جدید اور قابل تجدید توانائی کی وزارت
ہندوستان کی قابل تجدید توانائی کی صلاحیت نے نیا سنگ میل عبور کیا
قابل تجدید توانائی اب کل صلاحیت کا 46.3 فیصد سے زیادہ ہے
Posted On:
13 NOV 2024 4:57PM by PIB Delhi
تعارف
ہندوستان اپنے قابل تجدید توانائی کے سفر میں ایک اہم سنگ میل تک پہنچ گیا ہے، ملک کی کل قابل تجدید توانائی کی صلاحیت 200 جی ڈبلیو (گیگا واٹ) کو عبور کر چکی ہے۔ یہ قابل ذکر نمو 2030 تک غیر فوسل ذرائع سے 500 گیگا واٹ حاصل کرنے کے ملک کے قابل تجدید توانائی کے ہدف کے مطابق ہے۔
سنٹرل الیکٹرسٹی اتھارٹی کے مطابق، قابل تجدید توانائی پر مبنی بجلی پیدا کرنے کی کل صلاحیت اب 203.18 گیگاواٹ ہے۔ یہ کامیابی صاف ستھری توانائی کے تئیں ہندوستان کے بڑھتے ہوئے عزم اور ایک سرسبز مستقبل کی تعمیر میں اس کی پیش رفت کو واضح کرتی ہے۔ ہندوستان کی کل قابل تجدید توانائی کی تنصیب شدہ صلاحیت میں صرف ایک سال میں متاثر کن 24.2 جی ڈبلیو (13.5فیصد )کا اضافہ ہوا، جو اکتوبر 2024 میں 203.18 جی ڈبلیو تک پہنچ گیا، جو کہ اکتوبر 2023 میں 178.98 جی ڈبلیو تھا۔ اس کے علاوہ جب اس میں نیوکلیائی توانائی کو بھی شامل کرتے ہیں تو ہندوستان کی غیر فوسل فیول سے حاصل توانائی کی مجموعی صلاحیت 2024 میں بڑھ کر 211.36 گیگاواٹ ہو گئی، جو کہ 2023 میں 186.46 گیگا واٹ تھی۔
یہ سنگ میل ہندوستان کے قدرتی وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے برسوں کی دلجمعی کے ساتھ کی گئی کوششوں کے نتیجے کی عکاسی کرتا ہے۔ وسیع و عریض سولر پارکس سے لے کر ونڈ فارمز اور ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹس تک، ملک نے مستقل طور پر متنوع قابل تجدید توانائی کی بنیاد بنائی ہے۔ ان اقدامات سے نہ صرف فوسل فیول پر انحصار کم ہوا ہے بلکہ ملک کی توانائی کی حفاظت کو بھی تقویت ملی ہے۔ 8,180 میگاواٹ کی جوہری صلاحیت کو شامل کرنے پر ، کل غیر فوسل فیول پر مبنی بجلی اب ملک کی نصب شدہ بجلی کی پیداواری صلاحیت کا تقریباً نصف حصہ بنتی ہے، جو عالمی سطح پر صاف ستھری توانائی کی قیادت کی جانب بڑھتے ہوئے ایک مضبوط قدم کا اشارہ ہے۔
ہندوستان کے قابل تجدید توانائی کے منظر نامے کا جائزہ
ہندوستان کی کل بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 452.69 جی ڈبلیو تک پہنچ گئی ہے، جس میں قابل تجدید توانائی مجموعی پاور مکس کا ایک اہم حصہ بن گئی ہے۔ اکتوبر 2024 تک، قابل تجدید توانائی پر مبنی بجلی کی پیداواری صلاحیت 203.18 گیگاواٹ ہے، جو ملک کی کل نصب شدہ صلاحیت کا 46.3 فیصد سے زیادہ ہے۔ یہ ہندوستان کے توانائی کے منظر نامے میں ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے، جو صاف ستھرے، غیر فوسل ایندھن پر مبنی توانائی کے وسائل پر ملک کے بڑھتے ہوئے انحصار کی عکاسی کرتا ہے۔
قابل تجدید توانائی کے وسائل کی ایک قسم اس شاندار کامیابی کا ایک حصہ ہے۔ شمسی توانائی 92.12 جی ڈبلیو کے ساتھ سب سے آگے ہے، جو سورج کی وافر روشنی کو استعمال کرنے کی ہندوستان کی کوششوں میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہوا سے پیدا کی جانے والی بجلی 47.72 جی ڈبلیو کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے، جو ملک بھر میں ساحلی اور اندرون ملک ونڈ کوریڈورز کی وسیع صلاحیت کو استعمال کرتی ہے۔ ہائیڈرو الیکٹرک پاور کی اہمیت بھی کم نہیں ہے، جس میں بڑے ہائیڈرو پروجیکٹ 46.93 جی ڈبلیو پیدا کرتے ہیں اور چھوٹے ہائیڈرو پاور 5.07 جی ڈبلیو کا اضافہ کرتے ہیں، جو ہندوستان کے دریاؤں اور پانی کے نظام سے توانائی کا ایک قابل اعتماد اور پائیدار ذریعہ ہیں۔
