خواتین اور بچوں کی ترقیات کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

  حکومت ،صنفی انصاف پر مبنی سماج کو  بڑھاوا دینے اور مختلف شعبوں میں  خواتین کی نمائندگی بڑھانے کے لئے عہد بند ہے


نئے ہندوستان کے نقطہ نظر کے ساتھ ، ہندوستان ، خواتین کی ترقی سے  خواتین کی قیادت والی ترقی کی طرف تیزی سے تبدیلی دیکھ رہا ہے

سائنس ،ٹکنالوجی ، انجنیئرنگ اور ریاضی  (ایس ٹی ای ایم ) میں لڑکیوں / خواتین کی  موجودگی 43 فیصد ہے ۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ میں سے ایک ہے

Posted On: 15 DEC 2023 6:07PM by PIB Delhi

ہندوستان کے آئین میں موجود صنفی انصاف  ، حکومت کی ایک اہم عہد بندی  ہے۔ صنفی انصاف پرمبنی سماج کو بڑھاوا دینے اور مختلف شعبوںمیں خواتین کی نمائندگی کو  بڑھانے کے لئے حکومت کے ذریعہ  پچھلے کچھ برسوںمیں کئی قدم اٹھائے گئے ۔ ان میں کئی  مجرمانہ قوانین  اور خصوصی قوانین   کے ایکٹ شامل ہیں۔ ان میں  ‘ گھریلوتشددسے خواتین کا تحفظ  ،  ایکٹ 2005 ،  ‘ جہیز مخالف قانون 1961،  بچوں کی شادی  کی روک تھام  ایکٹ 2006’ خواتین کی قابل اعتراض نمائندگی  (روک تھام ) ایکٹ 1986،’ خواتین پر جنسی تشدد ، (روک تھام، ازالہ ) ایکٹ  2013 غیراخلاقی تجارت (روک تھام )ایکٹ 1956، ستی روک تھام کمیشن ایکٹ 1987 ، جنسی جرائم سے بچوں  کا تحفظ ایکٹ 2012 پنچایتی راج اداروں  ( پی آر آئی ) میں  خواتین کے لئے کم از کم  3/1 ریزرویشن  ، مرکزی / ریاستی پولیس فورس میں  خواتین کے لئے ریزرویشن   اور قومی دفاعی اکیڈمی ( این ڈی اے )، فوجی اسکول  اور کمانڈو فورس   وغیرہ میں  خواتین  کو شامل کرنے کے التزامات کو  اہل بنانا  شامل ہے۔

پچھلے کچھ برسوںمیں نئے ہندوستان کے نقطہ نظر سے ہندوستان ، خواتین کی ترقی سے خواتین کی قیادت والی ترقی کی طرف تیزی سے تبدیلی دیکھ رہا ہے۔ اس مقصد سے حکومت نے  تعلیمی  ،سماجی ،اقتصادی  اور سیاسی  طور پر  ان کو  بااختیار بناکر  گردش حیات کی بنیاد پر  خواتین کے ایشوز کو حل کرنے کے لئے کثیر رخی  نظریہ اپنا یا ہے تاکہ وہ  تیز رفتار  اور پائیدار  قومی ترقی میں یکساں شراکت دار بن سکیں۔موجودہ وقت میں  ہندوستان دنیا کے  ان  15  ممالک میں سے ایک ہے ، جہاں  خواتین  سربراہ  مملکت ہیں۔ عالمی سطح  پر ہندوستان میں  مقامی حکومتوں  نے  منتخب خواتین نمائندوں کی تعداد سب سے زیادہ  ہے۔  ہندوستان میں  عالمی اوسط سے  دس فیصد  زیادہ خاتون  پائیلیٹ   ہیں۔ بین الاقوامی خواتین ائیر لائن  پائلیٹ سوسائٹی کے مطابق  عالمی سطح  پر تقریباََ 5فیصد پائلیٹ   خواتین ہیں۔ ہندوستان میں خاتون پائلیٹوں کی  حصہ داری   15فیصد سے زیادہ ہے۔

