نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ

آب وہوا سے متعلق چوتھی بین الاقوامی کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے نائب صدر کے خطاب کا متن

Posted On: 19 JUL 2024 4:48PM by PIB Delhi

معزز مندوبین اور سامعین،

دنیا بھر سے آئے دوستو، آب وہوا سے متعلق چوتھی بین الاقوامی کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرنا میرے لئے  باعث  فخر ہے  اور میں اسے اپنے  لئے ایک بڑا اعزاز سمجھتا ہوں۔

آب و ہوا میں تبدیلی ایک ایسا لفظ ہے، جس کی  قومی اور عالمی سطح پر ہر فورم میں گونج ہے، یہ خوش آئند ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی پر جس  توجہ  کی ضرورت ہے  وہ  اسے حاصل ہور ہی ہے۔ عصری طور پر متعلقہ موضوع ، "بائیو اینرجی: پاتھ ٹو وِکِسِت  بھارت" پر ہونے والی بات چیت یقینی طور پر آب و ہوا میں تبدیلی کے خطرے پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

ڈینٹیڈ کارن ایتھنول کے بارے میں تبادلہ خیال  کیا گیا ہے۔ میں ایک کسان کا بیٹا ہوں،  مجھے فوری طور پر دو باتوں کا خیال  آیا: پہلا، اس کی پیداواری صلاحیت تین گنا ہے، اور دوسرا یہ، کہ یہ کسی لحاظ سے آب و ہوا میں تبدیلی پر قابو پانے میں مدد کرتا ہے۔ آپ نے ایک اچھا موضوع  منتخب کیا ہے۔

ہمارا سیارہ، جو کبھی پوری طرح سرسبز تھا، اب اپنے ماضی  جیسا نہیں ہے۔  اس کی تصویر  بھی نہیں ہے۔  قدرتی وسائل کے بے دریغ استحصال اور دوسروں کے درمیان جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے آب و ہوا میں تبدیلیوں نے ہمیں تباہی کے قریب پہنچا دیا ہے۔

انسانیت خطرے میں ہے۔ آب و ہوا میں تبدیلی کا غبارہ دن بہ دن بڑا ہوتا جا رہا ہے، اس  میں اسی وقت کمی ہو سکتی ہے، جب عالمی سطح پر اتفاق رائے ہو اس پر فوری غور کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ ایک ایسا ہی اقدام ہے۔

دوستو، ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے لیے کوئی ہنگامی منصوبہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا سیارہ نہیں ہے۔ یہ واحد سیارہ ہے، جہاں 8 ارب سے زیادہ لوگ رہ سکتے ہیں۔ اس  وجہ سے ہمیں حالات،  اس کی سنگینی ، اور ان سب چیزوں کی انتہا  پر دھیان  دینا چاہیے اور  اس پر  توجہ کرنا ہماری  ترجیح  ہونی چاہیے، یہ ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

آب و ہوا میں تبدیلی ایک ایسا بم ہے، جو ہر لمحہ  پھٹنے کے قریب ہو تا جا رہا  ہے۔ ہمارے پاس متبادل کم ہوتے  جارہے ہیں۔  یہ  اب ایک ایسا مسئلہ نہیں ہو ہے جس کے  ہونے کا انتظار کیا جائے ۔ یہ ہر لمحہ  سنگین سے سنگین تر  ہوتا جا رہا ہے۔

دوستو، اگر کرہ ارض میں وجود کا کوئی مسئلہ ہے، تو یہ  8 ارب سے زیادہ انسانیت کے  سامنے آب و ہوا میں تبدیلی  کا مسئلہ ہے۔ یہ انسانیت کو درپیش اب تک کا سب سے سنگین مسئلہ ہے۔

ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کا ہم سامنا کر رہے ہیں، ایک ایسا مسئلہ ہے ،جس کے حل کا مزید انتظار نہیں کیا جا سکتا، اگر فوری طور پر توجہ نہ دی گئی، تو ایک مسئلہ پورے  کرہ  ارض کی کمیونٹی کے لیے تباہی کا باعث بنے گا۔ آب و ہوا میں تبدیلی کا مسئلہ ایسا نہیں ہے، جسے کوئی ایک ملک خود حل کر سکے۔

