سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت

پچھلے سال کے سب سے شدید ارضیاتی مقناطیسی طوفان کے شمسی وسیلےکا سراغ لگانا

Posted On: 01 MAR 2024 3:40PM by PIB Delhi

اپریل 2023 کے آخر میں کرۂ ارض کے مقناطیسی زون میں آئے ہوئے ارضیاتی مقناطیسی طوفان نے نشیبی عرض البلد میں زبردست تباہی مچائی تھی، جس میں لداخ بھی شامل تھا۔ ماہر فلکیات نے متعدد خردبین یعنی ٹیلی اسکوپس کی مدد سے کثیر سطحی طوالت پر مشاہدات کیےہیں تاکہ سورج میں رونما ہونے والے طوفان کے مخرج کا پتہ لگاسکیں۔ ان ماہرین نے یہ پایا کہ فلامینٹ ڈھانچے کے گول گول گھومنے سے جب یہ سورج کے نزدیک پہنچا تو وہیں اس شمسی طوفان کی بنیادی وجہ تھی، جس کے نتیجے میں کرۂ ارض پر اس قدر زبردست اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

اکثر سورج بین سیاروں کی جگہ میں کورونل ماس ایجیکشنس(سی ایم ایز) کی شکل میں آئنائزڈ گیس، (پلازما) اور مقناطیسی  دائرے  خارج کرتا ہے۔ جب یہ سی ایم ایز ہمارے کرۂ ارض جیسے سیاروں کا سامنا کرتے ہیں، تو وہ سیاروں کے مقناطیسی دائرے  کے ساتھ تعامل کرتے ہیں جس کے نتیجے میں بڑے مقناطیسی طوفان آتے ہیں۔ تیز ذرات اور ارضیاتی مقناطیسی طوفان  کرۂ ارض اور خلا میں انسانی ٹیکنالوجی کو بری طرح متاثر کر سکتے ہیں۔ اس طرح، سی ایم ایزکو سمجھنا اور پیشین گوئی کرنا سائنسی اور عملی دونوں طرح کی اہمیت رکھتا ہے۔

21 اپریل 2023 کو ہندوستانی وقت کے مطابق آدھی رات کو سولر ڈسک سینٹر کے قریب واقع ‘ایکٹیوریجن13283’ سے بڑے پیمانے پر سی ایم ای کا پھٹنا شروع ہوا، جس کے نتیجے میں شمسی دائرے 25 کا سب سے شدید ارضیاتی مقناطیسی طوفان آیا۔ سی ایم ای کو تقریباً 1500 کلومیٹر فی سکنڈ کی تیز رفتار کے ساتھ لانچ کیا گیا تھا اور 23 اپریل کو ہندوستانی وقت کےمطابق، دیر رات ساڑھے بارہ بجے  کرۂ ارض کے ماحول کے نزدیک اس کاسامنا ہوا، جس کے نتیجے میں ،کرہ ٔ ارض  پر ایک گھنٹہ بعد ایک ارضیاتی مقناطیسی طوفان شروع ہوا۔ یہ طوفان مقناطیسی دائرے کی اپنی بلند ترین سطح پر  پہنچ گیا اور اس کی ‘‘جی-4کی شدت’’ کے طور پر درجہ بندی کی گئی۔ اس کے نتیجے میں لداخ کے ہینلے میں انڈین ایسٹرانومیکل آبزرویٹری میں واقع موجود سبھی اسکائی کیمروں کے ذریعے ہالے کی روشنی کو قید کیاگیا ، جسے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹرو فزکس کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔

جو اعداد وشمارجمع کیے گئے انہوں نے ادارے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹرو فزکس کے ذریعے  تحقیق میں سورج میں طوفان کے ماخذ کا پتہ لگانے میں مدد کی ۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹرو فزکس  ایک خودمختار ادارہ ہے، جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے محکمے کے تحت آتا ہے۔یہ اعداد وشمار دی ایسٹرو فزیکل جریدے میں شائع کیے گئے۔

