قومی انسانی حقوق کمیشن
ہندوستانی قومی کمیشن برائے انسانی حقوق’ہندوستان میں قبائلی تعلیم: مسائل، پالیسیاں اور نقطہ نظر‘ پر ایک کھلی بحث کا اہتمام کیا
کمیشن کی قائم مقام چیئرپرسن، محترمہ وجیا بھارتی سیانی نے ایک ثقافتی طور پر حساس تعلیمی نظام پر زور دیا جو قبائلی برادریوں کے متنوع ورثے کو یکجا کرے اور ان کا احترام کرے
مباحثے نے تجرباتی اعداد و شمار کی فوری ضرورت پر روشنی ڈالی، جس میں قبائلی برادریوں کو درپیش مخصوص تعلیمی چیلنجوں کو بہتر طور پر سمجھنے اور ان سے نمٹنے کے لیے یونیورسٹیوں میں قبائلیوں پر مرتکز تحقیق کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا
Posted On:
30 AUG 2024 6:22PM by PIB Delhi
ہندوستانی قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این ایچ آر سی)، نے نئی دہلی میں اپنے احاطے میں ’ہندوستان میں قبائلی تعلیم: مسائل، پالیسیاں اور نقطہ نظر‘ پر ہائبرڈ موڈ (حقیقی اور ورچوئل ) میں ایک کھلے مباحثے کا اہتمام کیا۔ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے قائم مقام چیئرپرسن محترمہ وجیا بھارتی سیانی نے ثقافتی طور پر حساس تعلیمی نظام پر زور دیا جو قبائلی برادریوں کے متنوع ورثے کو مربوط اور ان کا احترام کرے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم قبائلی برادریوں کو بااختیار بنانے اور کافی ترقی اور مختلف حکومتی اقدامات کے باوجود جغرافیائی تنہائی، زبان کے فرق، غربت، اور کم عمری کی شادی جیسی مسلسل رکاوٹوں پر قابو پاتے ہوئے سماجی ترقی کو آگے بڑھانے میں مدد کرے گی۔
محترمہ وجیا بھارتی سیانی نے کہا کہ کمیشن سب کے لیے معیاری تعلیم کی وکالت کرنے، موجودہ پروگراموں کا جائزہ لینے اور قبائلی تعلیم میں شمولیت اور مساوی ترقی کو فروغ دینے کے خلا کو دور کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے سرکاری اداروں، این جی اوز اور قبائلی گروپوں کے درمیان باہمی تعاون پر مبنی مسلسل کوششوں کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
قبل ازیں، اپنے افتتاحی خطاب میں، نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے سکریٹری جنرل، جناب بھرت لال نے قبائلی تعلیم میں خلاء پر روشنی ڈالی اور ان کمیونٹیز میں تعلیمی نتائج کو بڑھانے اور ان کی ترقی کے لیے ہدف بند پروگرام لانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں خواندگی کی کم شرح اور اسکول چھوڑنے کی زیادہ شرح اکثر مخصوص چیلنجز سے مربوط ہے جیسے کہ معیاری تعلیم تک ناکافی رسائی، ثقافتی لحاظ سے متعلقہ نصاب کی کمی، اساتذہ اور طلبہ کا ناقص تناسب، اور ناکافی تعلیمی انفراسٹرکچر ۔
جناب لال نے مساوی اور جامع تعلیم کو یقینی بنانے کے لیے ان خامیوں کو دور کرنے کی اہمیت پر زور دیا، تاکہ ہر قبائلی بچے کو کامیابی کا مساوی موقع ملے۔ انہوں نے ٓئی آئی ٹیز اور آئی آئی ایمز جیسے اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں قبائلی نمائندگی کو بہتر بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا اور ہدف بنداسکالرشپ پروگرام، رہنمائی اور تیاری کے کورسز کو چلانے کی ضرورت پر زور دیا، تاکہ تعلیمی تقسیم کو ختم کیا جا سکے اور قبائلی طلباء کو ان باوقار اداروں میں مہارت حاصل کرنے میں مدد کی جاسکے۔
قبل ازیں، اوپن ہاؤس کا ایک جائزہ پیش کرتے ہوئے، این ایچ آر سی کے جوائنٹ سکریٹری، جناب دیویندر کمار نِم نے قبائلی طلباء میں بڑے پیمانے پر اسکول چھوڑنے کی شرح اور گرتی ہوئی مجموعی اندارج کے تناسب پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے فرق کی نشاندہی کرنے، موجودہ پالیسیوں کا تجزیہ کرنے، اور زیادہ جامع تعلیمی نظام کی تشکیل اور ہندوستان میں قبائلی آبادی کے لیے ایک روشن، مساوی مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے متنوع نقطہ نظر کو تلاش کرنے کے لیے ہدف بند اقدامات اور ایک جامع بحث کا مطالبہ کیا۔