عالمی برادری اس مہلک لعنت کے بارے میں  اتنی فکر مند ہے ، جو اس سے  پہلے کبھی نہیں تھی۔  تاریخی اور محاورے کے مطابق آسمان کبھی نہیں گرا۔ لیکن اس عالمی تباہ کن صورتحال کے ساتھ،  اس سے بھی زیادہ برا ہوسکتا ہے۔

فطرت کے ساتھ ہم آہنگ بقائے باہم، اور ماحولیات کا گہرا احترام، بھارت کی تہذیبی اقدار  کا ایک  فطری پہلو رہا ہے۔  5000 سال  قدیم تہذیبی اقدار کو دیکھیں، صدیوں پرانی  تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو فطرت سے مکمل ہم آہنگی ،  ہمارے وید، ہمارے قدیم صحیفے، اسکرپٹ کے علاوہ سبھی کچھ ایسا ملے گا،جو  ماحول دوست ہو  اور ہماری زندگی اور سوچ ہمارے عمل کے لیے لازم و ملزوم رہی ہے۔

آب و ہوا میں تبدیلی ایک عالمی آفت کے طور پر ابھری ہے۔ بڑھتی ہوئی سمندر کی سطح کے طور پر ہم اسے ہر روز  اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں ۔ دنیا کے  ہر حصے  میں  طویل خشک سالی  دیکھی جارہی ہے۔

جنگل کی آگ میں شدت،  ان میں  بہت  اضافہ ہو ا ہے ۔  انتہائی  خطرناک  طوفان  دنیا بھر میں کمیونٹی کے خاتمے کا باعث بن  رہے ہیں ۔  دوستو، یہ تبدیلیاں نہ صرف کمزور آبادیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہیں، بلکہ حیاتیاتی تنوع اور غذائی تحفظ کو بھی خطرے میں ڈال رہی  ہیں، جس سے ہمارے قدرتی وسائل اور زراعت کے نظام پر خاصا دباؤ پڑتا ہے۔

دوستو، جیسا کہ ہم ان چیلنجوں کا سامنا کررہے ہیں، یہ ناگزیر  ہو جاتا ہے کہ ایک جامع اور شمولیت والا طریقہ کار اپنایا جائے، جو اختراعی حل اور پائیدار طرز عمل سے اس کا حل نکال سکے۔  میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ کرہ ارض پر رہنے والے 8 بلین سے زیادہ لوگوں  کا ، ہر ایک کا مسئلہ ہے اور ہم  سب کسی نہ کسی طریقے سے  اس میں  تعاون کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔

ہمیں اسے اپنے  ذہن میں ایک ترجیح کے طور پر رکھنا ہے، ہم اپنے گھر میں، اپنی فیکٹری میں، سڑک پر، اپنے کام میں، اپنی کارکردگی میں اس کے لئے کام کر سکتے ہیں۔

بھارت نے ایک اہم سفر کا آغاز کیا ہے۔ ہم نے 2030 تک غیر معدنی ایندھن پر مبنی توانائی کے وسائل سے بجلی کی نصب شدہ  صلاحیت کا 50 فیصد حاصل کرنے اور 2047 تک صفر  اخراج حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ بھارت اُن اہم ممالک میں شامل ہے، جو  اس سمت میں پوری جانفشانی سے کام کر رہے ہیں۔

بھارت نے یہ ہدف مقرر کیا ہے اور پالیسیوں اور اختراعات کے کئی مثبت قدم اٹھاتے ہوئے اس کے لیے اہم طریقے سے کام کر رہا ہے۔ بائیو ایندھن کے تئیں بھارت کے عہد کے سفر نے اس وقت  ایک اہم سنگ میل حاصل کیا،  جب ہماری پہلی بائیو فیول سے چلنے والی پرواز نے سال 2018 میں اپنا پہلا سفر کیا۔