‘‘حیرت کی بات ہے، چونکہ سی ایم ای کو سورج پر ایک کمزور مقناطیسی دائرے  خطے سے چھوڑا گیا تھا ، اس لیے اس طرح کے شدید ارضیاتی مقناطیسی  طوفان غیر متوقع ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ توانائی پیدا کرنے کے عمل کے سست ہونے کی توقع ہے، اور مڑے ہوئے مقناطیسی دھات کا اخراج بھی غیر متوقع ہے۔ یہ بات تحقیقی مطالعہ  کرنے والے مصنف ڈاکٹر پی ویما ریڈی نے بتائی۔  سی ایم ای سورج پر ماخذ کے فعال خطے میں پہلے سے موجود مقناطیسی پلازمافلامینٹ کے ساتھ وابستہ ہے۔ مقناطیسی دائرے اپنے ابھرکر نمایاں ہونے سے چند گھنٹے پہلے اپنی بدلتی علامات کا پتہ دیتے ہیں جو شمسی ماحولیات میں مقناطیسی دائرے کے توازن  کے معاملے میں عدم استحکام پیدا کرنے والے اہم عناصر ہوسکتے ہیں۔

ایک سی ایم ای کے لیے ارضیاتی طور پر مؤثر ہونے کے لیے ، مقناطیسی دائروں کارخ کرۂ ارض کے مقناطیسی دائرے کے حوالے سے جنوب کی طرف کیا جانا ہے۔  اہم بات یہ ہے کہ سورج سے اس پھٹنے کے دوران، سی ایم ای کا ڈھانچہ گھڑی کی سمت میں تقریباً 56 ڈگری گھومتا ہے۔ یہ گردش مقناطیسی قوتوں کی وجہ سے ہوتی ہے، اور بہت کم سی ایم ای ڈھانچے اس طرح کے ارتقاء کو ظاہر کرتے نظر آتے ہیں۔ اس گردش کی وجہ سے، سی ایم ای مقناطیسی دائرے  غالب طور پر جنوب کی طرف مرکوز ہو گئے اور ہیلیو کرہ میں سی ایم ای کا مزید پھیلاؤ کرۂ ارض  کے ساتھ سی ایم ای مقناطیسی دائروں  کے موثر تعامل کے حالات کا باعث بنا۔ یہ وہی تھا جو شمسی دائرے  25 کے سب سے شدید طوفان کا سبب بنا۔

یہ مطالعہ سی ایم ایز کی مکمل تصویر رکھنے کی اہمیت کی نشاندہی کرتا ہے،جس میں  ان کے مقناطیسی ساخت اور شمسی ماخذ کے علاقوں سے ان کی ابتداء، ان کے ارتقاء، اور سورج سے کرۂ ارض تک ان کے پھیلاؤ میں شامل میکانزم بھی شامل ہیں۔ دیگر خلائی دوربینوں کے علاوہ، محققین حال ہی میں لانچ کی گئی خلائی رصد گاہ آدتیہ ایل-1 کی طرف سے  فراہم کردہ سورج کے مشاہدات کو استعمال کرنے کے منتظر ہیں۔ ڈاکٹر پی ویما ریڈی نے بتایا کہ اس سیٹلائٹ پر موجود آلات ریموٹ اور ان سیٹو دونوں مشاہدات فراہم کرتے ہیں جو ہمیں سورج پر سی ایم ای لانچ کے ساتھ ساتھ کرۂ ارض  کے قریب کی جگہ پر اس کی آمد کو سمجھنے کے قابل بناتے ہیں۔ "خاص طور پر، سورج کے قریب تصویری مشاہدات سی ایم ای کی واقفیت اور رفتار کا تعین کرنے کے لیے بہت اہم ہیں جو انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹرو فزکس کے ذریعہ تیار کردہ خلائی پے لوڈ ویزیبل ایمیشن لائن کورونگراف(وی ای ایل سی) جلد فراہم کرنے والا ہے’’۔

 

Publication: Filament Eruption from Active Region 13283 Leading to a Fast Halo-CME and an

Intense Geomagnetic Storm on 2023 April 23

Doi: https://doi.org/10.3847/1538-4357/ad1662

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/Screenshot2024-03-01154314EK2R.png

Figure caption: The CME eruption from the Sun occurred on 2023 April 21, at 18:00 UT. a) The image of the sun at 30.4 nanometres wavelength showing the location of the active region AR13283 (from AIA onboard NASA’s SDO spacecraft). b) An image processed to enhance the bright leading edge and core of the CME (from LASCO/C3 on SOHO spacecraft). c) In situ observations of vertical magnetic field observed by NASA’s WIND spacecraft, d) Disturbance storm index showing the earth’s magnetic field during the storm, and e) the Kp index as a function of time.

*****

ش ج۔ ح ا ۔ ج ا

U No.6346



(Release ID: 2016435) Visitor Counter : 32


Read this release in: English , Hindi