نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد میں نائب صدر جمہوریہ کی تقریر کا متن (اقتباسات)

Posted On: 02 FEB 2024 7:46PM by PIB Delhi

مجھے اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ میں صحیح وقت پر صحیح سامعین کے سامنے ہوں۔یہاں  میرے مشورے سننے کی بے پناہ صلاحیت کے حامل سمجھدار اذہان موجود ہیں۔ میں کوئی مشورہ دینے کا اہل نہیں ہوں۔ کسی بھی صورت میں بے طلب مشورے کا کبھی احترام نہیں کیا جاتا۔ آپ نے اس کے لیے درخواست نہیں کی ہے۔

میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کتنی لڑکیوں کو پی ایچ ڈی  کی ڈگریاں تفویض کی گئی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ تعداد متوازن ہونی چاہیے، لیکن جب لڑکیوں کی نمائندگی کا ذکر ہوا تو لڑکوں نے زیادہ زور سے تالیاں بجائیں۔ اس لیے لڑکیاں نوٹ کریں: ہماری صنف بہت موافق اور روادار ہے۔

مجھے آپ کو اس وقت ملک میں عصری حکمرانی کے طریقہ کار سے آگاہ کرنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ کو اس کا علم نہیں لیکن بعض اوقات جو کچھ ظاہر ہے اسے بیان کرنا پڑتا ہے۔ میں نے طویل عرصے سے حکمرانی کامشاہدہ کیا ہے کیونکہ پہلی بار میں لوک سبھا کے لیے منتخب ہوا تھا اور صرف ایک بار میں 1989 میں منتخب ہوا تھا۔ مجھے وزراء کی کونسل کا رکن بننے کی سعادت نصیب ہوئی اور اس وقت ہمیں بہت دُکھ ہوا جب مالی اعتبار کو برقرار رکھنے کے لیے ہمارا سونا ہوائی جہاز کے ذریعے لے جاکر سوئٹزرلینڈ کے دو بینکوں میں رکھنا پڑا کیونکہ ہمارے  زرمبادلہ میں ایک ارب  ڈالر سے ایک ملین ڈالر کے درمیان اتار چڑھاؤ ہو رہا تھا ۔اب لڑکے اور لڑکیاں یہ بات جان لیں کہ یہ زرمبادلہ اس وقت 600 ارب  ڈالر سے زیادہ ہیں۔

پہلے حکمرانی کا ماحولیاتی نظام بہت مشکل تھا۔اقتدار کے گلیارے بدعنوان عناصر، رابطہ ایجنٹوں،دلالوں  اور فیصلہ سازی میں غیر قانونی طور پر فائدہ اٹھانے والے لوگوں سے گھرےہوئے تھے۔ انہوں نے ہر چیز کو کنٹرول کررکھا تھا، جو میرٹ کے خلاف تھا۔ اب جو اچھی بات ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اقتدارکے گلیاروں کو ان عناصر سے مبراکردیا گیا ہے اور اب رابطہ ایجنٹ کہیں نظر نہیں آتے۔

آپ جو بڑی تبدیلی محسوس کریں گے وہ یہ ہے کہ آپ ایک ایسے نظام میں داخل ہو رہے ہیں جہاں آپ کے پاس اپنی لیاقتوں اور صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے، اپنے عزائم اور خوابوں کو پورا کرنے کا موقع  موجود ہے۔ اب یہ بہت آسان ہے اس وقت  بہت مشکل تھا۔

ایک اور اچھی تبدیلی جو آئی ہے وہ یہ ہے کہ اب حکمرانی میں مناسب شفافیت اور جوابدہی ہے جسے ایک منظم طریقے سے قائم کیا  گیا ہے۔ اسے ٹیکنالوجی نے تقویت بہم پہنچائی ہے ۔ یہ ایک اور بڑی تبدیلی ہے۔ آج کے نوجوانوں کو کس چیز کی ضرورت ہے، انہیں جمہوری اقدار کی ضرورت ہے کہ ان کا احترام کیا جائے، ان کی پرورش کی جائے اوران کو پروان چڑھایا جائے ۔

جمہوری اقدار کا  ایک بنیادی مقام قانون کے سامنے مساوات ہے۔ جمہوریت کا کوئی مطلب نہیں ہے اگر کچھ لوگ دوسروں سے زیادہ برابر ہوں۔ اگر کچھ لوگ یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ قانون کی پہنچ سے باہر ہیں اور کوئی ان کے ساتھ کچھ نہیں کر سکتا۔ ان میں ہم سب سے زیادہ انسانیت ہے جسے وہ عام بات کہتے ہیں۔