2018 کی قومی بائیو فیول پالیسی کا مقصد روایتی ایندھن کے ساتھ بائیو فیول کی ملاوٹ کو فروغ دے کر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج اور درآمد شدہ پیٹرولیم پر انحصار کو کم کرنا ہے۔ اس کی تکمیل کرتے ہوئے، 2022 میں شروع ہونے والا نیشنل بایو انرجی پروگرام، دیہی گھرانوں کے لیے اضافی آمدنی کا ذریعہ فراہم کرتے ہوئے اضافی بایو ماس کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اس طرح ماحولیاتی اور اقتصادی دونوں مقاصد کو پورا کرتا ہے اور میں  یہ بھی  کہتا ہوں  کہ ڈینٹڈ کون ایتھنول ایک اضافی مثبت عنصر ثابت  ہوگا، جو بھارت کے کسانوں کے تصورات  کو پورا کرے گا اور ان کی آمدنی میں بھی اضافہ کرے گا۔

دوستو، گرین ہائیڈروجن کے  اخراج کے لئے، پہلے ہی 18000 کروڑ  روپے  کا مالی  منصوبہ  تیار کیا گیا ہے۔ اس میں 8 لاکھ کروڑ  روپے کی سرمایہ کاری اور 6 لاکھ افراد کے لیے نوکریوں کو مدعو کرنے کی صلاحیت ہے۔ یہ درست سمت میں ایک اہم قدم ہے، تاکہ ہم ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے مثبت  پیش رفت  کرسکیں۔

' کچرے  سے دولت'، گووردھن اسکیم، سوچھ بھارت کا ایک جزو ہے۔ جب لال قلعہ سے ملک کے وزیر اعظم نے سوچھ بھارت کا اعلان کیا، تو کچھ لوگوں نے اس کے مقصد  اور گہرائی کی  ستائش نہیں کی تھی۔

یہ اب ایک بڑا پروگرام بن چکا ہے، یہ آب و ہوا میں تبدیلی پر قابو پانے کا بھی ایک پہلو ہے۔ جدید بایو انرجی نہ صرف صاف ایندھن فراہم کرتی ہے، بلکہ آلودگی کو کم کرنے، کسانوں کی آمدنی بڑھانے، درآمدی بلوں کو کم کرنے اور مقامی ملازمتیں پیدا کرنے میں بھی مدد کرتی ہے۔ ذرا ایک لمحے کے لیے تصور کریں، اگر ہمارا سیارہ رہنے کے قابل ہو جائے، جیسا کہ یہ 100 سال پہلے تھا، تو یہ ہمارے لیے ایک اچھا معاشی عنصر ہو گا، ہمارے لیے سکون بخش ہو گا۔

ہمیں راحت ملے گی ۔ ہمارا گلا نہیں دبایا جائے گا، تو پھر خود سوچیں ہم اپنا تعاون کیوں نہیں کر رہے ہیں؟  ہم اس لیے تعاون نہیں کر رہے ہیں ،کیونکہ ہماری سوچ  ایسی  ہے کہ 8 ارب لوگوں کی آبادی والے ایک بڑے سیارے میں ہماری چھوٹا سا تعاون  بہت  بے وقعت  ہوگا۔

لیکن مجھ سےپوچھیں ،  آپ کا یہ تعاون  اب تک  کئے گئے  آپ  کے سبھی  تعاون سے سب سے زیادہ نتیجہ خیز اور اثر انگیز ہوگا۔  دوستو، نئی دہلی میں جی- 20 سربراہ  اجلاس کے دوران، بھارت کوجی- 20 نے سافٹ  ڈپلومیسی میں  ایک زبردست  کامیابی  عطا کی ۔

دنیا نے ہماری قابلیت کو تسلیم کیا،جی- 20 ہر ریاست اور  مرکز کے زیر انتظام ہر علاقے میں معقد  کیا گیا ۔ یہ ایک اہم فیصلہ  تھا۔  عالمی بایو فیول اتحاد ختم  ہو چکا  تھا اور یہ بھارت کے ذریعہ  دوسری کوشش تھی۔ ہم پہلے ہی شمسی اتحاد  قائم  کر چکے تھے، جس کا صدر دفتر بھارت میں ہے۔

رڈیوس، ری یوز، ری سائیکل کریں: 3  آر،حکمت عملی صرف ایک منتر ہی نہیں ہے۔ یہ آب و ہوا میں تبدیلی کے خلاف جنگ میں ہماری اجتماعی جنگ ہے۔ اس میں اعلی پیداواری صلاحیت ہے۔ یہ آب و ہوا کی تبدیلی کے خلاف اجتماعی جنگ کا اشارہ کرتی ہے۔ پائیدار اور ترقی یافتہ ہندوستان کی طرف منتقلی کے لیے، میرے الفاظ کو نشان زد کریں، سب کی شرکت کی ضرورت ہے۔

