بجلی کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav g20-india-2023

بجلی کے مرکزی انضباطی کمیشن کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں دفتر کا نیا احاطہ مل گیا ہے۔ بجلی اور نئی اور قابل تجدید توانائی کے وزیر نے کہا ہے کہ بجلی کے ضابطہ کاروں کا توانائی کے سیکٹر میں اہم کردار ہے


‘‘نئے کھلاڑیوں، نظام اور مصنوعات کی اقسا م کے ساتھ بجلی کی نوعیت بدل رہی ہے’’: بجلی اور نئی اور قابل تجدید توانائی کے وزیر آر کے سنگھ
‘‘بجلی کے شعبے کے قواعد و ضوابط کو بدلتے ہوئے منظرنامے کے ساتھ جدید ترین ہونا پڑے گا’’

Posted On: 07 MAR 2024 5:41PM by PIB Delhi

سنٹرل الیکٹرسٹی ریگولیٹری کمیشن (سی ای آر سی) یعنی بجلی کے مرکزی انضباطی کمیشن کو  نئی دہلی کے نوروجی نگر، صفدرجنگ انکلیو، میں واقع ورلڈ ٹریڈ سنٹرمیں نئی دفتری جگہ ملی ہے۔ اس نئے دفتر کی جگہ کا افتتاح بجلی اور نئی اور قابل تجدید توانائی کے مرکزی وزیر جناب آر کے سنگھ نے آج 7 مارچ 2024 کو نئے دفتر کے احاطے میں منعقدہ ایک تقریب میں کیا۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0015WO4.jpg

‘‘ریگولیٹری کمیشن بجلی کے نظام کا بنیادی حصہ ہیں۔ سارا نظام آپ پر منحصر ہے’’

سی ای آر سی اور بجلی کے سیکٹر کے دیگر متعلقہ  افسران اور عملے سے خطاب کرتے ہوئے، مرکزی وزیر جناب آرکےسنگھ نے اس اہم رول پر زور دیا ہے جس کو ریگولیٹری کمیشنوں سے بجلی کے سیکٹر کی صحت کو یقینی بنانے میں رول ادا کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ ‘‘ریگولیٹری کمیشن بجلی کے نظام کا بنیادی حصہ ہیں۔سی ای آر سی اور ریاستی بجلی ریگولیٹری کمیشن (ایس ای آر سی) اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ بجلی کا نظام کیسے کام کرے گا اور یہ نظام کتنا قابل عمل ہوگا۔ آپ جن ضوابط کے ساتھ آتے ہیں، آپ کے محصول کے فیصلوں پر اور پاس تھرو پر جو آپ اجازت دیتے ہیں یا نہیں دیتے  ہیں پورا نظام آپ پر منحصر ہے ۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image002J7WH.jpg

‘‘بنیادی چیلنج سستی بجلی کے نظام کی عملداری اور عوامی مفاد کے درمیان توازن قائم کرنا ہے’’

بجلی کے وزیر نے اس بات کی وضاحت کی کہ انضباطی کمیشنوں کو درپیش بہت سے چیلنجوں میں بنیادی ضرورت یہ ہے کہ بجلی کے نظام کی عملداری اور عوامی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے درمیان توازن قائم کیا جائے۔ ‘‘چیلنجز بہت سے ہیں، شایدایس ای آرسیز کے لیے سی ای آر سی کے مقابلے میں زیادہ، کیونکہ ایس ای آر سیز کو ریاستوں میں زیادہ سیاسی ماحول میں کام کرنا ہوتا ہے۔ کسی بھی طرح سے، کسی بھی ریگولیٹری کمیشن کا بنیادی چیلنج دو چیزوں کے درمیان توازن برقرار رکھنا ہے۔ ایک، نظام کی عملداری جس کی وہ نگرانی کرتا ہے، جو خاص طور پر آنے والی سرمایہ کاری کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اور دوسرے، سستی بجلی کے نرخوں کو یقینی بنا کر عوامی مفادات کا تحفظ۔ اگر آپ غیر منصفانہ طور پر محصول بڑھاتے ہیں، تو اس سے لوگوں کو نقصان ہوتا ہے۔ ہمیں ان دونوں میں توازن رکھنا ہے۔’’