وارثتوں کو شرمندگی کی علامت سمجھاجاتاتھا لیکن اب وہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ ہر کوئی قانون کے سامنے جوابدہ ہے۔ ہر ایک کو قانون کی پکار کا جواب دینا ہے، اور مجھے یقین ہے کہ آپ اس بارے میں مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ یہ آج کی زمینی حقیقت ہے۔یہاں تک کہ  پچھلے 48گھنٹوں میں بھی آپ نے ڈرامائی واقعات دیکھے ہوں گے، اس لیے اب بدعنوانی  کا صلہ نہیں ملتا۔

حکمرانی اکیلے ہی کافی نہیں ہے اسے بھی بدلنا ہوگا یہی معیشت ہے۔ صرف ایک دہائی قبل ہمارا ملک پانچ کمزور معیشتوں میں سے ایک تھا جیسا کہ سفیر محترم نے اشارہ کیا کہ ہم پہلے ہی اس کرہ ارض پر 5ویں سب سے بڑی عالمی معیشت ہیں۔ ہم نے  کینیڈا، برطانیہ اور فرانس پر سبقت حاصل کی  ہے۔ مزید 3 سالوں میں ہم جرمنی اور جاپان سے آگے نکل کر تیسری سب سے بڑی عالمی معیشت بن جائیں گے۔ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے جو ہوئی  ہے۔ ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک ایسا ملک جسے دنیا کی کمزور ترین پانچ معیشتوں میں شامل کیاگیا تھااب وہ دنیا کا ایک اثاثہ ہے۔

تیسرا، عالمی ادارے ہمیں حقارت سے دیکھتے تھے۔ وہ ہندوستان کو کئی پہلوؤں سے کمزور سمجھتے تھے۔ اب وہ صورتحال نہیں رہی۔ اگر ہم بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی بات کریں تو وہ پوری دنیا کو بتاتے ہیں کہ بڑی معیشتوں میں ہندوستان کا عروج سب سے زیادہ ہے۔ ہم چین سے بھی آگے پہلے نمبر پر ہیں۔ اس کے علاوہ، اگر ہم دوسرے پہلوؤں پر غور کریں، تو عالمی بینک کا کہنا ہے کہ ہندوستان سرمایہ کاری اور مواقع کے لیے پسندیدہ مقام ہے۔ یہ وہ مقام  نہیں ہے جس کا کہ ہم نے خواب دیکھا تھا لہذا اس وقت ملک میں جس طرح کی ترقی کاہم مشاہدہ کر رہے ہیں وہ کم از کم میرے خوابوں، میری توقعات سے کہیں زیادہ ہے۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں اپنی زندگی میں اس قسم کا بنیادی ڈھانچہ  دیکھوں گا جو چاروں طرف ہے اور یہ آپ سب کے دیکھنے کے لیے ہے۔ بات یہ ہے کہ آپ اپنی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد بڑی دنیا میں ایک بڑی چھلانگ لگانے والے نظام میں جارہے ہیں جہاں حکمرانی بالکل ویسی ہی ہے جیسی  آپ چاہتے ہیں، جامع اور صحت مند حکمرانی کی مثبت حکومتی پالیسی جو آپ کو اپنی صلاحیتوں کو بروئےکار لانے کا موقع فراہم کرتی ہے اور ایک ایسی معیشت جو عالمی سطح پر قابل احترام ہے اوربنیادی لحاظ سے بہت مضبوط ہے۔ اس لیے اب آپ سب کے پاس کافی مواقع اور چیلنجز ہیں جن سے آپ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ملک میں جو تکنیکی ترقی ہوئی ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتاتھا۔ یہ یقین سے بالاتر ہے۔ 2022 میں، ہمارے ڈیجیٹل لین دین امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس کے کُل لین دین کے مقابلے چار گنا سے زیادہ تھے۔ کیا آپ اس کا تصور کر سکتے ہیں؟ ہمارے ڈیجیٹل لین دین! اور ہمارے پلیٹ فارم، یو پی آئی کو دیکھیں— ایک ایسا پلیٹ فارم جسے سنگاپور جیسے ملکو ں سمیت عالمی سطح پر اختیار کیا جا رہا ہے۔

اگر ہم اپنے لوگوں کی ذہانت کو دیکھیں تو وہ ٹیکنالوجی میں جس طرح کی موافقت دکھا رہے ہیں وہ قابل ذکر اور  ناقابل یقین ہے۔ ہم نے کچھ سال پہلے شروع کیا تھا؛ شاید ہی ہمارے یہاں ملک میں موبائل مینوفیکچرنگ ہو۔ اب، ہم دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں، اور ہم اسے  برآمد بھی کرتے ہیں۔