میٹنگ میں کئی اہم ایجنڈوں کا احاطہ کیا گیا: قبائلی تعلیم میں خلاء اور چیلنجوں کی نشاندہی کرنا، موجودہ پالیسیوں اور پروگراموں کا تجزیہ کرنا، اور نقطہ نظر اور آگے بڑھنے کے طریقے تلاش کرنا۔ بحث میں قبائلی برادریوں کے لیے تعلیمی رسائی تک مسلسل رکاوٹوں پر توجہ مرکوز کی گئی، جیسے کہ جغرافیائی تنہائی، زبان کے فرق، اور سماجی و اقتصادی مسائل۔ موجودہ اقدامات جیسے آشرم اسکول اور ایکلویہ ماڈل رہائشی اسکول (ای ایم آر ایس) کی تاثیر کا جائزہ لیا گیا تاکہ ان علاقوں کی نشاندہی کی جا سکے جن میں بہتری کی ضرورت ہے۔
بات چیت کے دوران سامنے آنے والی چند اہم تجاویز درج ذیل تھیں۔
• تجرباتی اعداد و شمار کی فوری ضرورت ہے، ان کمیونٹیز کو درپیش مخصوص تعلیمی چیلنجوں کو بہتر طور پر سمجھنے اور ان سے نمٹنے کے لیے یونیورسٹیوں میں قبائلیوں پر مرتکز تحقیق کی ضرورت ہے۔
• ایک جامع اور مربوط پالیسی نقطہ نظر کی ضرورت اور مناسب سہولیات اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنا جس میں خواتین قبائلی بچوں کے لیے کلی طور پر وقف ہاسٹل کی سہولیات شامل ہیں؛
• داخلے کی شرح کو بہتر بنانے کے لیے کمیونٹی کی شمولیت اور رابطہ کاری میں اضافہ اہم ہے، جبکہ بنیادی سہولیات جیسے کہ پینے کے پانی، صفائی اور ہاسٹل کی مناسب سہولیات کو یقینی بنانا، خاص طور پر دور دراز علاقوں میں ضروری ہے۔
• اساتذہ کے لیے صلاحیت سازی کے پروگرام ضروری ہیں تاکہ انھیں قبائلی ثقافتوں اور زبانوں کے بارے میں حساس بنایا جا سکے اور بہتر مواصلات اور تفہیم کی سہولیات فراہم کی جاسکیں۔
• پرائمری سطح پر مقامی زبانوں کو شامل کرنا فہم کو آسان بنانے اور قبائلی طلباء کے لیے مجموعی طور پر سیکھنے کے تجربے کو بڑھانے کے لیے اہم ہے۔
شرکاء میں این ایچ آر سی کے ڈی جی (I) جناب اجے بھٹناگر، رجسٹرار (قانون)، جناب جوگندر سنگھ،محترمہ ارچنا شرما اوستھی، جوائنٹ سکریٹری، محکمہ اسکولی تعلیم اور خواندگی، وزارت تعلیم؛ جناب سنیل کمار برنوال، ایڈیشنل سکریٹری، محکمہ اعلیٰ تعلیم، وزارت تعلیم؛ جناب سورت سنگھ، ڈائرکٹر، نیشنل کمیشن فار شیڈیولڈ ٹرائب؛ جناب اجیت کمار سریواستو، کمشنر، نیشنل ایجوکیشن سوسائٹی فار ٹرائبل اسٹوڈنٹس؛ جناب کرپانند جھا، سکریٹری، درج فہرست قبائل کے محکمہ، جھارکھنڈ؛ جناب وجیسنگ وساوے، جوائنٹ سکریٹری، قبائلی ترقی محکمہ، مہاراشٹر؛ جناب یوگیش ٹی کے اے ایس، ڈائرکٹر، شیڈولڈ ٹرائب ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ؛ جناب نریندر کمار ڈوگا، کمشنر، قبائلی اور درج فہرست ذات کے ترقیاتی محکمہ، چھتیس گڑھ؛ پروفیسر آلوک کمار چکروال، وائس چانسلر، گرو گھاسی داس وشو ودیالیاس، کونی، بلاسپور؛ پروفیسر (ڈاکٹر) مدھوکر بھائی ایس پاڈوی، وائس چانسلر، برسا منڈا ٹرائبل یونیورسٹی، گجرات؛ پروفیسر ٹی وی کٹیمانی، وائس چانسلر، سینٹرل ٹرائبل یونیورسٹی آف آندھرا پردیش؛ پروفیسر رویندر رمیش پاٹل، پروفیسر، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی؛ ڈاکٹر گوری شنکر مہاپاترا، ایسوسی ایٹ پروفیسر، اندرا گاندھی نیشنل ٹرائبل یونیورسٹی، امرکنٹک؛ ڈاکٹر ستیہ کام جوشی، قائم مقام ڈائریکٹر اور پروفیسر، ویر نرمدا ساؤتھ گجرات یونیورسٹی؛ جناب اپوروا اوزا، ڈائریکٹر، آغا خان رورل سپورٹ پروگرام، انڈیا؛ جناب مہیش شرما، سماجی کارکن، بانی شیو گنگا جھابوا وغیرہ شامل تھے۔
************
ش ح۔ ا ک ۔ م ص
(U:10528 )
(Release ID: 2051762)
Visitor Counter : 34