مرکزی حکومت، ریاستی حکومتیں، بلدیات، پنچایتیں، این جی اوز، چھوٹے اور مائیکرو انٹرپرائزز، بڑے کارپوریٹس، اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سب کو ایک اسٹیج پر آنا ہوگا، ایک پیج پر آنا ہوگا۔ کیونکہ اگر اس سے نمٹا نہ گیا، تو یہ غیر امتیازی ہوگا۔ اس میں کوئی رعایت نہیں ہوگی۔ آپ کو محفوظ جگہ نہیں مل سکتی۔ آپ اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے کوئی بنکر نہیں بناسکتے۔

آپ جتنے بھی اونچے اور طاقتور کیوں نہ ہوں،  آب و ہوا میں تبدیلی پر قابو پانے کے لیے میراتھن مارچ میں شامل ہونا ہی  کا واحد متبادل  ہے۔ اگر آپ اس ہون میں شامل نہیں ہوتے ہیں، ‘‘اس ہون میں  اگر 8  ملین میں  ایک بھی شخص آہوتی  نہیں دیتا ہے، ایک بھی سنگٹھن  اگر اپنا سکریہ پربھاؤ نہیں ڈالتا ہے تو وہ خود کو  خطرے میں ڈالتا ہے’’۔ اب  وقت آگیا ہے کہ ہم اکٹھے ہوں، مل کر کام کریں، مل کر مارچ کریں، مل جل کر مسئلہ حل کریں۔

آب وہوا  سے متعلق انصاف ہمارقطب  تارہ ہونا چاہیے کیونکہ آب و ہوا میں تبدیلی غیر متناسب طور پر پسماندہ اور کمزور کمیونٹیز کو متاثر کرتی ہے، موجودہ عدم مساوات کو بڑھاتی ہے اور نئے چیلنجز پیدا کرتی ہے۔ لیکن اس سے پریشان نہ ہوں، کمزور طبقہ اس کا اثر تیزی سے حاصل کرتا ہے۔ جب یوم حساب آئے گا تو کسی کو نہیں بخشا جائے گا۔ لہذا، ہمیں متحد ہو کر آگے بڑھنا ہے، جتنا ہم کر سکتے ہیں، اپنی توانائی کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا، اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا، سی ایس آر فنڈز کے ذریعے ہم سب کو کچھ دینا  ہےاور بصورت دیگر یہ دیکھنا ہے کہ ہم اس مسئلے سے بروقت نمٹ سکتے ہیں۔

جیسا کہ آب و ہوا میں تبدیلی کے اثرات دنیا بھر میں پھیل رہے ہیں، تمام ممالک ، اقوام متحدہ کی تمام تنظیمیں، تمام این جی اوز اس سے پریشان ہیں۔ لیکن ہمیں جو نتیجہ حاصل ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ اسے کانفرنسوں سے آگے  آنا چاہئے۔ اسے بڑے بیانیے میں شامل ہونا چاہیے، ہر ایک کو سوشل پلیٹ فارمز کا استعمال کرنا چاہیے اور ہر ایک کو یہ بتانا چاہیے کہ وہ کیا تعاون کر رہا ہے۔ راجہ سبھا کے چیئرپرسن کے طور پر، میں نے تمام معزز ممبران کو اشارہ کیا، براہ کرم ہر سال کم از کم 200 پودے لگائیں۔ جب میں فنکشنز میں جاتا ہوں تو میں  نے اسے اپنی عادت میں شامل کرلیا ہے ۔

اس کا بہت اثر پڑے گا، تازہ ترین 'ایک پیڑ ماں کے نام' صرف ایک جذباتی اپیل نہیں ہے۔ یہ صرف ایک نعرہ نہیں ہے۔ یہ ایک ارتقائی قدم ہے، ایک ایسا قدم جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ہر سال 1.4 بلین لوگ پودے لگائیں گے۔ اس کابہت  مثبت  اور وسیع اثر پڑے گا۔ اس سے ہمیں اس وجودی مسئلے سے نمٹنے میں مدد ملے گی، جو ہماری  تشکیل  کا مسئلہ ہے۔