بایو پاور، بشمول بائیو ماس اور بائیو گیس توانائی، قابل تجدید توانائی کے مجموعے میں مزید 11.32 گیگاواٹ کا اضافہ کرتی ہے۔ یہ بائیو انرجی پروجیکٹس زرعی فضلہ اور دیگر نامیاتی مواد کو بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنے کے سلسلے میں اہم ہیں، جس سے ہندوستان کے صاف سھترے توانائی کے ذرائع کو مزید متنوع بنایا جا رہا ہے۔ ایک ساتھ مل کر، یہ قابل تجدید وسائل ملک کو ایسے وقت میں روایتی فوسل فیول پر انحصار کم کرنے میں مدد کر رہے ہیں، جبکہ ہم توانائی کے زیادہ پائیدار اور لچکدار مستقبل کی طرف پیش رفت کر رہے ہیں۔
مستقبل کےلئے بجلی کی فراہمی: قابل تجدید توانائی کے ذریعے ملازمت کے مواقع میں زبردست اضافہ
بین الاقوامی قابل تجدید توانائی ایجنسی (ارینا) کے 2024 کے سالانہ جائزے کے مطابق، 2023 میں، ہندوستان کے قابل تجدید توانائی کے شعبے نے ایک اہم سنگ میل حاصل کیا، جس میں اندازے کے مطابق 1.02 ملین جابس پیدا ہوئے۔ عالمی قابل تجدید توانائی کی افرادی قوت 2023 میں بڑھ کر 16.2 ملین ہوگئی، جو کہ 2022 میں 13.7 ملین تھی، اس ترقی میں بھارت کا اہم کردار ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے تعاون سے تیار کی گئی یہ رپورٹ، صاف ستھری توانائی میں ہندوستان کی بڑھتی ہوئی قیادت اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے والے گرین جابس پیدا کرنے کے لیے اس کے عزم کو واضح کرتی ہے۔
ہائیڈرو پاور سیکٹر کے اندر سب سے بڑے آجر کے طور پر ابھری ہے، جس نے تقریباً 453,000 ملازمتیں فراہم کی ہیں، جو کہ عالمی کل کا 20 فیصد بنتا ہے، چین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ سولر فوٹو وولٹک (پی وی) کا شعبہ اس کے بعدآتا ہے، جس نے آن گرڈ اور آف گرڈ دونوں نظاموں میں تقریباً 318,600 افراد کو ملازمت دی۔ 2023 میں، ہندوستان نے شمسی پی وی کی صلاحیت میں 9.7 گیگاواٹ کا اضافہ کیا، جو کہ نئی تنصیبات اور مجموعی صلاحیت کے لیے عالمی سطح پر پانچویں نمبر پر ہے، جو سال کے آخر تک بڑھ کر72.7 گیگاواٹ تک پہنچا۔ کل سولر ورک فورس میں سے 238,000 ملازمتیں گرڈ سے منسلک سولر پی وی میں تھیں، جو 2022 سے 18 فیصد اضافے کی عکاسی کرتی ہیں، جبکہ تقریباً 80،000 افراد آف گرڈ سولر سیکٹر میں کام کرتے ہیں۔
ہوا کے شعبے میں تقریباً 52,200 افراد کام کرتے ہیں، جن میں سے تقریباً 40فیصد کام آپریشن اور دیکھ بھال میں اور 35فیصد تعمیرات اور تنصیب میں ہیں۔ دیگر قابل تجدید توانائی کے ذیلی شعبوں نے بھی ملازمتوں کی تخلیق میں حصہ لیا ہے، مائع بائیو ایندھن 35,000 ملازمتیں فراہم کرتا ہے، ٹھوس بایوماس 58,000 ملازمتیں فراہم کرتا ہے، اور بائیو گیس 85,000 ملازمتیں پیدا کرتا ہے۔ مزید برآں، سولر ہیٹنگ اور کولنگ سیکٹر نے 17,000 لوگوں کو ملازمت فراہم کی، جس نے ہندوستان کی قابل تجدید توانائی کی صنعت میں روزگار کے متنوع اور وسیع مواقع کو اجاگر کیا ہے۔
بھارت عالمی عزائم کی طرف بڑھ رہا ہے
آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ہندوستان کی عزم پیرس معاہدے کے تحت اس کے بڑھے ہوئے قومی سطح پر طے شدہ تعاون (این ڈی سی) سے ظاہر ہوتا ہے، جس میں گلاسگو میں سی او پی 26 میں بیان کردہ پانچ عناصر کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ کوششیں قومی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مساوات اور مشترکہ لیکن مختلف ذمہ داریوں اور متعلقہ صلاحیتوں (سی بی ڈی آر-آرسی) کے اصولوں سے ہم آہنگ ہیں۔ اگست 2022 میں یواین ایف سی سی سی (اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج) کے پاس جمع کرائے گئے اپڈیٹ شدہ این ڈی سی کے حصے کے طور پر، ہندوستان نے 2030 تک (2005 کی سطح کے مقابلے) اپنے اخراج کی شدت کو 45فیصد تک کم کرنے کا عہد کیا ہے، جس میں 2030 تک غیر فوسل فیول کے ذرائع سے مجموعی برقی طاقت کا 50فیصد حاصل کرنا، اور ’لائف‘ (لائف اسٹائل فار انوائرمنٹ) تحریک کے ذریعے زندگی گزارنے کے ایک پائیدار طریقے کو فروغ دینا شامل ہے۔ یہ اہداف 2070 تک نیٹ زیرو اخراج تک پہنچنے کے ہندوستان کے طویل مدتی ہدف کا بھی حصہ ہیں، جسے نومبر 2022 میں یو این ایف سی سی سی کے پاس جمع کرائی گئی ’طویل مدتی کم کاربن ڈیولپمنٹ حکمت عملی‘ کی بھی مدد ملی ۔
