لیے اور دیگر معاملات میں بھی۔

تو انہوں نے ایک تحریک پیش کی اور وہ تین افراد کو خاص طور پر عزت دینا چاہتے تھے – اور وہ تھے ویر ساورکر، ویرندرا کمار گھوش جو اروندو جی کے بھائی تھے اور ڈاکٹر بھوپندر ناتھ دتہ جو سوامی وویکانند جی کے بھائی تھے، یہ کیا انتخاب کیا تھا انہوں نے؟

پھر ہمارے ساتھ جو ہوتا ہے، وہی ہوا، اب ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ اس تجویز کے خلاف اس وقت کی حکومت نے مزاحمت کی۔ راجا مہندر پرتاپ کے دل میں اتنی تکلیف ہوئی کہ انہیں کہنا پڑا کہ احتجاجاً، میں اس فیصلے کے خلاف واک آؤٹ کرتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ ہر بنگالی اور ہر مراٹھا اس کے خلاف نکلے گا۔

انہوں نے اپنی دکھ بھری باتیں پیش کیں، معزز حاضرین، عزت مآب اراکین، یہ غمگین لمحہ راجا صاحب کے آزادی کے ہیروز کو علاقائی اور نظریاتی سرحدوں سے بالاتر ہو کر عزت دینے کے پختہ عزم کی مثال ہے۔ کیا ہم ایسے عظیم شخص کا کچھ نہیں کر سکتے؟

ہم بے بس نہیں ہیں، آئیں ہم سب ایک ساتھ آئیں اور یہ یقینی بنائیں کہ اس مادرِ بھارت کے عظیم بیٹے کو ان کی مستحق عزت ملے۔

******

ش ح۔ ش ا ر۔  ول

Uno-3246


(Release ID: 2079513) Visitor Counter : 93
Read this release in: English , Hindi , Kannada