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0033OFF.jpg

‘‘بجلی کے نظام میں توسیع کی ضرورت کے پیش نظر سی ای آر سی اور ایس ای آر سیز کا اہم کردار’’

بجلی اور نئی اور قابل تجدید توانائی کے وزیر جناب آر کے سنگھ نے بجلی کے نظام میں تبدیلیوں اور توسیع کی ضرورت کے پیش نظر سی ای آر سی اور ایس ای آر سیز دونوں کے اہم کردار پر زور دیا۔ ‘‘پورا نظام اور بجلی کا پورا سیکٹر بدل رہا ہے۔ ہم توسیع کر رہے ہیں اور ہم مسلسل توسیع کرتے رہیں گے۔ ہمیں تیزی سے پھیلنا ہے کیونکہ مانگ مختصر مدت میں ہی دوگنا ہونے جا رہی ہے۔ سب سے زیادہ مانگ 243 گیگاواٹ تک پہنچ گئی ہے اور  یہ 2030 تک تقریباً 370 گیگا واٹ تک جا سکتی ہے۔ ہمیں اپنے تمام نظاموں کو وسعت دینے اور مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، چاہے وہ جنریشن، ٹرانسمیشن ہویا ڈسٹری بیوشن۔ جس کے تحت اتنی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اگر ہم 2030 میں تقریباً 370 گیگا واٹ تقسیم کریں جب کہ ہم 2014 میں تقریباً 160 گیگا واٹ تقسیم کررہے تھے اور اس سال تقریباً 240 گیگا واٹ تقسیم کر رہے ہیں، تو ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمیں ایچ ٹی لائنوں، ایل ٹی لائنوں، ٹرانسفارمرز، سب ا سٹیشنوں اور سب ٹرانسمیشنوں میں کتنے اضافے کی ضرورت ہوگی۔’’

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0046TVO.jpg

وزیر موصوف نے مزید کہا کہ ان تمام محصولات کا بھی بہت جلد فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ صلاحیت میں اضافے اور محصولات کے تعین میں کوئی وقفہ نہ رہے، تاکہ نظام پر دباؤ نہ پڑے۔ وزیر موصو ف نے مزید کہا کہ بجلی کی پیداوار، تقسیم اور ترسیل میں مصروف کمپنیوں کو مناسب اوسط  حاصل کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ قابل عمل رہیں اور نظام کو برقرار رکھ سکیں۔ جناب آر کے سنگھ نے اس بات پر زور دیا کہ وقت کا عنصر بھی ایک اہم پہلو ہے۔‘‘اگر پاس تھرو کو بروقت اجازت نہیں دی جاتی ہے، تو اس سے متعلقہ کمپنی کی عملداری کم ہو جائے گی۔ زیادہ ایندھن یا ٹرانسپورٹ کے اخراجات کے لحاظ سے کوئی تاخیر مالی بوجھ کا سبب بنے گی۔ لہذا، آپ کا کام نہایت اہم ہے’’۔

‘‘دیکھ بھال اور متبادل کے لیے اہم ضرورت؛ بھارتی حکومت  کو اس کی مالی امداد جاری رکھنی پڑے گی’’

وزیر موصوف نے مزید کہا کہ توسیع کے لیے ضروری ہونے کے علاوہ، پرانے نظاموں کو دیکھ بھال اور تبدیلی کی ضرورت ہے، جس کے لیے مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ ‘‘بدقسمتی سے، گزشتہ برسوں کے دوران، ہمارے ڈسکامس ناقابل برداشت رہے ہیں۔ وہ قابل عمل نہیں رہے ہیں اور وہ نظام کو برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔ ہم ایسا کرنے کے لیے ڈسکام کو فنڈز فراہم کر رہے ہیں، لیکن پھر بھی، اگر آپ پورے ملک میں جائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہزاروں سرکٹ کلومیٹر ایل ٹی لائنیں اور بہت سے ٹرانسفارمرز جو 3-4 بار باندھے گئے ہیں،کمزور ہیں،  حالانکہ ہم نے 7.5 لاکھ ٹرانسفارمرس کا اضافہ کیا ہے۔’’