قابل تجدید توانائی کی صلاحیت میں سرکردہ ریاستیں
ہندوستان میں کئی ریاستیں قابل تجدید توانائی کی صلاحیت میں رہنما کے طور پر ابھری ہیں، جو ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ راجستھان اس فہرست میں سرفہرست ہے جس کے پاس 29.98 جی ڈبلیو کی نصب شدہ قابل تجدید توانائی کی صلاحیت ہے، جس کےلئے اس نے اپنی وسیع زمین اور وافر سورج کی روشنی سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اس کے بعد گجرات ہے، جو 29.52 گیگاواٹ کی صلاحیت کا حامل ہے، جو شمسی اور ہوا سے توانائی کے منصوبوں پر اپنی مضبوط توجہ کے باعث کارفرما ہے۔ تمل ناڈو 23.70 گیگاواٹ کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، جو کہ کافی توانائی پیدا کرنے کے لیے اپنے موافق ہوا کے نمونوں کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ کرناٹک 22.37 جی ڈبلیو کی صلاحیت کے ساتھ سرفہرست چار میں شامل ہے، جس کو شمسی اور ہوا کے اقدامات کے مرکب سے تعاون حاصل ہے۔
ماخذ: https://npp.gov.in/dashBoard/cp-map-dashboard
یہ ریاستیں مل کر ہندوستان کے قابل تجدید توانائی کے اہداف کو آگے بڑھانے اور توانائی کے زیادہ پائیدار مستقبل کے قیام میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔
نتیجہ
آخر میں، ہندوستان کا قابل تجدید توانائی کا سفر ایک اہم سنگ میل تک پہنچ گیا ہے، جس کی نشاندہی 200 جی ڈبلیو سے زیادہ کی نصب شدہ صلاحیت کی متاثر کن کامیابی سے ہوتی ہے۔ یہ کامیابی ایک پائیدار توانائی کے مستقبل کے لیے ملک کے عزم کا ثبوت ہے، جس میں شمسی، ہوا، ہائیڈرو اور بائیو انرجی سمیت قابل تجدید ذرائع کا ایک متنوع سلسلہ کارفرما ہے۔ فعال اقدامات جیسے کہ نیشنل گرین ہائیڈروجن مشن، پی ایم- کسم، پی ایم سوریہ گھر، اور شمسی پی وی ماڈیولز کے لیے پی ایل آئی اسکیمیں توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے پر حکومت کی اسٹریٹجک توجہ کو اجاگر کرتی ہیں اور فوسل فیول پر انحصار کو کم کرتی ہیں۔ سال 2030 تک غیر فوسل ذرائع سے 500 جی ڈبلیو کے ہدف سمیت، مستقبل کے لیے متعین کردہ شاندار اہداف کے ساتھ، ہندوستان قابل تجدید توانائی میں ایک عالمی رہنما کے طور پر ابھرنے کے لیے اچھی پوزیشن میں ہے، جو ماحولیاتی پائیداری اور توانائی کی حفاظت میں تعاون کرتا ہے۔ یہ جاری کوششیں ہری بھری معیشت کی تعمیر کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی عکاسی کرتی ہیں اور اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ ہندوستان نہ صرف اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرتا ہے بلکہ آب و ہوا کی تبدیلی اور وسائل کے تحفظ کے اہم چیلنجوں سے بھی نمٹتا ہے۔
حوالہ جات:
- https://npp.gov.in/dashBoard/gc-map-dashboard
- https://sansad.in/getFile/loksabhaquestions/annex/182/AS31_fzdQcL.pdf?source=pqals
- https://pib.gov.in/PressNoteDetails.aspx?NoteId=153238&ModuleId=3®=3&lang=1
- https://cea.nic.in/?lang=en
- https://pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2072828
- https://pib.gov.in/PressNoteDetails.aspx?NoteId=153238&ModuleId=3®=3&lang=1
- https://pib.gov.in/PressReleaseIframePage.aspx?PRID=1882840
پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
*********************
UR-2429
(ش ح۔ اگ۔ش ہ ب)
(Release ID: 2073109)
Visitor Counter : 16