اچھی حکمرانی، اچھی معیشت اور ٹیکنالوجی۔ نتائج کیا ہیں؟ نتائج یہ ہیں کہ لوگوں نے اس کا احاطہ کرتے ہوئے اور بصورت دیگر ٹیکنالوجی سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔ میں جس زمرے سے تعلق رکھتا ہوں،یعنی  کسانوں کے زمرے کی ایک مثال کرتا ہوں۔ 11 کروڑ سے زیادہ کسانوں کے بینک کھاتوں میں  ہر سال تین بار براہ راست 6000 روپے جمع ہوتے ہیں۔ اہم اور خاص  بات یہ نہیں ہے کہ انہیں حکومت کی طرف سے رقم ملتی ہے، جو بات بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں اور  یکسر تبدیلی لانےوالی ہے وہ یہ کہ  کسان اس رقم کو وصول کرنے کے لیے ہر طرح سے تیار ہیں۔یہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔

لڑکوں اور لڑکیوں، میں آپ کو صرف اتنا بتا رہا ہوں کہ یہ بڑی تبدیلی اس لیے آئی ہے کہ ہمارا ایک  وژن ہے، جذبہ ہے اور ایک مشن ہے، اور ملک میں حکمرانی کے امور چلانے والوں اورعنان اختیار کے حامل افراد کے ذریعے اس پر عمل درآمد کیاجارہاہے۔ یہ بڑی تبدیلیاں ایسی ہیں کہ دنیا دنگ رہ گئی ہے۔ ہمیں ان پر فخر کرنا چاہیے۔ اگر ہم ایک قدم آگے بڑھیں تو ہمارا وکرانت، اندرون ملک تیار کردہ  ہے؛ ہمارا تباہ کن  بحری جنگی جہاز، اندرون ملک تیار کردہ ہے ،ہمارے تیجس طیارے،اندرون ملک تیار کردہ  ہیں، ہمارے  ہیلی کاپٹر،اندرون ملک تیار کردہ ہیں ۔ ہم ایک طویل سفر طے کر چکے ہیں۔

ہماری انتظامیہ  نے توقعات سے بڑھ کر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے امرت کال میں ایک نقشہ راہ وضع کیا جو ہمارا کرتوویہ کال ہے جو ہمارا گورو کال ہے۔ ہمارے بھارت کو 2047@ میں دنیا کا ایک سرکردہ ملک، ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے مضبوط بنیادیں رکھی گئی ہیں اور آپ اس کے سفیر ہیں، آپ پیدل سپاہی ہیں۔ یہ ترقی  آپ کے کندھوں پر کی جائے گا۔ آپ ذمہ داری کو نبھاتے ہیں اور آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کے پاس ایک ماحولیاتی نظام ہے جو آپ کو نیچے نہیں کھینچتا ہے۔ یہ آپ کو تیزتر کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ آپ کو فاسٹ ٹریک پر رکھتا ہے۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہے جو ہوئی ہے۔

لڑکوں  اور لڑکیوں،آپ یہ بات  ہمیشہ یاد رکھیں، اپنے بھارتیہ ہونے پر فخر کریں، اس عظیم ملک کے شہری ہونے پر فخر کریں۔ اس وقت آپ جو کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں ان پر فخر کریں۔

مجھے کبھی کبھار اس وقت بہت دکھ ہوتا ہے جب میں باشعور ذہین افراد، باخبر افراد کو دیکھتا ہوں، جن کے پاس اس ملک کی ترقی کے لیے ایک مشکل سے سمجھ میں آنےوالا طریقہ کار ہے۔ وہ ملک سے باہر جاتے ہیں یا ملک کے اندر ایسے مفروضے پیش کرتے ہیں جو ہمارے آئینی اداروں کو داغدار اور بے عزت کرتے ہیں۔ وہ اس حد تک جاتے ہیں کہ ہندوستان میں کوئی عملی جمہوریت نہیں ہے۔

لڑکوں اور لڑکیوں، آپ سمجھدار اور ذہین ہیں۔ ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں  دنیا کی 6/1  آبادی بستی ہے ، جس میں گاؤں کی سطح پر، پنچایت سمیتی کی سطح پر، ضلع پریشد کی سطح پر، ریاستی سطح پر، اور مرکزی سطح پر آئینی طور پر تشکیل شدہ جمہوریت قائم ہے۔

ہمارے ملک میں  22 جنوری کو ایک جشن کا ماحول تھا جب ایودھیا دھام میں رام للا کے تقدس کی تقریب تھی – وہ ایک عظیم موقع تھا۔ لیکن جو بات  اہم ہے، اور ہمیں اس پر توجہ دینی چاہیے، وہ یہ ہے کہ 500 سال کا درد ختم ہو گیا، اور قانون کے قائم کردہ طریقہ کار کے ذریعے اس کو درست کرنے کے عزم کے ساتھ ہماری خواہش پوری ہوئی۔ انحراف بالکل نہیں تھا۔ آج ہم ہندوستان میں اسی جگہ پر ہیں۔ یہی ہمارا بھارت ہے۔