وزیر موصوف نے کہا کہ اس سب کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی اور مزید یہ کہ زیادہ تر ریاستی حکومتوں کی متزلزل مالی حالت کو دیکھتے ہوئے اس کے لیے پیسہ حکومت سے، زیادہ تر مرکزی حکومت سے ہی آنا  ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس لیے بھارتی حکومت کو اس توسیع کے لیے مالی امداد جاری رکھنی ہوگی۔

‘‘نظام کے مالی استحکام کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاروں کو بجلی کے سیکٹر کی سمت  راغب کیا جا سکے’’

وزیر موصوف  نظام میں مالیاتی عملداری کو یقینی بنانے کی ضرورت کو سامنے لئے  تاکہ نجی سرمایہ کاری اورساتھ ہی ساتھ بڑی سرمایہ کاری کو بھی راغب کیا جاسکے،جو بدلتی ہوئی صورتحال کا تقاضا ہے۔ ‘‘خوشی کی بات یہ ہے کہ مرکزی پاور سیکٹر کے پی ایس یوز یعنی  سرکاری سیکٹر کے تحت آنے والے ادارے جیسے این ٹی پی سی اورپاورگرڈ  مضبوط بنیادوں پر کھڑے ہیں۔ دوسری بات  یہ کہ پرائیویٹ سیکٹر سرمایہ کاری کر رہا ہے حالانکہ اس سے قبل پاور سیکٹر میں کچھ ٹھہراؤ آنے پر انہوں نے سرمایہ کاری روک دی تھی۔ لیکن ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ نظام کی مالی عملی قابلیت ہے تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاروں کو راغب کر سکیں، کیونکہ یہ تمام بڑی سرمایہ کاری محض سرکاری  سیکٹر کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔ ہمیں ڈسکام میں نجی شعبے کو بھی شامل کرنا ہوگا۔’’

‘‘ نئے فریقوں، نظاموں کی اقسام اور مصنوعات کے ساتھ بجلی کی نوعیت بدل رہی ہے’’

وزیر موصوف نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ سب سے زیادہ بجلی کی نوعیت بدل رہی ہے، جواس  شعبے میں نئے مارکیٹ فریقوں، نئے قسم کے سسٹمز اور نئی مصنوعات کو جنم دے گی۔‘‘ہم زیادہ سے زیادہ قابل تجدید صلاحیتوں میں اضافہ کر رہے ہیں، جس سے استحکام اور اسٹوریج  جیسے چیلنجز پیدا ہورہے ہیں ۔ اسٹوریج کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا اور ہمارے پاس نئے فریق، نئی قسم کے نظام اور نئی مصنوعات ہوں گی۔’’

‘‘بجلی کے شعبے کے قواعد و ضوابط کو بدلتے ہوئے منظرنامے کے ساتھ جدیدہونا پڑے گا’’

وزیر موصوف نے سی ای آر سی کمیونٹی کو بتایا کہ ریگولیٹرز کو بدلتے ہوئے علاقے کے ساتھ اپ ٹو ڈیٹ ہونے کی ضرورت ہے۔ ‘‘قواعد و ضوابط کو بجلی کے سیکٹر کے تبدیل ہوتے  ہوئے منظر نامے کے ساتھ موجودہ وقت کے مطابق ہونا پڑے گا۔ توسیع ایک بات ہے، لیکن زیادہ تر  منظرنامہ بدل رہا ہے اور بدلتا رہے گا۔ پرانے نظاموں پر بھروسہ کرنے کے بجائے، آپ کو ان پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا انہیں جدید تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image005E80B.jpg