ایک مسئلہ ہماری تشکیل کا ہے، کیونکہ ہم نے فطرت کو نظر انداز کیا ہے۔ ہم نے عظمت کو نظر انداز کیا، ہم نے اپنی تہذیبی اقدار کو نظر انداز کیا، ہم تجارت کے لیے نکلے، قدرتی وسائل کا بے تحاشہ استحصال اور جنگلات کی کٹائی کی۔

اس لیے اس سے آگاہی آسان ہو گی کیونکہ لوگ اس سے با خبر  ہیں۔ ہمیں اپنے عزم کا اعادہ کرنا چاہیے کہ یہ ہمارا کورس  24 گھنٹے ساتوں دن  طے کرے گا۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے  ، جو ہم مہینے میں ایک بار یا سال میں ایک بار کر سکتے ہیں۔

ہمیںیہ روزانہ  کرنا ہے کیونکہ ہر روز اپنا  تعاون دینے کی ہماری صلاحیت کا ہمیں علم  ہے۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہماری کوششیں  بلندی تک پہنچیں گی اور  ہم  اس مسئلے پر قابو پا لیں گے  ، جس کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔  ساتھیو ، جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے ہیں، ہمیں مہاتما گاندھی کے  ، اُن دانشمندانہ الفاظ کو یاد کرنا چاہیے ۔ وہ ہمیشہ غریبوں کے لیے سوچتے  تھے۔ وہ ہمیشہ فضیلت کے بارے میں سوچتے تھے۔ وہ سربلندی پر یقین رکھتے تھے ۔ وہ انسانیت پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں  نے اس تصور میں  تعاون دیا  ہے ، جو ہمارا اپنا ہے۔ ہم پوری دنیا کے ساتھ ایک قوم کی طرح سلوک کرتے ہیں۔

جی 20 میں بھی ہمارا یہی نعرہ تھا۔ ایک کنبہ ، ایک کرۂ ارض ، ایک مستقبل۔ اس  کے تعلق سے انہوں نے جو کچھ کہا، بابائے قوم کے  اُن دانشمندانہ الفاظ کو یادرکھیں کہ  ’’دنیا ہر ایک کی ضرورت کے لیے کافی ہے لیکن ہر ایک کے لالچ کے لیے کافی نہیں ہے۔ ‘‘

انہوں نے  ، اُس وقت کہا تھا کہ  ذرا سوچو کہ اُس کی موت کے بعد کیا ہوا ہے۔ تب حالات اتنے پیچیدہ نہیں تھے جتنے اب ہیں ۔ اب یہ لالچ نہیں ہے۔ ہم اس سے بہت آگے جا چکے ہیں۔  ایسا  کیسے ہو سکتا ہے کہ جس شاخ پر بیٹھے ہو اسی کو کاٹ رہے ہو۔  ایسا  کیسے ہو سکتا ہے کہ  جو آکسیجن بہ آسانہ مل رہی ہے ، اس کو سلنڈر میں لیں گے ؟  ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ دو پیسے کے فائدے کے لیے  کرہ ارض کو  ہی ختم کر دیں گے ۔

یہ محاسبے کا وقت ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہر ایک کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیئے ، وہ لوگ  ، جو حکومت میں ہیں،وہ لوگ  جو کارپوریٹس میں ہیں، وہ این جی اوز، سماج کے لیڈران، طلباء، کارکنان، کسان، ہر ایک سے رابطہ کیا جانا چاہیئے  اور ہر ایک کو اپنی صلاحیت کے مطابق اپنا  تعاون دینا  چاہیے۔ درحقیقت، میں آپ سے اپیل کروں گا، براہِ کرم زیادہ سے زیادہ تعاون کریں کیونکہ آخر کار یہ آپ کے فائدے  کے لیے ہو گا  اور  یہ پوری بنی نوع انسانیت کے اجتماعی فائدے  کے لیے بھی ہو گا۔