اور کیوں نہ ہزاروں سال پہلے پیچھے مڑ کر دیکھیں؟ ہمارے پاس نالندہ، تکشیلا تھا۔ ہمارے پاس حکمرانی کے طریقہ کار تھے۔

لڑکوں  اور لڑکیوں، آپ براہ کرم ہندوستانی آئین کو پڑھیں کیونکہ اس پر آئین بنانے والوں نے دستخط کیے ہیں۔ یہاں 22 پینٹنگز ہیں، اور وہ ہماری 5000 سال کی تہذیب کی گہرائی -گروکل، وادی سندھ، رام، سیتا اور لکشمن کا ایودھیا واپس آنا، بھگوان کرشن کا کروکشیتر میں ارجن کودانشمندانہ مشورہ دینا وغیرہ کی عکاسی کرتی ہیں ۔اور اس کے علاوہ  اگر آپ اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر ڈالیں، تو آپ پائیں گے کہ بہت سے ممالک میں تہذیب کی گہرائی 500یا  600 سال سے زیادہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس 5000 سال کی تہذیب ہے۔

لڑکوں اور لڑکیوں، مجھے آپ کو صرف اتنا بتانا ہے کہ آپ اس وقت لیک سے ہٹ کر سوچنے کے لیے بالکل موزوں ہیں۔

ہمیں ملک مخالف بیانیے کو بے اثر کرنے میں مشغول ہونا چاہیے جسے  کہ سب سے بڑے چیلنج کا عندیہ دیا گیا تھا۔ جب ایک باخبر ذہن لوگوں کی جہالت کا فائدہ اٹھاتا ہے تو ہمارے پاس ایک شریف آدمی تھا جس نے 10 سال تک معیشت کی قیادت کی وہ یقیناً باہر سے آیا تھا اگر ہماری اصل واپس چلی گئی۔ وہ جس قسم کی زبان بولتا ہے جس طرح کی پیشین گوئیاں کرتا ہے اور جب اس  نے اس بات کو  بڑے پیمانے پر غلط ثابت کیاکہ ہمارے ملک کی اقتصادیات 5 فیصد سے زیادہ نہیں بڑھ سکتی ہیں ، اس وقت یہ اضافہ 7.6 فیصد  ہے  اس میں بولنے کی جرات ہے،سپر پاور بن کر کیا کروگے کسی ملک کو پریشان کروگے۔

وہ ایک لا علم شخص ہے ایک بھٹکا ہوا دماغ ہے جو ہماری نفسیات کو نہیں جانتا جو ہماری سنسکرتی کو نہیں جانتا جو ہماری ان تہذیبی اقدار کو نہیں جانتا کہ اس ملک نے تاریخی طور پر کبھی توسیع پسندانہ عزائم کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔

آپ وہ ذہین افراد ہیں جنہیں اس قسم کے بیانیے اور  ملک دشمن بیانیے کو بے اثر کرنا ہے۔ اگر آپ اس وقت خاموش رہیں گے  تو مجھ پر بھروسہ کریں، لڑکوں اور لڑکیوں، آپ کی خاموشی آنے والے سالوں تک آپ کے کانوں میں گونجتی رہے گی۔ آپ اس وقت سوچ رہے ہوں گے،‘میں  کیوں نہیں بولا ؟’ ہم ایک ایسا ملک ہیں جہاں شاندار حیثیت کو ان پیمانوں پر  سراہا جاتا ہے جو حیران کن ہیں۔ ہم کسی کو ایک عظیم صحافی، ایک عظیم وکیل قرار دیتے ہیں۔ ہم سوال کیوں نہیں کرتے؟

جے این یو اس جانچ اور تحقیقات میں مشغول ہونے کے لیے صحیح جگہ، مرکز اور انتظامی  مرکز ہے۔

اگر باہر کی کوئی یونیورسٹی بھارت مخالف بیانیے کا گڑھ بن گئی ہے تو یہ ہمارے لیے باعث شرم ہے۔ یہ بیانیے ہندوستانی نژاد لوگ پھیلاتے  ہیں، خواہ وہ طالب علم ہوں یا فیکلٹی۔ آپ کو اس موقع پر سرگرم ہونا ہوگا، ان قوتوں کا مقابلہ کرنا ہوگا، انہیں بے اثر کرنا ہوگا، اور ان کے ساتھ بحث و مباحثہ کرنا ہوگا۔ اس ملک، بھارت 2047@ کو عالمی رہنما کے طور پر لے جانا، اولین اور آخری آپ کی ذمہ داری ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ ع م۔ع ن

(U: 4405)


(Release ID: 2002502) Visitor Counter : 95


Read this release in: English , Hindi