‘‘اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ توانائی کے ذخیرہ کو مالی اعانت فراہم کی جائے اور یہ پرکشش ہوجائے’’

وزیر موصوف نے اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا کہ بجلی کی لاگت پوری طرح سے ادا کی جائے اور اسٹوریج کے لیے زیادہ  مالی اعانت فراہم کی جائے۔ ‘‘بجلی کے بغیر، کوئی ترقی نہیں ہے، لہذا ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ بجلی دستیاب ہے، کافی ہے، سستی ہےاور اس سلسلے میں سرمایہ کاری آتی رہے گی اور ہمیں ترقی کرتے رہنے کی ضرورت ہے تاکہ ترقی ہو۔ لیکن آخر کار، اس حقیقت سے آگے کچھ  حاصل نہیں ہوتا کہ بجلی کی تقسیم، ترسیل اور جنریشن کی اصل قیمت ادا کرنی پڑے گی اور دیکھ بھال کے لیے کچھ ریزرو رکھنا ہوگا۔ اس حقیقت سے بھی روگردانی نہیں کی جاسکتی کہ توانائی کی منتقلی ہوگی  اور ساتھ ہی ہمیں اسٹوریج کو بھی شامل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ لہذا، ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اسٹوریج کو مالی اعانت فراہم ہو اور وہ پرکشش ہو۔

‘‘آگے دنیااور پیچیدہ ہے، اور بجلی کے ضابطہ کاروں  اس میں مرکزی حیثیت حاصل ہوگی’’

اس پس منظر میں، وزیر موصوف نے سی ای آر سی افسران اور عملے کو سمجھایا کہ آگے  ایک پیچیدہ دنیا ہے ، اور ان کو اس میں مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔ ‘‘ہم نے آپ کے اہلکاروں کی طاقت کو بڑھا دیا ہے، لیکن آپ کو مزید ماہرین کی ضرورت ہوگی۔ اور جو لوگ آپ کی تنظیم میں خدمت کرتے ہیں انہیں غیر جانبدار ہونا پڑے گا۔ انہیں صرف ایک بات ذہن میں رکھنی ہوگی اور وہ یہ کہ نظام قابل عمل رہے اور وہ عوام کے مفاد میں ہو۔’’

اس اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہ تنظیم چیلنجوں سے بخوبی نمٹے گی، وزیر موصوف نے کہا کہ ‘‘شاید ایک وقت آئے گا جب سی ای آر سی کو مزید اراکین کی ضرورت ہوگی اور انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس پر سازگار طریقے سے غور کیا جائے گا۔ انہوں نے ملازمین اور نئے احاطے میں اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ عمارت عین شہر کے مرکز میں ہے اور خوبصورت ہے اور اس کی فن تعمیر اور فرنشننگ اچھی  طرح کی گئی ہے۔ میری طرف سے آپ سب کو اس کے لیےنیک خواہشات اور مبارکباد۔’’

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image006937E.jpg

استقبالیہ خطبہ پیش کرتے ہوئے، سی ای آر سی کے چیئرپرسن جناب جشنو بروا نے بتایا کہ کمیشن نے سب سے اہم ڈرافٹ ٹیرف ریگولیشنز، 2024 پر عوامی سماعت مکمل کر لی ہے، اور ریگولیشن کو حتمی شکل دینے کے آخری مراحل میں ہے۔ انہوں نے اس بارے میں بھی بتایا کہ کمیشن نے حال ہی میں ہمارے ٹیرف ریگولیشنز برائے قابل تجدید توانائی کے وسائل ریگولیشن 2024 کا مسودہ بھی عوامی جائزہ کے لیے پیش کیا ہے۔ چیئرپرسن نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ سی ای آر سی ہمارے شہریوں کے لیے انتہائی مضبوط ٹیرف ریگولیشنز کو حتمی شکل دے گا جس سے اس شعبے میں سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔

نئے دفتر کے احاطے کے حصول کی خاطر حکومت کی منظوری کے لیے وزیرموصوف کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، چیئرپرسن نے بتایا کہ کمیشن نے چھٹی، 7ویں اور 8ویں منزل پر محیط دفتر کی جگہ حاصل کی ہے، جس کی پیمائش 54,500 مربع فٹ اندرونی  رقبہ ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0072X06.jpg

سنٹرل الیکٹرسٹی ریگولیٹری کمیشن (سی ای آر سی) کو بھارتی حکومت نے 1998 میں الیکٹرسٹی ریگولیٹری کمیشن ایکٹ، 1998 کی دفعات کے تحت قائم کیا تھا۔سی ای آر سی الیکٹرسٹی ایکٹ، 2003 کے مقاصد کے لیے ایک مرکزی کمیشن ہے، جس نے ای آر سی ایکٹ 1998کی جگہ لی ہے۔ کمیشن نے 24 جولائی 2023 کو اپنے 25 سال مکمل کر لیے ہیں۔

ایکٹ کے تحت سی ای آر سی کے بڑے کاموں میں ، دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ  جو باتیں شامل ہیں، ان میں  مرکزی حکومت کی ملکیت یا کنٹرول والی جنریٹنگ کمپنیوں کے محصول  کو منضبط کرنا، ان دیگر پیدا کرنے والی کمپنیوں کے محصول  کو منضبط کرنا جن کے پاس ایک سے زیادہ بجلی کی پیداوار اور فروخت کے لیے ایک جامع اسکیم ہے، ریاستی بجلی کی بین ریاستی ترسیل کو منضبط  کرنا اور بجلی کی اس طرح کی ترسیل کے لیے محصول کا تعین کرنا وغیرہ شامل ہے۔ ایکٹ کے تحت،سی ای آر سی مرکزی حکومت کو قومی بجلی کی پالیسی اور محصول سے متعلق پالیسی کی تشکیل پر بھی مشورہ دے گا۔ جس میں بجلی کی صنعت کی سرگرمیوں میں مسابقت، کارکردگی اور معیشت کو فروغ دینا؛ بجلی کی صنعت میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا شامل ہے اور کوئی دوسرا معاملہ جو حکومت کے ذریعہ مرکزی کمیشن کو بھیجا گیا ہو۔

سی ای آر سی نے اپنا سفر جن پتھ ہوٹل سے شروع کیا، اس کے بعد لودھی روڈ میں آئی سی ڈبلیو اے کی عمارت اور پھر 1998 سے نئی دہلی کے لودھی روڈ پر واقع اسکوپ کمپلیکس میں منتقل ہو گیا، بعد میں یہ نئی دہلی میں چندرلوک بلڈنگ میں کرائے کے دفتر میں منتقل ہو گیا، جواین ڈی ایم سی کی زیر ملکیت ہے۔ جیسے جیسے اس کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا اور اس کی ٹیم نے کئی برسوں میں توسیع کی، اس نے چندرلوک بلڈنگ میں اپنے دفاتر کو مزید دو منزلوں تک بڑھا دیا۔ مرکزی حکومت نے، سی ای آر سی کی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، این بی سی سی کے ذریعہ تعمیر کردہ‘‘ورلڈ ٹریڈ سینٹر’’ میں دفتر کی نئی جگہ کے حصول میں سہولت فراہم کی۔

مذکورہ تقریب میں سی ای آر سی کے ممبران سی ای آر سی کے سکریٹری جناب  ایچ ایس پروتھی؛ سی ای آر سی  کے اہلکاروں اور عملے اور بجلی کی وزارت، نئی اور قابل تجدید توانائی کی وزارت  اور بجلی کے  سیکٹر میں سرکاری سیکٹرکے تحت آنے والے بڑے اداروں  کے  سی ایم ڈیز نے شرکت کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ ش م۔ع ن

(U: 6282)



(Release ID: 2015873) Visitor Counter : 33


Read this release in: English , Hindi