شہری ہوابازی  ڈائریکٹوریٹ  (ڈی جی سی اے ) نے ہندوستان کی تمام  شیڈیولڈ  ائیر لائنوں   اور  اہم  ہوائی اڈہ  آپریٹروں کو   2025 تک انٹر نیشنل  ائیر  ٹرانسپورٹ  ایسوسی ایشن   ( آئی اے ٹی اے )25 پہل میں  حصہ لینے کے لئے  ایک گائیڈ لائن جاری کی ہے، جو ایک  صنعت پر مبنی  متنوع   اور  شمولیاتی  پروجیکٹ ہے،جس کا مقصد  موجودہ وقت میں  رپورٹ کئے گئے  میٹرکس  کے مقابلے  اعلیٰ عہدوں  پر خواتین کی تعداد  25 فیصد تک بڑھی ہے  یا  2025 تک کم از کم  25 فیصد نمائندگی کو یقینی بنائیں ۔ائیر پورٹ اتھارٹی آف انڈیا (اے اے آئی ) نے ادارے کے کام کاج کے لئے بنیادی حساس ڈومین میں  خواتین شراکت داروں کو تعینات کیا۔ جیسے  ہوائی آمدورفت کنٹرول ،  آگ بجھانے کی خدمات ،  ہوائی اڈہ آپریشن وغیرہ۔ اے اے آئی کے ذریعہ منعقد راست  بھرتی عمل میں  خواتین امیدواروں  کو فیس میں  مزید چھوٹ دی گئی ہے۔

پرائمری اور ہائر سیکنڈری تعلیم میں لڑکیوں کے مجموعی اندراج  کاتناسب تقریباََ لڑکو ں کے برابر ہے۔ سائنس ، ٹکنالوجی  ،انجنئرنگ ،ریاضی ( ایس ٹی ای ایم ) میں  خواتین / لڑکیوں کی موجودگی 43 فیصدہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ میں سے ایک ہے۔سائنس ، ٹکنالوجی ، انجنئرنگ اور ریاضی میں  خواتین کی حصہ داری کو بڑھانے کے لئے متعدد پہل کی گئی ہیں۔وگیان جیوتی  کو نویں سے بارہویں درجے تک  سائنس اور ٹکنالوجی کے مختلف زمروں میں لڑکیوں کے   کم تناسب کو  متوازن کر نے کے لئے  2020 میں لانچ  کیا گیا تھا۔ 18-2017 میں  شروع ہوئی  اوورسیز فیلوشپ اسکیم  ،ہندوستانی خاتون سائنسدانوں   اور ٹکنالوجی  کی معلومات  رکھنے والی خواتین کو   ایس ٹی ای ایم   میں  بین الاقوامی  تعاون  پر مبنی تحقیق کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ کئی خاتون سائنسدانوں  نے  ہندوستان کے پہلے مارس   آربیٹر مشن   ( ایم او ایم )  یا منگلیان میں   اہم رول ادا کیا ہے، جس میں خلائی ایپلی کیشن مرکز میں  سائنسی سازوسامان کی تعمیر   اور  تجربہ بھی شامل ہے۔

اس کے علاوہ  حکومت ہند  نے مختلف  صنعتوں میں  خواتین کی حصہ داری کو یقینی بنانے کے لئے مختلف  منصوبہ بند اور  قانونی مداخلتیں   کی ہیں اور  موثر التزامات  وضع کئے ۔ کوشل بھارت مشن  کے تحت  خاتون  مزدوروں کی  روزگار صلاحیت کو بڑھانے کے لئے حکومت  خاتون صنعتی تربیتی اداروں ،  قومی  تجارتی تربیتی اداروں   اور علاقائی تجارتی  تربیتی اداروں کے نیٹ ورک کے توسط سے  انہیں  تربیت فراہم کررہی ہے۔

خواتین کے روزگار کی حوصلہ افزائی کے لئے  حال ہی میں  وضع کئے گئے محنت سے متعلق  ضابطوں  میں   کئی اہم  التزامات   شامل کئے گئے ہیں۔ خاتون مزدوروں کے لئے  موافق  کام کا ماحول بنانے کے لئے  تنخواہ  ضابطہ  20198 ،صنعت سے متعلق ضابطہ  2020 ،  تجارتی تحفظ ، صحت  اور کام کاج خواتین  ایکٹ  2020 سماجی تحفظ ایکٹ  2020 وضع کئے گئے ہیں۔