اس سے زیادہ دھرم کا کام آج کے دن اس سر زمین پر کچھ نہیں ہو سکتا ۔ آپ کا تعلق کسی بھی فرقے سے ہو ، کسی بھی ملک سے ہو ، کسی بھی تنظیم سے ہو ، کسی بھی ذات سے ہو ،  اگر آپ یہ کام کرتے ہیں تو  آپ خود کو ہی نہیں دوسروں کو بھی محفوظ کرتے ہیں اور  مستقبل میں آنے والی نسلوں کو ، وہ تو نہیں دے سکتے ، جو آپ کو ملا تھا لیکن کم سے کم ایسا  بندوبست تو کر دیں گے ، جس سے وہ آپ سے زیادہ بہتر کر سکیں ۔

لیکن اگر آپ  نے وقت پر کام  انجام نہیں دیا ، عقل سے کام نہیں لیا ، قربانی سے کام نہیں لیا ، ہندوستانی ثقافت کے بنیادی اصولوں پر    اگر کاربند نہیں رہے ، تو پوری دنیا مشکل میں آ جائے گی اور میں نے پہلے بھی کہا ہے  کہ کوئیہنگامی منصوبہ نہیں ہے ، کوئی بنکر نہیں ہے ، کوئی دوسرا  کرۂ ارض نہیں ہے ۔ یہی کرۂ ارض ہے ۔ اسی کو محفوظ رکھنا ہے ۔ اسی کی آبیاری کرنی ہے اور اسی کی حفاظت کرنی ہے  ۔

آئیے، دوستو، ہم مل کر کام کرنا جاری رکھیں، اپنی طاقتوں کا بے حد فائدہ اٹھاتے ہوئے، جتنا ہم کر سکتے ہیں، انتہائی ذہانت سے، ایک ایسی دنیا کی تشکیل دیں  ، جو نہ صرف  آب و ہوا  میں تبدیلیوں کے لیے لچکدار ہو بلکہ فطرت کے ساتھ ہم آہنگی میں بھی فروغ دے ۔

ہندوستان سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہے ۔ بھارت دنیا کا پہلا  ایسا ملک ہے  ، جس کے لوگوں نے کبھی کسی دوسرے ملک پر حملہ نہیں کیا۔ ہم نے حملوں کا سامنا کیا ہے۔ ہندوستان وہ سرزمین ہے  ، جہاں ہر دور میں وقتاً فوقتاً  لوگ کہتے رہے ہیں ۔

جنگ کوئی حل نہیں ہے۔ اسے سفارت کاری اور طریقہ کار کے ذریعےہونا چاہیے۔ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ  جنگ کوئی حل نہیں ہو سکتا، توسیع کیا جانا پالیسی نہیں ہو سکتی۔  یہ الفاظ کتنے  دانشمندانہ ہیں  ۔ یہ وہ الفاظ ہیں ، جن پر بھارت یقین رکھتا ہے۔

اور آج ہندوستان جو کچھ کر رہا ہے، دنیا میں ہندوستان کی ، جو حیثیت ہے، ہندوستان کی ترقی ، دنیا کو حیران کر رہی ہے۔ ہم نے وہ حاصل کر لیا ، جو ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ آپ میں سے بہت سے ایسے لوگ ہوں گے  ، جنہوں نے یہ اندازہ نہیں لگایا ہوگا کہ 34 سال پہلے ہندوستان کی معیشت کا حجم لندن شہر کی معیشت سے چھوٹا تھا، پیرس شہر کی معیشت سے چھوٹا تھا۔ اس وقت  میں ، مرکز میں وزیر تھا اور آج ہم نے دیکھا کہ ہم کہاں سے  کہاں آ گئے ہیں اور کہاں جارہے ہیں۔ ترقییافتہ ہندوستان 2047 کوئی خواب نہیں ہے۔

یہ ایک ہدف ہے  ، جسے ہم ضرور حاصل کریں گے۔ مجھے  پورا یقین ہے کہ آپ سب   ، اس پیغام کو دن رات آگے بڑھائیں گے تاکہ  اس  بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہم کرۂ ارض کو بچا رہے ہیں اور ہم بعد میں اس کی پرورش کریں گے۔ آئیے ، اسے بچا ئیں۔ آپ نے مجھے   ، جو وقت دیا  ، میں اس کا تہہ دل سے شکر گذار ہوں ۔

بہت بہت شکریہ۔

 

************

U.No:8456

ش ح۔و ا،ش م۔ق ر، ع ا



(Release ID: 2034450) Visitor Counter : 10


Read this release in: English , Hindi , Tamil