قومی زرعی بازار  یا  ای- نیم  زرعی اشیا کے لئے ایک آن لائن  تجارتی پلیٹ فارم ہے۔ ‘‘کسان کال سینٹر ’’ اسکیم  کسانوں کے  سوالوں کا ان کی اپنی زبان میں ٹیلی فون کال پر جواب دیتی ہے،کسان سویدھا ،  زرعی بازار ، قومی فصل بیمہ پورٹل  ، امنگ  (نئے عہد کی حکمرانی کے لئے یونیفائڈ موبائل ایپ ’’ جیسے موبائل ایپلی کیشن لائے گئے ہیں۔ یہ ڈجیٹل اختراعات  خواتین کو بازراروں تک رسائی میں  آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے یا نقصانات کا ازالہ کرنے میں مدد کررہے ہیں۔

حکومت  ہند  ‘‘ مشن شکتی ’’ لاگو کررہی ہے،جس کے دو جزو ہیں۔ سمبل اور سمر تھ-‘‘ سمبل کے تحت  بیٹی بچاؤ  بیٹی پڑھاؤ،  ون اسٹاپ سینٹر ، خاتون  ہیلپ لائن اور  ناری عدالت جیسے جزو  برسرکار ہیں۔ذیلی اسکیم ‘‘سمرتھ’’ کے جزو  پردھان منتری ماتر وندنا یوجنا ، شکتی سدن   خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے مراکز  ،  سکھی نواس  یعنی  کام کاجی خواتین کا ہاسٹل  ، پالنا ، آنگن واڑی  وغیرہ ہیں۔

پردھان کسان سمان ندھی  ،  پرددھان منتری کسان  مان دھن  یوجنا  ،  وزیراعظم زرعی  آبپاشی اسکیم ، روایتی  زرعی ترقیاتی اسکیم ،  پردھان منتری فصل بیمہ یوجناوغیرہ جیسی  کسانوں کی بہبود والی اسکیمیں  خاتون کسانوں کے ایک موافق  ماحول تیار کررہی ہیں۔ ان پہلوں کے توسط سے حکومت   زرعی توسیعی خدمات   سمیت  پیداواری وسائل تک  کسان خواتین کی رسائی میں  بہتری لارہی ہے۔ جس سے دیہی خواتین کی زندگیوں میں مجموعی  طور پر بہتری  آرہی ہے۔

قومی کوآپریٹو ترقیاتی کارپوریشن خاتون کوآپریٹو سوسائٹیوں کی ترقی میں  اہم رول اد ا کررہا ہے کیونکہ بڑی تعداد میں خواتین فوڈ پروسیسنگ  ، شجر کاری  ،تلہن  پروسیسنگ ،  ماہی پروری  ، ڈیری  اور مویشی پروری ،  کتائی ملوں  ، ہینڈ لوم اور پاور لوم بنائی  ،  مربوط  کوآپریٹو ترقیاتی پروجیکٹوں وغیرہ سے متعلق  سرگرمیوں  پر کام کرنے والی  کوآپریٹو سوسائٹیوں سے جڑی ہوئی ہیں۔

حکومت کی اہم اسکیم  دین دیال  انتودیہ یوجنا – قومی  دیہی روزی روٹی  مشن  ( ڈی اے والی –این آر ایل ایم ) کے تحت  تقریباََ 90  لاکھ   خاتون کے اپنی مدد آپ کرنے والے گروپ ( ایس ایچ جی ) جن میں تقریباََ 10 کروڑ خواتین ممبر ہیں۔خواتین کو اقتصادی  طورپر   بااختیار بنانے کے تعلق سے   دیہی منظرنامے کو بدل رہے ہیں۔

پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت منظور شدہ تقریباََ  40  ملین گھروں میں سے زیادہ تر خواتین کے نام پر ہیں۔ ان سب سے  مالی فیصلہ لینے میں خواتین کی حصہ داری بڑھی ہے۔‘ ووکل فار لوکل’ کا خواتین کو بااختیار بنانے سے بہت گہرا تعلق ہے کیونکہ زیادہ تر مقامی مصنوعات  کی طاقت  خواتین کے ہاتھ میں ہے۔

 حکومت نے مسلح افواج میں خواتین کی نمائندگی بڑھانے کے لئے موثر التزامات  کئے ہیں ۔ جیسے  لڑاکا پائلیٹوں  جیسی  لڑاکا کرداروں سمیت  خواتین کو مستقل کمیشن دینا،  قومی دفاع اکیڈمی ( این ڈی اے ) میں  خواتین کے داخلے کی اجازت دینا ، فوجی اسکولوں میں لڑکیوں کو داخلہ دینا وغیرہ۔  ہندوستانی ائر فورس میں خاتون افسران کو تمام شاخوں اور شعبوںمیں شامل کیا گیا ہے۔ ہندوستانی ائیر فورس نے پہلی بار اگنی پتھ یوجنا کے لئے تحت خواتین کو  اگنی ویر وایو کی شکل میں  دیگر رینکوں میں شامل کیا ہے۔ موجود ہ وقت میں  154 خاتون امیدوار تربیت لے رہی ہیں۔

حکومت نے متعدد خواتین پر مرکوز  پہلیں   بھی کی ہیں، جو  سرکاری  سائنسز میں  مہیلاؤں کی زیادہ حصہ داری کی حوصلہ افزائی کرسکتی ہیں۔ ان میں دیگر باتوں کے علاوہ اطفال دیکھ بھال اور چھٹی (سی سی ایل ) کافائدہ لینا ،  ہیڈ کوارٹر چھوڑنا اور سی سی ایل کے دوران غیر ملکی سفر پر جانا ، بچے کی دیکھ بھال کے لئے معذور   خاتون ملازمہ کو فی ماہ  تین ہزار روپے کی شرح سے خصوصی بھتہ ، آل انڈیا سروسز کی خاتون افسران کے لئے خصوصی رعایت شامل ہے۔شمال مشرقی کیڈر کے لئے  مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا شکار   ہونے والی  خاتون سرکاری ملازماؤں کو 90  دنوں کی چھٹی  ،  خواتین کے لئے مقابلہ جاتی امتحانات میں  فیس میں چھوٹ ، شوہر اوربیوی کو ایک ہی اسٹیشن  پر تعیناتی وغیرہ کی سہولت دی گئی ہے۔ ریاستوں / مرکز کی زیر انتظام ریاستوں کو صلاح دی گئی ہے کہ  خاتون بس ڈرائیوروں ، کنڈکٹروں اور  سیاحت  گائیڈوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ اس کے علاوہ حکومت  ریاستوں /  مرکز کے زیر انتظام ریاستوں میں پولیس  عملے کی کل تعداد  میں  خواتین کی نمائندگی  33فیصدتک بڑھانے کے لئے تمام ریاستی حکومتوں اور مرکزی کے زیر انتظام ریاستوں کو صلاح بھی جاری کی ہے۔

عوامی زندگی میں خواتین کی موجودگی میں اضافہ ہوا ہے ۔ آزادی کے بعد ملک میں  پہلی  بار  2019  کے لوک سبھا الیکشن میں  81  خواتین لوک سبھا ممبر کے طور پر منتخب  ہوئیں۔ پنچائتی راج اداروں میں  1.45  ملین  یا 46 فیصد سے زیادہ  خواتین  منتخب  نمائندہ ہیں۔ (33فیصد کے لازمی نمائندگی کے مقابلے میں )ہندوستان کے آئین میں  73  ویں اور 74 ویں ترمیم  (1992) میں خواتین کے لئے  پنچایتوں اور بلدیاتی اداروں میں  ایک تہائی سیٹوں کا  ریزرویشن دیا ہے۔

خواتین کو  بااختیار بنانا اور ملک کے اعلیٰ ترین سیاسی دفاتر میں  خواتین کی نمائندگی کے لئے سب سے بڑی چھلانگ حکومت کے لئے  18 ستمبر  2023 کو لوک سبھا اور قومی راجدھانی خطہ دہلی کی اسمبلی سمیت  ریاستی  اسمبلیوں میں   خواتین کے لئے  ایک تہائی سیٹیں  مخصوص کرنے کے تعلق سے  ناری شکتی وندن   ادھینیم  2023  (آئین میں  106ویں ترمیم ) ایکٹ  2023 کو نوٹی فائی کیا گیا ہے۔

یہ معلومات  خواتین واطفال ترقی کی مرکزی وزیر محترمہ اسمرتی زوبین ایرانی نے آج لوک سبھا میں  ایک تحریری جواب میں  دی  ہیں۔

********

  ش ح ۔ ج ق ۔رم

U-3411  


(Release ID: 1994469) Visitor Counter : 124


Read this release in: English , Hindi